کل جماعتی کانفرنس افغانستان میں امریکی قبضے کو جاری رکھنے اور امریکی جنگ کو ہماری جنگ قرار دینے کے لیے منعقد کی گئی
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:20ستمبر2013
خبر:
9 ستمبر 2013 کو حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں صرف سیاسی جماعتوں ہی نے شرکت نہیں کی بلکہ افواج پاکستان کی سینئر ترین قیادت، آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی ظہیر الاسلام نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باہر نکالنے کے لیے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونا تھا ۔ کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں امن کی خاطر حکومت قبائلی عوام کے ساتھ فوجی آپریشنز کی جگہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔
تبصرہ:
جیسے جیسے 2014 قریب تر آتا جارہا ہے ویسے ویسے امریکہ افغانستان سے انخلاء کے نام پر اپنے قبضے کو مستقل رکھنے کے لیے طالبان کے ساتھ کسی دیر پا معاہدے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں تیزی لاتا جارہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے طالبان کو قطر میں اپنا دفتر قائم کرنے کی اجازت دی اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو حکم دیا کہ وہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں۔ 9 ستمبر کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس بھی اسی امریکی ہدف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں حکومت کو یہ کہا گیا کہ وہ قبائلی لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کانفرنس نے اس امریکی جنگ کو یہ کہہ کر اپنا قرار دے دیا کہ "دہشگردی کےخلاف جنگ کےطریقہ کاراوروسائل کافیصلہ خودکرینگے"۔ تو اب اگر طالبان امریکی شرائط کے مطابق افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کو قبول نہیں کریں گے تو پاکستان فوری طور پر طالبان کے خلاف "ڈنڈا " اٹھا سکتے ہیں۔
یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ وہ جماعتیں جو دن رات اس امریکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں انھوں نے بھی اس کانفرنس کے اعلامیہ پر دستخط کردیے۔ انھوں نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی جانب سے اختیار کیے جانے والے اس موقف کی بھی تائید کردی ہے کہ یہ انخلاء پاکستان کی کامیابی ہے۔ حقیقت یہ ہے امریکی صدر اوبامہ سمیت کئی امریکی عہدیدار اس بات کا اظہار ایک سے زائد بار کرچکے ہیں کہ 2014 کے بعد بھی افغانستان میں امریکی افواج درجنوں کی تعداد میں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں موجود رہیں گی ۔ ان ہزاروں امریکی افواج کے مستقل قیام کے لیے امریکہ افغانستان میں 9 فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ بات بھی کئی موقعوں پر واضع کرچکا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ امریکہ کی نگرانی میں بنائے گئے افغانستان کے آئین کو لازماً قبول کیا جائے۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر اوبامہ اورکرزئی 2مئی2012 کو ایک سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکہ کو افغانستان میں سیکیورٹی کے امور کے علاوہ بھی کام کرنے کی اجازت ہو گی۔
یہ صورتحال کس طرح پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟ وہ ملک جو اپنے "کالے بجٹ" کا بڑا حصہ اپنے اعلانیہ دشمنوں ایران اور شمالی کوریا کے خلاف خرچ نہیں کررہا بلکہ پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کی جاسوسی پر خرچ کررہا ہے ،اسے پاکستان کی دہلیز،افغانستان میں مستقل قیام کی اجازت دے دی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت افغانستان میں امریکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازشوں کے سلسلے کوجاری رکھ سکے گا۔ یقیناً ہندو ریاست نے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے افغان سرحد کے ساتھ قونصلیٹس کے پردے میں سینکڑوں اڈے قائم کررکھے ہیں ۔ تو پھر کس طرح پاکستان کی دہلیز پر ہزاروں امریکی افواج کی موجودگی پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور جو بھی جماعتیں ان دونوں میں سے کسی میں بھی شرکت کرتی ہیں کبھی بھی امریکی مطالبات اور احکامات سے روگردانی کرنے کی جراءت نہیں کرسکتیں۔ پاکستان میں صرف خلافت کا قیام ہی خطے سے امریکی راج کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ خلافت امریکی سفارت خانہ، قونصلیٹس، اڈوں اور نیٹو سپلائی لائن کو بند اور اس کے سفارتی و فوجی اہلکاروں کو ملک بدر کردے گی۔ اور اگر اس کے بعد بھی امریکہ نے اس خطے میں رہنے کی کوشش کی تو خلافت افواج اور مخلص مجاہدین کی مشترکہ طاقت کے ساتھ اس کے خلاف جہاد کا اعلان کردے گی۔