الثلاثاء، 08 ربيع الثاني 1447| 2025/09/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی اسٹریٹجک معاہدہ

 

بدھ کے روز سعودی دارالحکومت ریاض میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف کے درمیان ’’مشترکہ اسٹریٹجک دفاعی معاہدے‘‘ پر دستخط ہوئے، جسے ذرائع ابلاغ نے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں ایک اہم موڑ اور ٹھوس تبدیلی قرار دیا۔ سعودی پریس ایجنسی (SPA) کے مطابق اس معاہدے کا مقصد ریاض اور اسلام آباد کے درمیان عسکری اور سکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط کرنا ہے، جس میں ٹریننگ، مہارتوں کا تبادلہ اور دفاعی اُمور میں تعاون شامل ہے۔ معاہدے میں یہ شق بھی رکھی گئی ہے کہ کسی بھی ایک فریق پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہو گا۔ اس واضح اعلان کے باوجود سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیا اس معاہدے سے پاکستان کی ’’ایٹمی ڈھال‘‘ (nuclear umbrella) کو سعودی عرب کے تحفظ تک پھیلانے کا عندیہ بھی ملتا ہے؟ خاص طور پر اس وقت جب پاکستانی حکام کے متضاد بیانات اور بعض غیر رسمی سعودی ذرائع کے اشارے بھی اسی امکان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اس معاہدے میں وہ عملی اقدامات بھی شامل ہیں جو پہلے ہی دونوں ممالک کے درمیان جاری تھے اور معروف بھی ہیں، مثلاً مشترکہ فوجی مشقیں، انٹیلیجنس معلومات کا تبادلہ، دفاعی صنعتوں میں تعاون اور ٹریننگ، اور اب یہ سب ایک باضابطہ سکیورٹی چارٹر کا حصہ بن چکے ہیں۔

 

اس اتحاد کا اعلان اس ذلت آمیز ناکامی کے بعد سامنے آیا جو کہ دوحہ پر یہودی وجود کے حملے اور اسلامی مزاحمت تحریک (حماس) کے چند رہنماؤں کے قتل کے ردعمل میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم نے اپنے اجلاسوں میں ظاہر کیا تھا۔ چنانچہ اس معاہدے کو ذرائع ابلاغ میں اس طرح پیش کیا گیا کہ اس کے ذریعے غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ عرب و مسلم حکمرانوں کی غداری اور وہاں پر یہودی وجود کے ہاتھوں برپا کئے جانے والے قتلِ عام سے توجہ ہٹا دی جائے، اور امتِ مسلمہ میں پھیلی مایوسی اور شدید تنقید کو بھی دبایا جا سکے۔ یہ معاہدہ دراصل اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ غزہ اور اس کی حمایت کے مسئلے کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور اس فرق کو بھی واضح کرتا ہے کہ کس طرح ’’نامعلوم خطرات‘‘ کے نام پر اپنے ایجنٹ حکمرانوں اور ریاستوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ شریعت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ مسلم افواج کو متحد کر کے مقبوضہ مسلم سرزمینوں کو آزاد کرایا جائے۔

 

یہ بھی عیاں ہے کہ واشنگٹن اس معاہدے کے بارے میں یا تو پہلے سے ہی باخبر تھا یا پوشیدہ طور پر اس معاہدے میں شریک تھا، کیونکہ قرائن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی اور پاکستانی قیادتوں نے یہ سکیورٹی معاہدہ طے کرنے سے قبل امریکہ سے ہدایات یا کم از کم ’’گرین سگنل‘‘ ضرور لیا ہے۔ سعودی اور پاکستانی حکمران، دونوں، عملاً امریکہ کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کسی بھی اسٹریٹجک اقدام سے قبل امریکہ کی منظوری کے بغیر ہرگز کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ اخبار الشرق الاوسط کے مطابق، منگل 17 ستمبر 2025ء کو، جب اس معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا، اُسی روز سعودی وزیرِ دفاع خالد بن سلمان بن عبد العزیز نے ریاض میں امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کے کمانڈر ایڈمرل بریڈ کوپر سے ملاقات اور بات چیت کی تھی۔

 

یہ معاہدہ امریکہ کے منصوبے "نیا مشرق وسطیٰ" کے عین مطابق ہے اور اسی کے دائرہ کار میں آتا ہے، جسے وہ اپنی بالادستی اور غلبے کے تحت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ اپنے دو ایجنٹ حکمرانوں کے درمیان ایسا معاہدہ انہیں ان چیلنجز سے بچانے کا ہی ایک ذریعہ ہے جن کا ان ممالک کو خطے میں سامنا ہے، بالخصوص اپنے عوام کے غیض و غضب سے، جو ان حکومتوں کو اکھاڑ پھینکنے اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کے ذریعے اسلام کی صبح نو طلوع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایسے اتحاد امریکہ کو اپنے عالمی حریفوں، یعنی چین، روس اور یورپ کے خلاف بھی استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کے ان دو کلیدی ممالک کے درمیان یہ قربت اس بات کی بھی خبر دیتی ہے کہ باقی مسلم ممالک پر ان کی قیادت کو مسلط کیا جائے تاکہ اس خطے کے متعلق امریکہ کے ویژن کو نافذ کیا جا سکے، جس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انہیں امریکہ کے بنائے ہوئے "ابراہیمی معاہدات" میں شامل کیا جائے، جس کی قیادت خطے میں امریکہ کا اڈہ یعنی یہودی وجود کر رہا ہے۔

 

اگرچہ پاکستانی اور سعودی حکمرانوں کے پروپیگنڈہ چینلز نے اس سکیورٹی معاہدے کو ایک بڑی کامیابی اور ’’دنیا کی واحد ایٹمی مسلم ریاست‘‘ اور سرزمینِ حرمین کے درمیان مصالحت کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن اگر دونوں حکومتوں کی حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ نہ تو انہیں امت کے امور کی دیکھ بھال سے کوئی سروکار ہے، اور نہ ہی امت کے مسائل میں مددوحمایت سے، اور ان حکمرانوں کی طرف سے یہودیوں، امریکیوں اور ہندوؤں جیسے دشمنوں کے خلاف عملی اقدام اٹھانے کا بھی قطعی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بلکہ ایسے مقاصد تو ان کے ایجنڈوں میں ہی شامل نہیں ہیں۔ یہ حکمران تو سرزمینِ حرمین یا ارضِ پاک، پاکستان کی حقیقی نمائندگی بھی نہیں کرتے۔ یہ دونوں حکومتیں شریعت کے مطابق حکومت نہیں کرتیں بلکہ صلیبی اتحاد کی رکنیت کے ذریعے اسلام دشمن محاذ کا حصہ ہیں، وہی اتحاد جس نے دو دہائیوں سے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر دراصل اسلام کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہوا ہے۔

 

پاکستان، وہ ملک جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا، ایسے رہنماؤں کے زیرِ قیادت نہیں ہے جو اسلام کے تحت حکمرانی کریں بلکہ ایک سیکولر نظام کے ماتحت ہے جو امریکہ کا وفادار ہے۔ امریکہ کے ایجنٹ، پرویز مشرف کے دور سے ہی یہ ملک، اس کے ادارے اور فوج کو سیکولرائز کئے جانے کا عمل جاری رہا، جس نے افغانستان میں امریکی مداخلت کا راستہ ہموار کیا، اور نتیجتاً لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستانی حکومت، پاکستان اور افغانستان میں امریکی بالادستی کی ضامن رہی ہے۔ اور پاکستانی حکومت سے بھی بدتر سعودی حکومت ہے، خصوصاً محمد بن سلمان کے زیر حکمرانی، جب اس نے "ویژن 2030" کے تحت برملا طور پر سیکولرازم کو اپنایا، جس نے امریکہ کے ساتھ مزید وفاداری بڑھائی اور اسلام کے خلاف دشمنی میں اضافہ کیا، علماء کو قید کیا اور سرزمینِ حرمین میں اخلاقی زوال کو پھیلایا، حتیٰ کہ انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے قیام کے ذریعے بے حیائی کو فروغ دیا اور عوام کو اسلامی اقدار اور شریعت سے دور کیا۔

 

شرعی فریضہ تو یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کے مابین وحدت قائم کی جائے، نہ کہ ایسے جزوی اتحاد جو اس جیسے معاہدے یا عرب لیگ جیسے اداروں کے ذریعے بنائے جائیں۔ یہ معاہدہ دراصل امریکہ کے کام کو آسان بناتا ہے تاکہ سعودی اور پاکستانی حکمرانوں کی حفاظت ممکن ہو اور داخلی و بیرونی خطرات سے ان غدار حکومتوں کے تحفظ کی امریکی ذمّہ داری کم کی جا سکے۔ یہ معاہدہ دراصل محمد بن سلمان کے لڑکھڑاتے اقتدار کی حفاظت کے فریضے کو پاکستانی فوجی کمانڈر کے ہاتھ سونپ دیتا ہے، چاہے یہ خطرات داخلی ہوں یا مشرقِ وسطیٰ میں خلافت کے قیام یا کسی بیرونی چیلنج سے متعلق ہوں۔ یہ اتحاد اس یہودی وجود کے خلاف قطعاً نہیں بنایا گیا جس نے اس مقدس خطے میں تباہی برپا کر رکھی ہے۔ ورنہ تو پاکستانی فوج اپنے شاہین میزائلز، جن میں جوہری وار ہیڈز نصب ہو سکتے ہیں، کیوں نہ استعمال کرتی تاکہ اس یہودی وجود کو صفحۂ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے اور اس مبارک زمین کو اس نجس وجود کے ناپاک قبضے سے آزاد کرائے، جس کا کہ رسول اللہ ﷺ نے وعدہ کیا ہے۔ اور سعودی فوج فلسطین کی آزادی کے لئے اپنی فورسز کیوں نہ بھیجتی بلکہ اس نے اپنی فوج کو یمن بھیجا تاکہ وہاں امریکی اثر و رسوخ مضبوط کیا جا سکے؟ تو جواب واضح ہے: کہ یہ کھلی غداری، اسلام سے انکار، اور امریکہ کے ساتھ وفاداری ہے، اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مومنوں کے ساتھ وفاداری نہیں۔

 

الرایہ اخبار کے شمارہ نمبر 566 کے لئے تحریر کیا گیا

 

بلال المہاجر/پاکستان

 

 

Last modified onمنگل, 30 ستمبر 2025 20:33

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک