الأربعاء، 27 جمادى الثانية 1447| 2025/12/17
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اللہ تعالی کے قوانین تبدیل نہیں ہوتے

 

 

تحریر: سُلافہ شومان رحمۃ اللہ علیہا

 

 

(ترجمہ)

 

 

ہماری بہن، مصنفہ سُلافہ شومان، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف منتقل ہو گئیں۔ انتقال سے پہلے انہوں نے  مجلہ "الوعی" کو اپنا آخری مقالہ بھیجا ، جو فکری اور دعوتی میدانوں میں ان کے سفر کا ایک خوشگوار اختتام ثابت ہوا۔  اللہ ان پر رحم فرمائے؛ بہن سُلافہ مجلے کے مصنفین اور خاندان کا حصہ تھیں ، انہوں نے اپنے مخلص قلم سے وہ مواد پیش کیا جو امت کے درد کو محسوس کرتا تھا اور ان کی پختہ شعوری فکر کی ترجمانی کرتا تھا۔

 

 

ہم ان کے اہلِ خانہ اور اقارب کی خدمت میں دلی تعزیت پیش کرتے ہیں ، اور اللہ العلی، العظیم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں اپنے ہاں بہترین قبولیت سے نوازے ، ان کی منزل کو باعزت بنائے ، انہیں گناہوں اور خطاؤں سے پاک کر دے ، اور ان کے لواحقین کو حسین صبر اور احتساب کی توفیق عطا فرمائے۔

 

 

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، ایسی تعریف جو بکثرت، پاکیزہ اور بابرکت ہو ، ایسی تعریف جو اس کی عظمت اور اس کے عظیم غلبے کے شایانِ شان ہو۔  درود و سلام ہو رسولوں کے سردار اور ان کے امام، ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ، اور ان کی آل، ان کے صحابہ اور ان تمام ہستیوں پر جو قیامت تک ان ﷺکی پیروی کریں اور انﷺ سے محبت رکھیں۔

 

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

 

(وَلَوۡ قَٰتَلَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوَلَّوُاْ ٱلۡأَدۡبَٰرَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيّٗا وَلَا نَصِيرٗا ٢٢)

 

(اور اگر کافر لوگ تم سے لڑتے تو پیٹھ پھیر لیتے، پھر نہ کوئی حمایتی پاتے اور نہ مددگار [22])

 

عربی زبان میں سنت:

 

لفظ 'سُنت' کے اصل حروف  (سین اور نون ہیں   جس کا مطلب  ہے کسی چیز کا آسانی سے جاری ہونا اور مسلسل چلتے رہنا۔  اس کی جمع "سُنَن" ہے۔  یہ لفظ کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے : یہ طریقہ اور سیرت کے معنی میں آتا ہے، خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔  سُنت، کا مطلب عادت بھی ہے۔  اور "سُنَّۃُ اللّٰہ" سے مراد مخلوق کے بارے میں اللہ کا حکم ہے، یعنی وہ احکام جو اس نے اپنی مخلوق پر جاری کر رکھے ہیں۔جب یہ لفظ شرعی اصطلاح میں استعمال ہوتا ہے، تو اس سے مراد وہ چیز ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، منع کیا یا تجویز کیا، قول اور فعل دونوں میں، جس کا قرآن پاک میں واضح طور پر ذکر نہیں ہے۔اسی لیے شرعی دلائل میں کہا جاتا ہے: "الکتاب والسنۃ" یعنی قرآن اور حدیث۔  علمائے حدیث کی اصطلاح میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد وہ چیز ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل، اور تقریر ہو، جسمانی یا اخلاقی خصوصیات کے لحاظ سےمنسوب ہو  یا کسی صحابی یا تابعی کی طرف منسوب کی ہو، ان معاملات میں جہاں ذاتی رائے کا عنصر نہ ہو۔ اسلامی قانون میں، سنت سے مراد دین میں ایک قابل تعریف عمل ہے جو نہ تو واجب ہو اور نہ ہی  ضروری ہو۔ سنت ،سے مراد فطرت، کردار، صورت اور شکل بھی ہیں۔ مثلاً، کہا جاتا ہے کہ وہ صورت کے لحاظ سے اس سے سب سے زیادہ مشابہ ہے۔ اہل سنت سے مراد اہل بدعت کے مخالف لوگ ہیں۔

 

جہاں تک ہمارے موضوع کا تعلق ہے، لفظ "سنن" کا کوئی بھی اصطلاحی معنی اس قدر عام نہیں ہوا کہ وہ مادی قوانین کے مترادف ہو جائے ، لہٰذا  اس کا لسانی معنی اس سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ قرآن و حدیث میں "سنت" اور "سنن" کا استعمال اس طرز عمل یا بعض اعمال کے بعد انسانی معاشروں پر پڑنے والے اثرات کو ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے سنت قائم کی ہے اور مسلمانوں کو اسے جاننے یا دریافت کرنے کا حکم دیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ سنت خدا کا حکم ہے۔ اللہ کی سنت اس کے احکام ہیں جو اس نے اپنی مخلوق کے لیے مخصوص قوانین کے مطابق نافذ کیے ہیں۔

 

جس آیت کریمہ سے میں نے اپنی بحث کا آغاز کیا ہے اس سے ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں سنت کو قائم کیا ہے، یعنی مخصوص احکام و قوانین۔ یہ احکام نہ بدلتے ہیں اور نہ تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حکم ہے، اور آیت کریمہ اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

 

اس آیت کا موضوع مومنوں کی نصرت کی وہ سنت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے ، جو انہیں ایمان پر قائم رہنے، اللہ سے مدد مانگنے اور اسی کی نصرت طلب کرنے کی صورت میں فتح اور تمکین کی بشارت دیتی ہے۔  اس میں دعوتی طریقوں اور ان کے نتائج کے لیے ایک سبق مضمر ہے ، جو بشارت اور ڈرانے کے ساتھ ساتھ اچھے عمل کی ترغیب دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم   سے خطاب درحقیقت ان کی پوری امت سے خطاب ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں اور کفار قریش کے درمیان لڑائی کی اجازت ہوتی  جیسا کہ ہجرت کے چھٹے سال ہوا جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے نکلے لیکن مشرکین نے انہیں روک دیا ، تو اگر لڑائی کی نوبت آتی تو حق والوں (مسلمانوں) کو باطل والوں (قریش کے کافروں) پر غلبہ اور فتح حاصل ہوتی۔  پھر اگلی آیت میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ یہ حکم (یعنی حق کی باطل پر اور ایمان کی کفر پر فتح) اللہ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے ، بالفاظ دیگر، حق اور باطل کے درمیان کشمکش میں یہ اللہ کا اٹل حکم اور قانون ہے ، بشرطیکہ اہل حق اللہ کی معیت میں ہوں۔  یہ اس امر کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ یہ قوانین اور احکام نہ بدلتے ہیں اور نہ تبدیل ہوتے ہیں۔

 

منکرین حق کو عذاب دینے سے متعلق اللہ کے قائم کردہ قوانین میں عبرت ہے۔ یہ سنت متکبروں کی جانب سے  پیغمبروں کو جھٹلانے اور دنیاوی زندگی کے فریب میں مبتلا ہونے والوں کے لیے ہے۔ یہ قانون ان کے لیے ایک سبق کے طور پر بھی کام کرتے ہیں، جو ان لوگوں سے متعلق  ہیں جو ان سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھے، پھر بھی آخرکار سزا کی لپیٹ میں آ گئے۔ یہ سچ اور باطل کے درمیان کشمکش کو واضح کرتا ہے۔ قرآن پاک میں جو آیات اس معنی کی تصدیق اور تاکید کرتی ہیں ان کو دہرایا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ إِن يَنتَهُواْ يُغۡفَرۡ لَهُم مَّا قَدۡ سَلَفَ وَإِن يَعُودُواْ فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ ٱلۡأَوَّلِينَ ٣٨) [الأنفال: 38].

 

(ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر وہ باز آجائیں تو جو کچھ ہو چکا ہے اسے معاف کر دیا جائے گا، لیکن اگر وہ (کفر کی طرف) لوٹ جائیں تو پہلے لوگوں کی نظیر گزر چکی ہے۔) [الانفال: 38]۔ 

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(إِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا ٱلذِّكۡرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَٰفِظُونَ ٩ وَلَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ فِي شِيَعِ ٱلۡأَوَّلِينَ ١٠ وَمَا يَأۡتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُواْ بِهِۦ يَسۡتَهۡزِءُونَ ١١ كَذَٰلِكَ نَسۡلُكُهُۥ فِي قُلُوبِ ٱلۡمُجۡرِمِينَ ١٢ لَا يُؤۡمِنُونَ بِهِۦ وَقَدۡ خَلَتۡ سُنَّةُ ٱلۡأَوَّلِينَ ١٣) [الحجر: 9-13].

 

(بے شک ہم نے نصیحت(قرآن) کو نازل کیا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کے نگہبان ہوں گے اور ہم نے تم سے پہلے امتوں کے فرقوں میں بھی رسول بھیجے ہیں اور ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اس طرح ہم اسے مجرموں کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں، وہ  ایمان نہیں لائیں گے اور پہلے لوگوں کی نظیر گزر چکی ہے )۔ [الحجر: 9-13]

 

اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(وَإِن كَادُواْ لَيَسۡتَفِزُّونَكَ مِنَ ٱلۡأَرۡضِ لِيُخۡرِجُوكَ مِنۡهَاۖ وَإِذٗا لَّا يَلۡبَثُونَ خِلَٰفَكَ إِلَّا قَلِيلٗا ٧٦ سُنَّةَ مَن قَدۡ أَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ مِن رُّسُلِنَاۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحۡوِيلًا ٧٧) [الإسراء: 76-77]

 

(اور وہ تمہیں اس ملک سے نکالنے والے تھے کہ تم کو وہاں سے نکال دیں اور پھر وہ تمہارے بعد کچھ ہی عرصہ باقی  رہ سکتے۔ یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جو ہم نے تم سے پہلے اپنے پیغمبر بھیجے تھے اور تم ہمارے طریقے میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔

 

معاشرتی سنت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حق اور باطل کے درمیان یہ کشمکش محض حق سے بغض اور نفرت تک محدود نہیں رہتی ، بلکہ یہ عداوت کو ظاہر کرنے اور اہلِ دعوت سے مقابلہ آرائی تک منتقل ہو جاتی ہے۔ باطل محض سچائی کے وجود سے بھی مطمئن نہیں ہوتا، کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ حق میں ایک متحرک، غیر ساکن ذاتی قوت موجود ہے  جو صرف پھیلنے، وسعت اختیار کرنے، اثر ڈالنے، مددگار اور پیروکار حاصل کرنے، اور غلبہ و حکمرانی قائم کرنے کو قبول کرتی ہے۔  اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ حق غالب آتا ہے، اگرچہ اس میں کچھ دیر لگ جائے ، اور اگر کسی دن باطل کو عارضی حکومت مل بھی جائے تو وہ دائمی نہیں ہوتی ؛ باطل جلد ہی مٹ جاتا ہے اور حق قائم ہو جاتا ہے ۔ خواہ وہ داعیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیں، انہیں قید کر دیں، یا انہیں قتل کر دیں، باطل کبھی بھی حق کی جگہ نہیں لے سکتا۔  یہ ایک اٹل سنت ہے جو نہ بدلتی ہے اور نہ اس میں تبدیلی آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،

 

(مَّا كَانَ عَلَى ٱلنَّبِيِّ مِنۡ حَرَجٖ فِيمَا فَرَضَ ٱللَّهُ لَهُۥۖ سُنَّةَ ٱللَّهِ فِي ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلُۚ وَكَانَ أَمۡرُ ٱللَّهِ قَدَرٗا مَّقۡدُورًا ٣٨) [الأحزاب: 38]

 

[فاطر: 42-43} (نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو اللہ نے ان پر فرض کر دیا ہے، یہ اللہ کا قائم کردہ طریقہ ہے جو پہلے گزر چکے لوگوں میں بھی جاری رہا، اور اللہ کا حکم طے شدہ ہے۔) [الاحزاب: 38]

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(وَأَقۡسَمُواْ بِٱللَّهِ جَهۡدَ أَيۡمَٰنِهِمۡ لَئِن جَآءَهُمۡ نَذِيرٞ لَّيَكُونُنَّ أَهۡدَىٰ مِنۡ إِحۡدَى ٱلۡأُمَمِۖ فَلَمَّا جَآءَهُمۡ نَذِيرٞ مَّا زَادَهُمۡ إِلَّا نُفُورًا ٤٢ ٱسۡتِكۡبَارٗا فِي ٱلۡأَرۡضِ وَمَكۡرَ ٱلسَّيِّيِٕۚ وَلَا يَحِيقُ ٱلۡمَكۡرُ ٱلسَّيِّئُ إِلَّا بِأَهۡلِهِۦۚ فَهَلۡ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ ٱلۡأَوَّلِينَۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ ٱللَّهِ تَبۡدِيلٗاۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ ٱللَّهِ تَحۡوِيلًا ٤٣)

 

"اور انہوں نے اپنی قسموں میں حد بھر کی کوشش کر کے اللہ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈر سنانے والا آیا تو وہ ضرور تمام امتوں میں سے (ہر) ایک امت سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں گے (لیکن) پھر جب ان کے پاس ڈر سنانے والا تشریف لایا تواس نے ان کی نفرت میں ہی اضافہ کیا۔زمین میں بڑائی چاہنے اور برا مکروفریب کرنے کی وجہ سے (وہ ایمان نہ لائے) اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے ،تو وہ پہلے لوگوں کے دستورہی کا انتظار کررہے ہیں تو تم ہرگز اللہ کے دستور کیلئے تبدیلی نہیں پاؤ گے اور ہرگز اللہ کے قانون کیلئے ٹالنا نہ پاؤ گے۔" [فاطر: 42-43]

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(أَفَلَمۡ يَسِيرُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ فَيَنظُرُواْ كَيۡفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِهِمۡۚ كَانُوٓاْ أَكۡثَرَ مِنۡهُمۡ وَأَشَدَّ قُوَّةٗ وَءَاثَارٗا فِي ٱلۡأَرۡضِ فَمَآ أَغۡنَىٰ عَنۡهُم مَّا كَانُواْ يَكۡسِبُونَ٨٢فَلَمَّا جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُم بِٱلۡبَيِّنَٰتِ فَرِحُواْ بِمَا عِندَهُم مِّنَ ٱلۡعِلۡمِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُواْ بِهِۦ يَسۡتَهۡزِءُونَ٨٣ فَلَمَّا رَأَوۡاْ بَأۡسَنَا قَالُوٓاْ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَحۡدَهُۥ وَكَفَرۡنَا بِمَا كُنَّا بِهِۦ مُشۡرِكِينَ ٨٤ فَلَمۡ يَكُ يَنفَعُهُمۡ إِيمَٰنُهُمۡ لَمَّا رَأَوۡاْ بَأۡسَنَاۖ سُنَّتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِي قَدۡ خَلَتۡ فِي عِبَادِهِۦۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ ٱلۡكَٰفِرُونَ٨٥) [غافر: 82-85].

 

(کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی اور دیکھا کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیسا ہوا؟ وہ تعداد اور طاقت اور زمین پر نشانوں میں ان سے زیادہ طاقتورتھے، لیکن جو کچھ وہ کماتے تھے وہ ان کے کسی کام نہ آیا، 82 پھر جب ان کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل لے کر آئے تو وہ اس پر خوش ہوئے کہ ان کے پاس جو علم تھا اور جس چیز کا وہ مذاق اُڑاتے تھے وہ ان کو آ گھیرنے والی تھی، پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم صرف اکیلے اللہ پر ایمان لائے اور ہم ان چیزوں کا انکار کرتے ہیں جنہیں ہم شریک بناتے تھے۔  لیکن جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔ یہ اللہ کا قائم کردہ طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزرا ہے۔ اور وہاں کافر ہار گئے۔)

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(وَسَارِعُوٓاْ إِلَىٰ مَغۡفِرَةٖ مِّن رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ عَرۡضُهَا ٱلسَّمَٰوَٰتُ وَٱلۡأَرۡضُ أُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِينَ ١٣٣ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي ٱلسَّرَّآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَٱلۡكَٰظِمِينَ ٱلۡغَيۡظَ وَٱلۡعَافِينَ عَنِ ٱلنَّاسِۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِينَ ١٣٤ وَٱلَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَٰحِشَةً أَوۡ ظَلَمُوٓاْ أَنفُسَهُمۡ ذَكَرُواْ ٱللَّهَ فَٱسۡتَغۡفَرُواْ لِذُنُوبِهِمۡ وَمَن يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ وَلَمۡ يُصِرُّواْ عَلَىٰ مَا فَعَلُواْ وَهُمۡ يَعۡلَمُونَ ١٣٥ أُوْلَٰٓئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغۡفِرَةٞ مِّن رَّبِّهِمۡ وَجَنَّٰتٞ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَاۚ وَنِعۡمَ أَجۡرُ ٱلۡعَٰمِلِينَ ١٣٦ قَدۡ خَلَتۡ مِن قَبۡلِكُمۡ سُنَنٞ فَسِيرُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ فَٱنظُرُواْ كَيۡفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلۡمُكَذِّبِينَ(١٣٧) [آل عمران: 133-137]

 

  (اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور اس باغ کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے ،وہ لوگ  جو آسودگی اور تنگی میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو روکتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے، اور وہ لوگ کہ جب کوئی برا کام کرتے ہیں یا اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں تو ان کو اللہ یاد آ جاتا ہے تو وہ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور سواے اللہ کے گناہوں کو کون معاف کر سکتا ہے؟وہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے،  یہ وہ لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گےکیا ہی خوب بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا۔ یقیناً کئ طریقے تم سے پہلے گذر چکے ہیں تو تم چلو زمین میں پھر دیکھو کیسا ہوا جھٹلانے والوں کا انجام [آل عمران: 133-137]۔

 

ان آیات مبارکہ کے ذریعے اور ان پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی سنت یا اللہ کی سنتیں اللہ کے وہ احکام اور قوانین ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لئے اس زندگی میں نافذ کئے ہیں اور ان میں کوئی تغیر یا تبدیلی نہیں کی جاتی ہے۔

 

پہلا: زمین پر انسان کی جانشینی - صحیح اور غلط کے درمیان تصادم کی روایت کا پیش خیمہ:

 

انسان زمین پر اللہ کے نائب ہے، جن کو اس کے الہی منصوبے کے مطابق دنیا کی نشوونما کا کام سونپا گیا ہے، جس میں بغیر کسی شریک کے صرف اسی کی عبادت کرنا شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

(وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٞ فِي ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةٗۖ قَالُوٓاْ أَتَجۡعَلُ فِيهَا مَن يُفۡسِدُ فِيهَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَۖ قَالَ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ ٣٠)[البقرة: 30].

 

(اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر خلیفہ بناؤں گا، انہوں نے کہا: کیا تو اس پر ایسے شخص کو کھڑا کرے گا جو اس میں فساد کرے اور خون بہائے، جب کہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں؟) اس نے کہا: بیشک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔(30)

 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

(وَمَا خَلَقۡتُ ٱلۡجِنَّ وَٱلۡإِنسَ إِلَّا لِيَعۡبُدُونِ ٥٦) [الذاريات: 56].

 

(اور میں نے نہیں بنایا جن اور انسان کو سوائے میری عبادت کےلیے۔) [الذاریات: 56]۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

(وَمَآ أُمِرُوٓاْ إِلَّا لِيَعۡبُدُواْ ٱللَّهَ مُخۡلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ حُنَفَآءَ وَيُقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤۡتُواْ ٱلزَّكَوٰةَۚ وَذَٰلِكَ دِينُ ٱلۡقَيِّمَةِ ٥) [البينة: 5]

 

(اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے لیے دین میں خالص ہو کر حق کی طرف مائل ہوں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اور یہی صحیح دین ہے۔  [البینہ: 5]

 

یہ آیات اللہ کے قائم کردہ قوانین میں سے ایک کی تصدیق کرتی ہیں: کہ اس نے بنی نوع انسان کو بیکار نہیں بنایا، بلکہ ایک عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا ہےجو انسانیت کو بلند کرتا ہے، اسے جانوروں کی طرح پست ہونے سے روکتا ہے۔

 

یہ ہدف اللہ کے منہج (طریقہ) کے مطابق زمین کو آباد کرنے ، اور اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت کو خالص کرنے میں پوشیدہ ہے ، اور اس کا اعلیٰ مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا، اور پھر آخرت میں جنت کی کامیابی ہے۔  اس کے علاوہ، اس ہدف اور غایت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انسان کو بطورِ انسان عزت اور کرامت حاصل ہو۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

(وَلَقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِيٓ ءَادَمَ وَحَمَلۡنَٰهُمۡ فِي ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ وَرَزَقۡنَٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ وَفَضَّلۡنَٰهُمۡ عَلَىٰ كَثِيرٖ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِيلٗا ٧٠) [الإسراء: 70].

 

(اور یقیناً ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے اور انہیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا ہے اور انہیں پاکیزہ چیزیں مہیا کی ہیں اور ان کو اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے زیادہ پر فضیلت دی ہے۔ ) [الاسراء: 70]۔

 

دوم: آزمائش کی سنت:

 

یہ آزمائش مومن کو کافر سے، مطیع کو نافرمان یا فاسق سے، اور ناپاک کو پاکیزہ سے ممتاز کرنے کے لیے ہے ، اور بالآخر اہل حق کو اہل باطل سے جدا کرنے کے لیے ہے ، تاکہ اہل حق دنیا میں نصرت اور تمکین کے ذریعے اور آخرت میں جنت کے ذریعے ثواب کے مستحق ٹھہریں ، جبکہ اہل باطل دنیا میں عذاب اور آخرت میں جہنم کے مستحق ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے::

 

(ٱلَّذِي خَلَقَ ٱلۡمَوۡتَ وَٱلۡحَيَوٰةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ أَيُّكُمۡ أَحۡسَنُ عَمَلٗاۚ وَهُوَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡغَفُورُ ٢)[الملك: 2].

 

(وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔) (الملک: 2)۔

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

( الٓمٓ ١ أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن يُتۡرَكُوٓاْ أَن يَقُولُوٓاْ ءَامَنَّا وَهُمۡ لَا يُفۡتَنُونَ ٢ وَلَقَدۡ فَتَنَّا ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِهِمۡۖ فَلَيَعۡلَمَنَّ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْ وَلَيَعۡلَمَنَّ ٱلۡكَٰذِبِينَ ٣)[العنكبوت: 1-3]

 

(الف، لام، میم۔ 1 کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اکیلے چھوڑ دیے جائیں گے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، اور ان کی آزمائش نہیں ہوگی؟   ہم نے ان سے پہلے والوں کو ضرور آزمایا ہے، اور اللہ ضرور ظاہر کرے گا کہ کون سچے ہیں، اور وہ ضرور جھوٹوں کو ظاہر کر دے گا)۔

 

یہ الٰہی قوانین علت و معلول سے ماخوذ ہیں اور قرآن میں مختلف مقامات پر ان قوانین کے اشارے ہیں۔ آزمائشوں کے پیچھے جو حکمتیں ہیں ان میں سے مومن کے صبر، اس کے ایمان کے اخلاص اور اس کے استقامت کو جانچنا اور اس کی دنیا میں فتح اور آخرت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی اہلیت کا تعین کرنا ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے،

 

(أَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُمۖ مَّسَّتۡهُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٞ ٢١٤) [البقرة: 214].

 

(کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ ابھی تک تم پر ایسی آزمائش نہیں آئی جو تم سے پہلے گزرے لوگوں پر آئی تھی، انہیں سختی اور تکلیف نے چھو لیا اور ہلا کر رکھ دیا یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں نے کہا کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ بلاشبہ اللہ کی مدد قریب ہے): {البقرۃ:214}

 

وقال تعالى:

 

(أَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تُتۡرَكُواْ وَلَمَّا يَعۡلَمِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ جَٰهَدُواْ مِنكُمۡ وَلَمۡ يَتَّخِذُواْ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلَا رَسُولِهِۦ وَلَا ٱلۡمُؤۡمِنِينَ وَلِيجَةٗۚ وَٱللَّهُ خَبِيرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ ١٦)[التوبة: 16].

 

(کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ تم کو چھوڑ دیا جاےگا اس حال میں کہ اللہ نے ابھی تک تم میں سے ان لوگوں کو ظاہر نہیں کیا جو اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ اور مومنوں کے علاوہ کسی کو دوست نہیں بناتے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔) [التوبہ: 16]

 

آزمائشوں کی سنت ہم پر اپنے مومن بندوں کے ساتھ اللہ کی رحمت، سخاوت اور انصاف کی حد کو ظاہر کرتی ہے، کیونکہ مومن جب آزمائشوں کا مقابلہ صبر اور اللہ کی تقدیر اور تقدیر کو قبول کرنے کے ساتھ کرتا ہے تو یہ اس کے گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

(مَا كَانَ لِأَهۡلِ ٱلۡمَدِينَةِ وَمَنۡ حَوۡلَهُم مِّنَ ٱلۡأَعۡرَابِ أَن يَتَخَلَّفُواْ عَن رَّسُولِ ٱللَّهِ…) [التوبة: 120-121].

 

(مدینہ والوں اور اس کے آس پاس کے بدوؤں کے لیے یہ جائز نہیں تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہیں...) [التوبہ: 120-121]۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِن نَصَبٍ ولَا وصَبٍ، ولَا هَمٍّ ولَا حُزْنٍ ولَا أذًى ولَا غَمٍّ، حتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بهَا مِن خَطَايَاهُ»’’مومن کو کوئی تھکاوٹ، بیماری، فکر، رنج، غم، تکلیف یا دکھ نہیں پہنچتا، حتیٰ کہ کانٹا بھی نہیں چبھتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: «لا تُصِيبُ المُؤْمِنَ شَوْكَةٌ فَما فَوْقَها، إلَّا قَصَّ اللَّهُ بها مِن خَطِيئَتِهِ»’’مومن کو کوئی چیز نہیں پہنچتی، حتیٰ کہ کانٹا بھی نہیں چبھتا یا اس سے بڑی چیز، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کو کم کر دیتا ہے‘‘۔ اور فرمایا: «ما يزالُ البلاءُ بالمؤمنِ والمؤمنةِ في نفسِه وولدِه ومالِه حتَّى يلقَى اللهَ تعالَى وما عليه خطيئةٌ»’’مومن مرد اور عورت کو ان کے جان ، اولاد اور مال میں آزمائشیں آتی رہیں گی، یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملیں گے اور ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔‘‘

 

سورہ بقرہ کی آیت اس سنت کی واضح تصدیق کے لیے آئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،

 

(وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَيۡءٖ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٖ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٰلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٰتِۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّٰبِرِينَ ١٥٥ ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٞ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ ١٥٦ أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوَٰتٞ مِّن رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٞۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُهۡتَدُونَ ١٥٧) [البقرة: 155-157]

 

(اور ہم تمہیں ضرور کسی نہ کسی خوف اور بھوک اور مال و جان اور پھلوں کے نقصان سے آزمائیں گے، لیکن ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو،  جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔  یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے عنایتیں اور رحمتیں ہیں۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (البقرۃ: 155-157)۔

 

تیسرا: اللہ نے انسان کو صحیح اور غلط میں سے انتخاب کرنے کا اختیار دیا ہے

 

اللہ تعالی نے فرمایا:

 

(قَدۡ خَلَتۡ مِن قَبۡلِكُمۡ سُنَنٞ فَسِيرُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ فَٱنظُرُواْ كَيۡفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلۡمُكَذِّبِينَ ١٣٧)

 

(تم سے پہلے کئ طریقے گزر چکے ہیں۔ پس زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔  [آل عمران 137]

 

(قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ إِن يَنتَهُواْ يُغۡفَرۡ لَهُم مَّا قَدۡ سَلَفَ وَإِن يَعُودُواْ فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ ٱلۡأَوَّلِينَ ٣٨)

 

(کافروں سے کہہ دو کہ اگر وہ باز آ جائیں تو ان کے لیے جو گزر چکا ہے معاف کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ (کفر کی طرف) لوٹ جائیں تو پہلے لوگوں کی نظیر گزر چکی ہے۔)  [الانفال 38]

 

(وَمَا يَأۡتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُواْ بِهِۦ يَسۡتَهۡزِءُونَ ١١ كَذَٰلِكَ نَسۡلُكُهُۥ فِي قُلُوبِ ٱلۡمُجۡرِمِينَ ١٢ لَا يُؤۡمِنُونَ بِهِۦ وَقَدۡ خَلَتۡ سُنَّةُ ٱلۡأَوَّلِينَ ١٣)

 

(اور ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔  اس طرح ہم اسے مجرموں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں۔  وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور پہلے لوگوں کی نظیر گزر چکی ہے۔ ) [11-13 الحجر]

 

یہ عظیم آیات ایک ابدی اور آفاقی سچائی اور ایک غیر متبدل الہی قانون کو ظاہر کرتی ہیں: حق اور باطل کے درمیان دائمی جدوجہد۔ یہ ماضی کی قوموں کا نمونہ رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے کس طرح کافروں کو سزا دی، ہر دور میں کافروں کے لیے عبرت کا کام کرتا رہا۔ یہ مومنوں کو سکھاتا ہے کہ جنت کا راستہ آزمائشوں، تضحیک، انکار اور رد سے بھرا ہوا ہے، اور یہ کہ ظالموں کے دل ان کے اپنے اعمال کی بدولت ایمان سے اندھے ہو جاتے ہیں، اس طرح انہیں ایمان لانے سے روک دیا جاتا ہے۔ خدا نے بنی نوع انسان کو حق یا باطل، ایمان یا کفر، بھلائی کا راستہ یا برائی کا راستہ چننے کا اختیار دیا ہے، انہیں یہ آزادی دی ہے کہ وہ اہل حق یا اہل باطل میں سے کسی ایک راستے پر چلیں۔ لہٰذا، ہر شخص اپنی پسند کے لیے جوابدہ ہوگا۔

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(لَآ أُقۡسِمُ بِهَٰذَا ٱلۡبَلَدِ ١ وَأَنتَ حِلُّۢ بِهَٰذَا ٱلۡبَلَدِ ٢ وَوَالِدٖ وَمَا وَلَدَ ٣ لَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ فِي كَبَدٍ ٤ أَيَحۡسَبُ أَن لَّن يَقۡدِرَ عَلَيۡهِ أَحَدٞ ٥ يَقُولُ أَهۡلَكۡتُ مَالٗا لُّبَدًا ٦ أَيَحۡسَبُ أَن لَّمۡ يَرَهُۥٓ أَحَدٌ ٧ أَلَمۡ نَجۡعَل لَّهُۥ عَيۡنَيۡنِ ٨ وَلِسَانٗا وَشَفَتَيۡنِ ٩ وَهَدَيۡنَٰهُ ٱلنَّجۡدَيۡنِ ١٠) [البلد: 1-10].

 

( مجھے اس شہر (مکہ) کی قسم ہے اور تم اس شہر میں رہنے والے ہو اور  باپ اور اس کی اولاد قسم ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے، کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی طاقت نہیں رکھتا، وہ کہتا ہے کہ میں نے بہت زیادہ مال خرچ کیا، کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھتا، کیا ہم نے اس کے لیے  دو آنکھیں ایک زبان  اور دو ہونٹ نہیں بنائیں؟ اور ہم نے اسے دو راستے دکھائے ) [البلاد: 1-10]۔

 

"النجدان" سے مراد دو  راستے ہیں: نیکی کا راستہ اور برائی کا راستہ۔

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(هَلۡ أَتَىٰ عَلَى ٱلۡإِنسَٰنِ حِينٞ مِّنَ ٱلدَّهۡرِ لَمۡ يَكُن شَيۡ‍ٔٗا مَّذۡكُورًا ١ إِنَّا خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ مِن نُّطۡفَةٍ أَمۡشَاجٖ نَّبۡتَلِيهِ فَجَعَلۡنَٰهُ سَمِيعَۢا بَصِيرًا ٢ إِنَّا هَدَيۡنَٰهُ ٱلسَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرٗا وَإِمَّا كَفُورًا ٣) [الإنسان: 1-3].

 

(کیا انسان پر ایک ایسا زمانہ نہیں آیا جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا ؟ 1بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تاکہ ہم اسے آزمائیں، اور ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا،  بے شک ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ وہ شکر گزار ہو یا ناشکرا)

 

یہ انسانی ذمہ داری اور جوابدہی کا دائرہ ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو یہ آزادی عطا کی ہے کہ وہ اچھائی اور برائی، حق و باطل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے، اس کے منھج اور راستے پر چلے، یا اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔ اس کے بعد جزا یا سزا کا تعین ان کی پسند سے ہوتا ہے: اگر وہ حق کا راستہ اختیار کرتے ہیں، تو انہیں اس زندگی میں خدا کی طرف سے فتح اور طاقت ملے گی، اور، آخرت میں اللہ  کی رضا، بخشش، اور جنت، جوآسمانوں اور زمین کی طرح وسیع ہے۔ لیکن اگر وہ روئے زمین پر باطل، کفر، انکار اور فساد کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی سزا دنیا اور آخرت میں خدا کا غضب ہوگا۔

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

(قُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ مِنۡهَا جَمِيعٗاۖ فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ ٣٨ وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِ‍َٔايَٰتِنَآ أُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ ٣٩) [البقرة: 38-39].

 

(ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، اور جب تم کو میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے، لیکن جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا، وہی دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔)

 

چوتھا: حق و باطل کے درمیان جاری کشمکش:

 

حق اور باطل کے درمیان، نیکی اور بدی کے راستے کے درمیان، اہل حق اور اہل باطل کے درمیان ایک ناگزیر کشمکش ہے جس میں وہ کبھی نہیں مل سکتے۔ چنانچہ اہل حق اور اہل باطل کا رشتہ دشمنی کا ہے۔ اہل حق کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اہل باطل کو اپنا دشمن سمجھیں۔ فطری طور پر، اس جدوجہد کا نتیجہ باطل پر حق کی فتح ہے، بشرطیکہ کہ اہل حق کو اللہ کی حمایت حاصل ہو۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

(ٱلۡمُنَٰفِقُونَ َٱلۡمُنَٰفِقَٰتُ بَعۡضُهُم مِّنۢ بَعۡضٖۚ يَأۡمُرُونَ بِٱلۡمُنكَرِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَقۡبِضُونَ أَيۡدِيَهُمۡۚ نَسُواْ ٱللَّهَ فَنَسِيَهُمۡۚ إِنَّ ٱلۡمُنَٰفِقِينَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ ٦٧ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡمُنَٰفِقِينَ وَٱلۡمُنَٰفِقَٰتِ وَٱلۡكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَٰلِدِينَ فِيهَاۚ هِيَ حَسۡبُهُمۡۚ وَلَعَنَهُمُ ٱللَّهُۖ وَلَهُمۡ عَذَابٞ مُّقِيمٞ ٦٨)

 

(منافق مرد اور عورتیں سب یکساں ہیں، وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ روکتے ہیں، وہ اللہ کو بھول گئے، اس لیے اللہ نے انہیں بھلا دیا، بے شک منافق ہی نافرمان ہیں۔ اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں سے اور کافروں سے دوزخ کی آگ کا وعدہ کیا ہے۔وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ان کے لیے کافی ہے۔ اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔ ) [التوبہ: 67-68]۔

 

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

(وَٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتُ بَعۡضُهُمۡ أَوۡلِيَآءُ بَعۡضٖۚ يَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤۡتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓۚ أُوْلَٰٓئِكَ سَيَرۡحَمُهُمُ ٱللَّهُۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٞ ٧١) [التوبة: 71]

 

(مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے گا، یقیناً اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔)

 

جو چیز اس تنازعہ اور اس دشمنی کی تصدیق کرتی ہے وہ اسلام اور اس کے لوگوں کو ختم کرنے کے لیے کفار کی مستقل سوچ ہے، چاہے وہ اس مقصد کے لیے اپنا مال، کوشش اور وقت کیوں نہ قربان کر دیں۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

(إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يُنفِقُونَ أَمۡوَٰلَهُمۡ لِيَصُدُّواْ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيۡهِمۡ حَسۡرَةٗ ثُمَّ يُغۡلَبُونَۗ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحۡشَرُونَ ٣٦)

 

(بے شک کافر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تاکہ (لوگوں کو) راہِ خدا سے روکیں، پس وہ اسے خرچ کریں گے، پھر یہ ان کے لیے حسرت ہے، پھر وہ مغلوب ہو جائیں گے، اور کافر جہنم میں جمع کیے جائیں گے۔) (الانفال: 36)

 

آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن نے اس تنازعہ اور اس دشمنی کو کس طرح تاکید کے ساتھ بیان کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں ہے:

 

(وَلَن تَرۡضَىٰ عَنكَ ٱلۡيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمۡۗ قُلۡ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلۡهُدَىٰۗ وَلَئِنِ ٱتَّبَعۡتَ أَهۡوَآءَهُم بَعۡدَ ٱلَّذِي جَآءَكَ مِنَ ٱلۡعِلۡمِ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِيّٖ وَلَا نَصِيرٍ ١٢٠)

 

(اور یہود و نصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی نہ کرو، کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل  ہدایت ہے، اور اگر تم ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگو، اس کے بعد کہ تمہارے پاس علم آچکا ہے، تو اللہ کے مقابلے میں تمہارا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہوگا) (البقرۃ:120)

 

اس لیے ایک مسلمان، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کو دشمنی اور ناگزیر تصادم کا تعلق سمجھتا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مسلمان ان سے دوستی نہ کریں جیسا کہ ارشاد ہے:

 

(يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمۡ أَوۡلِيَآءَ تُلۡقُونَ إِلَيۡهِم بِٱلۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُواْ بِمَا جَآءَكُم مِّنَ ٱلۡحَقِّ يُخۡرِجُونَ ٱلرَّسُولَ وَإِيَّاكُمۡ أَن تُؤۡمِنُواْ بِٱللَّهِ رَبِّكُمۡ إِن كُنتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَٰدٗا فِي سَبِيلِي وَٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِيۚ تُسِرُّونَ إِلَيۡهِم بِٱلۡمَوَدَّةِ وَأَنَا۠ أَعۡلَمُ بِمَآ أَخۡفَيۡتُمۡ وَمَآ أَعۡلَنتُمۡۚ وَمَن يَفۡعَلۡهُ مِنكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ ١)

 

(اے ایمان والو! میرے اور تمہارے دشمنوں کو دوست مت بناؤ کہ تم ان کی طرف محبت کا پیغام بھیجو، جبکہ وہ اس حق کا انکار کر چکے ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے ۔ وہ رسول کو اور تمہیں محض اس لیے باہر نکالتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لاتے ہو ۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نکلے ہو، (تب بھی) تم خفیہ طور پر ان کی طرف دوستی بھیجتے ہو، حالانکہ جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو، میں اسے خوب جانتا ہوں ۔ اور تم میں سے جو کوئی ایسا کرے گا، تو بلاشبہ وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا) [الممتحنہ: 1]۔

 

پانچواں: ابلیس (شیطان)کا فتنہ:

 

اللہ نے ابلیس اور اس کے پیروکاروں کو شیطانوں میں سے پیدا کیا۔ وہ جنوں کی دنیا سے ہے۔ جب اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اور آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اللہ نے اسے اپنی رحمت سے نکال دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ انسان کو آزمانے اور اسے حق کی راہ سے ہٹانے کا کام کرے گا۔ یہ انسان کے لیے اس کے ایمان کی مضبوطی اور خلوص اور خدا کی اطاعت کے لیے اس کے شوق کا امتحان اور آزمائش ہے۔

 

شیطان کی آزمائشیں انسان کو اس کے نقش قدم پر چلنے کا بہانہ نہیں دیتیں کیونکہ اللہ رحیم اور عادل ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت کے ذریعے انسان کو شیطان کے راستے پر چلنے سے بارہا تنبیہ کی ہے اور ساتھ ہی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس کا انسان پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ جو بھی شیطان کی پیروی کرتا ہے وہ اپنی مرضی سے اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے کرتا ہے۔ جہاں تک سچے مومن کا تعلق ہے،تو شیطان کو ان پر اثر انداز ہونے کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:

 

(يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ وَمَن يَتَّبِعۡ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِ فَإِنَّهُۥ يَأۡمُرُ بِٱلۡفَحۡشَآءِ وَٱلۡمُنكَرِۚ وَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنۡ أَحَدٍ أَبَدٗا وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٞ٢١)

 

(اے ایمان والو شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اور جو شخص شیطان کے نقش قدم پر چلے تو وہ بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک نہ ہوتا۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے، اور اللہ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے، ) [النور: 21]

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(أَلَمۡ أَعۡهَدۡ إِلَيۡكُمۡ يَٰبَنِيٓ ءَادَمَ أَن لَّا تَعۡبُدُواْ ٱلشَّيۡطَٰنَۖ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٞ ٦٠ وَأَنِ ٱعۡبُدُونِيۚ هَٰذَا صِرَٰطٞ مُّسۡتَقِيمٞ ٦١ وَلَقَدۡ أَضَلَّ مِنكُمۡ جِبِلّٗا كَثِيرًاۖ أَفَلَمۡ تَكُونُواْ تَعۡقِلُونَ ٦٢) [يس: 60-62].

 

(اے بنی آدم کیا میں نے تم کو یہ حکم نہیں دیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ، اور یہ کہ تم میری عبادت کرو یہ سیدھا راستہ ہے ، اور اس نے تم میں سے ایک بڑی جماعت کو گمراہ کر دیا ہے پھر کیا تم نے عقل سے کام نہیں لیا؟ )

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّ وَعۡدَ ٱللَّهِ حَقّٞۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ ٱلۡحَيَوٰةُ ٱلدُّنۡيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِٱللَّهِ ٱلۡغَرُورُ ٥ إِنَّ ٱلشَّيۡطَٰنَ لَكُمۡ عَدُوّٞ فَٱتَّخِذُوهُ عَدُوًّاۚ إِنَّمَا يَدۡعُواْ حِزۡبَهُۥ لِيَكُونُواْ مِنۡ أَصۡحَٰبِ ٱلسَّعِيرِ ٦)

 

(اے لوگو، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے، اس لیے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اوروہ دھوکے باز بھی تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں نہ ڈالے، بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، لہٰذا اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنی جماعت کو دوزخ کے ساتھیوں میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔)[فاطر: 5-6]

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ حَلَٰلٗا طَيِّبٗا وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٌ ١٦٨ إِنَّمَا يَأۡمُرُكُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلۡفَحۡشَآءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ ١٦٩) [البقرة: 168-169].

 

(اے لوگو، زمین پر جو کچھ حلال اور پاکیزہ ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ کے بارے میں ایسی بات کہو جو تم نہیں جانتے)۔ [البقرۃ: 168-169]

 

چھٹا: مسلمانوں کا ان قوانین  سے تعامل

 

الله نے بنی نوع انسان کو ایک مخصوص، غیر متغیر فطرت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس میں انسانوں کے پاس ایک ایسی اہم توانائی ہے جو فطری طور پر اس کائنات کی مخلوقات اور قوانین کے ساتھ ان کی ضروریات اور جبلتوں کو پورا کرنے کے لیے ان کو متحرک کرتی ہے، اس کے علاوہ وہ عقلبھی عطاء کی ہے جو انھیں تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے، اور جو ان کی اخلاقی ذمہ داری کی بنیاد ہے۔ لہذا، انسانوں کو لازمی طور پر ان قوانین کے ساتھ تعامل اور ان سے متاثر ہونا چاہیے۔

 

تو ان الہی قوانین کا انسانی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے؟اس میدان میں ہمارے لیے اہم موضوع مسلمان فرد کی ذات ہے ۔ چونکہ کسی بھی انسان کا طرزِ عمل اس کے تصورِ حیات پر مبنی ہوتا ہے، یعنی اس کے ایمان پر، اور چونکہ اسلامی عقیدہ ہی صحیح عقیدہ ہے، اس لیے قوانینِ الٰہی پر یقین اور ان کی غیر تغیر پذیری اس عظیم عقیدے کا حصہ ہے، جس پر ملت اسلامیہ کی تشکیل ہوئی، اور یہ اس کے اتحاد، طاقت، ثقافت، تہذیب اور قدیم ورثے کی بنیاد تھی، اور اسی کے نتیجے میں ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک اس کی عزت، فتح اور غلبہ (حکمرانی) برقرار رہا ۔

 

اللہ کے قوانین مسلمان کے لیے اس کی زندگی کے حصول میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ اللہ نے انسانوں کو زمین پر اپنے خلیفہ کے طور پر مقرر کیا ہے کہ وہ عبادت اور ترقی میں زندگی گزاریں،اور اس الہی راستے پر چلیں جو اس نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے۔ ایک مسلمان کا اللہ تعالیٰ پر غیر متزلزل ایمان، اور عقیدہ کے تمام معاملات میں، جس میں یہ یقین بھی شامل ہے کہ اللہ کے قوانین ناقابل تغیر اور غیر متغیر ہیں، اسے اس زندگی میں کوشش کرنے کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے، اور اس طرح اس کی بخشش حاصل کرے اور جنت میں داخل ہو۔

 

کیونکہ جب ایک مسلمان جانتا ہے کہ اسے زمین کو آباد اور اللہ کی عبادت کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور وہ ہر عمل کا جوابدہ ہوگا، تو یہ فہم اسے آخرت اور اس کے حساب اور اجر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پوری کوشش اور عزم کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ کبھی نہیں تھکتا اور نہ ہی اکتاتا ہے، اور وہ زندگی بھر ایک مخلص اور کارگر بندے کی مثال بنتا ہے، اور وہ حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے اس قول کی زندہ تصویر ہوتا ہے: "اپنی دنیا کی زندگی کے لیے اس طرح کام کرو جیسے تم ہمیشہ زندہ رہو گے، اور اپنی آخرت کے لیے ایسے کام کرو جیسے تم کل مر جاؤ گے۔" اور درج ذیل آیت کا اطلاق مسلمان پر نہیں ہوتا:

 

(وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُعۡجِبُكَ قَوۡلُهُۥ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَيُشۡهِدُ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلۡبِهِۦ وَهُوَ أَلَدُّ ٱلۡخِصَامِ ٢٠٤ وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي ٱلۡأَرۡضِ لِيُفۡسِدَ فِيهَا وَيُهۡلِكَ ٱلۡحَرۡثَ وَٱلنَّسۡلَۚ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلۡفَسَادَ ٢٠٥ وَإِذَا قِيلَ لَهُ ٱتَّقِ ٱللَّهَ أَخَذَتۡهُ ٱلۡعِزَّةُ بِٱلۡإِثۡمِۚ فَحَسۡبُهُۥ جَهَنَّمُۖ وَلَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ ٢٠٦)

 

(اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس کی بات دنیا کی زندگی میں تمہیں پسند آئے اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ بنا کر پکارتا ہے اور وہ سب سے سخت دشمن ہے۔  اور جب وہ منہ موڑتا ہے تو سارے ملک میں فساد پھیلانے اور فصلوں اور جانوروں کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ، اور جب اس سے کہا جاتا ہے اللہ سے ڈرو تو عزت نفس اس کو گناہ میں جکڑ لیتی ہے تو اس کے لیے جھنم کافی ہے، اور وہ کیا ہی بری آرام گاہ ہے  (البقرۃ: 204-206)

 

بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لاگو ہوتا ہے:

 

(وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشۡرِي نَفۡسَهُ ٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلۡعِبَادِ ٢٠٧)[البقرة: 207].

 

’’اور لوگوں میں سے وہ ہے جو اللہ کی رضا کے لیے اپنے آپ کو بیچ ڈالتا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔‘‘

 

اور اس کا ارشاد ہے:

 

( قُلۡ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحۡيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ ١٦٢)

 

(کہہ دو بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔) (الانعام: 162)۔

 

مزید برآں، دو راستوں کے ناگزیر ہونے پر مسلمان کا عقیدہ، حق کا راستہ اور باطل کا راستہ، اور ان کے درمیان تصادم کی ناگزیریت، اور حق کی فتح کی ناگزیریت، اور یہ کہ فتح اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، مسلمان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ حق کی تلاش اور تحقیق کرے، پھر اس پر ایمان لائے اور اس پر عمل کرے۔ نہ صرف یہ، بلکہ یہ اسے اسلام کو پھیلانے کے لیے کام کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے، کیونکہ اللہ نے ہم پر دوسروں کو اسلام کی طرف بلانے کو فرض کیا ہے۔ مسلمان کوشش کرتا ہے کہ ہمیشہ اللہ کی نگہبانی میں رہے اور فتح حاصل کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم اور ہدایت دی ہے۔ مسلمان مایوسی اور حوصلہ شکنی سے بہت دور ہے۔ بلکہ، وہ اپنے کام میں متحرک اور فعال ہے، ہمیشہ فتح اور کامیابی کے بارے میں پر امید ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا فرض کام کرنا ہے، اور خدا وہی ہے جو فتح اور کامیابی کے نتائج دیتا ہے۔

 

مزید برآں، آزمائشوں کی خدائی سنت پر ایک مسلمان کا یقین اسے  ایک صابر، اللہ کے عدل پر مطمئن اور اس کی قضا و قدر پر راضی رہنے والا انسان بنا دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آزمائشوں میں حکمت اور رحم ہے۔ آزمائشوں کے ذریعے، لوگوں کو پہچانا جاتا ہے: اچھے کو برے سے، اور  ان کے ایمان کی سچائی یا عدم سچائی واضح ہوتی ہے۔ یہ ایک رحمت بھی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ کے فرمان کو قبول کرنا اور آزمائشوں میں اس کا صبر اس کے گناہوں کا کفارہ اور اللہ کے نزدیک اس کا درجہ بلند کر دے گا۔ یہ اسے ایک مثبت انسان بناتا ہے۔ اللہ جتنا زیادہ اس کا امتحان لیتا ہے، اتنا ہی اس کا ایمان، اللہ پر بھروسہ اور مثبت نقطہ نظر میں اضافہ ہوتا ہے، مایوسی اور مایوسی سے بہت دور ہوتا ہے، اور عزم و ارادے کے ساتھ راستے پر چلنے کا عزم کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عَجَباً لأمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَلِكَ لأِحَدٍ إِلاَّ للْمُؤْمِن: إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْراً لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خيْراً لَهُ» مسلمان کا معاملہ کتنا عجیب ہے، بے شک اس کے تمام معاملات اس کے لیے بہتر ہیں،اور یہ کسی کو حاصل نہیں مگر مومن کو، اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے، اور وہ اس کے لیے اچھا ہے، اگر اسے کوئی برائی پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے اچھا ہے۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

( إِنَّمَا يُوَفَّى ٱلصَّٰبِرُونَ أَجۡرَهُم بِغَيۡرِ حِسَابٖ) [الزمر: 10]

 

(بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔) [الزمر: 10]۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

(وَإِذۡ تَأَذَّنَ رَبُّكُمۡ لَئِن شَكَرۡتُمۡ لَأَزِيدَنَّكُمۡۖ وَلَئِن كَفَرۡتُمۡ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٞ ٧) [إبراهيم: 7]

 

(اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں تم پر ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم انکار کرو گے تو بے شک میرا عذاب سخت ہے۔) (ابراہیم:7)۔

 

اس سنت کے ذریعے، مسلمان اس دنیا کی اصل نوعیت کو سمجھتا ہے: یہ آزمائش کی جگہ ہے اور ایک ایسا مرحلہ ہے جو ختم ہونے والا ہے، جو آخرت کی ابدی زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ آخرت کا راستہ ہے۔ اس لیے دنیا میں اس کا عمل آخرت کے لیے ہے اور اگر اس سے اسے کچھ حاصل نہ ہو تب بھی اسے کوئی فکر نہیں کیونکہ اس کی آخری جزا آخرت اور اس کی فتح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «موعدي معكم ليس الدنيا، موعدي معكم الآخرة» ”میرا وعدہ تمہارے ساتھ دنیا نہیں ہے، میرا وعدہ تمہارے ساتھ آخرت ہے۔ مسلمان ایک مخلص اور محنتی کارکن ہے، بہادر لڑاکا، دشمنوں سے لڑنے میں دلیر اور موت سے بے خوف ہے، کیونکہ اسے یقین ہے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ایک متقی عبادت گزار بھی ہے۔ مسلمانوں کی خصوصیت یہ ہے: دن کو شہسوار، رات کو راہب۔

 

آخر میں: میرے پاس اس موضوع کو اس جامع حدیث کے ساتھ ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ، جو ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے تخلیق میں جاری قوانین (سُنَن) کو یاد دلاتی ہے ۔ اور مسلمان کے اندر اللہ پر توکل (بھروسہ) کا عقیدہ ، پھر اس سے مدد مانگنے، اسے راضی کرنے، اور اس کے احکام و نواہی پر عمل کرنے کا شوق پیدا کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عزت کا احساس اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے ۔غیر۔ ابو العباس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:«يا غُلامُ إنِّي أعلِّمُكَ كلِماتٍ ، احفَظِ اللَّهَ يحفَظكَ ، احفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تجاهَكَ ، إذا سأَلتَ فاسألِ اللَّهَ ، وإذا استعَنتَ فاستَعِن باللَّهِ ، واعلَم أنَّ الأمَّةَ لو اجتَمعت علَى أن ينفَعوكَ بشَيءٍ لم يَنفعوكَ إلَّا بشيءٍ قد كتبَهُ اللَّهُ لَكَ ، ولو اجتَمَعوا على أن يضرُّوكَ بشَيءٍ لم يَضرُّوكَ إلَّا بشيءٍ قد كتبَهُ اللَّهُ عليكَ ، رُفِعَتِ الأقلامُ وجفَّتِ الصُّحفُ»اے نوجوان، میں تمہیں کچھ کلمات سکھاتا ہوںاللہ کو یاد رکھ، وہ تجھ کو یاد رکھیگا گا، اللہ کو یاد کر، تو اسے اپنے سامنے پاے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر، جب مدد مانگ تو اللہ سے مانگو۔جان لو اگر تمام لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچاے تو وہ آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے جو اللہ نے آپ کے لیے پہلے سے لکھ دیا ہے اور اگر وہ آپ کو کسی بھی طرح سے نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تو وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے کہ جو اللہ نے آپ کے خلاف لکھ دیا ہے اور قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔   (ترمذی نے روایت کیا)

 

اور ہماری آخری پکار یہ ہے کہ ساری تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں ۔

 

 

Last modified onبدھ, 17 دسمبر 2025 20:08

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک