السبت، 01 رمضان 1446| 2025/03/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول- حلقه 1

بسم الله الرحمن الرحيم

 

نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول

(حلقه 1 )

(عربی سے ترجمہ )

 

کتاب "نظامِ اسلام" سے

 

 

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت  ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر،  اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔

 

 

اے مسلمانو  !:

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

 

آگے بڑھتے ہیں: ہم آپ کے ساتھ کئی نشستوں میں رہیں گے، جتنا اللہ ہمیں توفیق دے گا، اس کتاب "نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول " کے موضوع   میں  ہم  کتاب "نظامِ اسلام" پر غور کریں گے جس کے مصنف ہیں، حزب التحریر کے محترم بانی، معروف عالم دین اور متاثر کن سیاسی مفکر، شیخ تقی الدین النبہانیؒ ، جن کا علم افق پر چھاگیاہے اور جن کا اثر دنیا کے ہر کونے تک پہنچاہے ۔ اللہ ان پر رحم کرے اور ہمیں ان کے ساتھ اپنی رحمت کی جگہ میں جمع کرے، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں!

 

کتاب "نظامِ اسلام" شیخ تقی الدین النبہانی ؒ               کی  اُن قیمتی اور اہم کتابوں میں سے ایک ہے جو انہوں نے اس مقصد کے ساتھ لکھا کہ مسلمانوں کو اس  انتہائی زوال سے نکالا جائے جو کافراستعماری طاقتوں نے ان پر اس وقت مسلط کیا جب انہوں نے ان کی ریاست کو تباہ کر دیا، ان کی وحدت کو تقسیم کر دیا، ان کے اتحاد کو ختم کر دیا اور ان کی طاقت کو منتشر کر دیا۔ استعماری طاقتوں نے مسلمانوں پر فکری حملہ کرکے  ان کے ذہنوں میں بگاڑ پیدا کیا،   ان کے ایمان میں شک پیدا کیا، ان میں اللہ کی کتاب (سبحانہ و تعالیٰ) اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت کو سمجھنے کی صلاحیت کو کمزور کیا، اور انہیں  ان کے دین کے احکام کو اس طریقے سے لاگو کرنے سے روکا جس سے ان کا رب   راضی ہوتا۔

 

اس پر اکتفا نہ کرتے ہوئے، انہوں نے مسلمانوں کے وسائل لوٹے، انہیں ان کی زمینوں کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیا، اور ایسے حکمران ان پر مسلط کردیئے جو استعماری طاقتوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں۔ ان حکمرانوں نے مسلمانوں پر شدید ظلم کیا، انہیں ذلیل کیا، ان کا خون بہایا، انہیں ان کے دشمنوں کے تابع رکھا، اور ان کے احیاء کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ یہ حکمران مسلمانوں کی ریاست کی بحالی میں بھی ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر کھڑے ہوگئے۔

 

 

محترم عالم دین، شیخ تقی الدین النبہانی رحمہ اللہ نے اپنی وسیع علمیت، عمیق فکر اور روشن بصیرت کے ذریعے اس تمام صورت حال کو مکمل طور پر سمجھا۔ انہوں نے امت کی فوری اور بنیادی تبدیلی کی ضرورت کو بھی پہچانا۔ اسی لیے انہوں نے حزب التحریر کو قائم کیا اور اس سلسلے میں قیمتی کتابیں تصنیف کیں جو دعوت کا فریضہ اٹھانے والوں کی ضرورت ہیں، وہ  لوگ جو اس بگڑی ہوئی حالت میں جامع اور انقلابی تبدیلی کی طرف  دعوت دے رہے  ہیں۔ وہ مسلمانوں کے احیاء  کے لیے ریاستِ خلافت کے قیام کی کوشش کررہے  ہیں،  وہ ریاست جو اسلام کو اندرونی طور پر اپنی عوام پر نافذ کرے گی اور بیرونی طور پر  دعوت اور جہاد کے ذریعے انسانیت کے لیے ہدایت اور روشنی کا پیغام لے کر جائے گی۔

 

کتاب "نظامِ اسلام" وہ پہلی کتاب ہے جو حزب التحریر کے ایک دارس کو دی جاتی ہے، جس کا مقصد منظم تدریسی حلقات کے ذریعے  گہری فکراور سمجھ بوجھ  کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ دارس کے علم کی سطح چاہے جو بھی ہو، انہیں "ایمان کا راستہ" کے موضوع سے آغاز کرنا ضروری ہے، جو اسلامی عقیدہ پر پہلا درس ہے جسے شیخ تقی الدین النبہانی ؒ                  اپنی جماعت کے افراد کے ذہنوں اور دلوں میں راسخ کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ یہ افراد امتِ اسلامیہ کو زندہ کرنے اسے  کافر استعمار کے تسلط اور اس کے گمراہ کن خیالات و عقائد سے نجات دلانے  اور انہیں اسلامی عقیدہ کے خالص، صاف، اور پاکیزہ نظریات کی طرف لانے کی ذمہ داری اٹھا سکیں۔ یہ عقیدہ انہیں ویسے ہی پیش کیا جاتا ہے جیسے ہمارے نبیِ مکرم محمد ﷺ پر نازل کیا گیا تھا اور جیسا کہ ان کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے اسے سمجھا تھا۔ اس طرح حزب التحریر کے نوجوان دارس/دارسہ کو اسلام کے  اس عظیم ،            جامع اور اکمل دین  کا ایک مکمل فہم  اور وسیع خاکہ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ دین  اپنے شرعی  نصوص  پر مبنی توحید کے عقیدے  اوراس سے جڑے  شرعی احکامات کے ذریعے ، تمام سوالات کے قائل کرنے والے جوابات اور سارے مسائل کا عملی حل  پیش کرتا ہے،  جو ایک  شخص کو پیش آتے ہیں ،  چاہے وہ شخص دنیا کے کسی بھی کونے اور ماضی، حال، یا مستقبل کے  کسی بھی دور میں موجود ہو۔ کیونکہ یہ دین ہمارے نبیِ کریم ﷺ اس العلیم اور الخبیر  اللہ کی طرف سے لائے ہیں ، جو وقت، مقام، کائنات، زندگی، اور انسانیت کا خالق ہے۔

 

"نظامِ اسلام"   ان کتابوں  کے سلسلے میں سے ایک ہے    جن کا مطالعہ حزب التحریر کا ممبراُن    ہفتہ وار منظم حلقات میں کرتا ہے، جن میں فکری ادراک پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ فکری ادراک سے مراد اسلامی نظریات کو اتنے گہرے تصورات کے طور پر اپنانا ہے جو کسی شخص کے عملی رویے پر اثر انداز ہوں، نہ کہ محض علمی طور پرلطف اندوز ہونےکے لیے، یا علمی برتری ظاہر کرنے کے لیے۔ فکری ادراک کے ذریعے وصول کنندہ  میں ایک اسلامی ذہنیت (اسلامی عقلیہ) اور اسلامی نفسیات (اسلامی نفسیہ)پیدا ہوتی ہے، اور وہ ایک اسلامی شخصیت بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خیالات، معیار، اعتقادات، اور ایمان سب ذہنی اعتبار سےاسلامی ہوں گے۔

 

نفسیاتی   نقطہ نظر سے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کانفسیاتی  جھکاؤ، خواہشات، جذبات، اور احساسات  سب ہی اسلامی ہوں گے۔ وہ وہی چیز پسند کریں گے ، چاہیں گے ، اور اسی کی طرف مائل ہونگےجو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند ہو، اور وہی چیز ناپسند کریں گے ، بیزار ہونگے اور دور ہوجائینگے   ہر اس چیز سے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ناراض کرے۔ اس طرح وہ ایسے ہونگے  کہ گویا اسلام زمین پر چل رہا ہو۔

 

اس کتاب "نظامِ اسلام" میں بعض صفحات میں ان ذیلی نظاموں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جومجموعی طور پر مکمل اسلامی نظام تشکیل دیتے ہیں ، اور "اسلام کا بنیادی نظام" کے عمومی اور جامع عنوان کے تحت آتے ہیں۔ یہ ذیلی نظام ہیں: نظامِ حکومت، معاشی نظام، سماجی نظام، تعزیری نظام، تعلیمی پالیسی، خارجہ پالیسی، اور ریاست کی دیگر ضروریات۔

 

Picture1

 

شیخ تقی الدین النبہانی رحمہ اللہ نے تاکیدکی تھی کہ ایک شاب( حزبی) کو اسلامی افکار   کا   مطالعہ لازمی اس طرح کرنا چاہیے کہ اس کی سوچ پر اس کا گہرا  اور نمایاں اثرہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرف (نگران)  کسی ایک نکتہ سے دوسرے نکتہ کی طرف نہ بڑھے  جب تک  کہ پہلا مفہوم  واضح نہ ہوگیا ہو، اور مناسب تحقیق  کے ساتھ اسکی مکمل طور پر وضاحت ہو گئی ہو۔ اس سے یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ وہ فکردارس کے ذہن میں پختہ طور پر قائم ہو جائے اور وہ اسے دوسروں تک پہنچانے کے قابل ہو جائے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے،"انسان وہ چیز دوسرے کو نہیں دے سکتا جو اس کے پاس نہ ہو"۔

 

ہم نے شیخ تقی الدین رحمہ اللہ، اور اپنے معزز علماء سے زبانی طور پر جو کچھ سنا ہے، جنہوں نے دعوت کے آغاز سے اس میں حصہ لیا ہے، وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بانی رہنما سے سنا کہ "ایک شاب(حزبی) کو اسلامی ثقافت اس طرح حاصل کرنا چاہیے کہ اگر حزب التحریر کے تمام ساتھی ممبران فنا بھی ہو جائیں اور صرف وہ  اکیلا ہی زمین پر باقی رہے، تو وہ پارٹی کو دوبارہ تعمیر کرنے اور از سرِ نو ترتیب دینے کے قابل ہو"۔

 

انہوں نے اپنی کتاب "اسلامی شخصیت" میں فرمایا: "اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ایک شخص کو علمی تفہیم کے ساتھ معلومات حاصل کرنا چاہیئے ، چاہے وہ اسے پڑھے یا سنے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جملوں کے معنی کو اسی طرح سمجھے جیسا کہ ان کے لکھنے والے کا مقصد ہے، نہ کہ جیسے بولنے والے کا یا جیساکہ وہ خود چاہتا ہو۔ اسے ان معانی کی حقیقت اپنے ذہن میں بخوبی پہچاننا چاہیے تاکہ وہ اس کے لیے اچھی طرح سے متعین تصورات بن جائیں"۔

 

انہوں نے مزید فرمایا، "یہ ثقافت   گہری فکری بنیادوں سے جڑی ہوئی ہے اور اس کا مطالعہ کرنے کے لیے صبر اور برداشت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس ثقافت کو حاصل کرنے کا عمل ایک فکری عمل ہے اس  کو سمجھنے کے لیے کافی ذہنی مشقت درکارہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس کے تصورات کو سمجھنا اور اس کی حقیقت کو پہچاننا ضروری ہے، اور ساتھ ہی اس معلومات کے ساتھ اسے جوڑنا جو اس حقیقت کی وضاحت کرتی ہے۔ لہذا لازم ہے کہ  اسے علمی تفہیم کے ساتھ وصول کیا جائے "۔

 

قبل اس کے کہ ہم آپ کو خدا حافظ کہیں، عزیز سامعین، ہم آپ کو آج کے موضوع میں بیان کردہ اہم تصورات کی یاد دہانی کراتے ہیں:

 

- کتاب "نظامِ اسلام" شیخ تقی الدین النبہانی کی تحریر کردہ کتابوں میں سے ایک ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو کافر استعمار کی وجہ سے ہونے والےگہرے زوال سے باہر نکالنا اور ان کا ازسرنو احیاء ہے۔

 

کتاب "نظامِ اسلام" حزب التحریر میں شامل ہونے والے ایک دارس کو سب سے پہلے دی جاتی ہے، اور یہ مطالعاتی حلقوں میں ایک مرتکز علمی فہم کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے، چاہے طالب علم  کی  علمی سطح کچھ بھی ہو۔

 

علمی فہم کا مطلب اسلامی  افکار کو اس طرح سمجھنا ہے کہ وہ مضبوطی سے قائم تصورات بن جائیں، جو کسی شخص کے عملی رویے پر اثر انداز ہوں۔

 

"نظامِ اسلام" بنیادی طور پر ذیلی نظامات پر مشتمل ہے جیسے: نظامِ حکومت، معاشی نظام، سماجی نظام، تعزیری نظام، تعلیمی پالیسی، خارجہ پالیسی، اور دیگر پہلو جو ریاست کے لیے ضروری ہیں۔

 

اے مسلمانو!

 

ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ نہ ملیں، اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ عز و جل سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں  عنقریب خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔

 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

 

 

 

Last modified onجمعرات, 20 فروری 2025 20:52

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک