الإثنين، 02 شوال 1446| 2025/03/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

فلسطین کی مدد اور اس کے لوگوں کی امداد کرنے کے بجائے

اس کو بے یار و مددگار چھوڑنے اور اس کے خلاف سازش کرنے والی کانفرنسیں۔

 

(ترجمہ)

 

باهر صالح کی تحریر

 

گزشتہ ہفتے کا دورانیہ فلسطین اور غزہ کے خلاف سازشوں کی کانفرنسوں سے بھرا ہوا تھا۔ چنانچہ، منگل 4 مارچ 2025 کو قاہرہ میں ایک سربراہی اجلاس منعقد ہوا، جس کا اختتام "غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے منصوبے" پر ہوا، جس کا مقصد فلسطینی عوام کو بے گھر کیے بغیر اپنی سرزمین پر رہنے کے قابل بنانا ہے۔ اجلاس میں اس بات پر سخت زور دیا گیا کہ یہودی وجود متعلقہ بین الاقوامی قانونی قراردادوں کی پاسداری کرے جو فلسطینی علاقوں میں آبادیاتی تبدیلی کی کوششوں کو مسترد کرتی ہیں، اور غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل معطل کرنے اور گذرگاہیں بند کرنے کے فیصلے کی مذمت کی گئی۔ معمول کے مطابق، شرکاء نے اس بات پر یقین دہانی کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ "4 جون 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے عرب موقف اپنی جگہ ثابت قدم ہے، جس کا دارالحکومت  مشرقی یروشلم ہو گا، کیونکہ یہ خطے میں پائیدار امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔" اور تو اور، قائدین کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی امن فوج بھیجنے کے لیے سلامتی کونسل سے مطالبہ کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی۔

 

اور یہ بات واضح ہے کہ یہ سربراہی اجلاس غزہ میں ہمارے لوگوں کے ساتھ ہونے والے قتل، بھوک اور اجتماعی سزا کے معاملے میں کوئی حرکت کیے بغیر ختم ہو گیا، اور اس نے یہودیوں اور امریکہ کی جانب سے فلسطین کو جہنم بنا دینے کی دھمکی کو نظر انداز کر دیا، بلکہ اس سے چشم پوشی اختیار کر لی اور غزہ میں جنگ کے بعد کے حالات پر بات کی، گویا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے اور جارحیت رک چکی ہے!

 

عرب حکمرانوں کا یہ موقف اس بنا پر ہے کہ ان کے نزدیک غزہ کی حمایت یا یہودیوں کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور ان کا یہ اجتماع صرف ٹرمپ کے غزہ کے باشندوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے کا متبادل منصوبہ تیار کرنے کے لیے تھا، اس کے بعد کہ اس نے انہیں ایسی تجویز پیش کرنے کی اجازت دی جو اس کی شرائط کو پورا کرے۔ ان شرائط میں حماس کی تحریک کو حکومت سے نکالنا اور اسے مکمل طور پر منظر عام سے ہٹانا شامل ہے تاکہ یہودیوں کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے اور 7 اکتوبر 2023 کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ اس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ مصر کی جانب سے پیش کردہ منصوبے میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کی بات کی گئی ہے جو 6 ماہ کی عبوری مدت کے لیے غزہ کی پٹی کے امور کی نگرانی کرے گی، بشرطیکہ وہ غیر جانبدار اور غیر جماعتی شخصیات (ٹیکنوکریٹس) پر مشتمل ہو جو فلسطینی حکومت کے زیر سایہ کام کرے گی، اور بالآخر غزہ کو فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا جائے گا۔

 

پھر "تنظیم تعاونِ اسلامی" کی جدہ سربراہی کانفرنس نے غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے لیے عرب منصوبے کی حمایت کی توثیق کی، جس کی توثیق قاہرہ میں منعقدہ "فلسطین سمٹ" نے بھی کی، اور اس میں فلسطینی عوام کے اپنی سرزمین پر باقی رہنے کے حق کو برقرار رکھا گیا۔ مزید براں، اس بات پر زور دیا گیا کہ مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اور فلسطینی عوام کو اپنے جائز قانونی حقوق کے استعمال کے لیے مستقل حمایت حاصل ہے، جس میں ان کا حق خود ارادیت، آزادی، حریت اور اپنی سرزمین پر بالادستی شامل ہے۔ نیز، 4 جون 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کے قیام، جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو، اور فلسطینی پناہ گزینوں کے واپسی اور معاوضے کے حق کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی متعلقہ قراردادوں، خاص طور پر قرارداد 194 کے تحت یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا۔

 

اس طرح "تنظیم تعاونِ اسلامی" کی سربراہی کانفرنس نے قاہرہ سربراہی کانفرنس کے ساتھ، گناہ اور بزدلی پر مبنی تعاون قائم کیا۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح قاہرہ سربراہی کانفرنس نے محض دعوت دینے، تاکید کرنے، زور دینے اور مذمت کرنے پر اکتفا کیا، اسی طرح جدہ سربراہی کانفرنس نے بھی تاکید کی، مذمت کی، زور دیا اور دعوت دی۔ اور یہ دونوں امریکہ اور یہودی وجود سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی تجویز کو قبول کر لیں اور اہل غزہ پر ترس کھا کر انہیں قتل، عذاب اور جنگ سے نجات دلائیں، وہ بھی رضاکارانہ طور پر بغیر کسی جبر یا دباؤ کے!

 

جہاں تک طاقت استعمال کرنے کی بات ہے تو وہ ان سازشی کانفرنسوں میں شریک افراد کی زبان سے بین الاقوامی افواج کو دعوت دینے کی صورت میں سامنے آئی، یعنی امن فوج، جس سے ہم نے صرف جرم اور فساد ہی دیکھا ہے، کے نام پر فلسطین پر دوسری بار قبضے کی دعوت دی گئی جس سے فلسطین، یھود، امریکہ اور کافر ریاستوں کے قبضے میں بیک وقت چلا جائے گا۔

 

اور سب سے بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کانفرنسوں میں شریک افراد، بین الاقوامی نظام کے مکمل طور پر بے نقاب ہونے اور تمام مغربی ممالک، ان کے اداروں، تنظیموں اور فیصلوں کے رسوا ہونے کے بعد بھی، اس بین الاقوامی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرنے اور اسے اپنا مددگار اور اپنی پناہ گاہ بنانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ وہ اپنی نجی محافل میں حل اور معاہدوں کے نام پر برائی، دستبرداری اور غداری کی دعوت دیتے ہیں۔

 

پھر ٹرمپ آیا اور اس نے ان حکمرانوں کی جانب سے تمام تر مراعات دیے جانے، ذلت سہنے، چاپلوسی کی زبان استعمال کرنے اور بزدلانہ رویے اختیار کرنے کے باوجود، ان کے چہروں پر پانی پھینکنے کے لیے سیدھے سادے انداز میں کہا کہ: تمہارا منصوبہ اچھا نہیں ہے۔

 

جہاں تک امریکی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ، اسٹیو وٹکوف کا تعلق ہے، تو اس نے قاہرہ سربراہی اجلاس کو مصریوں کی جانب سے "نیک نیتی کا پہلا قدم" قرار دیا۔ تاہم، اس نے اس اجلاس کے فیصلوں میں شامل تفصیلات کی تائید نہیں کی، جنہیں ان حکمرانوں نے تجاویز کا نام دیا، کیونکہ امریکہ کے نزدیک وہ ذلیل حکمرانوں کی محض تجاویز سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں جو امریکہ سے ان کی منظوری کے خواہاں ہیں۔ اور وہ ایک ایسا منصوبہ لے کر آیا جس میں کہا گیا ہے کہ حماس اپنے پاس موجود  باقی ماندہ نصف قیدیوں کو رہا کر دے، جو کہ تحریک کے لیے سب سے اہم سودے بازی کا کارڈ ہیں، جس کے بدلے میں جنگ بندی میں توسیع کی جائے گی اور مستقل جنگ بندی پر مذاکرات کرنے کا وعدہ کیا جائے گا۔

 

اور اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سب، غزہ اور پورے فلسطین کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ مسلم حکمران، عرب سے ہوں یا عجم سے، سربراہی اجلاسوں اور کانفرنسوں میں اس لیے جمع ہوتے ہیں تاکہ یہودیوں سے امن، سر تسلیم خم کرنے اور ان کے آگے جھک جانے کی اپیل کرنے کا فیصلہ کریں۔ وہ حماس اور مزاحمتی تحریکوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں اور منظر سے ہٹ جائیں تاکہ غزہ اور مغربی کنارہ یہودیوں کے لیے ایک آسان لقمہ بن جائے۔ وہ یہودیوں کی سلامتی برقرار رکھنے، ان کی تباہ کردہ چیزوں کو دوبارہ تعمیر کرنے اور فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی سکیورٹی، مالی اور لاجسٹک خدمات پیش کر رہے ہیں تاکہ فلسطینی اتھارٹی یہودیوں کا مضبوط ہاتھ اور محافظ بن جائے اور اس کے بعد انہیں کسی چیز کا خوف نہ رہے۔ اور یہ حکمران امت کی افواج کو فلسطین کی مدد اور اسے آزاد کرانے کے لیے حرکت میں لانے کی بجائے، امریکہ اور یہودیوں کی دہلیز پر کھڑے ان سے اپنے لیے اور اپنے تختوں کے لیے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں، امت کے اس غضب کے خلاف جو ان کے چہروں پر پھٹنے والا ہے۔

 

یہود اور امریکہ اب ان پیشکشوں اور سمجھوتوں پر اکتفا کرنے والے نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ غزہ کے باشندوں کو فوری طور پر اور شاید بعد میں مغربی کنارے کے باشندوں کو بھی ہجرت پر مجبور کیا جائے، تاکہ وہ غزہ پر قبضہ کر لیں اور اسے سیاحتی تفریح گاہوں میں تبدیل کر دیں، گویا اس کا کوئی باشندہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی امت ہے! وہ مزاحمتی تحریکوں اور مجاہدین سے چاہتے ہیں کہ وہ وجود سے ہی ختم ہو جائیں! اور وہ ایسا خواب کیوں نہ دیکھیں جب کہ وہ مسلمان حکمرانوں کی غلامی اور کمینگی دیکھ رہے ہیں؟

 

یقیناً فلسطین کو یہودیوں اور امریکہ کے چنگل سے نجات دلانے اور آزاد کرانے کے لیے، امت اور اس کی افواج کی جانب سے سنجیدہ اقدام کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسے منصوبوں کی جو اسے یہودیوں کے قبضے اور تسلط میں برقرار رکھے۔ اس کے بغیر ہم شہیدوں اور زخمیوں کا شمار ہی کرتے رہیں گے اور امریکہ کی غلامی اور امت اور اس کے مسائل سے خیانت جاری رکھنے کے سوا کچھ نہیں چاہنے والے مسلمان حکمرانوں کی موجودگی میں، یہودیوں کا توہین آمیز رویہ اور تکبر دیکھتے رہیں گے۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے رکن

 

Last modified onجمعرات, 20 مارچ 2025 01:08

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک