بسم الله الرحمن الرحيم
شام پر سے پابندیاں ہٹانے کا معاملہ:
شام میں حکومت کی ہیئت پر اپنا نظریہ مسلط کرنے کے لیے مغرب کا ایک سستا بلیک میل کارڈ ہے
(ترجمہ)
تحریر: ناصر شیخ عبد الحی
جرمن وزیرِ خارجہ انالینا بیربوک نے 27 جنوری 2025 کو کہا کہ پابندیوں کا معطل ہونا شامی عوام اور یورپیوں دونوں کے لیے اچھی خبر ہے، کیونکہ تعمیر نو اور امن کا قیام ضروری ہے، لیکن یہ "بلینک چیک" نہیں ہے۔ انہوں نے شام میں دیگر پیش رفتوں پر گہری نظر رکھنے کا مطالبہ کیا۔ بیربوک نے کہا، "یورپی یونین نئی انتہا پسند، دہشت گرد یا اسلامی تنظیموں کو مالی امداد فراہم نہیں کرے گا، اور اسد کے سقوط کے 50 دن بعد بھی شام کا مستقبل واضح نہیں ہے۔"
فِن لینڈ کی وزیرِ خارجہ ایلنا والٹونین نے اس بات پر زور دیا کہ "شام کے نئے حکمرانوں کو شام کے تمام مذہبی گروہوں بشمول خواتین کو ایک نئی ریاست کی تعمیر میں شامل کرنا چاہیے۔ یہ پابندیوں میں نرمی کے لیے ایک بنیادی شرط ہو گی۔"
یورپی سفارت کاروں کے مطابق، مقصد پابندیوں کو بتدریج معطل کر کے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنا ہے، اور ایک قسم کی "ایمرجنسی بریک" بھی موجود رکھنی ہے تاکہ اگر شام میں نئے حکمرانوں کے تحت انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہیں ہوتی، تو پابندیاں مختصر وقت میں دوبارہ عائد کی جا سکیں۔
شام پر پابندیاں اٹھائے جانے میں توانائی، نقل و حمل اور بینکنگ کے شعبے شامل ہیں، اور وہ اقدامات جو توانائی کی فراہمی اور لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے پیر 27 جنوری 2025 کو وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد کہا کہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی کے لیے ایک روڈ میپ پر اتفاق کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "ہمارا مقصد پابندیاں ہٹانے کے لیے تیزی سے پیش قدمی کرنا ہے، لیکن اگر غلط اقدامات کیے گئے تو ہم اس سے دستبردار بھی ہو سکتے ہیں۔" انہوں نے ملک کی نئی قیادت کی پالیسی پر یورپی یونین کی نگرانی کی طرف اشارہ کیا۔ کالاس نے کہا کہ یورپی یونین دمشق میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کے لیے تیار ہے تاکہ "ہم اپنی آنکھوں اور کانوں سے صورتحال کا جائزہ لے سکیں۔" کالاس نے کہا: "اگر نئی حکومت کے اقدامات صحیح سمت میں جاتے ہیں، تو ہم بھی اپنی جانب سے اضافی اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں۔" وعدہ کردہ اقدامات میں دمشق میں یورپی سفارت خانے کو دوبارہ کھولنا شامل ہے۔ کالاس نے اس بات کی تصدیق کی کہ یونین ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق کوئی پابندی نہیں اٹھائے گی، اور شام کی نئی انتظامیہ کو "غلط اقدامات" سے خبردار کیا جس کی وجہ سے یورپی یونین اپنے اقدامات سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔
فرانس کے وزیرِ خارجہ بارو نے اس بات پر زور دیا کہ "یورپیوں اور فرانسیسیوں کا تحفظ بھی شام میں ہونے والے واقعات سے جڑا ہوا ہے۔" انہوں نے تصدیق کی کہ پابندیوں میں نرمی میں "توانائی، نقل و حمل اور مالیاتی ادارے" شامل ہوں گے۔ انہوں نے خاص طور پر "دہشت گردی کی واپسی" کی کسی بھی شکل سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ لیکن بعض رکن ممالک نے پابندیاں ہٹانے پر تحفظات کا اظہار کیا اور شامی انتظامیہ سے سیاسی انتقال کے عمل کے بارے میں ٹھوس ضمانتیں طلب کیں۔
عبوری مرحلے میں شام کے وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی نے شام پر عائد یورپی پابندیوں کے جزوی خاتمے کا خیر مقدم کیا اور کہا: "ہم یورپی یونین کی جانب سے شام پر عائد پابندیوں کو معطل کرنے کے مثبت اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں۔"
اس سے قبل، امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ انٹونی بلینکن نے شامی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے چار اہم اصولوں کی پاسداری کو شرط قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا: "اس منتقلی کے نتیجے میں ایک قابل اعتماد، جامع اور غیر فرقہ وارانہ حکومت کی تشکیل ہونی چاہیے جو شفافیت اور احتساب کے بین الاقوامی معیار پر پورا اترے، اور جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کے اصولوں کے مطابق ہو۔" اس کے علاوہ "اقلیتوں کے حقوق کا مکمل احترام کرنے، شام کو دہشت گردی کے اڈے کے طور پر استعمال کرنے سے یا اپنے پڑوسیوں کو دھمکانے سے روکنے، اور کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کے ذخائر کو محفوظ رکھنے اور انہیں محفوظ طریقے سے تباہ کرنے کی ضمانت شامل ہے۔"
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کی نائب 'دوروتھی کمیل شیا' نے بھی کہا: "ہم شام میں ایک ایسے عبوری عمل کی حمایت کرتے ہیں جو تمام شامیوں کے فائدے کے لیے ایک سیکولر غیر فرقہ وارانہ حکومت کا باعث بنے۔"
مذکورہ بالا جائزہ لینے کے بعد، ہم واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک، شام میں موجودہ حکومت کو امریکی- یورپی حکم اور شام میں نظامِ حکومت کی شکل کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کے تابع کرنے کے لیے "پابندیاں ہٹانے" کے معاملے کو ایک سستے بلیک میل کارڈ کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے، تاکہ شام مکمل طور پر سیکولر ہو جس میں اسلام اور اس کے احکام کی کوئی جگہ نہ ہو، اور یہ نیا نظام مغربی سرمایہ دارانہ نقطہ نظر اور اس کے ضوابط پر مبنی ہو۔ اس سب کے ساتھ ساتھ وہ ملک کی موجودہ معاشی مشکلات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں جو کہ پچھلی ظالم حکومت کی بدولت پیدا ہوئی ہیں، جس نے مسلمانوں کی دولت اور وسائل کو ضائع کیا، اجرتی فوجیوں کو جنگ کے لیے استعمال کیا اور اسلحہ خریدنے کے لیے پیسہ خرچ کیا تاکہ ان کی سروں پر بمباری کی جا سکے۔
نفرت کرنے والے مغرب کے سیاستدانوں کی جانب سے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" جس سے ان کی مراد صرف اسلام اور ریاست میں اسلام کی حکومت کے لیے کوشش کرنے والے ہیں، کے فقرے کو دہرانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کس قدر بے چین ہے کہ اسلام زندگی کے ایک مکمل نظام کے طور پر اقتدار میں نہ آئے۔
ان کے بے شرمانہ بیانات اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ اگر ان کی شرائط اور نئے نظامِ حکومت کی شکل کے بارے میں ضوابط کی پاسداری نہیں کی گئی تو وہ پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کا یہ اصرار کہ وہ "انتہا پسند، دہشت گرد یا نئی اسلامی تنظیموں" کو مالی امداد فراہم نہیں کریں گے، اس لیے ہے کہ وہ شام میں سیاسی خلا کو ایسی چیز سے پُر کے لیے بے چین ہیں جو مغرب کے نقطہ نظر، مفادات اور استعمار کی امنگوں کے لیے خطرہ نہ ہو۔
امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے اپنائی جانے والی سیاسی بلیک میلنگ، دباؤ اور حکم نامے کی پالیسی کے سامنے یقین دہانی اور خوشامد کے پیغامات کارگر ثابت نہیں ہوں گے اور نہ ہی اعتدال کا لبادہ اوڑھنا مفید ہے۔ بلکہ شریعت اور عقل کے مطابق مطلوبہ موقف، ایک نظریاتی، آزاد اور مضبوط موقف ہے جس کا ایمان، عقیدہ اور آئیڈیالوجی تقاضا کرتے ہیں۔ اور ہمارے رب نے ہمیں بتا دیا ہے کہ وہ اس وقت تک ہم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ ہم ان کے دین کی پیروی نہ کر لیں۔ اس لیے مشکلات اور قربانیوں کے باوجود فیصلہ سازی میں خود مختاری کے لیے کام کرنا ضروری یے۔ ہماری سوسائٹی اس وقت تک محفوظ نہیں بن سکتی جب تک کہ ملک سے اور ملک کے سیاسی منظرنامے سے امریکی اور مغربی نوآبادیاتی اثر و رسوخ کا خاتمہ نہ کر دیا جائے اور اس کے اثر و رسوخ کے حامل آلات مثلاً سفارت خانوں، اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کو ختم نہ کر دیا جائے۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مغرب اپنی دشمنی اور عیاری کے تحت اسلام اور اس کے پیروکاروں کے خلاف پابندیوں اور محاصرے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم اصل ضرورت متبادل حل تلاش کرنے اور ان چیلنجز اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کرنے کی ہے۔ ہمیں داخلی سلامتی، غذائی تحفظ، توانائی کے وسائل اور دستیاب قدرتی وسائل کا بہترین استعمال کر کے عوام کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا چاہیے تاکہ ممکنہ حد تک خودکفالت حاصل کی جا سکے اور زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکے، یہ سب آزادی اور خودمختاری کی بحالی کی طرف پیش قدمی کا ایک قدم ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زراعت، صنعت اور معیشت کی پالیسی کو موجودہ حالات کے مطابق ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ، تیل اور فاسفیٹ جیسے قدرتی وسائل پر قابو حاصل کرنے اور صنعتکاروں اور پیداوار کی استطاعت رکھنے والوں کے ساتھ تعاون کر کے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سستے مال کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
آخر میں، صرف اللہ پر توکل کرنا، شرعی مادی اسباب اختیار کرنا، اور ہر اس چیز جیسے کہ موقف، ذرائع، طریقے اور اوزار سے گریز کرنا جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے، انشاء اللہ ہمیں تنگی سے کشادگی کی طرف لے جائے گا۔ جس ذات نے ایک جابر ظالم کے خلاف ہماری مدد کی جبکہ اسلام کے تمام دشمن بھی اس کے ساتھ کھڑے تھے، تو وہ ذات اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ دوسری خلافتِ راشدہ کے زیرِ سایہ اسلام کے نفاذ کے ذریعے ہماری قربانیوں کو تاج پہنا کر ہمیں نوازے۔ اور ایسی عظیم بھلائی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔
ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن