بسم الله الرحمن الرحيم
ایرانی حکومت ایک نفرت انگیز فرقہ وارانہ حکومت ہے۔
یہ حکومت امت کے جسم میں ایک زہر آلود خنجر ہے
(ترجمہ)
تحریر : باھر صالح
ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای بجائے اس کے کہ وہ اس سب کی معافی مانگتے جو کچھ گزشتہ تیرہ سالوں میں ان کی نفرت انگیز فرقہ وارانہ حکومت کے ذریعے شامی عوام پر سنگین مظالم ڈھائے گئے تھے، اور شہداء کے خاندانوں سے ان کے پاکیزہ لہو کے بہائے جانے پر معذرت کرتے، اور اپنی افواج کے طرف سے برپا کئے جانے والے ظلم، گرفتاریوں، تشدد، جبر، بربریت اور حملوں پر معافی طلب کرتے، اس کے بجائے انہوں نے ایک مختلف اور ڈھٹائی بھرا راستہ اختیار کیا۔ بروز اتوار، 22 دسمبر، 2024ء کو تہران میں ایک مذہبی تقریب کے دوران، انہوں نے کہا، "شامی نوجوانوں کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا کیونکہ ان کی زندگیاں شام میں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں۔ لہٰذا انہیں اس انتشار کی منصوبہ بندی کرنے والوں اور اس پر عمل درآمد کرنے والوں کے خلاف مضبوطی اور ثابت قدمی سے کھڑا ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا، "اقوام پر قابو پانے کے لئے امریکہ کا منصوبہ دو حکمت عملیوں پر مبنی ہوتا ہے: یا تو جبر مسلط کرنا یا پھر انتشار اور افراتفری کو ہوا دینا۔ شام میں امریکہ نے افراتفری پیدا کی اور اب اسے یقین ہے کہ وہ کامیاب ہو چکا ہے"۔
خامنہ ای کی حکومت نے شام کے عوام کے خلاف بربریت بھرے جو جرائم کیے ہیں وہ اتنے سنگین ہیں کہ پہاڑ بھی ان کے بوجھ تلے دب جائیں گے اور آسمان خوف سے پھٹ جائے گا۔ ان ظلم و ستم میں بے دریغ خون بہانا، عزت و حرمت کی پامالیاں، لوگوں کی زندگیوں کو اذیت ناک عذاب میں بدل دینا، عورتوں، بچوں اور کمزوروں کو بے گھر کر کے دنیا کے کونے کونے میں بے یار و مددگار چھوڑ دینا شامل ہے۔ یہ مظلوم پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں، مگر نہ انہیں امن و سکون کا کوئی ٹھکانہ میسر آتا ہے، اور نہ ہی زندگی بسر کرنے کے لیے کوئی جگہ مہیا ہوتی ہے۔ ظلم و ستم کی یہ فہرست نہ ختم ہونے والی ہے۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں خبردار فرمایا:
«رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُولُ، مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ! مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ! وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ، مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْراً»
"میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے: "کتنے پاکیزہ ہو تم اور کتنی خوشبو دار ہے تمہاری مہک! کتنے عظیم ہو تم اور کتنی عظیم ہے تمہاری حرمت! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، مومن کی حرمت اللہ کے نزدیک تمہاری حرمت سے زیادہ ہے—مؤمن کا مال، اس کا خون، اور غرض یہ کہ مؤمن کے بارے میں ہمیشہ خیر ہی سوچا جائے"۔
یہ پُراثر حدیث اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ ایک مؤمن کی حرمت، مال یا خون کی پامالی کتنی بڑی جسارت ہے، جسے خود خانہ کعبہ کی حرمت سے بھی بڑھ کر قرار دیا گیا ہے۔ ایسے سنگین جرائم بے گناہوں پر کیے گئے ظلم و ستم اور ناانصافی کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اگر ایرانی حکومت کے گناہ صرف نفرت انگیز فرقہ واریت کے فروغ تک بھی محدود ہوتے، تب بھی یہ واحد جرم ہی کافی تھا کہ جس کا بوجھ وہ اٹھاتے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے بھی قیامت تک اس کے نتائج بھگتتے۔ لیکن خمینی کے انقلاب کے پہلے ہی دن سے، جسے امریکہ اقتدار میں لایا تھا، ایرانی حکومت امریکی مفادات کی تکمیل اور مسلم سرزمین پر اس کے کنٹرول کو تقویت دینے میں مصروف رہی۔ یہ حکومت مذہب کے لبادے میں اور مزاحمت کے جھوٹے دعووں کی آڑ میں مسلم امت کو تقسیم کرنے اور اس کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے منصوبے میں مکمل طور پر ملوث ہو چکی ہے۔ جب بھی امریکہ کو اپنی استعماری گرفت مضبوط کرنے کے لیے تعاون کی ضرورت پڑی، ایرانی حکومت نے فوراً اس کی معاونت کی، جیسا کہ افغانستان، عراق، شام، یمن، لبنان اور دیگر علاقوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت کو ایران کے اپنے حکام نے کھلے عام تسلیم کیا ہے۔ ایران کے سابق نائب صدر برائے قانونی و پارلیمانی امور محمد علی ابتحی نے ابوظہبی میں ایک کانفرنس کے اختتام پر کہا کہ "ہمارے ملک نے افغانستان اور عراق کے خلاف جنگوں میں امریکیوں کو بہت مدد فراہم کی ہے"۔ امارات سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے زیر اہتمام "خلیج اور مستقبل کے چیلنجز" کانفرنس کے اختتام پر دیے گئے ایک لیکچر میں، ابطحی نے نشاندہی کی، "اگر یہ ایرانی تعاون نہ ہوتا تو کابل اور بغداد اتنی آسانی سے نہ گرتے۔ لیکن افغانستان کے بعد ہمیں یہ صلہ ملا کہ ہمیں شر کا محور قرار دے دیا گیا اور عراق کے بعد ہمیں امریکی میڈیا کے شدید حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ اب بھی، خامنہ ای اس طرح بات کرنے کا دکھاوا کرتے ہیں جیسے وہ امریکہ اور اس کے منصوبوں کے دشمن ہیں"!
یہاں تک کہ ایرانی حکومت فلسطین اور القدس فورس کی آزادی کے نعروں کے ساتھ ساتھ جن نام نہاد "مزاحمتی کرداروں" کا دعویٰ کرتی ہے، وہ دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ ایرانی حکومت نے صیہونی جارحیت کا سامنا کرنے کے بجائے اپنی لبنانی جماعت کو تنہا چھوڑ دیا تھا، جس کے نتیجے میں اس کے بیشتر رہنما ہلاک ہو گئے اور ذلت آمیز انخلاء کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ ایران نے غزہ کو سر سے پاؤں تک ذبح ہونے کے لیے چھوڑ دیا تھا، مزاحمتی گروہوں کو بے سہارا کر دیا اور انہیں صہیونیوں کے لئے شکار بننے دیا۔ یہ غداری اس حد تک بڑھ گئی کہ حماس کے سیاسی رہنما، اسماعیل ہانیہ، کو بھی اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ ایرانی حکومت کے اپنے دارالحکومت میں موجود تھے۔ اس طرح کی دوغلی پالیسی ایرانی حکومت کی مزاحمت کے دعووں کے کھوکھلاپن ظاہر کرتی ہے اور ان کے اصل اتحادوں کو بے نقاب کرتی ہے۔
جب امریکہ کو شام میں ایران کی خدمات کی ضرورت نہ رہی، تو اس نے اپنے منصوبوں کو دوبارہ ترتیب دینے کا فیصلہ کیا، تاکہ خطے سے ایران کو نکالے، صیہونی وجود کے مفاد کو پورا کرے اور لبنان میں ایرانی حزب کی طاقت کو ختم کر دے۔ امریکہ نے ایران کو ذلت آمیز طریقے سے شام سے نکلنے پر مجبور کیا، اور لوگوں نے ایران پر لعنت کی اور اس کی باقیات کا مسلسل تعاقب کیا۔ اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، ایران میں مصلحت پسند کونسل کے رکن محسن رضائی نے نہایت بے شرمی سے کہا کہ "شام کے نوجوان اور عوام، قبضے، غیر ملکی جارحیت اور اندرونی غاصبانہ قبضے کے خلاف خاموش نہیں رہیں گے۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں مزاحمت کو ایک نئی شکل میں تشکیل دیا جائے گا تاکہ خطے میں دھوکے باز صیہونی امریکی منصوبے اور اس سے گمراہ ہونے والوں کا مقابلہ کر سکیں"۔ شام کے عوام کے خلاف ان کی دھمکیاں اور ان کے وہی پرانے، سطحی بیانات، دراصل ایرانی حکومت کا اپنی ساکھ بچانے کی ایک ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ایرانی حکومت کے جرائم اور مظالم کے منظر عام پر آنے کے بعد ایرانی حکومت کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے مزید بے نقاب ہو چکا ہے، وہ جرائم کہ جنگلی درندے بھی جن کی مذمت کریں۔
یہ سب جرائم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صیہونیوں کے ساتھ ایران کی ظاہری مبینہ دشمنی امت مسلمہ سے وفاداری یا اس کے عقیدے کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بجائے، یہ ایک ایسا مقابلہ ہے جو علاقوں پر اثر و رسوخ اور کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جاری ہے۔ اگر ایران واقعی فلسطین کو آزاد کرانا چاہتا تو وہ ایک ہی دن میں ایسا کر سکتا ہے۔ مزاحمت اور مخالفت اختیار کرنے کا اس کا دعویٰ محض وفاداری حاصل کرنے اور امت مسلمہ کو دھوکہ میں رکھنے کے لئے ایک دکھاوا ہے۔ حقیقت میں، ایران جہاد، حریت اور حمیت کے حقیقی تصورات سے کوسوں دور ہے۔ ایران کے وسائل اور صلاحیتیں امریکی منصوبوں کی خدمت کے لیے سونے کی طشتری میں پیش کئے گئے ہیں، جبکہ امتِ مسلمہ اور اس کی سرزمینیں ان وسائل سے محروم ہیں۔
ایرانی حکومت ایک فرقہ وارانہ نظام ہے جسے امریکہ نے امت مسلمہ کے جسم میں خنجر کی طرح اتارا ہے، تاکہ امت کی وحدت کو روکا جا سکے اور اسے استعماری زنجیروں سے آزادی حاصل کرنے سے باز رکھا جا سکے۔ امت کو اس وقت تک نجات نہیں ملے گی جب تک اس حکومت کو دوسری مسلم سرزمینوں کی حکومتوں کے ساتھ اکھاڑ نہ پھینکا جائے۔ یہی اقدام ایک خالص اسلامی نظام حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرے گا جو خلافتِ راشدہ علیٰ منہاجِ نبوت کے نقش قدم پر قائم ہوگی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ﴾
"تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہوکر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو" (سورۃ الانفال: 8)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے رکن
Latest from
- آخر کار غزہ میں یہودیوں کی ہولناک قتل و غارت اور بھیانک تباہی کے بعد...
- پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جھڑپوں کے جغرافیائی سیاسی اثرات
- شام میں سیکولرازم کی دعوت
- سیاسی وفود کی شام میں آمد: اسباب اور محرکات
- غزہ میں نسل کشی جاری ہے جبکہ امریکہ اور دنیا اس نسل کشی کی حمایت کر رہی ہے۔