
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه 3 )
نشاط ثانیہ یعنی نہضہ کا مفہوم
27 ذو الحجہ 1445ہجری
بدھ، 3 جولائی 2024 عیسوی
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ تیسری قسط ہے، جس کا عنوان " نشاط ثانیہ یعنی نہضہ کا مفہوم " ہے۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ چار پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔
شیخ تقی الدین النبہانیؒ، فرماتے ہیں:
''انسان اپنی اس فکر کی بنیاد پر نشاۃ ثانیہ ( نہضہ) حاصل کرتا ہے، جو وہ حیات ، کائنات، اور بنی نوع انسان کے بارے میں، اوراس دنیاوی زندگی سے قبل اور بعدسے اِن تمام کے تعلق ، کے بارے میں رکھتا ہے۔چنانچہ نشاط ثانیہ (نہضہ) کے لیے انسان کی موجوہ فکر میں جامع اور بنیادی تبدیلی لانا اور ا س کی جگہ ایک دوسری فکر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے ۔کیونکہ فکر ہی وہ چیز ہے جو اشیاء کے بارے میں تصورات پیدا کرتی ہےاور ان تصورات کو ایک مرکز پر جمع کرتی ہے ۔انسان زندگی کے بارے میں اپنے تصورات کے مطابق ہی اپنے رویے کو ڈھالتا ہے۔ پس اگر انسان ایک شخص کےمتعلق محبت کے تصورات رکھتا ہے تو اس کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح جس شخص کے بارے میں وہ نفرت کے تصورات رکھتا ہے ، اس کے ساتھ سلوک بھی اُسی قِسم کا کرتاہے۔ اورجس شخص کو وہ نہیں جانتااور اس کے بارے میں کوئی تصورات نہیں رکھتاتو انسان اس کے ساتھ اسی قسم کا رویہ رکھے گا۔گویا انسان کا رویہ اس کے تصورات کے ساتھ منسلک ہے۔ پس اگر ہم انسان کے پست رویے کو تبدیل کرکے اسے بلند رویے والا بنانا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے ہمیں اس کے تصورات (مفاہیم) کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ
" اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کواس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے اپنے نفوس میں ہے"۔( سورۃ الرعد :11)
اور ہم اللہ کی مغفرت، رضا اور جنت کی امید رکھتے ہوئے کہتے ہیں: لفظ 'نہضہ' (نشاط ثانیہ) کا لغوی مطلب یہ ہے کہ یہ ایک اسم ہے، جس کی جمع 'نہضات' (ہ کی زبر کے ساتھ) اور 'نہضات' (ہ کی زبر کے بغیر) ہے۔ 'نہضہ' فعل 'نہضَ' (اٹھنا) سے لیا گیا ہے، اور اس کا مطلب ہے قوت اور توانائی۔ اس سے مرا د سماجی ترقی یا دیگر شعبوں میں ایک اہم پیش رفت یا ترقی بھی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ 'فلاں شخص نہضات سے بھرپور ہے'، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت متحرک اور فعال ہے۔
اور ہم کہتے ہیں: جب کسی کے اندر اچھائی کی جانب 'نہضہ' پیدا ہوئی ہے، تو اس کا مطلب ہے حرکت اور جوش۔ 'مبعث النہضہ' (نہضہ کا سبب) اس کا بنیادی ذریعہ ہوتا ہے، اور 'عصر النہضہ' (نہضہ کا دور) تجدید کا دوربیان کرتا ہے۔ 'النہضہ' سے مراد دوبارہ زندہ ہونا، بلند ہوجانا ، تجدید، نشاط ثانیہ ، اور زوال اور انحطاط کے بعد ترقی ہے۔ جب کوئی 'نہضَ' (اٹھا) اپنی نیند یا بستر سے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اٹھ گیا۔
جہاں تک ' نہضہ' کا تکنیکی مفہوم ہے، یہ انسانی رویے کی فکری بلندی اور اس کا حیوانی خواہشات کی سطح سے بلند ہونےکی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کتے اور گدھے جیسے تمام جانوروں کی فکر یہیں تک ہوتی ہے جو کچھ وہ کھاتے ہیں ، ہضم کرتے ہیں، پانی پیتے ہیں، اپنی بنیادی خواہشات کو پورا کرتے ہیں، اور محفوظ پناہ گاہ تلاش کرتے ہیں۔ ۔ وہ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، سوتے ہیں، اور نسل بڑھاتے ہیں۔ اگر وہ ان تمام چیزوں کو حاصل کر لیں، تو ان کے لیے دنیا مکمل اور کافی ہوتی ہے!
جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں عزت دی ہے اور انہیں دیگر مخلوقات سے عقل، فصاحت، علم، اور عبادت کے ساتھ ممتاز کیا ہے۔ انہوں نے انسان کو ایک سوچنے والا دماغ عطا فرمایا۔ اللہ فرماتے ہیں:
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِم مَّا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى
"کیا وہ اپنے نفس میں غور نہیں کرتے؟ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کو حق کے ساتھ اور ایک مقررہ مدت کے لیے ہی بنایا ہے"۔ (سورۃ الروم30:8)
اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ صلاحیت بھی عطا کی کہ وہ اپنی سوچ کا اظہار کر سکیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں :
الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ * خَلَقَ الْإِنسَانَ * عَلَّمَهُ الْبَيَانَ
"رحمان۔ جس نے قرآن سکھایا۔ انسان کو پیدا کیا۔ اسے فصاحت عطا کی۔" (سورۃ الرحمن 1-4)
اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتے تھے۔ اللہ فرماتے ہیں:
عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
" انہوں نے انسان کو وہ سکھایا جو اسے معلوم نہیں تھا۔" ( سورۃ العلق،5)
اور اللہ نے انہیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کر کے عزت بخشی۔ اللہ فرماتے ہیں:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
" اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔" (سورۃ الذاریات،56)
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انسان کو کس چیز سے بیداری حاصل ہوتی ہے؟ نہضہ (نشاطِ ثانیہ) تک پہنچنے کے طریقوں کے بارے میں مختلف اور پیچیدہ نظریات موجود ہیں۔ کچھ لوگ ایسے پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں جو حقیقی اور درست نہضہ کی طرف نہیں لے جاتے۔ کچھ کا خیال ہے کہ انسان اخلاقیات کے ذریعے ترقی حاصل کرتا ہے۔ یہی خیال مشہور شاعر احمد شوقی نے اپنی شاعری میں بھی بیان کیا، وہ کہتے ہیں :
صَلاحُ أمْرِكَ لِلأخْـلاقِ مَرجِعُهُ،
فَقَوِّمِ النَّفْسَ بِالأخْـلاقِ تَستَقِمِ
"تمہارے معاملات کی اصلاح اخلاقیات پر مبنی ہے،
پس نفس کو اخلاقیات سے درست کرو اور یہ درست ہو جائے گا"
وَالنَّفْسُ مِنْ خَيرِهَا فِي خَيرِ عَافِيَةٍ،
وَالنَّفْسُ مِنْ شَرِّهَا فِي مَرتَعٍ وَخِمِ
"اور نفس تب صحت مند ہوتا ہے جب اس میں نیکی ہو،
اور نفس تب بُرے حالات میں ہوتا ہے جب اس میں بدی ہو"
إنَّمَا الأُمَمُ الأخْـلاقُ مَا بَقِيَتْ،
فَإِنْ همُو ذَهَبَتْ أخْلاقُهُمْ ذَهَبُوا
"بیشک، اقوام کی شناخت ان کی اخلاقیات سے ہے جب تک کہ وہ قائم رہیں،
جب ان کی اخلاقیات ختم ہو جائیں گی، تو وہ بھی مٹ جائیں گی"
وَإِذَا أُصِيبَ القَومُ فِي أخْلاقِهِمْ،
فَأقِـم عَلَيهِمْ مَأتَماً وَعَويِـلا
"اور اگر کسی قوم کی اخلاقیات بگڑ جائیں،
تو ان پر ماتم کرو اور ان کے حال پر بین کرو"
یہ اقتباس اخلاقیات اور کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جو قوموں کی زندگی اور تسلسل کے لیے بہت ضروری ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ جب اخلاقیات میں زوال آتا ہے تو قوموں کا زوال بھی شروع ہو جاتا ہے۔
بعض اسلامی تحریکات کے رہنماؤں نے احمد شوقی کے نظریے کو اپنایا اور ایسے خیراتی ادارے قائم کیے، جن کا اصل مقصد قوم کو اعلیٰ اخلاقیات کی پابندی کرنے کی دعوت دے کر اُبھارنا ہے۔ انہوں نے اپنی کوششوں کو بعض قرآنی آیات کی روشنی میں تقویت بخشی ہے، جیسے کہ اللہ کا فرمان: وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ" اور بے شک، آپ عظیم اخلاقی کردار کے مالک ہیں۔" (سورہ قلم، 4) اور کچھ نبی کریم ﷺ کی احادیث کے ساتھ، جیسے کہ إنَّمَا بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأخْلاقِ " مجھے صرف اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔"
ا یسے بھی رہنما ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ حقیقی نہضہ صرف اسلام کی طرف لوٹنے، اور علم الحدیث کا مطالعہ کرنے سے حاصل کی جا سکتی ہے تاکہ یہ جانچ سکیں کہ کیا صحیح ہیں اور کیا کمزور۔ انہوں نے عمومی، مبہم، اور غیر واضح نعرے بلند کیئے جیسے: "اسلام ہی حل ہے۔" کچھ لوگ اسلام کی عمومی دعوت دینے کی طرف بلاتے ہیں : "ہماری کامیابی اور خوشحالی اللہ کے احکامات اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی میں ہے۔" جب اللہ کے احکامات کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ ان احکامات کا انتخاب کرتے ہیں جو ذاتی امور سے متعلق ہیں، اور جب رسول اللہ ﷺکی سنت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ عمومی اور غیر مخصوص بیانات دیتے ہیں، کہتے ہیں: "ہم آپ کو دین اور ایمان کے الفاظ سننے کی دعوت دیتے ہیں۔"
ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک شخص فنون کے ذریعے بلند ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر کا حامی شاعر معروف الرّصافی ہے، جو کہتا ہے:
إِنْ رُمْتَ عَيشاً نَاعِماً وَرَقِيقَا،
فَاسلُكْ إِلَيهِ مِنَ الفُنُونِ طَريقَـا
وَاجْعَلْ حَيَاتَـكَ غَضَّةً بِالشَّعْرِ،
وَالتَّمثِيلِ وَالتَّصوِيـرِ وَالمُوسِيقَا
اگر آپ ایک نرم و لطیف زندگی کی تلاش میں ہیں،
تواسے حاصل کرنے کے لیئے فنون کا راستہ اختیار کریں۔
اپنی زندگی کو شاعری سے تازہ کریں،
اداکاری، مصوری اور موسیقی کے ساتھ
تِلْكَ الفُنُونُ المُشتَهَـاةُ هِيَ الَّتِي،
غُصْنُ الحَيَاةِ بِهَا يَكُونُ وَرِيقَـا
یہ پسندیدہ فنون وہ ہیں،
جن سے زندگی کی شاخ سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے
وَهِيَ الَّتِي تَجلُو النُّفُوسَ فَتمتَلِي،
مِنهَا الوُجُوهُ تَلألُـؤاً وَبَرِيقَـا
اور یہی وہ ہیں جو روحوں کو روشن کرتے ہیں
چہروں کو چمک اور دمک سے بھر دیتے ہیں
اور کچھ لوگوں نے کہا: "قومیں صرف کھیلوں کے ذریعے ترقی کر سکتی ہیں۔" اس نظریے کے حامی شاعر علی الجندی ہیں، جنہوں نے کھیلوں کے بارے میں بات کی ہے:
هَيهَاتَ أنْ تَرقَى الشُّعُوبُ بِدُونِهَا،
وَهِيَ السَّبِيـلُ إِلَى عُلُـوِّ الشَّانِ
قوموں کا ترقی کرنا اس کے بغیر ناممکن ہے،
کیونکہ یہی عظیم مرتبے تک پہنچنے کا راستہ ہے
فَحَيَاتُنَـا بَحْـرٌ خِضَـمٌّ زَاخِـرٌ،
خَاضَ القَـوِيُّ غِمَـارَهُ بِأمَـانِ
ہماری زندگی ایک وسیع اور لبریز سمندر ہے،
مضبوط لوگ اس کی گہرائیوں میں محفوظ طریقے سے تیرتے ہیں
إِنْ صَحَّتِ الأجْسَامُ أطْلَعَتِ النُّهَى،
ثَمَـرَ المَعَارِفِ يَانعـاً لِلجَـانِي
اگر جسم صحت مند ہوں، تو وہ حکمت کو جنم دیں گے،
اور علم کے پھل اس کے لیے تیار ہوں گے جو انہیں حاصل کرے گا
مَا العَقلُ إِلاَّ فِي السَّلِيمِ فَمَنْ يَكُنْ،
ذَا عِلَّـةٍ لَـم يَحْـظَ بِالعِرفَـانِ
ذہن صرف صحت مند جسم میں ہی رہتا ہے،
جو بیمار ہو، وہ سمجھ حاصل نہیں کرتا
اور کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نہضہ طاقت اور مسلح انقلاب کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ انہوں نے مزاحمتی تنظیموں اور مسلح جماعتوں کی بنیاد رکھی اور ان کی قیادت کی۔ اس نقطہ نظر کے حامی عراقی شاعر محمد مہدی الجواہری ہیں، جنہوں نے کہا:
بِالمَدفَـعِ استَشهِـدِي إِنْ كُنتِ نَاطِقَـةً،
أو رُمْتِ أنْ تُسمِعِي مَنْ يَشتَكِي الصَّمَمَا
توپ کے ذریعے شہادت کی خواہش کر، اگر تُو حقیقت میں فصیح ہے،
یا اگر تم اُن بہروں کو سنانا چاہتا ہے جو سننے سے قاصر ہیں
سَلِي الحَوَادِثَ وَالتَّارِيـخَ هَـلْ عَرَفَـا،
حَقـّاً وَرأيـاً بِغَـيرِ القُـوَّةِ احتُرِمَـا
واقعات اور تاریخ سے پوچھوکیا وہ جانتے ہیں
ایسی حقیقت اور رائے کہ طاقت کے بغیر عزت حاصل ہوئی؟
لا تَطلُبِي مِـنْ يَـد الجَبَّـار مَرْحَمَـةً،
ضَعِـي عَلَى هَامَـةٍ جَبَّـارَةٍ قَدَمَــا
ظالم کے ہاتھ سے رحم کی بھیک نہ مانگو،
ظالم کے سر پر اپنا قدم رکھدو
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ نہضہ(نشاطِ ثانیہ) افراد کے درمیان روابط قائم کرنے سے حاصل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے قومی اور نسلی جماعتیں تشکیل دیں۔ یوں نہضہ (نشاطِ ثانیہ )کے راستے کے بارے میں مختلف اور پیچیدہ خیالات سامنے آئے۔ کچھ کہتے ہیں: 'انسانیت اخلاق سے بلند ہوتی ہے،' اور کچھ کہتے ہیں: 'انسانیت فنون کی جستجو سے ترقی کرتی ہے،' جبکہ کچھ کا کہنا ہے: 'قومیں صرف کھیلوں کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتی ہیں۔' تاہم، ان سب نے ثانوی امور کاذ کر کیا ہے جو حقیقی نہضہ سے براہِ راست متعلق نہیں ہیں اور مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچے جس کے ذریعے درست اور حقیقی نہضہ کا راستہ تلاش کیا جا سکے۔
شیخ تقی الدین النبھانی ؒ کے مطابق، حقیقی نہضہ کا راستہ، جس کی انہوں نے جامعہ الأظہر میں علوم شریعہ کے اپنے گہرے، جامع اور بابصیرت مطالعہ کے ذریعے شناخت کی، وہ ایک جامع بنیادی فکر ہے جس پر تمام فکر اورتصورات کی تعمیر ہوتی ہے۔ یہ بنیادی فکر ایک ایسے نظام کی تشکیل کرتی ہے جو تمام انسانی مسائل کو حل کرتی ہے، یعنی وہ نظریاتی فکر جو عقیدہ پر مبنی ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب ' نظام اسلام ' کے آغاز میں بیان کیا: 'انسان اسی سوچ (فکر) کے مطابق نہضہ حاصل کرتا ہے، جو وہ کائنات، انسان اور حیات اور اُن سب کا اس زندگی کے ماقبل اور مابعد کے ساتھ تعلقات کے بارے میں رکھتا ہے'۔
یقیناً، یہی وہ حقیقی اور صحیح نہضہ ہے جو انسان کو کائنات، انسانیت، اور حیات کے بارے میں غور و فکر کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ دراصل یہی وہ تین اہم بنیادی پہلو ہیں جن میں وہ تمام ثانوی، قابل فہم ، اور ٹھوس معاملات شامل ہیں جن سے نشاطِ ثانیہ کے بارے میں سوچنے والے ان لوگوں نے اپنے خیالات اخذ کیے ہیں۔ آخرکار، یہ سب ایک بنیادی نظریاتی اصول (بنیای فکری قاعدہ) سے ہی نکلتے ہیں، جس پر تمام فکر اور تصورات کی تعمیر ہوتی ہے: ایک عقلی عقیدے کا اصول۔ یہی عقیدہ ایک جامع نظام کی تشکیل کرتا ہے، جو انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور انسان کو نہضہ (نشاطِ ثانیہ) کی راہ پر آگے بڑھاتا ہے۔
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔