بین الاقوامی قانون مغرب کا استحصالی آلہ کار ہے
بسم الله الرحمن الرحيم
معیز مبین
کریمیا میں ہونے والے ریفرنڈم میں وہاں کے باشندوں کی اکثریت نے روسی فیڈریشن کے ساتھ الحاق کی خواہش کا اظہار کیا۔اس ریفرنڈم کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے وائٹ ہاوس کے ترجمان نے کہا کہ ریفرنڈم پر ووٹ "روسی فوجی مداخلت کی وجہ سے تشدد اور دھمکیوں کے خطرات" تلے منعقد کیا گیا۔ اسی طرح کے تاثرات کا اظہار برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کی طرف سے بھی کیا گیا جب اس نے کہا: "جس بھی بنیاد پر جس طرح یہ ریفرنڈم کروایا گیا ہے اس کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا"۔ یہ مغرب کی منافقانہ پالیسی ہے کہ وہ مقبوضہ کریمیا کے ریفرنڈم کے نتائج کو مسترد کر رہا ہے جبکہ اگلے ہی ماہ مقبوضہ افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی حمایت بلکہ ان کو افغانستان کی ترقی کی علامت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ کریمیا اور افغانستان دونوں مقبوضہ علاقے ہیں۔ دونوں میں انتخابات ان کے مقبوضہ علاقے ہونے کی حیثیت سے ہو رہے ہیں۔ لیکن کیونکہ مغرب کے مفادات دونوں علاقوں میں مختلف ہیں اس لیے وہ افغانستان میں اپنے قبضے کے تحت ہونے والے صدارتی انتخابات کی حمایت کر رہا ہے اور کریمیا میں روسی فیڈریشن کے تحت ہونے والے انتخابات کی مخالفت کر رہا ہے۔ 1990 میں عراق کی کویت کو اپنے ساتھ طاقت کے زور پر الحاق کرنے کی کوشش پر جس پیمانے اور جس سختی سے مغرب نے ردعمل کا اظہار کیا اس کے مقابلے میں روس کا کریمیا کو زبردستی اپنے ساتھ الحاق کرنے پر مغرب کے ردعمل میں کمزوری کو نوٹ کرنا اہم ہے۔ عراق کے معاملے میں مغر ب نے عالمی سطح پر مختلف ممالک کے ایک وسیع اتحاد کو تشکیل دیا اور افواج کو متحرک کیا۔ روس کے معاملے میں مغرب نے اقتصادی پابندیوں کو استعمال کیا اور وہ معاشی اقدام کے ذریعے روس کی معیشت کو نقصان پہچانے کی پالیسی پر چلنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مغرب کا روس اور عراق کی طرف لائحہ عمل میں فرق اور اس کی وجوہات واضح ہیں۔ مغرب اس بات سے آگا ہ ہے کہ وہ روسی فوجی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا جبکہ وہ پر اعتما د تھا کہ عراق کے ہمسایہ ممالک کے مغرب نواز حکمرانوں کی مدد سے وہ عراق کے خلاف فوجیں تعینات کر سکتا ہے۔ یوکرائن کا بحران بین لاقوامی تعلقات اور ریاستوں کے درمیان بین لاقوامی جدوجہد میں ایک اچھا سبق ہے۔ سب سے اہم سبق جو اس بحران سے ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایسا بین لاقوامی قانون جو ریاستوں کے رویوں کو کنٹرول کرے، کا حقیقتاً کوئی وجود نہیں۔ یہ سوچ کہ ممالک کے درمیان ان کے تعلقات کو منظم کرنے کے لیے ایک قانون کی ضرورت ہے ایک غلط سوچ ہے۔ یہ اس لیے غلط ہے کیونکہ ایسے قانون کی موجودگی کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو اس قانون کو زبردستی نافذ کرے جب اس کو توڑا جائے۔ یہ اس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ کہ دنیا کےممالک ایک عالمی اتھارٹی کے وجود کو تسلیم کریں جو عالمی قانون کو تمام ممالک پر نافذ کرے ۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو ریاست کی خودمختاری کے خلاف ہے کیونکہ ریاست کو اپنے اوپر ایک اتھارٹی کو تسلیم کر نا پڑے گا۔ کوئی بھی ریاست جو اپنی خودمختاری کی حفاظت کرتی ہے ایسی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرسکتی۔ عراق فوجی طور پر اتنا طاقتور نہیں تھا کہ وہ امریکہ کے حملے کا مقا بلہ کرتا جب اس نے عالمی قانون کو نافذ کرنے کا بہانہ کر کے عراق پر چڑھائی کر دی۔ روس فوجی طور پر اتنا مضبوط تھا کہ وہ امریکہ کی فوجی طاقت کا مقابلہ کر سکے اور نام نہاد عالمی قانون کا انکار کرسکے۔جیسا کہ مغرب کی افغانستان اور کریمیا میں انتخابی مشقوں کی مختلف تشریحات سے واضح ہے کہ بین الاقوامی قانون درحقیقت بڑی طاقتوں کے مفادات کے حق میں عالمی رائے اور رویے تشکیل دینے کا آلہ کار ہے۔ یہیں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہےکہ مختلف ممالک کی ثقافت، اقدار اور مفادات میں فرق کی وجہ سےدنیا کے ممالک کے درمیان بین لاقوامی قانون کی تشریح کے لیے ایک عالمی ادارے کے قیام پر اتفاق کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ کریمیا اور افغانستان کی مثالیں اس با ت کا ثبوت ہیں کہ مسلم دنیا اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے عالمی قانون اور عالمی اداروں پر انحصار نہیں کرسکتی۔ عالمی قانون جس کو ہم آج جانتے ہیں ایک مغربی آلہ ہے جس کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں طاقت کے عدم توازن کو استعمال کرتے ہوئے مغرب نے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے تشکیل دیا۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو عالمی سطح پر ایک موثر کردار نہیں ادا کرنا چاہیے بلکہ اصل میں یہ بحث ہونی چاہیے کہ مسلمان کس طرح اور کن اداروں کے ذریعے بین لاقوامی تعلقات اور بین لاقوامی سیاست پراثر انداز ہوں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ماضی میں یہ خلافت ہی تھی جس کے ذریعے امت نے عالمی سطح پر ایک مضبوط اور موثر کردار ادا کیا۔ خلافت کا ادارہ مسلمانو ں کی سیاسی، اقتصادی اور عسکری طاقت کو یکجا کر کے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے عالمی رائے اور رویوں کو تشکیل دینے کے لیے ماضی میں ایک اہم کردار ادا کر چکا ہے اور آج بھی مسلمان صرف خلافت کے ذریعے ہی عالمی سطح پر پھر سے ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔