الخميس، 06 صَفر 1447| 2025/07/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

الازہر کی خاموشی اور قتلِ عام کی صدائیں:

ایک بے بس بیان غزہ کو نہیں بچا سکتا 

 

 

خبر:

 

سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر اُس وقت زبردست بحث چھڑ گئی جب جامعة الازہر الشریف نے اپنا تفصیلی بیان حذف کر دیا—وہی بیان جس میں جامعة الازہر کے شیخ، احمد الطیب نے عالمی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی تھی تاکہ غزہ کو مہلک قحط سے بچایا جا سکے۔ الازہر کے اس بیان میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کے قتلِ عام کے تسلسل کے ساتھ، انسانیت کا ضمیر شدید آزمائش میں ہے، اور یہ انتباہ بھی دیا گیا تھا کہ جو کوئی "اسرائیل" کو اسلحہ فراہم کرتا ہے یا اس کے فیصلوں کی تائید کرتا ہے، وہ نسل کشی میں براہِ راست شریک سمجھا جائے گا۔ تاہم یہ بیان چند ہی منٹوں کے لیے سوشل میڈیا پر موجود رہا اور جلد ہی جامعة اللزہر کے تمام آفیشل پلیٹ فارمز سے خاموشی سے ہٹا لیا گیا۔ اس اقدام نے سوشل میڈیا صارفین کو حیرت اور تشویش میں مبتلا کر دیا۔ (الجزیرہ)

 

 

 

تبصرہ:

 

اس ہولناک قتلِ عام پر طویل خاموشی کے بعد، جس سے بچوں کے بال سفید ہو جائیں، اور جو الازہر کے سائے میں، اس کے در و دیوار کے قریب پیش آ رہا ہے، اور مبارک سرزمین، فلسطین، کے لوگوں کے قتل، قید اور فاقہ کشی کو دو سال گزر چکنے کے بعد، یہاں تک کہ اب وہ محض گولیوں سے نہیں بلکہ بھوک سے دم توڑ رہے ہیں؛ اور اس کے باوجود کہ غزہ کے لوگ بار بار اپنے قریبی ہمسایوں کو پکارتے رہے، مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی، حتیٰ کہ وہ امداد کی امید سے مایوس ہو کر بس اتنی درخواست کرنے لگے کہ رفح کی راہداری ہی کھول دی جائے۔۔۔ اور مزید۔۔۔۔۔ اور مزید۔۔۔۔ پھر کہیں جا کے الازہر شریف اور اس کے علماء کی "غیرت" بیدار ہوئی—اور انہوں نے ایک  بےجان، مدھم، اور بزدلانہ بیان جاری کیا، جو صرف کوئی کمزور یا بزدل شخص ہی دے سکتا ہے۔

 

الازہر نے دنیا کی "آزاد ضمیر رکھنے والی اور بااثر قوتوں" سے اپیل کی کہ وہ غزہ کے عوام کو "اسرائیل" کے مسلط کردہ ہلاکت خیز قحط سے نجات دلائیں، گویا الازہر خود کو اس اپیل سے الگ سمجھ رہا ہے، جیسے اس کا اس سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، جیسے وہ محض ایک "انسانی ادارہ" ہو جو غزہ سے اتنا ہی دور ہے جتنا مشرق مغرب سے۔

 

اس کا اندازِ بیان ترکی کے منافق حکمران، رجب طیب اردگان، سے کچھ مختلف نہیں تھا، جس نے کہا تھا: "غزہ میں انسانیت دم توڑ رہی ہے، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، امداد کی قلت ہے، اور بین الاقوامی برادری کو  فوری اور مستقل اخلاقی موقف اپنانے کی ضرورت ہے" وہ بھی یہی دعویٰ کرتا ہے کہ "یہ ایک مکمل نسل کشی ہے"

 

اور یہی بزدلانہ موقف الازہر کے اس بیان سے بھی مطابقت رکھتا ہے، جس میں اُس نے زور دے کر کہا کہ "مہاجرین کی پناہ گاہوں اور امداد کی تقسیم کے مراکز پر براہِ راست فائرنگ ایک سنگین جرم ہے"۔ الازہر نے یہ بھی کہا کہ "جو کوئی بھی اسرائیل کو اسلحہ یا فیصلہ جاتی حمایت فراہم کرتا ہے، وہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے"—اور پھر اپنی بات کو انہی پرانی، دہرائی ہوئی عبارتوں میں لپیٹا، جیسے: "عنقریب ظالموں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹیں گے۔"

 

یہ وہی زبان ہے اور وہی انداز ہے، جو اہلِ غزہ پر ظلم کرنے والوں سے ساز باز کرنے والے، اور یہودی وجود کے خفیہ پشت پناہ، اردگان کے بیانات سے مکمل ہم آہنگ ہے—جس نے خود کہا تھا: "جو شخص غزہ میں جاری نسل کشی پر خاموش ہے، وہ انسانیت کے خلاف اسرائیل کے جرائم میں شریک ہے"، اور پھر ایک "بین الاقوامی، انسانی اور واضح موقف" اپنانے کی اپیل کر دی تاکہ "ظلم کی مذمت" کی جا سکے

 

الازہر اور منافق اردگان—دونوں غائب کے صیغے میں بات کر رہیں ہیں، جیسے کہ وہ کسی تیسرے فریق سے مخاطب ہوں، اور جیسے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کے دائرۂ اختیار سے باہر کی بات ہو، اور جیسے کہ ان پر کوئی فرض عائد ہی نہیں ہوتا، اور جیسے کہ ذمہ داری صرف "کسی اور" کی ہے—یعنی اُن عالمی طاقتوں کی، اُن عالمی اداروں کی، جو دراصل اہلِ غزہ کے خلاف سازشوں میں برابر کے شریک ہیں۔ الازہر نے بس اتنے پر اکتفا کیا کہ "عالمی خاموشی" اور "انسانی ذمے داری کے فقدان" پر تنقید کی جائے، اور عالمی برادری کی لاپرواہی کی مذمت کر دی جائے—لیکن نہ تو اُس نے مصری حکومت کی مجرمانہ خاموشی کا ذکر کیا، نہ اپنے ہی وطن کے سوئے ہوئے لشکر پر سوال اٹھایا، اور نہ ہی اپنے علماء کی اُس مجرمانہ غفلت پر بات کی جو "لشکرِ کنانہ" (مصری فوج) کو اہلِ یہود کے خلاف جہاد پر آمادہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ گویا انہوں نے کبھی قرآن کی وہ آیت پڑھی ہی نہیں، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ﴾

"اے نبیﷺ! اہلِ ایمان کو قتال پر ابھاریے" (سورة الانفال - آیت 65)

 

اور ان مدھم بیانات، بزدلانہ موقف اور مایوس کن، نحیف دعوؤں کے باوجود، نہ یہود کو اور نہ ہی ان کے مصری حکمران حلیفوں کو یہ حد درجہ کمزور طرزِ اظہار بھی گوارا ہوا۔ چنانچہ انہوں نے الازہرِ شریف کے درباری علماء کو حکم دیا کہ وہ دوبارہ اپنی پرانی غفلت اور خاموشی کی طرف لوٹ جائیں، اور وہ چند الفاظ—جو بعض سادہ دلوں کو بظاہر "آتشیں" محسوس ہوئے تھے—فوراً واپس لے لیں، کیونکہ وہ تو ان کے مسلسل سکوت اور دائمی بےوفائی کے عادی ہو چکے تھے۔ چنانچہ یہ علماء اپنے الفاظ نگل گئے، نہ خدا سے حیاء کی، نہ اس کے بندوں سے۔ اور وہ حیاء کریں بھی کیوں؟ جبکہ وہ اللہ سے بڑھ کر کافروں سے ڈرتے ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ، فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ، إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ، أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً﴾

"کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا: اپنے ہاتھ روکے رکھو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؛ پھر جب اُن پر قتال فرض کیا گیا، تو اُن میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیئے، بلکہ اس سے بھی زیادہ" (سورة النسآء - آیت 77)

 

یہود کا اس مدھم اور بےجان موقف کو بھی مسترد کرنا اور اس پر ناراضگی کا اظہار کرنا، اس لیے نہیں کہ یہ بیانات کوئی جرأت مندانہ اقدام تھے یا ان کے لیے کسی خطرے کا باعث بن سکتے تھے—بلکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ محض رسمی بیانات ہیں، جو صرف عزت بچانے کے لیے جاری کیے گئے ہیں، اور وہ بھی صرف اس وقت، جب مسلمان عوام کا دباؤ شدید ہو گیا، جو اپنے غزہ کے بھائیوں کے دکھ میں تڑپ رہے ہیں اور غیظ و غصے سے کھول رہے ہیں۔

 

لہٰذا ان بیانات کے جاری کرنے والوں کو کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی تھا تاکہ عوام کے جوش و اضطراب کو وقتی طور پر تھاما جا سکے۔ ان بیانات کا مقصد نہ تو لوگوں کو جہاد پر ابھارنا تھا، نہ افواج کو حرکت دینا، کیونکہ یہی وہ بات ہے جو واقعی یہود کو ڈراتی ہے۔

 

یہ بیانات تو صرف اُن قوتوں کو مخاطب کرتے ہیں جو یا تو نامعلوم ہیں، یا وہ پہلے سے ہی یہود کی ہمنوا اور طرف دار ہیں۔ مگر یہود کو خوف اس بات کا ہے کہ کہیں یہی مدھم سرگوشیاں، ایک دن، اصل سمت اختیار نہ کر لیں... یعنی اُن سچی، خالص اور پرعزم آوازوں میں تبدیل نہ ہو جائیں، جو مسلمانوں کی افواج کو فوری حرکت میں لانے، تخت و تاج الٹنے، یہود سے قتال کرنے، اور ملک اور عوام کو اُن کے شر، ظلم اور جرائم سے نجات دلانے کا مطالبہ کریں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس سے یہود اور ان کے ایجنٹ مسلم حکمران واقعی خوف زدہ ہیں۔

 

اگر الازہر کے علماء واقعی اللہ کے لیے سنجیدہ اور مخلص ہوتے، تو وہ لوگوں کے سامنے واضح طور پر شرعی حکم بیان کرتے، اور وہ راہ دکھاتے جو حقیقتاً ان باطل سرحدوں کو توڑنے کا راستہ ہے—اور جو اب ہر صاحبِ بصیرت و بصارت پر بالکل واضح ہو چکا ہے—یعنی: اُن حکمرانوں کے تخت الٹ دینا جو یہود و نصاریٰ کے وفادار بنے بیٹھے ہیں، اور ایک ایسے راشد خلیفہ کا تقرر کرنا جو اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکومت کرے، اور  سرزمینِ مقدس، فلسطین، کو یہود کی نجاست سے پاک کرنے کے لیے فوج بھیجے۔

 

مگر افسوس۔۔۔۔ ہائے افسوس... ہائے افسوس!  الازہر کے علماء—سوائے اُن کے جن پر اللہ رحم کرے— ظالم حکمرانوں کے ساتھ کھڑے ہونے پر رضا مند ہو چکے ہیں، اور یوں وہ علماءِ دین نہیں بلکہ "علماءِ سلاطین" بن چکے ہیں۔ وہ اہلِ کتاب کے اُن مذہبی پیشواؤں کی مانند ہو گئے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ، فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ، وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا، فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ﴾

"اور جب اللہ نے اُن لوگوں سے میثاق لیا جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ: "تم ضرور اسے لوگوں پر واضح کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں"—تو انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا، اور اس کے بدلے حقیر قیمت لے لی۔ پس کیا ہی بُرا سودا ہے جو وہ کر رہے ہیں" (سورة آل عمران - آیت 187)

 

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے تحریر کردہ

 

بلال المہاجر - ولایہ پاکستان

Last modified onبدھ, 30 جولائی 2025 21:33

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک