الجمعة، 13 جمادى الأولى 1446| 2024/11/15
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

تفسیر سورہ البقرہ آیات 92 تا 96

بسم الله الرحمن الرحيم

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ2)9(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93(قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمْ الدَّارُ الآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ )94(وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (95) وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنْ الَّذِينَأَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96)
"اور موسیٰؑ تمھارے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے، پھر بھی تم نے اس کے بعد (کوہِ طور پر جانے کے بعد) بچھڑے کو اپنا رب بنالیا اور تم ہی ظالم تھے(92)۔ اور جب ہم نے تم سے اقرار لیا اور تمھارے اوپر طور کو بلند کیا اور کہا کہ جو شے ہم نے تمھیں دی ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور حکم سنو!،تو لوگوں نے نے کہا ہم نے سنا مگر نہیں مانتے۔ان کے قلوب ( کے ریشے ریشے ) مں وہی بچھڑا پو ست ہوگاکتھا،ان کے کفرکی وجہ سے، آپ کہہ دیجئےکہیہ افعال توبہت برے ہںک ، جن کی تعلمم تمھارا ایمان تم کوکررہاہے، اگرتم (بزعم خود) اہل ایمان ہو! (93)۔آپ کہہ دیجئے اگر اللہ کے ہاں آخرت کا گھر لوگوں کی بجائے صرف تمھارے لیے ہی ہے تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو(94)۔ لیکن وہ اس کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے کبھی اس کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے(95)۔اور آپ ضرور انہیں لوگوں سے زیادہ زندگی کا حریص پائیں گے،مشرکوں سے بھی زیادہ۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ کاش !وہ ہزار سال کی عمر پائے!مگر عمر پانا انھیں عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو وہ کرتے ہیں(96)۔
عطاء بن خلیل ابوالرَّشتہ( امیرحزب التحریر ) اپنی تفسیر(التیسیرفی اصول التفسیر)میں مذکورہ بالاآیات شریفہ کی تفسیرکے تحت فرماتے ہیں:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات میں بتلایاہے کہ:
1۔ اللہ جلّ شانہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوبنی اسرائیل کی طرف قطعی دلائل اوراس کی نبوت ورسالت کی تائید کرنے والے معجزات دے کربھیجا،یہ معجزات وہ9نشانیاں تھیں جن کاذکردوسری جگہ کیا گیا ہے، وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ "ہم نے موسی ٰ علیہ السلام کو نوواضح نشانیاں عطاکی تھیں" (الاسراء / آیت/101)۔ وہ عصا(لاٹھی) جواژدہاکی صورت اختیارکرلیتی،اوریدبیضایعنی ہاتھ جس کووہ نکال دیتےتو چمکتا دمکتادکھائی دیتا،دریائےقلزم کاپھٹ جانااوراس کاایک خشک راستے میں تبدیل ہوجانا،ٹڈیاں ، جوئیں، مینڈک، خون وغیرہ کی صورت میں نازل کی گئی نشانیاں وغیرہ جیسے معجزات جوموسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی قطعی ہونے کےدلائل تھے۔مگر بنی اسرائیل نے جبکہ موسی ٰ علیہ السلام اپنے رب کے ساتھ ملاقات کے لئے کوہ طورپرگئے، ایک بچھڑے کی پرستش شروع کی اوراس کواپنامعبود بنالیا۔اس فعل شنیع کی وجہ سے وہ ظالم ٹھہرے،کیونکہ ان کایہ فعل بے جاتھاکہ ایک بچھڑے کوجو عبادت کے قابل نہیں تھا،اپناخد اتصورکرکے اس کی عبادت کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کویوں فرمایاہے کہ(ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ)....
اس آیت میں(ثُمَّ)کاکلمہ تراخی (تاخیر) کیلئے ہے، یعنی انہوں نے ان نشانیوںکااچھی طرح مشاہدہ کرلینے کے کافی عرصہ بعد یہ حرام حرکت کی۔ان کے پاس نشانیاں پہنچیں،انہیں بغور دیکھااورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی پراس کی قطعی دلالت کاانہیں پتہ چلا۔اس سب کے باوجود انہوں نے ایک بچھڑے کومعبود بنالیا۔اس طرح ان کے کردارپرمشتمل یہ تاریخی حقائق ان کیلئے سرزنش اورملامت ومذمت کے آئینہ دارہیں۔

2۔ پھراللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کوان سے لئے گئے میثاق اورعہد وپیمان اورکوہ طورکاان کے اوپرلاکھڑکرنےکی یاددہانی کراتے ہیں ،اوران کویہ بھی یاددلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوتورات کے اندردئے ہوئے احکامات پرسختی سے عمل پیراہونے کاحکم دیاتھا،جیساکہ اس سے پہلے اسی طرح کی ایک آیت،(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) البقرۃ / (63) گزری ہے کی تفسیرمیں ہم نے بیان کیا.مذکورۃ الصدرآیت میں اسی واقعہ طور کاذکرہے،البتہایک نیامعنی سمجھانے کیلئے اس آیت کو مکررلایاگیا،یعنی یہ کہ اللہ کاامرسننے کی قیمت اس وقت ہوتی ہے،جب اس کاسنناامرالٰہی پرجوں کے توں عمل کی نیت سے ہو۔بالفاظِ دیگرحکم کوتسلیم کرنے اوراس کی پیروی کی نیت سے سناجائے ،ورنہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے (وَاسْمَعُوا ) "سنو" لیکن اُن کاجواب تھا(سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا)"ہم نے سنااورنافرمانی کی" ۔جواب پرغورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ(وَاسْمَعُوا) "سن لو"کاجوحکم دیاگیا،یہ ماننے اورطاعت وقبول کے حکم پربھی مشملم تھا(محض سننے کا حکم ان کونہیں دیاگیاتھا) اگرچہ الفاظ میں اس کاذکرنہیں اوربسااوقات سننے سے مراد مان لیناہوتاہے ۔جیساکہ ہم نماز میں کہتے ہیں: سمع اللہ لمن حمدہ( حمد کرنے والے کواللہ تعالیٰ سنتے ہیں)۔
(وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93("ان کے قلوب ( کے ریشے ریشے ) میں وہی بچھڑا پیوست ہوگیاتھا،ان کے کفرکی وجہ سے،آپ کہہ دیجئےکہ یہ افعال توبہت برے ہیں ،جن کی تعلیم تمھاراایمان تم کوکررہاہے،اگرتم (بزعم خود) اہل ایمان ہو"۔
آیت کے شروع میں واؤ حالیہ (حالت بتانے کیلئے) ہے،مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایسی حالت میں عَصَینَاکہاجب کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں رچ بس گئی تھی،اوران کایہ قول کہ (سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا) ان کے کفرکے سبب تھا،اس لئے فرمایا(بِكُفْرِهِمْ)" ان کے کفرکے سبب"۔
پھراللہ تعالیٰ آیت کااختتام یہ بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ یہ لوگ دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیںکیونکہ ایمان کفرکی ضد ہے ،توایمان بچھڑے کوالٰہ بنانے کاحکم دیتا، نہ ہی اس کاکہ اس بچھڑے کیمحبت بطور ایک معبودکے دل نشین ہوجائے ،اوراس کی محبت کی وجہ سے اللہ، جوکہ معبودحقیقی اور خالق ہے،کی بات سننے اوراس پر عمل کرنے سے روکاجائے،(ایمان کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیتا)۔
یہاں ایمان کی طرف حکم دینے کی نسبت اورایمان کاان کی طرف نسبت جواللہ تعالیٰ کے اس قول میں ذکرہے(قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93(یہ مذاق اُڑانے کیلئے ہے اورایک قسم کی پھبتی کسی گئی ہے۔ جیسے دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے قوم شعیب کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایاہے(اَصَلَوٰتُکَ تَامُرُکَ)(ھود/ آیت /87)"کیاتیری نماز تجھے یہ حکم دیتی ہے"اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس قول (قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ) کامطلب یوں بنتاہے کہ تم جواپنے آپ کومؤمن کہتے ہو،ایمان توتم نے ایک بچھڑے پرلایاہے ،جسے تم نے معبودبنایااوراس کی محبت تمہارے دلوں میں گھرکرچکی وغیرہ توایساایمان بہت براایمان ہے،یہ وہ ایمان نہیں جس کامطالبہ ربّ العالمین کرتاہے،بلکہ یہ توخالص کفرہے۔
3۔ پھرآیت نمبر 94 میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے اس جھوٹے دعوے کوبیان کرتاہے کہ جنت تو ہماری ہے،اس کاذکرسورہ بقرہ کی آیت نمبر/ 111میں اس طرح کیا گیا ہے(وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى) "یہ (یہود ونصاریٰ )کہتے ہیں کہ جنت میں ان کے سواکوئی اورہرگزداخل نہیں ہوسکتا"(البقرۃ /آیۃ 111)۔ یہ ان کاایک خودساختہ دعوٰی تھا۔اس کی قلعی کھُلنے کیلئے ان پرحجت قائم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتےہیں کہ اگروہ واقعی اپنے اس دعوے میں سچے ہیں توانہیں چاہئے کہ وہ موت یعنی اللہ تعالیٰ سے ملنے کی تمناکرکے دکھادیں۔سو اگر یہ لوگ واقعی میں اللہ کے محبوب اورپسندیدہ ہوں،جیساکہ اس آیت میں ان کے اس خیال باطل کاذکرکیاگیاہے(وَقَالَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ)"یہود اورنصاریٰ (دونوں فریق )یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اوراس کے محبوب ہیں" تواس تحدّی (چیلنج)کے بعدوہ اپنی صداقت کوثابت کرنے کیلئے فوراً موت کی تمنا کریں گے،ورنہ ان کاجھوٹاہوناثابت ہوجائے گا۔اوریہی ہوا،کیونکہ انہوں نے کبھی بھی اس قسم کی کوئی تمناکرنے کی ہمتنہیں کی،کیونکہ ان لوگوں نے جوکفراورشرکے اعمال کئے ہیں،ان کابخوبی علم ہےجس کے ہوتے ہوئے وہ اللہ کاسامناکرنے سے ڈرتے ہیں۔جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں(وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ)(95("یہ لوگ ہرگز کبھی اس (موت) کی تمنانہ کریں گے،بوجہ (سزاکے خوف کے ) ان اعمال(کفریہ ) کاجواپنے ہاتھوں سمیٹتے ہیں"۔
یہ ان دلائل میں سے ہےجو قطعی ہوتےہیں اورجس کواللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہ ﷺ کے زمانے کےیہود ونصاریٰ کے خلاف پیش کیا ہے،کیونکہ اگروہ اس دعوے میں کہ جنت ان کیلئے مخصوص ہے،حق پر ہوں،توپھرانہیں موت کی تمناکرنی چاہئے ،یہ بات یہودکی نسبت سے ہے اوراگرنصاریٰ حق پرہیں ،جیساکہ ان کاعیسی ٰ علیہ السلام کے بارے میں خیال تھاکہ وہ اللہ کابندہ نہیں ،بلکہ وہ خود الٰہ ہے توپھرآئیں اورمباہلہ کریں،اس کاذکر سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 میں ہے ،ارشادہے (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ "آپ یوں فرمادیجئے کہ آجاؤ ہم (اورتم) بلاکرجمع کرلیں اپنے بیٹوں کواورتمھارے بیٹوں کواوراپنی عورتوں کواورتمہاری عورتوں کواورخود اپنے تنوں کواورتمہارے تنوںکوپھرہم (سب مل کر) خوب دل سے دعاء کریں اس طورپرکہ اللہ کی لعنت بھیجیں،ان پرجو(اس بحث میں ) ناحق پرہوں "(آل عمران: 61 )۔لیکن عہد رسالت میں ان دونوں فریقوں نے یہ نہیں کیا۔نہ تویہودی اب تک موت کی تمناکرسکے اورنہ نصاریٰ نجران نے مباہلہ کی چیلنج کوقبول کیا۔ یہی ان پرقطعی حجت ہے اگروہ عقل رکھتے ہیں۔ امام احمد ؒنے یہ حدیث نقل کی ہے اورتفسیر طبری میں بھی مذکورہے ، لوان الیہود تمنواالموت لماتواولراوا مقاعدھم من النار،ولوخرج الذین یباھلون رسول اللہ ﷺ لرجعوالایجدون اھلاًولامالاً "اگریہود موت کی تمناکرتے تووہ مرجاتے اورجہنم میں اپنے ٹھکانے ان کونظر آتےاوراگررسول اللہﷺ کے ساتھ مباہلہ کرنے والے باہرآتے تواس حال میں لوٹتے کہ اپنا کوئی مال اوراہل وعیال نہ پاتے۔" (تفسیرطبری 1/424،مسندِاحمد 1/148)

4۔ یہود اپنی تعفن زدہ حقیقت کے نتیجے میں اپنے کالےانجام کاسامناکرنے کی وجہ سے موت سے خائف ہیں ،اس وجہ سے وہ تمام لوگوں سے زیادہ اس حیات دنیوی سے شدید محبت کرتےہیں،بلکہ مشرکین سے بھی بڑھ کرزیادہ محبت کرتے ہیں،جن کادنیاوی زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی پر ایمان نہیں ۔توان مشرکین کی تمام تر محبت اس زندگی کے ساتھ اس لئے ہے کہ ان کاکسی دوسری زندگی کاعقیدہ ہی نہیں لیکن اس کے باوجود یہود ان مشرکین سے بھی زیادہ دنیاکی زندگی سے محبت کرتے ہیں۔ ٖآخری آیت میں ان کی اس حالت کابیان ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنْ الَّذِينَ اَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِأَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96) "اور آپ ضرور انہیں لوگوں سے زیادہ زندگی کا حریص پائیں گے،مشرکوں سے بھی زیادہ۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ کاش !وہ ہزار سال کی عمر پائے!مگر عمر پانا انھیں عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو وہ کرتے ہیں"
تواس آیت میں جس زندگی کاذکرہے اس سے مطلق زندگی مراد ہے ،یعنی کوئی بھی زندگی۔لیکن آیت کے اس دوسرے ٹکڑے کےمفہوم کےذریعے اس کی مطلقیت کومقید کیاگیا( يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ )یعنی لمبی عمر ۔
اس آیت میں ( أَحَدُهُمْ ) کی ضمیر مشرکین کی طرف لوٹانابھی جائز ہے ،اور معنی اس طرح ہوگاکہ یہود ان مشرکین سے بھی بڑھ کرزندگی کے حریص ہیں جن میں ایک ایک آدمی ہزارسالہ زندگی کی خواہش کرتاہے کیونکہ یہ مشرکین تودنیاکی زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی کوجانتے تک نہیں ،اس لئے وہ اس زندگی میں ممکن حد تک عرصہ دراز تک زندہ رہناچاہتے ہیں۔ اوراس میں یہ بھی ممکن ہے کہ ضمیریہود کی طرف لوٹے ،پھر معنی کچھ یوں بنتاہے کہ ان میں سے ہرایک طویل زندگی کاخواہشمند ہوتاہے ۔یہی راجح ہے اوراس کاقرینہ اللہ تعالیٰ کایہ قول ہے(وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ)ٖ ۔پس مشرکین کااس بات پرایمان نہیں کہ آخرت بھی ہوگی توان کاعذاب سے خائف ہونابھی متصور نہیں۔جہاں تک یہود کی بات ہے توانہیں توآخرت اوروہاں کے عذاب کایقین ہے۔ عذاب کایقین اس لئے ہے کہ اپنے بداعمال کاانہیں احساس ہے ،تووہ کبھی بھی موت کوپسند نہیں کریں گے،تاکہ حتی الامکان عذاب سے بچ سکے۔تو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ خواہ ان کی عمریں کتنی لمبی ہوجائیں ،ہزارسال یااس سے بھی زیادہ،عذاب بہرحال انہیں آپکڑےگا،کیونکہ آخرکار انہوں نے مرکر اپنے رب کے پاس لوٹنا ہے۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک