الإثنين، 23 محرّم 1446| 2024/07/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ اوّل)

بسم الله الرحمن الرحيم

آج امریکہ کا عالمی سپرپاور ہونے کے ناطے انحطاط ایک ایسا اچھوتا موضوع نہیں رہا جو چند تجزیہ کاروں تک محدود ہو۔ اس کے برعکس اب یہ ایک معمول کی بات ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں بہت سے لوگ امریکہ کے انحطاط کے بارے میں گفت و شنید اور بحث کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی کھانے کی میز پر کرنے والی بات ہو۔ ان موضوعات میں اس انحطاط کی کیفیت پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا امریکہ سیاسی، معاشی اور عسکری طور پر کمزور ہو رہا ہے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کے بعد اس کی جگہ کون لے گا۔
عمومی طور پر جو لوگ امریکی بالادستی کے کمزور ہونے پر بحث کر رہے ہیں ان کی دو اقسام ہیں: ایک وہ جو یہ کہتے ہیں کہ امریکی انحطاط عالمی منظر نامے پر ایک مستقل حیثیت اختیار کر چکا ہے اور دوسرے وہ جو یہ رائے رکھتے ہیں کہ امریکی انحطاط نہ صرف عارضی ہے بلکہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ بعد والا گروہ یقینی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ دوبارہ ویسی ہی سپر پاور بن سکتا ہے جیسا کہ وہ پہلے کبھی ہوتا تھا۔ ان تین مضامین میں عابد مصطفیٰ امریکی انحطاط کا جائزہ لیں گےاور کیا امریکہ کی عالمی سیاست کو متاثر اور تشکیل دینے کی صلاحیت میں کوئی تبدیل واقع ہوئی ہے، پر بحث کریں گے۔

ابتدائیہ:
تہذیبوں کے ابتداء سے، انسانوں نے خود کو خاندان کی شکل میں منظم کیا جو بڑے قبائل کا حصہ ہوتےہیں۔ یہ قبیلے خاص وصف اور خصوصیات کے تحت منظم ہوتے ہیں جس میں عقیدےکو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے جو قبائل کو باہم یکجا کرتا ہے اور زندگی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے۔
قبائل کے خاص عقیدے کے گرد جمع ہونے سے اقوام وجود میں آتی ہیں۔ یہ قومیں تنہا نہیں رہتیں بلکہ زندگی کا بہاؤ انہیں ایک دوسرے سے تفاعل اور مقابلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ مقابلہ دولت اور وسائل، زمین اور جغرافیہ، عزت اور مرتبہ، آئیڈیا لوجی یعنی نظریہ حیات کے لئے طاقت اور برتری کے لئے ہوتا ہے۔
مقاصد کے حصول کے لئے صدیوں پر محیط قوموں کے تفاعل نے دو طرفہ اور کثیرالفریقی تعلقات کو جنم دیا۔ انسانی معاشروں کے پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ قوموں کے درمیان تعلقات کا دائرہ بھی علاقائی سے عالمی ہو گیا ہے پھر ان تعلقات کی قیادت سب سے طاقتور قوم کے بیان کردہ اصولوں پر ہوتی ہے۔ صفِ اول کی ریاست کی عالمی صورتحال اور واقعات کو چلانے کی سیاسی قابلیت کو بین الاقوامی نظام کہتے ہیں۔
صفِ اول کی ریاست کے مقابل ہمیشہ کچھ ریاستیں ہوتی ہیں جو کبھی اس کے ساتھ کام کرتی ہیں اور کبھی اس کے خلاف اور اہمیت حاصل کرنے کیلئے اسے چیلنج کرتی ہیں۔ صف ِاول کی ریاست اور اس کے مقابل ریاستوں سے قریب طاقتور اقوام یا مضبوط طاقتیں ہوتی ہیں جن کے پاس صفِ اول کی ریاست اور اس کے مقابل ریاست یا ریاستوں کی جگہ لینے کی اہلیت ہوتی ہے۔
بین الاقوامی نظام اس ہی وقت تبدیل ہوتا ہے جب صفِ اول کی ریاست کو ختم یا مقابل ریاست سے تبدیل کر دیا جائے۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب صفِ اول کی ریاست میں بین الاقوامی نظام کو قائم رکھنے اور طاقتور اقوام جن میں مقابل ریاست بھی شامل ہے کہ حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی قابلیت ماند پڑ جاتی ہے۔
لہٰذا بین الاقوامی نظام کبھی بھی یکساں نہیں رہتا بلکہ اس میں ہمیشہ تبدیلی کا امکان موجود رہتا ہے۔ بین الاقوامی نظام میں کس قدر تبدیلی ہو گی یہ بات براہ راست صفِ اول کی ریاست کے زوال سے منسلک ہے۔ یہ زوال جتنا شدید ہوتا ہے بڑی طاقتوں کو واقعات کو اپنے مقاصد کی طرف موڑنے اور بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
دور جدید میں ایک اور طرز کی طاقتور اقوام ابھری ہیں جو بڑی طاقتوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ انہیں سپرپاور کہا جاتا ہے۔ سپر پاور کے پاس یہ قابلیت موجود ہوتی ہے کہ وہ عسکری طاقت کی نمائش کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔ 1945ء سے پہلے صرف بڑی طاقتیں موجود تھیں، برطانیہ ایک بڑی طاقت اور صفِ اول کی ریاست تھی، جرمنی بھی ایک بڑی طاقت تھی اور برطانیہ کے مقابل تھی۔ 1945ء کے بعد اور سرد جنگ کے دوران صرف دو ریاستیں دنیا پر غالب تھیں۔ امریکہ اور سوویت یونین اور سپر پاور کے نام سے جانی جاتی تھیں، باقی بڑی طاقتیں ان کی مخالفت کرنے کے قابل نہ تھیں۔
امریکہ کا یک قطبی دور:
سرد جنگ کے دوران دو سپر پاورز باقی سب سے آگے تھیں اور دنیا کا بیشتر حصہ مغربی کیمپ اور مشرقی کیمپ سے وفاداری کی بنیاد پر تقسیم تھا لیکن سوویت یونین کے 1991ء میں انہدام کے بعد امریکہ نے خود کو ایک منفرد پوزیشن میں پایا۔ وہ نہ صرف دنیا کی صفِ اول کی ریاست تھی بلکہ سپر پاور بھی بن گئی۔ امریکی دہلیز پر بے مثال عالمی قوت اور مشرق سے مغرب تک تمام سیاسی معاملات کو تشکیل دینے کی امریکی اہلیت نے کچھ امریکی تبصرہ نگاروں کو حرص پر ابھارا۔ مشہور امریکی مفکر چارلس کرام تھامر نے دنیا کی واحد سپرپاور کے لئے آنے والے بڑے مواقعوں کو بیان کیا۔ خارجی سیاست کے مسائل پر ایک مضمون "امریکہ اور دنیا" میں اس نے لکھا:
"سرد جنگ کے بعد کا دور کثیرقطبی نہیں۔ یہ یک قطبی ہے۔ دنیا کی طاقت کا مرکز ایک ایسی ریاست، ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے جس کے ساتھ اس کے مغربی اتحادی بھی ہیں۔ سرد جنگ کے بعد کی دنیا کی سب سے امتیازی خصوصیت اس کا یک قطبی ہونا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کثیرالقطبی دنیا وقت کے ساتھ ابھرے گی۔ شاید کسی اور نسل میں ایسی عظیم طاقتیں ہوں گی جو امریکہ کی ٹکر کی ہوں گی اور دنیا اپنی ساخت میں پہلی عالمی جنگ سے قبل کے دور کی طرح ہوگی۔ لیکن ہم ابھی وہاں تک نہیں پہنچے نہ ہی کئی دہائیوں تک پہنچیں گے۔ یہ دور یک قطبی دنیا کا ہے"۔
اس کا ساتھ ایک اور مشہور مفکر فرانسس فوکو یامہ نے دیا جو اس سے قبل 1989ء میں قطعی اعلان کر چکا تھا کہ مغربی لبرل ازم تمام نظاموں کو شکست دے جا چکا ہے۔ 1989ء کی گرمیوں میں قومی مفاد (نیشنل انٹریسٹ) میں اپنے مضمون "تاریخ کا اختتام" (دی اینڈ آف ہسٹری) میں وہ لکھتا ہے:
"مغرب کی مغربی فکر کی بنا پر کامیابی سب سے پہلے اس بات سے واضح ہے کہ مغربی لبرل ازم کے متبادل کوئی بھی دوسرا نظام مکمل ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ ہم جس چیزکا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ صرف سرد جنگ کا اختتام نہیں ہے یا جنگ کے خاتمے کے بعد کے دور کا گزرنا نہیں ہے بلکہ یہ تاریخ کا اختتام ہے، یہ انسانی فکری ارتقاء کا اختتام ہے اور انسانی حکومت کی مغربی لبرل جمہوریت کی شکل میں عالمگیریت مسلمہ ہوگئی ہے۔ یہ بات نہیں کہ اب ایسے واقعات نہیں ہوں گے اور عالمی تعلقات کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ لبرل ازم کی فتح بنیادی طور پر افکار یا آگاہی کے میدان میں ہے اور حقیقی اور مادی دنیا میں یہ ابھی بھی نا مکمل ہے۔ لیکن یہ یقین کرنے کے لئے ایسے وزنی دلائل موجود ہیں کہ یہی وہ فکر ہے جو مادی دنیا کو ایک لمبے عرصے تک چلائے گی"۔
1993ء میں جب اس عظیم فتح سے امریکہ شادمان تھا اس نے اس کامیابی پر ایک مکمل کتاب لکھی اور اس کا نام "تاریخ کا اختتام اور آخری شخص" رکھا۔ اگلی دہائی تک یہ نظر آیا کہ شاید امریکہ کا دنیا بھر میں اپنی بالادستی اور سیاسی اثرورسوخ کو پھیلانے کے حوالے سے فوکویاما اور کروتھامرکا اندازہ درست تھا۔ عراق میں 1991ء میں صدام حسین کی شکست نے امریکہ کو اس قابل بنایا کہ وہ فوجی اڈوں، حفاظتی معاہدات اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات (میڈریڈ کانفرنس) کے ذریعے اپنے قدم خلیج فارس اور وسیع تر مشرق وسطیٰ میں جمائے اوربڑھائے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ یوں امریکہ کو اپنے مفادات کے تحت خطے کو تشکیل کرنے کی وہ طاقت مل گئی جو پہلے کبھی نہ تھی۔
یورپ میں یورپی یونین اور نیٹو کو زور شور کے ساتھ پھیلایا گیا تا کہ سوویت یونین سے نکلنے والے علاقوں جیسے اسٹونیہ، لیٹویا، لیتھونیا وغیرہ کو شامل کیاجائے۔ اس عمل نےیورپ پر امریکہ کی گرفت کو مزید مضبوط جبکہ روس کو مزید کمزور کر دیا۔ یورپ پر امریکی گرفت کی معراج یوگوسلاویا کے توڑنے کے لئے امریکی سیاسی اقدامات ہی تھے جس کے نتیجے بالآخر 1999ء میں کوسوو کی جنگ ہوئی اور کومانوف معاہدہ عمل میں آیا۔ مختصراً یہ کہ امریکہ نے یورپ اور روس دونوں کو کنارے سے لگا دیا۔
افریقہ میں بھی امریکہ نے قدیم یورپ کی اڑان کو روکنے کیلئے زبردست پیش قدمی کی۔ صومالیہ، کانگو، لائےبیریا میں عسکری حملے افریقہ میں برطانیہ اور فرانس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی ابتداء ثابت ہوئے۔ جبکہ بر اعظم لاطینی امریکہ میں معمولات ویسے ہی چلتے رہے کہ امریکہ نے براعظم میں وسیع سیاسی اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لئے جمہوریت کو فروغ دیا اور اس کی معیشت کو مزید اپنے قابو میں کیا۔
سیاسی اور عسکری غلبے کو اگر چھوڑ بھی دیں تو امریکہ نے کلنٹن انتظامیہ کے دورمیں عالمگیریت اور آزاد تجارت کے ذریعے امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے دنیا کے بہت سے خطے کھولے۔ امریکہ کی برتری اتنی زبردست تھی کہ فرانس کے وزیر خارجہ نے دنیا پر امریکی غلبے کی وضاحت کرنے کیلئے "ہائی پر پاور" کا لفظ استعمال کیا۔ اس نئے لقب کا بہترین مطلب یہ ہو سکتا ہے "ایک ملک جو کہ ہر چیز پر غالب اور زور آور ہے"۔
تبدیلی کی ابتداء:
21ویں صدی کی شروعات نے امریکی سورج کو ہی دمکتے دیکھا لیکن اس بار بش کی صدارت میں نیو کنزرویٹوز امریکی طاقت اور یک ترفیت کو دنیا بھر میں امریکی مفادات کے حصول کے لئے بہترین انداز سے استعمال کرنے کے لئے نئے خیالات رکھتے تھے۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کو امریکی سیاستدانوں اور بش انتظامیہ کے حامیوں کی طرف سے بہت خوش آئند طور پر دیکھا گیا۔ لیکن امریکی غرور کے حق میں یہ ولولہ قلیل مدتی تھا اور اپریل 2013ء میں سقوط بغداد کے بعد امریکہ گوریلہ جنگ کے ایک ایسے نہ ختم ہونے والے تنازعہ میں پھنس گیا جس نے دنیا کے متعلق اس کی تعصب پسندانہ سوچ کو ظاہر کر دیا۔ 2004ء میں ابو غریب کے واقعات نے یہ بات بے نقاب کردی کہ عملاً امریکی اقدار کیا ہیں۔
عراق میں امریکہ کی عسکری قوت کے باوجود بش انتظامیہ کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جیسے شیعہ سنی عوامی بغاوت، امریکی فوج کی طرف سے کی گئی قتل و غارت گری کےخلاف غصہ، امریکی ایجنٹوں کی طرف سے ماورائے عدالت کئے گئے قتل، ابو غریب کا داغ، سیاسی انتشار اور مسلم ممالک میں پھیلے ہوئے امریکہ مخالف جذبات۔ تین سال کے عرصے میں امریکہ عراق کے دلدل سے نکلنے کیلئے تگ و دو کرنے لگا۔ جس عراق کو بش انتظامیہ کے نیو کنزرویٹوز لبرل جمہوریت کے نمونے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی وہ جلد ہی مشرق وسطیٰ میں امریکی حیثیت اور عالمی سطح پر اس کے وقار کو بچانے کی جنگ میں تبدیل ہوگیا۔
بش انتظامیہ کو اس کی نیو کنزرویٹو پالیسیوں کی وجہ سے تنقید نگاروں نے گھیر لیا۔ نمایاں ڈیموکریٹس، ری پبلیکن اورمتعدد مشہور سیاستدان عراق کے بارے میں بہت منفی صورتحال پیش کر رہے تھے اور امریکی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ 2006ء میں عراق اسٹڈی گروپ نے کہا: "عراق کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے اور بتدریج خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے"۔
رچرڈ ہارس، جو کہ خارجہ تعلقات کی کونسل کا سابق صدر ہے، خطے میں امریکہ کی سیاسی واقعات کو ترتیب دینے کی قابلیت میں کمزوری کو بھانپ چکا تھا وہ کہتا ہے:
"سرد جنگ کے خاتمے اور عراق کے کویت پر حملے کے بعد امریکہ نے جس طرح خطے میں اپنی بالادستی ثابت کی ہے اس کی بنا پر پچھلی دو دہائیوں میں خطے میں امریکہ کا مقام تاریخی رہا ہے۔ لیکن اب ہم کوئی بنیادی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر ابھی ہم انتشار دیکھ رہے ہیں، مزید پیچیدہ اور مزید مسائل سے گھرا ہوا مشرق وسطیٰ، جہاں امریکہ کی معاملات کو ترتیب دینے کی اہلیت ماند پڑ چکی ہے"۔
نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے وائس چیئرمین گراہم فلر نے بیان کیا کہ عراق کی شکست کی وجہ سے امریکی اتحادی اور مخالف اس قابل ہوئے کہ وہ واقعات کو متاثر کرنے کی امریکی صلاحیت کو محدود کر سکیں۔ وہ 2006ء میں 'قومی مفاد ( نیشنل انٹرسٹ)' میں لکھتا ہے: "متعدد ممالک نے بہت سی ترکیبیں اور حربے استعمال کئے تاکہ بش ایجنڈے کو، ہزار وں چھوٹے زخموں کی موت ذریعے کمزور، تبدیل، پیچیدہ، محدود، معطل یا مسدود کر دیا جائے"۔
عین اس وقت جب کہ امریکی سیاسی قیادت عراق کی جنگ کے نتیجے میں امریکی برتری کو پہنچنے والے شدید نقصان پر سوچ و بچار کر رہی تھی، 2008ء کی گرمیوں میں عالمی معاشی بحران نے انہیں گھیر لیا۔ اس معاشی بحران کی شدت نے امریکہ کو مزید نقصان پہنچایا اور اہل رائے اور عام عوام کے اعتماد کو مزید مجروع کیا۔ ایلن گرین سپین، جو کہ اس وقت فیڈرل ریزرو کا چیئرمین تھا، نے کریڈٹ بحران جو کہ معاشی بحران کے بیچ و بیچ تھا، کو ان الفاظ میں بیان کیا: "صدی میں ایک بار ہونے والا کریڈٹ سونامی "۔ گرین سپین واحد آدمی نہیں تھا جو امریکہ کی ابتر صورتحال بیان کر رہا تھا بلکہ معاشی بحران کے فوری نتیجے میں امریکی انحطاط بحث و تمحیص کا ایک گرم موضوع بن گیا۔
عمومی طور پر دو گروہ بن گئے۔ پہلے گروہ کا نقطہ نظر یہ رہا کہ انحطاط بین الاقوامی نظام کا مستقل خاصہ ہے۔ لیکن جس چیز پر اختلاف تھا وہ زوال کی شدت کے پیمانے پر تھا۔ 2008ء میں امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے پہلی مرتبہ اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ کی عالمی طاقت پستی کی طرف رواں ہے۔ مستقبل کے بارے میں شائع کی جانے والی اپنی رپورٹ، 'گلوبل ٹرینڈز 2025' میں کونسل لکھتی ہے: "عالمی دولت اور معاشی طاقت کی مغرب سے مشرق کی طرف منتقلی شروع ہو چکی ہےاور موجودہ دور میں اس نوعیت کا واقع پہلے نہیں ہوا جو کہ امریکی صلاحیت میں انحطاط کا بنیادی سبب ہے۔ اور اس انحطاط میں عسکری سطح بھی شامل ہے"۔
تاہم ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے جلد امریکی انحطاط کی بلکہ اس کی مکمل تباہی کی بھی پیش گوئی کر دی تھی۔ ایسی ہی ایک شخصیت روسی پروفیسر آئیگور پیناریو ہے جس نے 2008ء میں کہا "ابھی اس بات کا 45 سے 55 فیصد امکان ہے کہ امریکہ ٹوٹ جائے گا"۔
ایک دوسرا گروہ بھی ہے جس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا عروج واپس بھی آسکتا ہے۔ یہ رائے رکھنے والوں میں امریکہ کے معتبر مفکرین بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر بریزنسکی ابھی تک یہ کہتا ہے کہ امریکہ خود کو اس قابل کر لے گا کہ وہ موجودہ چیلنجز سے نبرد آزما ہو سکے۔ اپنی حالیہ کتاب 'تزویراتی نگاہ : امریکہ اور عالمی طاقت کا بحران' میں وہ کہتا ہے کہ:
"امریکہ کیلئے اصل چیلنج اور اگلی کئی دہائیوں تک جغرافیائی طور پر ضروری مشن، خود کو دوبارہ زندہ کرنا ہے اور مؤثر اور وسیع مغرب کی تشہیر کرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ مشرق میں ایک مشکل توازن قائم کرنا ہے تاکہ چین کی عالمی ساکھ کو تخلیقی انداز میں جگہ دی جائے اور عالمی انتشار سے بچا جائے۔ یوریشیا میں مستحکم سیاسی، جغرافیائی توازن کے بغیر جو ایک نیا امریکہ کرے گا، معاشرتی بہبود نہیں ہوسکے گی اور انسانی بقاء کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا"۔
فرائیڈمین اور مانڈلبام اسی طرح کے جذبات رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ اپنے مخصوص کردار کی بنا پر مشکل چیلنجز سے نمٹتا ہے۔ اپنی کتاب That Used To Be US What Went Wrong With America- And How It Can Come Back میں وہ کہتے ہیں:
"امریکہ کے مستقبل کے بارے میں امید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تاریخ کے سفر میں شاز و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ امریکہ بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہا ہو۔ ہماری بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں ناکامی دراصل ایک غیر معمولی واقع ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ استثنائی ہے۔ جب کبھی بھی آزمائش ہوئی، چاہے اٹھارویں صدی کا انقلاب ہو یا بیسویں صدی کی سرد جنگ امریکہ اور امریکیوں نے کامیابی کی طرف راستے بنائے، سرزمین کا ماضی اس کے پر امید مستقبل کیلئے زرخیز زمین فراہم کرتا ہے"۔
دونوں گروہ جس بات کو رد نہ کر سکے وہ یہ ہے کہ امریکہ انحطاط سے گزر رہا ہے۔ ایک عجیب انداز میں امریکی انحطاط سے ایک اورصورت حال بھی جڑی ہوئی ہے اور وہ مغربی تہذیب اور طاقت کا انحطاط ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے شدید ماحول، معاشرتی، معاشی اور سیاسی صورتحال نے مل کر مغربی تہذیب کو شدید کھچاؤمیں مبتلاء کر دیا ہے اور بیشتر ایسا ہوا کہ یہ (تہذیب) ان مسائل، جو کہ ان شدید حالات سے پیدا ہوتے، کو حل کرنے سے عاری رہتی۔
خیر یہ اس مضمون کا موضوع نہیں گو کہ یہ اس سے لا ینحل طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس مضمون کا مرکز امریکی انحطاط ہے اور دوسرے مضمون میں ہم اس انحطاط کی وجوہات کو سمجھیں گے۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک