السبت، 01 رمضان 1446| 2025/03/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول- حلقه 12

بسم الله الرحمن الرحيم

 

"نظامِ اسلام کی کتاب سےمقاصد کا حصول/ بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام"

 

"اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے عقل کے استعمال کی فرضیت"

 

(حلقه 12 )

 

(عربی سے ترجمہ)

 

کتاب "نظامِ اسلام" سے

 

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔ 

 

اے مسلمانو:  

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  

 

" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان  کی اس کتاب میں جتنی   اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں  کریں گے۔ ہماری یہ  بارھویں    قسط ہے، جس کا عنوان ہے " اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے عقل کے استعمال کی فرضیت" ۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ دس اور گیارہ پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔

 

شیخ نبہانی، اللہ ان پر رحم فرمائے، نے فرمایا: "بے شک، خالق پر ایمان لانے کی صفت ہر انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے۔ تاہم، اس فطری ایمان تک پہنچنا اس کے جذبات (وجدان)کے ذریعے ہوتا ہے۔ لیکن ایمان کو محض جذبات پر چھوڑ دینا غیر یقینی نتائج کا باعث بنتا ہے اور استحکام تک نہیں پہنچاتا۔ جذبات اکثر ایمان میں ایسی باتیں شامل کر دیتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، اور پھر انہی باتوں کو ایمان کا لازمی حصہ سمجھ لیا جاتا ہے، جو کفر اور گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ بت پرستی، توہمات، اور خرافات ،جذبات (وجدان) کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں۔

 

لہٰذا، اسلام ایمان کے لیے جذبات کو واحد ذریعہ نہیں بناتا تاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات سے ایسے اوصاف منسوب نہ کیے جائیں جو الوہیت کے منافی ہوں، یا اللہ کو مادی اشیاء میں مجسم سمجھا جائے، یا مادی اشیاء کی عبادت کے ذریعے اللہ کے قریب ہونے کا تصور پیدا ہو۔ یہ سب یا تو کفر کی طرف لے جاتا ہے، یا شرک کی طرف، یا وہم و گمان اور توہمات کی طرف، جنہیں حقیقی ایمان مکمل طور پر رد کرتا ہے۔

 

اسی لیے اسلام جذبات (وجدان)کے ساتھ عقل کے استعمال کو بھی لازم قرار دیتا ہے۔ اسلام مسلمان کو پابند کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے اپنی عقل کا استعمال کرے اور عقیدہ میں تقلید کی ممانعت کرتا ہے۔ چنانچہ، اسلام نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ایمان کے معاملے میں عقل کو فیصلہ کن حیثیت دی ہے اور عقیدہ میں تقلید کو ممنوع قرار دیا ہے۔

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

(إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ۔)

"بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ "(سورہ آل عمران 3:190)

 

ہر مسلمان پر لازم (واجب) ہے کہ اس کا ایمان غور و فکر (تفکیر)، مطالعہ، اور تدبر کا نتیجہ ہو، اور وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ایمان کے معاملے میں اپنی عقل کو مکمل فیصلہ کن حیثیت (تحکیم) دے۔ کائنات کے قوانین (سنن) کو سمجھنے اور اس کے خالق پر ایمان لانےکے لیے رہنمائی حاصل کرنے کی دعوت قرآن میں مختلف سورتوں میں سینکڑوں بار دی گئی ہے۔ یہ تمام آیات (دلائل) انسان کی فکری صلاحیت کو مخاطب کرتے ہیں، اسے گہرائی سے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں، تاکہ اس کا ایمان عقل اور واضح دلیل (بینہ) پر مبنی ہو۔
ساتھ ہی، قرآن اسے خبردار کرتا ہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے طریقے کو بغیر تحقیق  و چھان بین، اور اس کے حق کے مطابق ہونے کا یقین حاصل کیئے بغیر نہ اپنائے۔ یہی وہ ایمان ہے جس کی اسلام نے دعوت دی ہے، نہ کہ وہ جسے "ایمان العجائز" (اندھا عقیدہ یا بوڑھی عورتوں کا ایمان) کہا جاتا ہے۔

 

یہ ایمان اس روشن فکر اور مکمل یقین رکھنے والے شخص کا ہے، جو تلاش اور تدبر کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، جو عظمت والا اور بلند و برتر، بے پناہ  قدرت کا مالک ہے، پر اس کا یقین ناقابل شک (یقینی) ہے۔

 

ہم اللہ کی مغفرت، رحمت، رضا، اور جنت کی امید رکھتے ہوئے کہتے ہیں: اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺ کو آخری پیغام کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی کی طرف نکالیں۔ ان کے بعثت سے پہلے اور دوران ، دنیا ان تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی، جن میں سب سے نمایاں جہالت تھی جو تمام دیگر تاریکیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ فطری اور ناگزیر ہے کہ آخری دین کا نعرہ "اقرأ" (پڑھ) ہو، اور یہ کہ عقل، فکر، علم، اور اس کے حصول اور تدریس کو انسانی کمال کی ترقی کے لیے اولین اصول قرار دیاجائے، جو اسلام نے پیش کیے۔

 

عقل کے ذریعے انسان حق اور باطل کے درمیان فرق کرتا ہے؛ اور جب اسے نظرانداز کیا جائے تو معاملات مبہم ہو جاتے ہیں اور یہ فرق غائب ہوجاتا ہے۔ علم کے حصول کے ذریعے انسان چیزوں کی حقیقت   کوپہچانتا ہے اور اللہ کی عظمت، قدرت، اور کمال و جلال کی صفات کی نشاندہی ان چیزوں   میں ہی پاتا ہے۔ اگر کوئی علم حاصل نہ کرے تو وہ جہالت کی تاریکیوں میں رہتا ہے، حقائق، دلائل، انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات، اور شریعت کے مقاصد سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ دیگر علوم سے بھی محروم رہتا ہے جو اس کی روشنی میں اضافہ کرتے ہیں اور اسے دنیا و آخرت کی خوشی کا راستہ دکھاتے ہیں۔

 

اسی لیے علم، سیکھنے، اور سکھانے کا اصول انفرادی اور اجتماعی زندگی میں   اعلیٰ اسلامی تہذیب کی تعمیر کے بنیادی اصولوں میں سے ایک رہا ہے۔

 

Picture 13

 

قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والا ایک بڑی تعداد میں ایسی آیات پائے گا جو عقل کے استعمال، دلیل، اور علم کے حصول کی ترغیب دیتی ہیں، اور علم کی فضیلت اور ان علماء کے مقام کو اجاگر کرتی ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ یہ علماء اس پر عمل کرتے ہیں، علم کو عام کرتے ہیں، اس کا پیغام تمام لوگوں تک پہنچاتے ہیں، اور اپنی ان تمام کوششوں میں صرف اللہ کریم کی رضا کے طلبگار ہوتے ہیں۔

 

جب ہم ان آیات پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ کئی پہلوؤں سے تدبر اور عقل کے استعمال کی دعوت دیتی ہیں:

 

1۔قرآنی آیات کے نزول اور کائناتی نشانیوں کو ظاہر کرنے کا مقصد واضح کرنا:  قرآن مجید کے نزول اور خالق کی وحدانیت اور عظمت کی نشانیوں کو پیش کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان اس گہری حقیقت کو سمجھے اور اس کے مطابق عمل کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

"بے شک ہم نے اس کو عربی قرآن بنا کر نازل کیا تاکہ تم سمجھو۔" (یوسف: 2)

 


اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

"اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔" (البقرہ: 73)

 

لفظ "لَعَلَّ" (تاکہ شاید) امید اور توقع کا اظہار کرتا ہے، جو ان نشانیوں کو واضح کرنے اور ان کے ذریعے فہم حاصل کرنے کے مقصد کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ فہم شریعت کی قانونی اصطلاح میں مطلوب ہے۔

 

2۔ عقل کا استعمال نہ کرنے والوں کی مذمت: قرآن مجید نہ صرف عقل کی فضیلت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ عقل کو معطل کرنے والوں کی مذمت کے ذریعے بھی اس فضیلت کو ظاہر کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

(وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ)

"جن لوگوں نے کفر کیا، ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو ایسی چیز کو آواز دے رہا ہو جسے وہ نہیں سنتا سوائے پکار اور آواز کے۔ یہی لوگ بہرے، گونگے، اور اندھے ہیں، پس وہ سمجھتے نہیں ہیں۔" (البقرہ: 171)

 

اللہ تعالیٰ کافروں کی مثال جانوروں سے دیتے ہیں جو فہم سے محروم ہوتے ہیں اور ان کی حالت کو مزید واضح کرتے ہوئے انہیں بہرے، گونگے اور اندھے قرار دیتے ہیں۔ ان کا ذہنی قوت کو معطل کرنا انہیں جانوروں کی سطح تک لے آتا ہے، حالانکہ جانور بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں، جو ہم نہیں سمجھ پاتے، جیسا کہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ ایسی مذموم صفات صرف جاہلوں کو ہی منسوب کی جاتی ہیں، اور یہ احمقانہ افعال صرف نادانوں سے ہی صادر ہو سکتے ہیں۔

 

3۔عقل والوں کی تعریف:  صرف وہی لوگ جو درست عقل رکھتے ہیں، سچائی کو سمجھنے اور تدبر کرنے کے قابل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں أولي الألباب یعنی "سمجھ رکھنے والےلوگ" کے طور پر ذکر کیا ہے اور انہیں سب سے اعلیٰ اور مفید علم سے نوازا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

"وہ حکمت جسے چاہے دیتا ہے، اور جسے حکمت دی جائے، اسے یقیناً بہت زیادہ بھلائی دی جاتی ہے؛ اور نصیحت صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں۔" (البقرہ: 269)

 

یہ آیت حکمت کی عظمت اور ان لوگوں کی بڑائی کو اجاگر کرتی ہے جو اس سے بہرہ ور ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے نور سے نوازا ہے اور انہیں أولي الألباب کے طور پر پکارا ہے۔

 

     4۔اعتقاد میں اندھی تقلید کی ممانعت اور عقل کو معیار کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت:  اسلام عبادت کے معاملات میں اپنے آبا کی اندھی تقلید کی ممانعت کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَـٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ * قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ * قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ)

"جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور قوم سے کہا: یہ کیا بت ہیں جن کے سامنے تمہیں اپنا وقت گزارنا پسند آتا ہے؟ ا  ُنھوں نے کہا: ہم نے اپنے آبا واجدادکو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: تم اور تمھارے آبا واجدادکھلی گمراہی میں تھے۔" (الأنبیاء: 52-54)

 

اسی طرح، نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو اپنے آبا واجداد کے طریقوں کی اندھی تقلید سے بچنے کی ہدایت دی۔ امام ترمذی نے ابو وقاص اللیثی سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ حنین جا رہے تھے، تو وہ "ذات عنوات" درخت کے پاس سے گزرے، جہاں مشرکین اپنے ہتھیاروں کوبطور عبادت لٹکاتے تھے۔ انھوں نے درخواست کی کہ "یا رسول اللہ، ہمارے لیے بھی ایک ایسا درخت بنادیں جیسا کہ ان کے پاس ہے۔" تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

(سُبْحَانَ اللَّهِ هَذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى: "اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ)
"اللہ کی پاکیزگی ہو! یہ ویسا ہی ہے جیسے موسیٰ کی قوم نے کہا تھا: ''ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دو جیسا کہ ان کے معبود ہیں۔' 'پھر فرمایا: "قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور ان لوگوں کی سنت کی پیروی کرو گے جو تم سے پہلے تھے۔" (الْأَعْرَاف 138)

 

خالق اور رازق پر ایمان ہر انسان میں فطری طور پر موجود ہوتا ہے۔ ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ اسلام کی طرف فطری رجحان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، لیکن والدین ان پر اثرانداز ہو کر انہیں یہودی، عیسائی یا زرتشتی بنا سکتے ہیں۔ اسلام اس بات کو مسترد کرتا ہے کہ ایمان صرف جبلت (جذبات) سے حاصل ہوناچاہیے۔ تو جبلت کیا ہے اور یہ ایمان سے کس طرح متعلق ہے؟ جبلت کو فطری رجحانات کے ردعمل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے:   روحانیت کی جبلت ( جبلتِ تدین)، تولید کی جبلت (جبلتِ نوع)، اور بقاء کی جبلت (جبلتِ بقاء )۔ یہ تینوں جبلتیں انسان کے مختلف جذبات کو جنم دیتی ہیں جیسے خوف، غصہ، محبت، احترام، تعظیم اور عقیدت۔ آخرالذکر، عقیدت، دل میں سب سے گہری عزت کی صورت ہے، جو بعض ہستیوں کو خدا کی مانند معبود سمجھنے کی طرف لے جاتی ہے۔

 

Picture 14

 

اس لیے، وہ ایمان جو صرف جذباتی ادراک سے پیدا ہوتا ہے، غیر یقینی ہوتا ہے اور اگر اسے    جانچے بغیر چھوڑ دیا جائے تو یہ مضبوط بنیاد تک نہیں پہنچتا۔ جذبات اکثر عقائد میں ایسی خصوصیات منسلک کر دیتے ہیں جو حقیقت میں کوئی بنیاد نہیں رکھتیں، جس کی وجہ سے انسان کفر یا گمراہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بت پرستی اور توہمات صرف ایسے ہی جذباتی ادراک (وجدان)سے پیدا ہونے والی غلطیوں کے نتائج ہیں۔ میں نے ایک بار عمان میں تدریس کے دوران ایک زرتشتی کو دیکھا جو اسکول کا چوکیدار تھا۔ جب طلباء اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے، تو وہ کتابوں کے پھٹے ہوئے صفحات، ٹوٹے ہوئے بنچوں کے ٹکڑے اور لکڑی کے ٹکڑے جمع کرتا، اور انہیں آگ میں جلاتا۔ جب شعلے بلند ہوتے، تو وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنی آنکھوں کے سامنے ہاتھ جوڑتا، اور کچھ الفاظ پڑھتا جو ہمیں سمجھ میں نہیں آتے تھے، گویا وہ آگ سے اپنی خواہشات پوری کرنے اور برائی کو دور کرنے کی درخواست کر رہا ہو! اس طرح، اسلام جذباتی ادراک (وجدان)کو ایمان کا واحد راستہ نہیں مانتا، تاکہ اللہ ﷻ کے لیے متضاد صفات منسلک کرنے سے بچا جا سکے، یا اسے مادی شکل میں تصوّر کرنے سے، یا یہ گمان کرنے سے کہ مادی چیزوں کی عبادت کے ذریعے اللہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ایسا ایمان، کفر، شرک، یا وہ تصورات اور توہمات پیدا کرتا ہے جن سے حقیقی ایمان انکار کرتا ہے۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ ایمان کو درست اور اللہ کی رضا کے مطابق بنانے کے لیے اسلام نے مندرجہ ذیل اصول اپنائے ہیں:

 

ا۔یہ کائنات پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ اس کے قوانین کو سمجھا جا سکے اور اس کے ذریعے انسان اپنے خالق پر ایمان لانے کی رہنمائی حاصل کرے۔

 

۔ ٢. ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے ایمان کو صرف جذبات یا عقیدت سے نہیں، بلکہ تحقیق، فکر و تدبر اور عقل کی بنیاد پر استوار کرے۔

 

٣. اسلام یہ نہیں مانتا کہ ایمان صرف جذباتی طور پر پیدا ہو، کیونکہ اس میں سچائی اور استحکام کی کمی ہو سکتی ہے۔

 

٤. اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کو عقلی ادراک کے ساتھ جذباتی احساسات کو ہم آہنگ کرکے مضبوط کریں۔

 

٥. اسلام اندھی تقلید کو مسترد کرتا ہے اور ایمان کی بنیاد میں عقل و فہم کو حَکَم (فیصلہ کن)بناتا ہے تاکہ انسان بے بنیاد عقائد سے بچ سکے۔

 

اے مومنو!

 

ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ  ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔

 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک