بسم الله الرحمن الرحيم
عالمی مالیاتی تباہی کی ناگزیر حقیقت
آج، عالمی معیشت خسارے، قرضے لینے اور تیزی سے بڑھتے اخراجات کے بعد معاشی، مالیاتی اور قرضوں کے بحران کے بے مثال بوجھ کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ جھلس رہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام اپنی ابتدا سے ہی ان آلہ کاروں کے ذریعے اپنی تباہی کے بیج خود ہی بوتا آیا ہے، جنہیں یہ خود استعمال کرتا ہے۔ یہ کئی بڑے عالمی بحرانوں کا شکار ہو چکا ہے، جن سے نکلنے میں اسے کئی سال لگے، مگر پیش کیے گئے حل بنیادی نوعیت کے نہیں تھے، بلکہ محض عارضی تدابیر تھیں جو بحران کو وقتی طور پر ٹالنے کے لیے اپنائی گئیں۔ ہر بار جب یہ کسی بحران سے نکلا، مشکلات مزید پیچیدہ ہو گئیں، اور کوئی مستقل حل سامنے نہ آ سکا۔ یہاں تک کہ اب عالمی مالیاتی تباہی کو روکنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔
ذیل میں، ہم پانچ سب سے بڑے اور خطرناک ترین بحرانوں کا مختصراً تذکرہ کریں گے۔
1- 1772 کا کریڈٹ بحران
یہ بحران لندن سے شروع ہوا اور پورے یورپ میں پھیل گیا، جب برطانیہ نے 1760 میں اپنی کالونیوں اور تجارت سے بے پناہ دولت جمع کی، جس کے نتیجے میں بینکوں کے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ لیکن 1772 میں یہ امید اچانک دم توڑ گئی، جب برطانوی بینک کے ایک پارٹنر، الیگزینڈر فورڈیس، اپنے قرضوں کی ادائیگی سے بچنے کے لیے فرانس فرار ہو گیا۔ اس واقعے نے مالیاتی خوف و ہراس کو جنم دیا، جو جلد ہی اسکاٹ لینڈ، ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک تک پھیل گیا۔
2- 1929-1939 کا عظیم افسردگی
اسے اب تک کا سب سے بڑا اور بدترین بحران سمجھا جاتا ہے اور یہ اس وقت شروع ہوا جب 1929 میں امریکی اسٹاک مارکیٹ گر گئی۔ مندی تقریباً دس سال تک جاری رہی اور اس کے نتیجے میں خاص طور پر صنعتی ممالک میں آمدنی اور بے روزگاری کی شرح میں بہت زیادہ نقصان ہوا۔
3- 1973 تیل کی قیمت کا بحران
یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب اوپیک کے رکن ممالک، خصوصاً عرب ریاستوں، نے 1973 کی جنگ کے دوران یہودی وجود کو اسلحے کی فراہمی کے امریکی فیصلے کے خلاف ردعمل دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں، امریکہ کو تیل کی برآمد روک دی گئی، جس سے شدید قلت پیدا ہوئی اور تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا، جس نے عالمی معیشت کو بحران میں مبتلا کر دیا۔ پیداوار کی بحالی اور مہنگائی پر قابو پانے میں کئی سال لگے، اور بعد میں تیل کی خرید و فروخت کو امریکی ڈالر سے منسلک کر دیا گیا، جسے بعد میں "پیٹرو ڈالر" کا نام دیا گیا۔
4- 1997 کا ایشیائی بحران
یہ بحران 1997 میں تھائی لینڈ سے شروع ہوا اور تیزی سے دیگر مشرقی ایشیائی ممالک اور ان کے تجارتی شراکت داروں تک پھیل گیا۔ ترقی یافتہ ممالک سے آنے والا قیاس آرائی پر مبنی سرمایہ مشرقی ایشیا کی معیشتوں، جنہیں "ایشین ٹائیگرز" کہا جاتا تھا—جیسے تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا—میں بڑی مقدار میں داخل ہوا۔ اسی سال، تھائی لینڈ نے غیر ملکی کرنسی کے ذرائع کی کمی کے باعث ڈالر کے مقابلے میں اپنی مقررہ شرح مبادلہ کو ترک کر دیا، جس کے نتیجے میں ایشیائی مالیاتی منڈیاں بحران کا شکار ہو گئیں۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر دیوالیہ پن اور مالیاتی تباہی دیکھی گئی، اور معیشتوں کو بحالی میں کئی سال لگے۔
5- 2008 کا معاشی بحران
یہ بحران رئیل اسٹیٹ بلبلا (Real estate bubble) یا رئیل اسٹیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس نے لیہمن برادرز بینک کے انہدام کا سبب بنا، اور عالمی مالیاتی ادارے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے۔ اس کے نتیجے میں بے مثال حکومتی مداخلت ہوئی، اور معیشت کو سنبھلنے میں دس سال لگ گئے۔
دنیا آج ایک غیر معمولی مالیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، اور اس کے ثبوت میں یہ دس وجوہات پیش کی جا سکتی ہیں:
پہلا: یورپ اور امریکہ میں بینکنگ بحران۔
دوسرا: امریکی حکومت کے قرضوں پر ڈیفالٹ۔
تیسرا: بہت سے ترقی پذیر ممالک کا دیوالیہ پن۔
چوتھا: جنوبی یورپی ممالک کے قرضوں کا بحران۔
پانچواں: چین میں امریکی پابندیوں کے علاوہ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا بحران۔
چھٹا: بہت سے ممالک کا تیل کی تجارت ڈالر کے علاوہ کسی اور کرنسی میں کرنے کی کوشش کرنا۔
ساتواں: زیادہ تر بڑے اقتصادی ممالک خصوصاً امریکہ میں افراط زر کی مسلسل نمو۔
آٹھواں: مغرب میں انشورنس اور پنشن فنڈ کا بحران، خاص طور پر کیلیفورنیا کی آگ کے بعد۔
نویں: یورپ، چین اور جنوبی امریکہ میں خشک سالی کی لہر۔
دسواں: ٹرمپ کی مسلط کردہ تجارتی جنگ اور اس کی غیر منطقی پالیسیوں کا خوف۔
لہٰذا، امریکی معیشت اور عمومی طور پر عالمی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور آنے والے کسی بھی معاشی جھٹکے کو برداشت کرنے سے قاصر ہے، اور امریکہ میں ہر چیز اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو آنے والا ہے وہ اب تک کا بدترین بحران ثابت ہوگا۔
نجی شعبے میں، قرض کے پہاڑ میں گھریلو صارفین پر عائد قرض جن میں رہن (Mortgage)، کریڈٹ کارڈز، آٹو لون، طلباء کے قرضے، ذاتی قرضے، کاروبار اور کارپوریشنز (بینک لون، بانڈ قرض، نجی قرض) شامل ہیں۔
مالیاتی اور عوامی شعبے کا قرض، جس میں مرکزی، علاقائی اور مقامی حکومتی بانڈز شامل ہیں، تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، مضمر قرضوں، جیسے کہ پنشن منصوبوں اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام سے غیر فنڈ شدہ ذمہ داریوں کا بھی ذکر ضروری ہے، جو خاص طور پر یورپ اور امریکہ میں عمر رسیدہ آبادی کے ساتھ مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔
اگر ہم دنیا بھر میں قرضوں کے واضح اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب سے سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کے کل قرضوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ 1999 میں یہ شرح 200% تھی، جو 2021 میں بڑھ کر 350% تک پہنچ گئی، اور اب مختلف ترقی یافتہ معیشتوں میں یہ 420% تک جا چکی ہے۔ یہ تعداد دوسری جنگ عظیم کے بعد کے قرضوں سے کہیں زیادہ ہے۔
اسی حد سے زیادہ مناسب مالیاتی، مالی اور قرضہ پالیسیوں کے باعث مہنگائی میں اضافے نے ایک بار پھر سٹیگفلیشن (stagflation) کو جنم دیا ہے، جو بلند مہنگائی اور کمزور معاشی ترقی کا امتزاج ہے۔ بڑی عالمی معیشتوں کو اس سنگین صورتحال کا سامنا آخری بار 1970 کی دہائی میں کرنا پڑا تھا، لیکن اُس وقت جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضوں کا تناسب نسبتاً کم تھا، جبکہ آج یہ خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عالمی معیشت کو ایک زبردست دھچکا لگ رہا ہے کیونکہ قلیل اور درمیانی مدت میں جاری منفی سپلائی شاکس اقتصادی ترقی میں کمی اور قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس صورتحال کو مزید بڑھانے اور تیز کرنے والے عوامل میں وسیع پیمانے پر پھیلی جنگیں اور آنے والی آفات شامل ہیں، جیسے کہ یوکرین اور روس کی جنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کا منصوبہ، جو ایسے جغرافیائی و سیاسی تغیرات کو جنم دے سکتا ہے جو دنیا بھر میں سٹیگفلیشن کے دباؤ میں مزید اضافہ کریں گے۔
ہمیں آنے والے دنوں میں محتاط رہنا چاہیے، خاص طور پر عالمی بینک کے جاری کردہ بیانات سے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی زیادہ تر معیشتیں 2025 اور 2026 کے دوران بہت آہستہ آہستہ ترقی کریں گی۔
ٹرمپ کی مسلط کردہ دوسری تجارتی جنگ کی واپسی کے نتیجے میں اسٹاک ایکسچینجز اور کرنسیوں میں گراوٹ آئی، جس کے ساتھ ہی اسٹاک اور کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں بھی گر گئیں۔ اس حوالے سے وائٹ ہاؤس نے اپنی 1 فروری 2025 کو جاری کردہ فیکٹ شیٹ بعنوان "صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کینیڈا، میکسیکو اور چین سے درآمدات پر محصولات عائد کرتے ہیں"میں اعلان کیا کہ "صدر ٹرمپ جرات مندانہ اقدام کر رہے ہیں تاکہ میکسیکو، کینیڈا اور چین کو اپنے وعدوں کا پابند بنایا جا سکے، جو کہ غیر قانونی امیگریشن کو روکنے اور زہریلی فینٹینیل سمیت دیگر منشیات کی امریکہ میں ترسیل کو بند کرنے سے متعلق ہیں۔"
چین نے جواب دیا کہ فینٹینیل، جو کہ ایک مصنوعی اوپیئڈ درد کم کرنے والی دوا ہے جس کا اثر تیزی سے شروع ہوتا ہے اور مختصر مدت کے لیے رہتا ہے، یہ امریکہ کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ چین نے کہا کہ وہ ان محصولات کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) میں چیلنج کرے گا اور دیگر جوابی اقدامات کرے گا۔ بیجنگ کی وزارت تجارت نے ایک بیان میں کہا، "امریکہ کے یکطرفہ ٹیکس اقدامات WTO کے قواعد کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہیں اور چین-امریکہ اقتصادی و تجارتی تعاون کی بنیاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔"بیان میں مزید کہا گیا کہ چین ان محصولات سے "شدید عدم اطمینان اور سخت مخالفت"رکھتا ہے۔
عالمی اقتصادی پیش گوئی کرنے والی کمپنی آکسفورڈ اکنامکس نے ایک نوٹ میں کہا: "تجارتی جنگ ابتدائی مراحل میں ہے، اس لیے مزید محصولات کے امکانات زیادہ ہیں۔ جیسے جیسے مارکیٹیں اضافی محصولات کی غیر یقینی صورتحال کو مدنظر رکھیں گی، چینی یوآن (Chinese yuan) پر مسلسل قدر میں کمی کا دباؤ برقرار رہنے کا امکان ہے"۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ کے مطابق، انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا کہ منشیات کے کارٹیلز کو دہشت گرد قرار دے کر کسٹمز ڈیوٹیز کو مؤخر کیا جائے، 24/7 بارڈر کنٹرول کو یقینی بنایا جائے، اور کینیڈا اور امریکہ کے درمیان ایک مشترکہ اسٹرائیک فورس کا آغاز کیا جائے تاکہ منظم جرائم، منشیات اور منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ کینیڈین حکومت نے 4 مارچ 2025 کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا، "امریکہ میں داخل ہونے والی فینٹینیل اور غیر قانونی کراسنگز میں سے ایک فیصد سے بھی کم کینیڈا سے آتی ہیں، اس کے باوجود حکومت نے 1.3 بلین ڈالر کا ایک بارڈر پلان لانچ کیا ہے، جس میں نئے ہیلی کاپٹر، زمینی فورسز، مزید ہم آہنگی، اور وسائل میں اضافہ شامل ہے تاکہ فینٹینیل کے بہاؤ کو روکا جا سکے۔ اس میں کینیڈا کے نئے مقرر کردہ فینٹینیل زار، کینیڈا-امریکہ مشترکہ اسٹرائیک فورس، منظم جرائم اور فینٹینیل کے حوالے سے انٹیلی جنس ڈائریکٹیو، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معلومات کے تبادلے کی صلاحیت بڑھانے کے لیے 200 ملین ڈالر کی فنڈنگ شامل ہے۔" (canada.ca)
ان واقعات اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کا امتزاج امریکہ کو بڑھتی ہوئی معاشی کساد بازاری کی طرف لے جائے گا، جو بالآخر اسے ایک شدید مالی بحران کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ اس صورت میں، سرمایہ کاروں کا امریکی معیشت اور اس کی پالیسیوں پر اعتماد متزلزل ہو جائے گا۔ اگرچہ اس کے اثرات کا مکمل اندازہ مستقبل کے حالات اور عالمی منظرنامے کے مطابق لگایا جا سکتا ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ ایسے فیصلے امریکہ کو ایک بڑے مالیاتی بحران کی دہلیز پر لے جا سکتے ہیں۔
آج دنیا جس معاشی خسارے کا شکار ہو رہی ہے، وہ ایک تیز رفتار مالیاتی بحران کے قریب آنے کی نشاندہی کرتا ہے، جس سے عالمی سطح پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس بحران کے دوران ایسے مضبوط اثرات اور تبدیلیاں آئیں گی جو عالمی پوزیشنوں کو یکسر تبدیل کر سکتی ہیں، خاص طور پر اگر دنیا کے ممالک امریکی معیشت کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو توڑ دیں۔ اس سے امریکہ ناپسندیدہ حالات کا سامنا کرے گا اور اس کی سیاسی ذمہ داری میں بھی اضافہ ہوگا۔ لہٰذا یہ تمام عوامل دنیا کو ایک بڑی تبدیلی کی طرف دھکیلیں گے، جس کے نتیجے میں بین الاقوامی پوزیشن میں اہم تبدیلیاں آئیں گی اور بہت سے ممالک کو اس میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ ایسے ممالک کے لیے بھی ابھرنے کا موقع فراہم ہوگا جن کی عالمی سطح پر زیادہ اہمیت ہو سکتی ہے۔
لہٰذا، ہم مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے قیام کے لیے حزب التحریر کے ساتھ جدوجہد کے راستے پر گامزن رہیں، تاکہ یہ ابھرتی ہوئی ریاست دنیا پر حکمرانی کرے اور اسے سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے پیدا ہونے والے ہیں بحرانوں سے نکال کر اسلام کی وسعت اور روشنی کی طرف لے جائے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرٌ
"بے شک یہ اللہ کے لیے آسان ہے"[سورة الحج:70]۔
تحریر: پروفیسر نبیل عبدالکریم