بسم الله الرحمن الرحيم
شام میں معیشت کی تعمیر اور ازسرِ نو بحالی:
ایک مضبوط ریاست کی تشکیل؟ یا علاقائی نظام میں انضمام؟
(عربی سے ترجمہ)
ازقلم : أستاذ احمد القصص –لبنان
شام میں مجرم اسد حکومت کےسقوط کے بعد سے معیشت کی تعمیر اور اس کی بحالی کو اولین ترجیح دینے کی باتیں کثرت سے کی جا رہی ہیں۔ اور اس ترجیح کو تمام دیگر امور پر فوقیت دی جا رہی ہے کہ شام اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کی معیشت کو ازسرنو تعمیر نہ کر لیا جائے اور اس کے بے گھر شہریوں کی واپسی کو یقینی نہ بنا لیا جائے۔ تاہم اس مجرم حکومت کے خاتمے کے بعد سے بار بار دہرائے جانے والے بیانیے میں جو بات تشویش ناک ہے، وہ یہ تسلیم کرنا ہے کہ معیشت کی تعمیر اور بحالی صرف بڑی طاقتوں، بین الاقوامی تنظیموں اور عرب ممالک، خصوصاً خلیجی ریاستوں کی مالی اور سرمایہ کاری کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ مفروضہ بیانات اب بڑی مغربی طاقتوں اور علاقائی حکومتوں کے ساتھ "مضبوط اور اسٹریٹجک تعلقات" قائم کرنے کے جواز کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔ شام کے بہت سے مخلص افراد، جو مجرم حکومت کے سقوط پر خوشی سے سرشار تھے، ان بیانیوں کو اس انداز میں قبول کر چکے ہیں جیسے یہ بدیہی اور ناقابلِ تردید حقائق ہوں جنہیں ٹالا یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شامی معیشت کی بحالی اور ملک کی ازسرنو تعمیر کا واحد راستہ یہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بیانیہ، جو بین الاقوامی اور مغربی ذرائع ابلاغ و صحافت میں وسیع پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے، دراصل شام، اس کے عوام، اس کے بابرکت انقلاب، اور اس کی معیشت پر حملے کا ایک پہلو ہے۔ شام کی تعمیرِ نو اور معاشی ترقی کے جو منصوبے زیرِ بحث ہیں، وہ شام کے حالات، اس کے عوام، اس کی معیشت یا اس کے خودمختارانہ طور پر سیاسی فیصلے کرنےکے مطابق نہیں ہیں۔ بلکہ یہ منصوبے عالمی سرمایہ دار کمپنیوں اور مغربی ممالک کے معاشی منصوبوں کا حصہ ہیں، جن میں علاقائی حکومتیں، خاص طور پر خلیجی ریاستیں، مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور جو بین الاقوامی اور علاقائی سیاسی خبریں، اور عالمی و علاقائی معیشت سے متعلق رپورٹوں پر باقاعدگی سے نظر رکھتا ہو، وہ بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ بلادِ الشام، جس میں شام ایک بنیادی جزو ہے، اس وقت جن بڑے منصوبوں کی زد میں ہے ان کا ایک مرکزی پہلو یہ ہے کہ اس خطے کو ایک ایسے اقتصادی مرکز کے طور پر استعمال کیا جائے جو امریکہ، یورپ اوریہودی وجود کے اسٹریٹجک اہداف کو پورا کرتا ہو۔
اسی تناظر میں خطے کے بڑے اہم اور فیصلہ کن واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں لبنان میں ایرانی حزب کی طاقت کو کچلا گیا، اسے درحقیقت بین الاقوامی سرپرستی کے تحت لا کر تہران حکومت کے اثر و رسوخ کو محدود کر دیا گیا، شام سے ایرانی حزب کے اثر کو نکال باہر کیا گیا، غزہ پر شیطانی جنگ مسلط کی گئی، اور نئی شامی حکومت کے لیے روابط کھولے گئے، بلکہ اس کی سرپرستی تک کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ اس وسیع پیمانے پر پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کے ساتھ ہو رہا ہے جس میں خطے کے روشن مستقبل اور معاشی و ترقیاتی سطح پر خوشحالی کی نوید دی جا رہی ہے۔ لبنان اور شام کو تیز ترین تعمیرِ نو اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی امید دلائی جا رہی ہے، اور اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع میں اضافہ، بے روزگاری کی شرح میں کمی، فی کس آمدنی میں اضافہ، اور بنیادی انفراسٹرکچر کی ترقی کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ تو کیا یہ بات درست ہے؟ اور اگر درست ہے تو اس کی بنیاد کیا ہے؟
یہ بات صرف ایک کھوکھلا پروپیگنڈہ نہیں ہے، بلکہ جن عمومی جملوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کی حد تک یہ باتیں درست ہیں اور ان کے وقوع پذیر ہونے کا قوی امکان ہے۔ یا کم از کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اُن منصوبوں کا حصہ ہیں جو امریکہ اور اس کے ساتھ یورپ، علاقائی حکومتوں اور غاصب صیہونی وجود نے اس خطے کے لئے تیار کیے ہیں۔ یہ خطہ اب ایک بڑی اور امید افزا سرمایہ کاری کی علامت بن چکا ہے، خاص طور پر اس کے سمندری حدود میں موجود قدرتی گیس کے وسیع ذخائر کی دریافت کے بعد، جن کے ساتھ ساتھ اس کے تیل کے کنویں اور معدنی وسائل بھی ہیں۔ اس گیس کی دولت کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ امریکہ اور یورپ دونوں کے لئے ایک بڑا اسٹریٹجک سیاسی ہدف حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہ گیس اُس روسی گیس کا واحد مؤثر متبادل بننے کا اہل ہے، جسے ماسکو یورپی یونین کے ممالک کو فراہم کرتا تھا، اور جو روس کی سب سے اہم مالی آمدنی کا ذریعہ تھی، لیکن یوکرین کی جنگ کے آغاز کے بعد سے گیس کی فراہمی معطل ہو چکی ہے۔ اگر امریکہ مشرقی بحیرۂ روم میں واقع، یعنی بلادِ شام میں موجود گیس کے کنوؤں پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے اور اس گیس کو یورپ کو سپلائی کرتا ہے، تو وہ کئی اہم اسٹریٹجک اہداف حاصل کر لے گا۔ ان مقاصد میں سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ روس کو اس گیس کی آمدنی سے محروم کر دیا جائے جن کی بحالی کا وہ منتظر ہے۔ اس طرح یورپ کو روسی گیس کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، اور یورپی یونین اور روس کے درمیان قریبی تعلقات کا ایک سب سے اہم عنصر ختم ہو جائے گا۔ یورپ ایک بار پھر امریکہ کی جھولی میں آ گرے گا، کیونکہ اس خطے میں گیس کے کنٹرول کی کنجی اس کی حکومت کے ذریعے امریکہ کے ہاتھ میں ہو گی۔ اس کے علاوہ، ان سرمایہ کاریوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بہاؤ بڑی بڑی امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف جائے گا۔ اسی طرح شام، لبنان، اور غزہ کی تعمیرِ نو کے منصوبوں سے حاصل ہونے والی خطیر رقم بھی زیادہ تر امریکی کمپنیوں کو دی جائے گی، جب کہ اس میں یورپی، خلیجی، اور شاید چند ترک کمپنیوں کو بھی کچھ حصے دے دیئے جائیں۔
اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس وسیع تر اقتصادی منصوبے میں غاصب صیہونی وجود کو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ حصہ دیا جائے گا۔ اور اس سے بھی بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ پورا اقتصادی منصوبہ دراصل امریکہ کے سیاسی منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مرکز ابراہام معاہدہ (Abraham Accords)، صیہونی وجود کے ساتھ نارملائزیشن، اور اسے خطے کے ممالک کے لئے ایک فطری اور بنیادی شراکت دار تسلیم کرانا ہے۔ یہ سب عوامل ہمیں اس نتیجے تک لے جاتے ہیں کہ شام اور لبنان کے عوام سے جس "روشن اقتصادی مستقبل" کا وعدہ کیا جا رہا ہے، وہ درحقیقت ان کے مفادات کے مطابق نہیں بنایا گیا، بلکہ یہ ایسے امریکی منصوبے ہیں جو امریکہ کے مفادات، اس کے خطے سے متعلق منصوبے اور صہیونی وجود کے فائدے کو سامنے رکھ کر تیار کیے گئے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ بہت سے قارئین کے ذہن میں سب سے پہلا خیال یہ آئے گا کہ ہماری باتوں کا مطلب یہ ہے کہ شام اور لبنان کے عوام کو اس عظیم اقتصادی منصوبے سے کافی فائدہ حاصل ہوگا۔ سرمایہ کاری کے ذریعے ان کی معیشتوں میں بھاری رقوم آئیں گی، روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے، شام اور لبنان میں انفراسٹرکچر اور عوامی خدمات تعمیر ہوں گی اور ترقیاتی کام ہوں گے، اور اس کے نتیجے میں بہت سے بے گھر شامی واپس اپنے شہروں اور دیہاتوں کو لوٹ آئیں گے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ہمیں بین الاقوامی منصوبوں کے ساتھ مفادات کی اس باہمی ہم آہنگی پر کیا اعتراض ہے؟
اور اس کا جواب یہ ہے: جی ہاں، غالب گمان یہی ہے کہ واقعی سرمایہ اور روزگار کے مواقع کی فراوانی حاصل ہوگی، اور غالب امکان ہے کہ تعمیرِ نو، انفراسٹرکچر اور خدمات کے قیام و ترقی کے منصوبے بھی شروع ہوں گے، غالباً دونوں ممالک کے عوام کو ایک حد تک مالی خوشحالی نصیب ہو گی، خاص طور پر اس گزشتہ اذیت ناک دور کے مقابلے میں، وہ جہنم جیسا دور جس سے شامی عوام گزر رہے تھے جب سے اسد حکومت نے ان کے خلاف خونریزی کا بازار گرم کیا تھا، اور وہ اقتصادی تباہی جو تقریباً چھ سال قبل لبنان میں شروع ہوئی۔ لیکن! یہ سب کچھ ایک مہلک زہر میں لپٹا ہوا ہوگا۔ یہ "مالی خوشحالی" محض ایک عارضی مرحلہ ہوگی، جیسے کچھ دوسرے ممالک اور قوموں نے بھی ماضی میں اس کا تجربہ کیا کہ انہوں نے برسوں بلکہ شاید دہائیاں آسودگی میں گزاریں، مگر پھر پلک جھپکتے میں وہی اقوام غربت و محتاجی کا شکار ہو گئیں۔ اور ہمیں ایشیائی ٹائیگرز (Asian Tigers) کی معیشتوں کا انہدام بھولنا نہیں چاہیے، جنہوں نے کبھی دنیا کو ترقی کی مثالیں دی تھیں، لیکن پھر اچانک گہری معاشی گراوٹ کا شکار ہو گئیں۔
تاہم، اس سے کہیں زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اقتصادی بحالی، کہ جس کا لوگ انتظار کر رہے ہیں اور اکثریت جس کے لیے بے تاب ہے، وہ معیشت ہے جو اہلِ شام اور پورے خطے کی شناخت کے لیے بڑے خطرات میں سے ایک کی طرف لے جا رہی ہے، اور ان کی سکیورٹی کے تمام پہلوؤں، بشمول ملٹری، غذائی، سماجی، نظریاتی، ثقافتی اور تعلیمی... اور ان کے سیاسی فیصلوں اور تہذیبی مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو گا۔
جب بھی کوئی ملک اپنی معیشت کو کسی بڑے ملک یا اقتصادی آرڈر کا حصہ بنا دیتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک نے اپنی اقتصادی خودمختاری اور مقدر کو دوسرے ملک کی معیشت کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے۔ اگر اس دوسرے ملک کی معیشت محفوظ رہ جائےتو اس کے ساتھ اس ملک کی معیشت بھی محفوظ رہ سکتی ہے، اور البتہ اگر وہ معیشت تباہ ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ گروی رکھنے والے ملک کی معیشت بھی تباہ ہو جائے گی، بالکل ایسے ہی، جیسے کسی بڑی کمپنی کے خاتمے کے ساتھ اس کی تمام ذیلی تجارتی شاخیں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ جب کوئی بڑی طاقت یا اقتصادی آرڈر ایک ناقابل اعتماد دشمن ہو، تو وہ کسی بھی لمحے گروی رکھنے والے ملک کی معیشت کو برباد کر دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، اس طرح اسے مسلسل بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ اور شامی عوام کے لیے سب سے قریب ترین مثال لبنان کی ہے۔ لبنان میں ایران کی حزب کی حکمرانی کو ختم کرنے کے ایک امریکی سیاسی فیصلے کے نتیجے میں لبنانی معیشت پلک جھپکتے ہی تباہ ہو کر رہ گئی، اس کی کرنسی نے اپنی قدر کا 95 فیصد کھو دیا، اور اس کے زیادہ تر لوگ راتوں رات غریب، دیوالیہ اور محتاج ہو گئے۔ اس وقت اس کے تمام سیاستدانوں کی زبانیں یہی گردان کر رہی ہیں: "جس گہری کھائی میں ہم آ گرے ہیں، اس سے نکلنے کی کوئی امید نہیں، سوائے اس کے کہ ہم عالمی نظام کو راضی کرتے رہیں اور خود کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیں"۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنی معیشت کی کنجی امریکہ کے ہاتھوں میں دے دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک گناہِ کبیرہ ہے، کیونکہ یہ کفار کو مسلمانوں پر اختیار فراہم کرتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے واضح طور پر اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا ﴾
”اور اللہ کافروں کو مسلمانوں پر کوئی راہ نہ دے گا“ (النساء؛ 4:141)۔
اور اس اقتصادی انحصار کا ایک اور سنگین نتیجہ یہ ہے کہ ریاست اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں رہتی، بلکہ غلام بن جاتی ہے۔ کیونکہ جب ریاست کی اقتصادی ترقی غیر ملکی، اور یقیناً دشمن قوتوں کے ہاتھ میں ہو، تو وہ ان کی ناراضگی سے بچنے اور اُنہیں خوش رکھنے کی پوری کوشش میں لگی رہتی ہے، تاکہ اقتصادی فوائد قائم رہیں۔ وہ ریاست پھر ان دشمن ریاستوں کی کوئی بھی بات رَد نہیں کرتی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست اپنی خودمختاری اور فیصلہ سازی کی آزادی کھو بیٹھتی ہے۔ یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ وہ حکومتیں جو خود کو قرضوں میں جکڑ لیتی ہیں، اور بڑی طاقتوں کی امداد پر انحصار کرنے لگتی ہیں، تو پھر وہ اُن طاقتوں کے مطالبات — بلکہ احکامات — ماننے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اور یہ احکامات صرف اقتصادی نہیں ہوتے، بلکہ وہ ریاست کی قومی شناخت، نصابِ تعلیم، میڈیا، قوانین، عوام کے طرزِ زندگی، دینی اقدار و مقدسات، ملّی غیرت و ناموس، اور قومی سلامتی تک کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اور معیشت — جو کہ ریاست کی شہ رَگ ہے — وہ تو سب سے پہلے متاثر ہوتی ہے۔ اب ہم مصر اور اردن کی مثال لیں، جنہیں ٹرمپ دھمکا رہا ہے کہ اگر وہ اُس کے غزہ اور پورے مقبوضہ فلسطین کے لئے بنائے گئے منصوبے پر عمل نہ کریں گے تو وہ ان کی امداد بند کر دے گا اور ان کی معیشتیں تباہ کر دے گا۔
یہ جو بات ہم کہہ رہے ہیں، اس پر بہت سے لوگ یہ سوال ضرور کریں گے:
تو آخر پھر شام جیسا تباہ حال ملک اپنی اقتصادی زبوں حالی سے کیسے باہر نکل سکتا ہے؟ یہ تو ایک ایسا ملک ہے جو تباہ و برباد ہو چکا ہے، جس میں نہ بنیادی ڈھانچہ باقی ہے، نہ بنیادی سہولیات، اور نہ ہی وہاں عام زندگی گزارنے کے لیے ضروری وسائل میسر ہیں۔ تو اس کا معاشی نظام کیسے دوبارہ کھڑا ہوگا؟ اس کی تعمیر نو کیسے ممکن ہوگی اگر وہ بیرونی سرمایہ کاری، بین الاقوامی اور علاقائی منصوبوں سے مدد نہ لے؟ اور آخر وہ فنڈز کہاں سے لائے گا جو ان سب کاموں کے لئے درکار ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شام صرف اسی صورت میں اپنی معاشی بحالی حاصل کر سکتا ہے جب وہ اپنی اندرونی معاشی توانائیوں اور وسائل کو متحرک کرے۔ شام ایک ایسا ملک ہے جو "عطیہ دہندہ" ممالک اور تنظیموں کے مقاصد کے مطابق نہیں بلکہ اپنی ضروریات کے مطابق اس منصوبے کو حاصل کرنے کے لئے کافی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے، دھوکے میں رہنے والوں اور دھوکہ دینے والوں کے تخیلات ہی ہمیں اس حقیقت سے اندھا کیے ہوئے ہیں۔
کسی بھی ملک میں ایک کامیاب اور منافع بخش معیشت کی بنیاد دو عناصر پر ہوتی ہے:
- پہلا عنصر ہے قدرتی دولت یعنی توانائی کے ذرائع، خام مال، زرعی زمینیں، اور ذہانت و سائنسی مہارتوں کی دولت، جنہیں درست طریقے سے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اور شام کے پاس یہ تمام دولت موجود ہے۔
- دوسرا عنصر ایک معاشی نظام ہے یعنی وہ قوانین وضوابط جو مالی لین دین اور اقتصادی تعلقات کو منظم کرتے ہیں، دولت کی تقسیم کو بہتر بناتے ہیں، اور ملکیت کی اقسام کو واضح کرتے ہیں: یعنی انفرادی ملکیت، عوامی ملکیت، اور ریاستی ملکیت۔ یہ نظام ریاست کو یہ بھی واضح کرتا ہے کہ سرکاری خزانے کے محصولات اور اخراجات کے ذرائع کیا ہوں گے۔ اور یہ دوسرا عنصر دراصل وہ سب سے بڑی دولت ہے جو نہ صرف شامی عوام بلکہ پوری اسلامی امت کے پاس موجود ہے یعنی مفصل اور جامع اسلامی معاشی نظام، جس کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے لوگوں پر رحمت کے طور پر اور ان کی اقتصادی فلاح و بہبود کے لئے حکم فرمایا ہے۔ بدقسمتی سے اس نظام کی طرف کسی نے بھی کوئی توجہ نہیں دی ہے، نہ ہی انہوں نے جنہیں شام میں نئی نئی حکمرانی ملی ہے، اور نہ ہی اُن لوگوں نے جو شام کی معیشت اور اس کی تعمیرِ نو پر نظریات پیش کر رہےہیں۔ اس کے برعکس، وہ لوگ کسی باشعور سیاسی فکر کے بغیر مستعدی سے عالمی برادری، علاقائی حکومتوں اور ڈیووس کانفرنس (Davos Conference) کی گود میں جا گرتے ہیں، گویا وہیں سے علاج اور شفا حاصل ہو گی، حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ سب دراصل ایک مہلک زہر ہے۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ شامی وزیرِ خارجہ نے بلا کسی تردد کے اعلان کر دیا کہ ان کا ملک عوامی ملکیت میں شامل اثاثوں کو نجی ملکیت میں منتقل کرے گا، یعنی پرائیویٹائز کرے گا، بغیر اس بات کی پروا کیے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت نے ان اموال کو "عوامی ملکیت" قرار دیا ہے اور انہیں انفرادی ملکیت بنانا حرام ٹھہرایا ہے۔
کوئی یہ دعویٰ نہ کرے کہ یہ اقدامات محض عارضی اور عبوری نوعیت کے ہیں، اور صرف اس وقت تک کے لئے جب تک شام اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو جاتا، س کے بعد شام اسلامی معیشت کو اپنا لے گا اور خودکفالت حاصل کر لے گا۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جسے ایک نوآموز معیشت دان بھی مضحکہ خیز سمجھے گا۔ کسی ملک کی معیشت کو عالمی معیشت کے ہاتھ گروی رکھ دینا خودکفالت یا آزادانہ منصوبہ بندی کی راہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کے بالکل برعکس راستہ ہے۔ یہ راستہ ملک کو ایسی گمبھیر معاشی الجھن میں ڈال دے گا جس سے باہر نکلنا نہایت مشکل ہو جائے گا۔ اور اگر کبھی یہ فیصلہ کیا بھی گیا کہ اب اس راہ سے ہٹنا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جو کچھ بنایا جا چکا ہے، اُسے منہدم کر کے ازسرِ نو ایک نیا معاشی ڈھانچہ تعمیر کرنا پڑے گا۔ وہ غیر ملکی آقا، جو پورے معاشی ڈھانچے پر قابض ہے، وہی، اگر چاہے گا، تو اسے زمین بوس بھی کر سکتا ہے۔ وہ ایسا اس طرح کرے گا کہ مقامی معیشت کی رگوں کو اُن بیرونی ذرائع سے کاٹ ڈالے گا جو اس کے ساتھ جوڑ دیے گئے تھے اور جن سے وہ اپنی زندگی حاصل کر رہی تھی، اور یہ سب اُس کے اپنے منصوبے اور حکمتِ عملی کے تحت ہو گا۔ اس کا مطلب ہو گا ایک ہمہ گیر معاشی انہدام، جو ایک نئے معاشی نظام کی ضرورت پیدا کرے گا، ایسا نظام جو ملک کو عالمی معیشت پر انحصار سے بچا سکے۔ تو کیا کوئی عقلمند ایسا ہوگا جو کوئی عمارت صرف اس لیے بنائے کہ اُسے تھوڑی دیر بعد گرا دے؟!
ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین مثال موجود ہے، جب آپ ﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تھی۔ آپ ﷺ کے مدینہ پہنچتے ہی، جب آپؐ نے دیکھا کہ مدینہ کے لوگ ایک ایسے بازار پر انحصار کرتے ہیں جو مکمل طور پر یہودیوں کے کنٹرول میں تھا، تو آپ ﷺ نے فوراً مسلمانوں کے لئے ایک نیا بازار قائم کیا، تاکہ یہودیوں کی مسلمانوں کی معیشت پر اجارہ داری کا خاتمہ کیا جا سکے۔
یہ ہرگز نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم جو بات کر رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بیرونی دنیا سے معاشی تعلقات مکمل طور پر منقطع کر دئیے۔ نہیں، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے۔ لیکن ان دو باتوں میں واضح فرق ہے کہ ایک ریاست کے خارجی تعلقات تبادلہ جات پر مبنی ہوں، برابری کی بنیاد پر ہوں، اور ایسے ہوں کہ ریاست کو دوسروں کی معیشت کا محتاج نہ بناتے ہوں اور دوسری صورتحال یہ ہو کہ ریاست کی معیشت کو عالمی اور علاقائی سرمایہ دارانہ نظام کا ایسا جزو بنا دیا جائے کہ اس کے پاس خود اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہی نہ بچے۔
اب آئیے اس موضوع کے ایک اور پہلو کی طرف غور کرتے ہیں، جو اہمیت اور خطرے کے لحاظ سے مذکورہ بالا تمام پہلوؤں سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ اور وہ ہے 'امن کی معیشت' اور 'جنگ کی معیشت' کے مابین فرق۔
حالتِ جنگ میں موجود کسی بھی ملک کا سب سے بڑا معاشی جرم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی معیشت اور ترقی کو فقط پائیدار امن اور سلامتی کی بنیادوں پر تعمیر کرے۔ حالانکہ ان دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ شام اور پورا خطہ ایک میدانِ جنگ ہے، چاہے ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ ایک حقیقت ہے۔ اگر کوئی شام میں جابرانہ حکمرانی کے انہدام کو جنگ کے خاتمے اور پائیدار امن کے آغاز کے طور پر دیکھتا ہے، تو وہ یا تو دھوکے میں ہے، یا بالکل سادہ لوح ہے، یا پھر ایسا شریک کار ہے جو ان سازشوں سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے۔ بلاد الشام کے علاقے، اپنے چاروں علاقوں — یعنی شام، فلسطین، لبنان، اور اردن — ان سب کے بیشتر حصے یہودی، امریکی، اور روسی افواج کے قبضے میں ہیں یا کم از کم جزوی طور پر ان کے خطرے میں ضرور ہیں۔ یہ تمام صورتِ حال اہلِ شام اور ان کے اردگرد کے لوگوں پر ایک شرعی فریضہ عائد کرتی ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنے مقبوضہ علاقوں پر قابض کفار کے خلاف جہاد کو ایک شرعی ذمہ داری کے طور پر ادا کریں، اور ان باطل قومی سرحدوں کو کسی خاطر میں نہ لائیں جو کافر استعماری طاقتوں نے بنا دی تھیں جو کہ اسلام کے ایک واحد علاقے کو تقسیم کئے ہوئے ہیں اور بلادالشام کو چار چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ بات قابل فہم ہے کہ بعض قابضین، جیسے روسی قبضہ کو مذاکرات سے ختم کیا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال یہ بات یقینی ہے کہ یہودی وجود کا قبضہ ایک فیصلہ کن زمینی جنگ کے بغیر ہرگز ختم نہیں ہوگا۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ثابت کرتی ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ حالتِ جنگ ناگزیر ہے، اگر آج نہیں، تو کل ضرور۔ لہٰذا، جو معیشت تعمیر کی جائے، اسے ایک ایسے ملک کی معیشت کے طور پر تشکیل دیا جانا چاہیے جو ایک ایسے دشمن کے خطرے کی زد میں ہو جو اس کی اپنی زمین پر مورچے قائم کئے بیٹھا ہے، نہ کہ ایک ایسے ملک کی معیشت کے طور پر جو صرف بیرونی خطرات سے دوچار ہو۔کوئی بھی ذی شعور جو جنگ اور سیاست کے بنیادی اصولوں سےآگاہی رکھتا ہو، وہ بخوبی جانتا ہے کہ جنگی معیشت اور امن کی صورتحال کی معیشت میں کس قدر فرق ہوتا ہے اور یہ بھی کہ جنگ کی حالت میں تعمیرِ نو اور امن کی حالت میں تعمیرِ نو اور پائیدار سکیورٹی میں کیا فرق ہوتا ہے۔
ان دو صورتحال کے درمیان فرق کی مثالوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ریاست جو دشمن کے حملے کے خطرے سے دوچار ہو، وہ مہنگی لاگت والے تعمیراتی منصوبے اور انفراسٹرکچر تعمیر نہیں کرتی، اور نہ ہی اس قسم کی تعمیرات جو دشمن کے لئے آسانی سے تباہ کرنا ممکن ہوں اور جنہیں دوبارہ تعمیر کرنا مشکل ہو، جیسا کہ وہ ممالک تعمیرات کر رہے ہوتے ہیں جنہیں دشمن کے حملے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ ریاستیں ایسے بلند و بالا ٹاورز میں رہائشی یونٹس تعمیر نہیں کرتیں جنہیں آسانی سے بم کا نشانہ بنا جا سکتا ہو یا دشمن ایک ہی میزائل سے تباہ کر سکتا ہو، جیسا کہ دنیا نے براہِ راست نشریات میں بیروت اور غزہ میں تباہی کے مناظر دیکھے۔ بلکہ وہ انہیں الگ الگ یونٹس کی شکل میں بناتی ہیں، اس طرح کہ ہر علیحٰدہ رہائشی عمارت میں ایک، دو یا زیادہ سے زیادہ چار یونٹس ہوں۔ یہی اصول انتظامی اور سرکاری عمارات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
تجارتی منڈیاں بھی اُن بڑے شاپنگ کمپلیکس پر انحصار نہیں کرتیں جو حالیہ دہائیوں میں مقبول ہوئے ہیں۔ اسی طرح، ایسے بڑے مرکزی بجلی گھر بھی تعمیر نہیں کیے جاتے جنہیں دشمن ایک ہی حملے میں تباہ کر سکتا ہو۔ اس کے بجائے، مضافات میں چھوٹے چھوٹے جنریٹرز نصب کیے جاتے ہیں، جو سستے ہوتے ہیں اور اگر ترسیلی نظام کے کچھ حصے تباہ بھی ہو جائیں، تب بھی یہ سب جنریٹر بند نہیں ہو جاتے۔ اگر دشمن ان میں سے کچھ کو تباہ بھی کر دے، تو انہیں کم خرچ پر آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی اصول کے تحت بڑے پل استعمال نہیں کیے جاتے، کیونکہ یہ مہنگے ہوتے ہیں، دشمن کے لیے آسان ہدف ہوتے ہیں، اور ان کا تباہ ہو جانا آمدورفت کو شدید متاثر کر سکتا ہے، جبکہ ان کی دوبارہ تعمیر بھی مشکل اور وقت طلب ہوتی ہے۔ یہی اصول تیل نکالنے والے پلیٹ فارمز اور ریفائنریوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جب بڑی صنعتی تنصیبات تعمیر کی جاتی ہیں، خاص طور پر فوجی نوعیت کی، تو یہ دھیان رکھنا لازمی ہے کہ انہیں زمین کے اندر گہرائی میں یا پہاڑوں کے اندر تعمیر کیا جائے تاکہ دشمن کے فضائی حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ ماہرین اور تربیت یافتہ انجنئیرز ان اصولوں کو بہتر جانتے ہیں اور ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں، اور بہرحال یہاں ہم نے چند مثالیں ہی پیش کی ہیں۔ لبنان کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس کی تنصیبات، شہر اور بنیادی ڈھانچے کو بارہا ان جنگوں میں تباہ کیا گیا جو اس پر قابض صیہونی وجود نے مسلط کیں۔ اور ہر بار اس کے حکمران خود کو ان خطرات کے سامنے جھکنے پر مجبور پاتے ہیں، تاکہ حملے کے خطرات کو ٹالا جا سکے اور تعمیرِ نو کے لیے امداد حاصل کی جا سکے۔ ایسی امداد صرف ان شرائط کے ساتھ آتی ہے جو اس ملک کی خود مختاری اور خود اپنے فیصلے کرنے کی آزادی کو چھین لیتی ہیں، اور ملک کے وسائل کو لوٹ لیتی ہیں۔ یہاں تک کہ لبنان آج اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ اس نے عملاً خود کو اس عالمی سرپرستی کے حوالے کر دیا ہے، جس میں قابض صیہونی وجود خود بھی شریک ہے۔
جو لوگ موجودہ سیاسی حالات کا جائزہ لے رہے ہیں، اُن پر یہ بات مخفی نہیں کہ "امداد دہندگان" کی جانب سے شام میں جس اقتصادی ڈھانچے اور تعمیرِ نو کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، وہ ان تمام احتیاطی پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کئے ہوئےہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ امریکہ، علاقائی حکومتیں اور یہودی وجود جس تعمیر، ترقی اور سرمایہ کاری کا منصوبہ بنا رہے ہیں، وہ ایک ہمہ گیر منصوبہ ہے جس میں پورے خطے کے اقتصادی و سرمایہ کاری ڈھانچہ کو ایک دوسرے سے مربوط کیا جا رہا ہے، اور اس میں قابض یہودی وجود بھی شامل ہے۔ یہ منصوبہ دراصل امن معاہدوں، تعلقات کی بحالی، ابراہام معاہدوں، اور اس قابض ریاست کو خطے میں ضم کرنے کے مقصد کے تحت تیار کیا جا رہا ہے، جس کا نیا علاقائی نظام گزشتہ چند برسوں سے واضح ہونا شروع ہو گیا ہے۔
یوں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اگر نئی شامی حکومت بیرونی قوتوں کی جانب سے اس کے لیے تیار کیے گئے تعمیراتی اور سرمایہ کاری منصوبوں کی پابندی کرتی ہے، تو وہ دو کڑوے اور تلخ انتخابوں کے درمیان پھنس کر رہ جائے گی :
پہلا تلخ انتخاب یہ ہے کہ شام کا وہ وسیع معاشی اور شہری انفراسٹرکچر، جو عالمی اور خلیجی سرمایہ کاری کے پیمانے پر تعمیر کیا جائے گا، جلد یا بدیر قابض دشمنوں کے ساتھ ناگزیر جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی مکمل تباہی کا شکار ہو جائے گا۔ یہ تباہی شامی عوام کے لئے اور مجموعی طور پر بلاد الشام کے عوام کے لئےایک شدید اقتصادی، معاشی، اور اخلاقی دھچکا ہو گی، جس کے اثرات ابھی سے تصور کیے جا سکتے ہیں، اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو !
دوسرا تلخ اور زیادہ خطرناک انتخاب یہ ہے کہ یہ ریاست اپنے انفراسٹرکچر، شہری سہولیات، اور اقتصادی نظام میں اپنی موجودگی کی سلامتی کو ترجیح دیتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے شرعی فریضے کو ترک کر دے، جو کہ بابرکت سرزمین شام کی آزادی کے لئے ایک فریضہ ہے۔ اور یوں وہ امریکہ کی امن پالیسی کا حصہ بن جائے، غاصب یہودی وجود کے ساتھ بقاء کو قبول کرے، چاہے وہ باضابطہ طور پر تسلیم کرنے اور تعلقات کو معمول پر لانے کے ذریعے ہو، یا 1974ء میں دستخط شدہ "معاہدۂ علیحدگی" جیسے کسی عنوان کے تحت درپردہ تسلیم کرنے کے ذریعے ہو۔ اور اللہ اس صورتحال سے بچائے، کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور پورے خطۂ شام کے عوام، خواہ وہ شامی ہوں، فلسطینی ہوں، یا لبنانی اور درحقیقت پوری امتِ مسلمہ کے ساتھ کھلی غداری ہو گی۔
اے اہلِ شام! شام، لبنان اور اردن میں رہنے والو!
صورتحال انتہائی سنگین ہے اور منظرنامہ بہت خطرناک ہے۔ آپ کی وہ عظیم قربانیاں، جو آپ نے دہائیوں تک استعمار، قابضوں اور ظالموں سے آزادی کے لیے دی ہیں، ممکن ہے امریکی سازشوں، عالمی اور یہودی سرمایہ کاریوں، اور ابراہام معاہدوں کے ذریعے تعلقات معمول پر آنے کی قیمت پر ضائع ہو جائیں۔ اس راہ کو حیلوں بہانوں، باطل فتووں، اور عوام و خواص کی اس لاعلمی سے ہموار کیا جا رہا ہے، جو کہ آپ کے دین، عزت، سرزمین اور وقار کے لئے اس خطرے سے غافل ہیں جو ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ کیا وہ انقلاب جو کہ مساجد سے ابھرکر سامنے آیا ہے، جو لوگ اللہ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے یہ نعرہ لگاتے تھے کہ "هي لله هي لله لا للسلطة ولا للجاه" "یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے ہے، طاقت یا مرتبہ کے لئے نہیں"، اور کفر کے گروہوں کو چیلنج کرتے ہوئے یہ نعرہ لگاتے تھے، "قائدنا للأبد سيّدنا محمّد" "ہمیشہ کے لئے ہماے قائد و رہنما ہمارے آقا محمد ﷺ ہیں"؟ … کیا وہ بابرکت انقلاب امریکی سرمایہ کاری کے منصوبے اور یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر خود دفن ہو جانے پر راضی ہو جائے گا؟!
اے اہلِ شام! خوب غور سے سورۃ الانفال کی ان آیات کو پڑھو، اور تمہیں ایسا محسوس ہو گا جیسے یہ آیات آج تمہارے لئے ہی نازل ہوئی تھیں، جو تمہارے حالات اور تمہاری اُس راہ کو بیان کرتی ہیں جو تم نے اپنے مبارک انقلاب کے آغاز سے لے کر آج تک طے کی ہے، اور یہ بہترین نتیجہ کی نشاندہی کرتی ہیں :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (24) وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (25) وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (26) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (27) وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (28) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ﴾
”مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسول اللہ تمہیں ایسے کام کی طرف بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشے گا۔ اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤ گے(24) اور ڈرواس وبال سے جو تم میں سے صرف ان لوگوں پر نہیں پڑے گا، جنہوں نےظلم کیا ہوگا اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے(25)، اور یاد رکھو کہ جب تم زمین میں تھوڑے تھے، کمزور سمجھے جاتے تھے، تم ڈرتے تھے کہ تمہیں لوگ اُچک لے جائیں گے، پس اس نے تمہیں ٹھکانہ دیا اور اپنی مدد سے قوت دی، اور پاکیزہ چیزوں سے تمہیں رزق دیا تا کہ تم شکر گزار ہو جاؤ (26)، اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی خیانت نہ کرو، اور اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو جب کہ تم جانتے ہو (27)، تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد بڑی آزمائش ہیں ۔ اور اس بات کو بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا بھاری اجر ہے (28)، اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے فرقان (حق کو باطل سے جُدا کرنے والا ) بنا دے گا، اور تم سے تمہاری بُرائیاں دور کر دے گا، اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے (29) (الانفال؛ 8: 24-29) “
Latest from
- پوری انسانیت کی موت کے اعلان کا وقت آن پہنچا ہے
- ابو بکر صدیقؓ رضی اللہ عنہ کے اپنائے گئے مؤقف، حق پر ثابت قدم رہنے اور حق کو علی الاعلان بیان کرنے والے ہر مسلمان کے لئے مشعلِ راہ رہیں گے
- قرآنِ کریم کے ساتھ اخلاصِ کامل
- خلافت کے انہدام کے 104ویں سالانہ موقع پر حزب التحریر کی عالمی سرگرمیوں پر ایک نظر
- آخر یہ کیسے ہو گیا کہ کمیونزم نے تو اپنی ریاست قائم کر لی، جبکہ امت مسلمہ اپنی ریاست قائم نہیں کر سکی ؟!