الإثنين، 23 محرّم 1446| 2024/07/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

یورپ کے اندرونی اختلافات، امریکہ-یورپ تعلقات اور ریاست ِ خلافت کا اِن کے خلاف ممکنہ لائحہ عمل

بسم الله الرحمن الرحيم


تحریر:کامران شیخ
آج کا یورپ جو یورپی یونین کی شکل میں بظاہر متحد نظر آتا ہے۔ اپنی بنیادوں میں وطن پرستی (Nationalism)، منفعت اور خود غرضی کی اساس پر مبنی سوچ اور اپنے ہی کروڑوں لوگوں کے خون بہا نے و الی جنگوں کا خوفناک ماضی لئے ہوئے ہے۔
یورپی ممالک نے ایک دوسرے کو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بالعموم اور بیسویں صدی میں بالخصوص جنگوں کی شکل میں شدید نقصان پہنچایا تھا۔ آخر کار اپنے خونریز ماضی سے پیچھا چھڑانے کیلئے جنگ عظیم دوئم کے بعدیورپ نےمعاشی بنیادوں پر متحد ہونے کا فیصلہ کیا اور 1951 میں European Coal and Steel Community اور 1958ء میں European Economic Community کی بنیاد ڈالی تاکہ یورپ کو معاشی مفادات کی بنیاد پر ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جو انہیں مجبور کردے کہ آپس کے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی سرحدوں کا احترام کریں اور اپنی عوام، جو کہ صدیوں کی جنگوں اور ناقص معاشی پالیسیوں سے بیزار تھی، کی خوشحالی اور مادی ترقی کے لیے کام کریں۔ شروع میں یورپ کے صرف چھ ممالک فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بلجیم، اٹلی اور لگسمبرگ نے اِن دو اداروں کی بنیاد ڈالی اور یورپ میں موجود وسائل کو مشترکہ پالیسیوں کے تحت سمیٹنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یورپ کے باقی ممالک بھی اِن پلیٹ فارمز پر شامل ہونا شروع ہوئے۔ آخر کار سوویت یونین کے ٹوٹنے سے اور کمیونزم کے زوال کے بعد 15 یورپی یونین کے ممالک نے اِن دو اداروں کو Maastricht Treatyکے تحت 1993ء میں یورپی یونین کی شکل دی تا کہ معاشی فوائد کے علاوہ سیاسی طور پر بھی اس طرح متحرک ہوا جائے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکیں اور اگر ممکن ہو تو دنیا کے افق پر امریکہ کے علاوہ یورپی یونین کو بھی ایک مضبوط سیاسی طاقت کے طور پر منوایا جا ئے۔ اس خواہش کو رکھنے والے ممالک میں یورپ کے دو ستون جرمنی اور فرانس پیش پیش تھے جبکہ موجودہ یورپی یونین میں اب 28 ممالک شامل ہیں۔ ایک اہم بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یورپ کو اکٹھا کرنے کے محرکات معاشی سے زیادہ سیاسی تھے جن میں سب سے اہم یورپ کو دوبارہ جنگوں میں ملوّث ہونے سے روکنا تھا جو بار بار وطن پرستی (Nationalism) اور مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے پھوٹ پڑتی تھیں۔
1993ء میں یورپی یونین نے اپنے قیام کے بعد قابل ذکر حد تک معاشی ترقی کی اور کئی اقدامات کے ذریعے اپنے آپ کو امریکہ کے سامنے ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر لا کھڑا کیا۔ یورپ کے ممالک کو آپس میں مزید مربوط کرنے کے لیے کئی پالیسیز بھی نافذ کی گئیں جن میں پہلے سے نافذ یورپ کی Singly Market یعنی Free Trade Zone کے علاوہ یورپی یونین میں شامل تمام ممالک پرداخلی طور پر عدلیہ، تجارت، زراعت، ماہی گیری اور علاقائی ترقی کے لئے یکسا ں قوانین کا نفاذ اور خارجی طور پر لوگوں، services یعنی خدمات، اشیاء اور سرمائے کا بِلا روک ٹو ک تبادلہ یقینی بنانا ہے۔ اس کے ساتھ شنگین ویزہ (schengen visa) نے بھی یورپ کو پوری دنیا کے لوگوں کے لیے توجہ کا ایک بہت بڑا مرکز بنادیا۔ یورپی ممالک، جو اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط ہوتا دیکھ رہے تھے، نےاپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی معشیت بنانے کے لیے 2002ء میں اپنی ملکی کرنسیوں سے دستبردار ہو کر واحد کرنسی یورو کو اختیار کرلیا۔ اِس وقت یورو زون یعنی یورو کرنسی کو اختیار کرنے والے ممالک کی تعداد 18ہو چکی ہے۔
1993ء میں یورپی یونین کے آغاز کے بعد سے 2007ء تک بین الاقوامی سطح پرمعاشی عناصر (Economic Factors) مستحکم ہونے کی بدولت یورپی ممالک نے معاشی میدان میں خوب ترقی کی گو کہ سیاسی اور فوجی اعتبار سے یورپ تب بھی امر یکہ کے اثرو رسوخ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، لیکن اِس معاشی ترقی کی بدولت وہ یہ سمجھنے لگے کہ شاید انہوں نے اختلافا ت سے بھر پورماضی سے پیچھا چھڑا لیا ہے اور اب اُن کی ترقی کا دارو مدار یورپی یونین کے اتحاد پر ہی ہے۔ لیکن 2008ء میں آنے والے معاشی بحران نے جس کا آغاز امریکہ سے ہوا تھا یورپ کو بھی بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ ممالک جو منفعت کی بنیاد پر اکٹھے ہوئے تھے بحران شدید ہوتے ہی دوبارہ اِن اختلافات کی جانب لوٹ آئے جو کہ یونین کی بنیا د وں میں شامل تھی اور جن کی اساس ہم مذہب ہونے کے باوجود مختلف قومی ریاستوں (Nation States) میں بٹے ہونا تھا۔ آئیے اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یورپ کا بحران کس نوعیت کا ہے اور اِس نے کس طرح یورپی ممالک کی بنیادوں میں موجود اختلافا ت کو ایک مرتبہ پھر سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
نومبر 2008ء میں جب عالمی مالیاتی بحران اپنے مرکز امریکہ سے شروع ہوا تو یورپ نے سرکاری طور پر کساد بازاری اور معاشی سکڑاؤ کے شروع ہونے کا اعلان کیا۔ پھر پے در پے اقتصادی اور مالیاتی بحران نمودار ہونے لگے مثلاً سٹاک مارکیٹس کا بحران، کمپنیوں اور بنکوں کا دیوالیہ ہونا وغیرہ۔ پھر اِن ممالک کی طرف سے اِن مالیا تی اداروں کے بچانے کے لیے بے تحاشہ پیسہ لگایا گیا جو اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے ان ملکوں پر بہت بھاری بوجھ بن گیا جس نے بہت تیزی سے Sovereign Debt Crisis یعنی ریاستی قرضوں کے بحران کی شکل لے لی جو تا دمِ تحریر جاری ہے۔ یورو کا بحران اُس وقت نمایا ں ہوا جب بڑی عالمی کرنسیوں خاص کر ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قیمت گرنے لگی اوراس کے بعد ہی Sovereign Debt یعنی ریاستی قرضوں کا بحران شروع ہوا۔ ریاستی قرضے اُس وقت بحران کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جب ایک ریاست کے قرضے اُس کی آمدن اور GDPسے بڑھ جائیں اور وہ ملک اپنے قرضوں کو Treasury Bonds کی شکل میں دوسرے ممالک، بنکوں اور عالمی اِداروں کو جاری کرتا ہے جن پر وہ انہیں شر ح سود بھی ادا کر تا ہے لیکن اگروہ ملک اس قابل نہ رہے کہ بانڈز پر ہر دم بڑھتے سود اور انشورنس ویلیو کی رقم ادا کر سکے جبکہ دوسری طرف وہ اُس قرضے کو بھی ادا کرنے سے عاجز ہو جائے تو اُسکے جاری کردہ Treasury Bonds پر ان ممالک اور مالیتی اداروں کا اعتماد گھٹ جاتا ہے اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں یوں ایسا بحران جنم لیتا ہے جو نہ صرف اس ملک کے پورے اقتصادی نظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ سیاسی استحکام اور حکومتی پوزیشن کو بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
یورپ کا یورو زون اُس وقت کے بعد سے شدید متاثر ہوا جب 2011ء میں یونان کے ریاستی قرضوں کے بارے میں یہ خبر عام ہوگئی کہ وہ اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں رہا جو کہ 350 ملین یورو یا 482 بلین ڈالرز کے مساوی تھے۔ یہ قرضے اُس کی سالانہ پیداوار (GDP) سے 160 فیصد زیادہ تھے یہاں تک کہ اس کا بجٹ خسارہ 13.6 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے لیے بجٹ خسارے کی حد 3.5 فیصد ہے۔ یہ بحران اتنا شدید ہوا کہ آخر کار یونان کے وزیر اعظم پاپا نڈریو کو اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہونا پڑا۔ یہی حال اُس وقت اٹلی کا بھی تھا جب ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی وجہ سے اٹلی کے وزیر اعظم بر لسکونی کو بھی اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اسی قسم کے بحرانوں کا سا منا یورپ کے مزید ممالک آئرلینڈ، پرتگال اور سپین کو بھی کرنا پڑا حتی کہ Sovereign Debt Crisis نے فرانس جیسے ملک کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جو یورپی یو نین کا ایک بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ یورو زون کا بھی ایک بڑا ملک ہے۔ آج اس معاشی بحران کا سامنا کرتے ہوئے یورپ کو تقریباً 6 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن اب تک یورپ اس سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ یونین کے مجموعی فائدے کے بارے میں سوچنے کی بجائے ہر ملک کا وطنیت اور مفاد کی بنیاد پر سوچنا ہے۔
یورپی یونین کے دو اہم ترین ستون جرمنی اور فرانس ہیں۔ یہی دو ممالک سب سے زیادہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یونین کو ایک مضبو ط بلاک بنائیں تا کہ دنیا میں اپنی سیاسی بر تری کے خواب کو پورا کر سکیں۔ فرانس اور جرمنی دونوںہی یورو زون کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں لیکن یوں لگ رہا ہے کہ اس بحران پر قابو پانے اوراس کو حل کرنے کے طریقہ کار پر ان دو ملکوں میں بھی بنیادی اختلافا ت پائے جاتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ اقتصادیات کا موضوع ریاستوں کی بالا دستی کے موضوع سے ٹکرا تا ہے اور اس کی وجہ ان دونوںمما لک کااپنے آپ کو یورپی یونین کے دو بڑے لیڈر سمجھنا ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان پس پردہ بالا دستی کی رسہّ کشی چلتی رہتی ہے کہ کون اس اتحاد کے فیصلوں پر اثر انداز ہو گا اور کس کی بات مانی جائے گی۔ فرانس نے ان بحرانوں کے حل کے لیے اقتصادی حکومت بنانے کی پیشکش کی جو ہر ملک پر ایک مخصوص اقتصادی پالیسی نا فذ کرے گی اور ہر ملک اس کا پابند ہو جبکہ جرمنی نے اکنامک مینجمنٹ قائم کرنے کی تجویز دی یعنی ایسا اسٹرکچر اور فریم ورک بنایا جائے جو صرف پابندیاں لگائے اور اقتصادی حکومت بنانے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ اس سے ہر ملک کو یہ تاثر ملے گا کہ ان کی حکومتوں سے بھی کوئی بڑا ادارہ ہے جو انہیں حکم جاری کرتا ہے اور اس طرح اُنہیں اپنی بالادستی خطرے میں نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کی اس تجویز کو پورے یورپ میں پذیرائی نہ مل سکی۔
یورپی یونین کے حوالے سے جرمنی کے کردار کو سمجھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یورپ کے اکٹھا ہونے کے بعد سے بالعموم اور یورپی یونین کے قیام کے بعد سے بالخصوص پورے یورپ کی منڈیوں سے سب سے زیادہ معاشی فائدہ جرمنی نے اٹھایا اور پورے یورپ کے وسائل کو اپنے اور اپنی عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کیا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ جرمنی معاشی اعتبار سے یورپی یونین اور یوروزون کا سب سے طاقتور ملک ہے۔ اس کی مضبوط معیشت کا سا را دارو مدار اس کی برآمدات پر ہے جو اس کے GDP کا 40 فیصد ہے۔ جرمنی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یورپ Free Trade Zone ہونے کی وجہ سے 500 ملین سے زائد لوگوں کی ایک وسیع مارکیٹ ہے۔ جرمنی ایک ایسا ملک ہے جس کی زرعی اور صنعتی پیداوار انتہائی بڑے پیمانے پر تیار ہونے کے بعد ایک وسیع مارکیٹ چاہتی ہیں۔ یورپ کا Free Trade Zone ہونا ہر لحاظ سے جرمنی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ جرمنی کی وسیع برآمدات نے یورپ کے تمام ممالک کی منڈیوں پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جس کے باعث جرمنی پورے یورپ سے مفادات سمیٹتا ہے۔ دوسری طرف معاشی اعتبار سے یورپ کا سب سے زیادہ مضبوط ملک ہو نے کی وجہ سے یورپین سینٹرل بینک میں نسبتاً سب سے زیادہ حصہ جرمنی کا ہے جس کی وجہ سے اس کے مفادات ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ یورپ میں یورو کی قدریہی یورپین سینٹرل بینک ہی کنٹرول کر تا ہے۔ لہٰذا ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اگر جرمنی سینٹرل بینک میں سب سے بڑا حصہ دار ہے تو وہ اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اس طرح وہ اس بینک کے ذریعے پورے یورپ کی مالیاتی پالیسی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح جرمنی کو معلوم ہے کہ پورے یورپ کو یورپی یونین کے چارٹر کے تحت جوڑے رکھنے اور انہیں ایک ہی کرنسی کی چھتری تلے جمع رکھنے میں اس کا اپنا ہی مفاد ہے۔ مگر دوسری طرف اس کے معاشی مفادات اور پالیسیاں یورپ کے معاشی بحران کے حل میں ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ یورپ کا تقریباً ہر ملک ہی جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کا شکار ہے حتی کہ یورپ کا دوسرے بڑے ملک فرانس کے بھی اربوں یورو جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کی وجہ سے ڈوب چکے ہیں یہی تجارتی خسارہ ان ممالک کے بجٹ میں بجٹ خسارے کا باعث بنتا ہے۔ دوسری طرف یورپین سینٹرل بینک میں جرمنی کا اثر و رسوخ بھی دوسرے ممالک کے معاشی معا ملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جرمنی یورپی یونین کو مزید کمزوری سے بچانے کے لیے یورپی ممالک کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نکالنا بھی چا ہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے وہ اپنے ریاستی مفادات کسی صورت داؤ پر نہیں لگا نا چاہتا۔ جرمنی کی طرف سے یورپ کو بحران سے نکالنے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) یورپی یونین قانون سازی کے تحت برسلز جو کہ یورپی یونین کا بیلجیم میں دارالحکومت ہے کو یورپی سینٹرل بینک کے ذریعے یہ اختیار دے کہ وہ اُن تمام ممالک کے بجٹ کو، جو ریاستی قرضوں کے بحران کا شکار ہیں، کنٹرول کر سکے۔
2) ایسے ممالک ہر صورت اپنی مالیاتی پالیسی میں سادگی کے اصول اختیار کرنے والے اقدامات اپنائیں یعنی ریاستی اخراجات اور عوامی ترقیاتی منصوبوں پر اُٹھنے والے خرچوں کو کم کریں۔
3) یورپی یونین کی طرف سے مقروض ریاستوں کو بین الاقوامی سطح پر کوئی مدد فراہم نہ کی جائے۔
4) ریاستی قرضوں میں ڈوبے ممالک کے یورپی یونین کے الیکشن میں، جو ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں، ووٹ ڈالنے کا اختیارمنجمد کر دیا جائے۔
5) ایسے ممالک سادگی کے اصولوں کے تحت اپنے عوام کی تنخواہوں کی سطح کو کم کریں۔
6) بجٹ کو بڑھانے کے لیے بجٹ خسارے کی اجازت دینے والے ممالک کی مالی مدد بند کر دی جائے۔
7) ہر ملک اپنے آئین میں بجٹ خسارے کی حد مقرر کرے تاکہ نادہندہ ہونے کی صورت میں اُسے یورپی یونین سے نکلنا نہ پڑے۔
لیکن یورپی ممالک کی حکومتیں جرمنی کی ان تجاویز کوماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف تو عوامی ترقیاتی منصوبوں پر رقم کم کرنے اور عوام کی تنخواہوں کو کم کرنے سے انہیں اپنے ہی ملک میں اپنی عوام کی مخالفت مول لینا پڑے گی دوسری طرف انہیں 2009ء میں طے پانے والے لسبن معاہدہ (Lisbon Treaty) میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ لسبن معاہدہ یورپی یونین پر حکمران ہے اور یورپی ممالک ان پر پہلے ہی بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے اور اپنے قومی مفادات کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھے۔ پھر یہ تجاویز کسی بھی ملک کے اقتدار اعلٰی(Sovereignty) میں براہ راست مداخلت تھیں جس کے لیے یورپی ممالک کبھی بھی متفق نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا اب تک یورپی یونین اس بحران سے نکلنے میں ناکام نظر آتی ہے کیونکہ ہر ریاست یونین سے بڑھ کر اپنے مفادات کو مقدم رکھتی ہے۔
جہاں تک Austerity Measures یعنی سادگی پر مبنی اقدامات کی بات ہے تو مقروض ممالک ایک حد سے زیادہ سادگی اپنا نے کے لیے تیار نہیں کیونکہ انہیں اپنی عوام پر مزید ٹیکسوں سمیت کئی ایسے اقدامات اٹھانا پڑیں گے جو اُن کی حکومت کو انتہائی غیر مقبول بنادیں گے۔ ان مقروض ممالک کا کہنا ہے کہ چونکہ یورپ کے امیر ممالک نے یورپی Free Trade Zone اور دوسری پالیسیوں کے تحت یورپ کے وسائل کو زیادہ استعمال کیا ہے لہٰذا ریاستی قرضوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے بڑے ممالک ہی ان قرضوں کا بوجھ اٹھائیں اور قرضوں میں پھنسے ہوئے ممالک، جن میں یونان، اٹلی، پرتگال، آئر لینڈ اور سپین سرفہرست ہیں، کو مزید قرضے بھی دیتے رہیں تا کہ یہ مما لک defaultنہ کریں اور یورپی یونین کو مزید خطرے سے بچائیں۔ لیکن امیر ممالک خصوصاً جرمنی جو پہلے ہی بہت قرضے دے چکے ہیں مزید ایسے قرضے نہیں دینا چاہتے جن کی واپسی کی کوئی امید نہ ہو بلکہ وہ مقروض ممالک کو سادگی پر مبنی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہر ملک کے اندرطبقاتی فرق (Class difference) بھی شدید اختلا فات کا باعث بن رہا ہے۔ ہر ملک کانچلا اور درمیانہ طبقہ (Lower and Middle class) یہ سمجھتے ہیں کہ عوام جو اس بحران کے سبب پہلے ہی بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور ٹیکسوں کے بوجھ کا شکار ہیں، سادگی پر مبنی اقدامات کا نشانہ بھی وہی بنیں گے اور اشرافیہ کو اس کی کوئی قیمت نہیں چکانی پڑے گی۔ لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے ملک کی اشرافیہ کو ہی اس کا بوجھ اٹھانا چاہیے جنہیں پہلے ہی حکومتوں نے کئی مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ دے رکھی ہے۔ کئی ممالک کے عوام یورپی یونین کو ہی اپنے مسائل کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں کیو نکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس یونین سے بڑے ممالک ہی فائدہ اٹھاتے ہیں لہٰذا ان ممالک میں یونین سے نکلنے کی آوازیں بڑھتی جارہی ہیں۔
جرمنی ایک طرح سے شدید مخمصے اور کشمکش کا شکار ہے۔ اگر قرضوں میں ڈوبے تمام ممالک سادگی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تو اس سے جرمنی کی برآمدات، جو اس کی معیشت کے لیے آکسیجن اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، پر شدید ضرب پڑے گی کیونکہ ان اقدامات سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ لہٰذا جرمنی نہ چاہتے ہوئے بھی ان ممالک کو یورپین سینٹرل بینک کے ذریعے قرضے جاری کرواتا رہتا ہے تاکہ ان ممالک میں جرمنی کی مصنوعات کے لیے طلب اور قوت خرید دونوں برقرار رہیں۔
جرمنی نے قرضوں میں پھنسے ممالک کی مدد کے لیے قائم کردہ فنڈ European Stabilization Fund میں بھی اپنا حصہ 450 بلین یورو سے بڑھا کر 1000 بلین یورو کر دیا ہے۔ پھر اس نے کچھ عرصہ قبل سپین کی بیمار معشیت کو بھی 100 بلین یورو کا قرضہ دیا۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ جرمنی اس یونین کو بچانے کے لے سر توڑکوششیں کر رہا ہے کیونکہ اگر ایک ملک بھی defaultکر گیا تو اُسے یورپی یونین سے نکلنا پڑے گا اور اگر ایک مرتبہ یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو جرمنی بھی نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوگا اور یونین کے وجود کو شدید خطرات سے دو چار کردے گا۔ لیکن جرمنی یہ بھی چاہتا ہے کہ باقی ممالک اپنے بجٹوں کو منظم کریں اور ریاستی قرضوں کے بحران سے خود چھٹکارا پائیں۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا اور یورو کرنسی بدستور خطرے میں ہے۔ جرمنی کی چا نسلر انجیلا مر کل نے یوروزون کے مستقبل کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے تاکید سے کہا تھا کہ ''جرمنی نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ملک دیوالیہ ہو کیو نکہ ایک کے دیوا لیہ ہونے کامطلب ہے سب کا دیوالیہ ہونا''۔ پھر ایک موقع پر اپنی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "یورپ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے مشکل ترین دورسے گزر رہا ہے اگر یورو ناکام ہوگیا تو یورپ ناکام ہو جائے گا"۔
جرمنی کی طرف سے بکثرت تجاویز، یورپین سٹیبلائزیشن فنڈ میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ریاستی مفادات کے تحفظ کے ساتھ سا تھ یورپ، یورپی یونین اور یورو کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نجات دلانا چاہتا ہے اس بات کو جانتے ہوئے کہ یورو یورپی یونین کی کامیا بی کا راز ہے اور یورو کا زوال یورپ کا زوال ہے۔
اس بحران کے سیاسی اور معاشرتی منفی اثرات بھی یورپ پر کم نمایاں نہیں۔ جیسے پہلے بات ہوئی کہ ہر ملک اس بحران کی قیمت چکانے کے لیے متوسط درجے اور اشرافیہ کے طبقات میں تقسیم ہے جبکہ دوسری طرف یورپ میں بے روز گاری کی شرح ہر دم بڑھ رہی ہے۔ 2013ء میں یورپ میں بے روز گاری کی شرح کی اوسط 11.6 فیصد تھی جبکہ 11 ممالک میں یہ شرح 10-17 فیصد اور دو ممالک سپین اور یونان میں بالتر تیب 25 اور 26.5 فیصد ہے۔ بے روز گاری کی یہ شرح کسی بھی لحاظ سے کسی بھی ملک کے لیے خطرناک قرار دی جا سکتی ہے۔ اس بے روز گاری کی وجہ سے یہ ممالک بہت سے دوسرے معاشرتی مسائل کا شکار بھی ہو رہے ہیں جبکہ سیاسی طور پر اس صورتحال کا الزام یورپی یونین کے سر تھوپتے ہیں۔
جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے جو کہ اس اتحاد کا بڑا اہم رکن ہے تو وہ اٹلانٹک کارنر کے ایک مقام پر کھڑا یورپ کی حالت زار کا تماشہ دیکھ رہا ہے اوراپنے آپ کو اتحاد کی تباہی اور اس مالیاتی بحران جس کا وہ خود بھی شکار ہے، کے نتائج سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے لیکن وہ اتحاد کی مشکلات کو حل کرنے میں اس قدر دلچسپی نہیں لے رہا جس قدر وہ مفادات اور غنائم کی تاک میں بیٹھا ہے۔ چونکہ وہ یوروزون میں داخل ہی نہیں ہوا لہٰذا اپنی کرنسی پاؤنڈ سٹرلنگ سے دستبردار نہیں ہوا اور یورو کو اختیار کرنے میں دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کرتا اس لیے یورو کا معاملہ اس کے لیے کسی اہمیت کا حا مل نہیں۔ برطانیہ کے اندر بھی ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جو یورپی یونین سے علیحدگی کی باتیں کرتی ہیں تاکہ کوئی اس پر یورو کو اپنانے کے لیے دباؤ نہ ڈالے۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے ایک موقع پر کہا کہ ''یورو اجتماعی حماقت ہے اور وہ بہت جلد تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائے گا''۔ پھر یورو زون کو تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک ایسی جلتی ہوئی عمارت ہے جس میں آگ سے بچ نکلنے کے دروازے ہی موجود نہیں"۔ ایک اور موقع پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ''یورو بحران صرف یورپی معیشت کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی معیشت کے لیے خطرے کے گھنٹی ہے''۔ یورپ کے سیاستدانو ں کو برطانیہ کی دوغلی پالیسی اور بدیانتی کا علم ہے چنانچہ یورپی کمیشن کے سابق صدر باروسو نے یہ کہتے ہوئے اشارہ کیاکہ ''ان اتحادی ممالک کو چاہیے کہ جو یورو میں شامل ہونے کی تائید نہیں کرتے کہ وہ اُن ممالک کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہ کریں جو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں''۔
اس سب کے باوجود جب تک یہ یونین قائم ہے برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ اس سے وہ سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کرتا ہے۔ برطانیہ عا لمی سطح پر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے یورپ کو اس بات کی طرف کھینچتا ہے کہ وہ عالمی امور پر اس کے مفاد کے مطابق رائے اختیار کرے بلکہ یورپی یونین سے سے نکلنا اس کے لیے نقصان دہ ہوگا اسی لیے وزیر اعظم کیمرون نے یہ کہتے ہوئے وضاحت کی کہ ''یورپی یونین سے نکلنا برطانیہ کے قومی مفاد میں نہیں جس وقت ہم یورپی یونین سے نکلے ہمارے حالت ناروے کی طرح ہو جائے گی یعنی برسلز سے ہونے والے ہر فیصلے سے ہم متاثر تو ضرور ہوں گے لیکن کسی فیصلے میں شریک نہیں ہوں گے''۔ ساتھ ہی وہ برطانیہ کی بالادستی سے دستبردار ہونے کے لیے بھی تیار نہیں جب اُس نے کہا کہ ''برسلز میں یورپی کمیشن کے اختیارات کے بڑے حصے کو قومی حکومتوں کو دے دینا چاہیے''۔ یوں برطانیہ یورپی یونین سے نکلنا بھی نہیں چاہتا جبکہ یورو زون میں شامل بھی نہیں ہونا چاہتا۔
یورپی یونین کا 28 ممالک میں بٹے ہونا اور اس میں ایک مضبوط سیاسی لیڈر شپ کا نہ ہونا اس کو صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور فوجی محاذ پر بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ یورپ کی فوجی طاقت کو امریکہ نیٹو کے ذریعے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے جبکہ2000 ء سے بڑے یورپی ممالک، جن میں جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین شامل ہیں، یہ کوشش کر رہے ہیں کہ یورپین آپریشنل ہیڈ کوارٹر قائم کیا جائے جس کے تحت علیحدہ یورپین فورس بنائی جائے جو کہ نیٹوسے علیحدہ اور امریکی اثر سے آزاد ہو اور یورپ کے سیا سی اور فوجی اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کی جائے۔ لیکن اب تک اس ارادے کو کمزور یورپی سیاسی قیادت کی وجہ سے عملی جامہ نہیں پہنا یا جا سکا کیونکہ دوسری طرف برطانیہ اس منصوبے کی شدید مخالفت کر رہا ہے کیو نکہ وہ سمجھتا ہے اس طرح یورپ پر اس کا اثر ورسوخ کم ہو جائے گاجبکہ وہ ہر حالت میں یورپ پراثرو رسوخ رکھنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں یورپ کی طرف سے تازہ ترین کوشش 2011ء میں کی گئی جب پانچ یورپی ممالک جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور پولینڈ نے ایک خفیہ مراسلہ یورپی یونین کی وزیر خارجہ Lady Ashton کو ارسال کیا جس میں اُسے برطانیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے آپریشنل ہیڈ کوارٹر بنانے کی ہدایت کی گئی اور یقین دلایا گیا کہ اُسے ان ممالک کی طرف سے ہر ممکن تعاون دستیاب ہوگا۔ لیکن یہ خفیہ مراسلہ منظر عام پر آگیا اور برطانیہ نے اس پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی پارلیمنٹ میں اسے ویٹو کرنے کی دھمکی دیدی۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں برطانیہ کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے جو ہر صورت یورپی یونین کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یورپ صرف نیٹوکی شکل میں ہی مشترکہ فوجی صلاحیت رکھے جس کا فائدہ صرف امریکہ ہی اٹھاتا رہے۔ دوسری طرف امریکہ نے یورپ کی کئی ریاستوں خاص طور پر مشرقی یورپ کی ریاستوں کے ساتھ سکیورٹی کے نام پر فوجی معا ہد ات کر رکھے ہیں۔ وہ ان معاہدات کے ذریعے اُن کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا دلاسہ بھی دیتا ہے جس کی وجہ سے مشرقی یورپ کی یہ ریا ستیں جو خود بھی یورپی یونین کا حصہ ہیں یورپ کی علیحدہ فورس بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ یوں یورپ کے بٹے ہونے اور مضبوط سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یونین اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نہ کر سکی۔ اس بات پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی کمیشن کے سابق صدر Prodi نے کہا کہ ''یورپ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اپنے معاشی معاملا ت تو خود سنبھالے جبکہ سکیورٹی کی ذمہ داری امریکہ کے حوالے کردی جائے''۔
یورپ کا توانائی کی ضروریات میں خود کفیل نہ ہونا بھی اسے بہت کمزور کرتا ہے، خاص کر گیس کے معاملے میں۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کا صرف 35 سے 40 فیصد خود مہیا کرتا ہے جبکہ اپنی ضرورت کا ایک تہائی حصہ روس سے حاصل کرتا ہے جو یورپ کو خطرناک حد تک روس کا محتاج بنادیتا ہے۔ اس محتاجی کے باعث یورپ روس کی 2008ء میں جارجیا اور 2014ء میں یوکرائن کے خلاف جارحیت کے خلاف چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پایا اور روس نے گیس کے کارڈ کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے یورپ کو بے بس کر دیا۔
یونین کی ان تمام کمزوریوں اور موجودہ معاشی اور ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی صلاحیت اور اس کے نتیجے میں بڑھتی بے روز گاری اور دوسرے مسائل یورپ کی عوام کی رائے یونین کے خلاف کر رہے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت پچھلے ماہ بر طانیہ اور فرانس میں ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تھے جن میں لوگوں نے اُن جماعتوں کو ووٹ دیا جویورپی یونین کو اپنے ممالک کی ترقی کے لیے رکاوٹ سمجھتے ہیں اور یونین کے زیادہ تر اختیارات ریاستی حکومتوں کو دلوانا چاہتے ہیں۔ ان جماعتوں کو ملنے والی سیٹیں اب تک ہونے والے تمام انتخابات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں گو کہ اسکے باوجود یورپی یونین کے ٹوٹنے کا فی الفور خطرہ نہیں لیکن انتخابات کے نتائج یونین کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یورپ کے دانشور اور مفکرین ان الیکشن کے نتائج کے یورپی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ووٹ قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذ یورپی یونین کی 2008ء تک کی معاشی کامیابیاں جس نے دنیا بھر کے پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا تھا کہ یورپی یونین آنے والے سالوں میں کیا کچھ بن سکتی ہے، اس کی حالیہ ناکامیوں نے اس سوال کو تبدیل کر کے ایک نیا سوال ان کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے کہ ان بحرانوں اور کمزور عوامی حمایت کے ساتھ یہ یونین کب تک قائم رہ سکتی ہے۔
یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یورپی یونین محض مفادات کی بنیاد پر اکٹھے ہونے والے ممالک کا اتحاد ہے یہ ایک مضبوط سیاسی وحدت(political entity) نہیں بلکہ 28 ریاستوں کا ایک غیر فطری اتحاد ہے جو اپنے اندر کئی کمزوریاں رکھتا ہے جس میں سب سے اہم قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو اسے کبھی ایک مضبوط سیاسی قوت نہیں بننے دے گا۔
آئیے اب کچھ بات امریکہ کے حوالے سے ہو جائے۔ امریکہ کسی ایسے بلاک یا نظر یاتی ریاست کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتا جو اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو چیلنج کرے۔ ہم آنے والی نظر یاتی ریاستِ خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے تو امریکی کوششوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں، آیئے دیکھتے ہیں کہ خود اپنی بڑھتی ہوئی کمزوریوں کے باوجود یہ یورپ کو کس طرح کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کس طرح اسے دنیا میں ایک مضبوط بلاک کی شکل میں ابھر نے نہیں دیتا۔
معاشی طور پر امریکہ نے یورپ کے بحران سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ایک طرف تو اسے یہ موقع ملا کہ وہ لوگوں کی توجہ اپنی مالی اور اقتصادی بدحالی سے ہٹائے اور ان کی نگاہ اس حقیقت سے پھیر دے کہ اس بحران کی اصل وجہ وہ خود ہے۔ دوسری طرف اس نے یورپ کے عوام کا یونین کے اتحاد اور یورو کرنسی پر کم ہوتے اعتماد کو مزید کم کرنے کے لیے یورپ کی معاشی مدد سے انکار کر دیا تاکہ امریکہ اور ڈالر کے مقابلے میں یورپ اور یورو کا اثر و رسوخ بڑھنے نہ پائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپ اس کے زیرِ دست رہے اور اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُس کی اُس قدر ہی مدد کرتا ہے کہ وہ اس کے ماتحت رہے۔ امریکہ نے دو سال پہلے یورپ کی درخواست کے باوجود ریاستی قرضوں کے بحران میں مدد کے لیے آئی ایم ایف میں اپنے فنڈز کو دوگنا کرنے سے انکار کر دیا تاکہ یورپ اس بحران سے نکل نہ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشہور کریڈٹ ریٹنگ کمپنیوں جیسے Standards and Poor's اور Moody's and Fitch وہ امریکی کمپنیاں ہیں جو یورپی ممالک کی معاشی حالت کو مزید ڈانوا ڈول کرنے میں کردار ادا کر رہی ہیں، چنانچہ ان کمپنیوں نے سپین، یونان، اٹلی، پرتگال کے ساتھ ساتھ 21 یورپی بینکوں کی درجہ بندی میں کمی کردی۔ ان بینکوں میں یورپ کے کئی بڑے بینک بھی شامل ہیں جس نے یورپ کو مزید مالی مشکلات سے دو چار کردیا۔ اس کے علاوہ امریکہ ریاستی اور فوجی اعتبار سے بھی یورپ کو کمزور اور تقسیم رکھنے کی کوشش مندرجہ ذیل ذرائع سے کرتا ہے:
1) نیٹو کو قائم رکھ کر جو کہ سوویت یونین کی expansion policy کو مدِ نظر رکھ کریورپ کو تحفظ فراہم کرنے کے بہانے 1949ءمیں بنائی گئی تھی۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اصولی طورپر اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر اس کو ختم نہ کرنا اور اس کو اپنی قیادت میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا امریکہ کی پالیسی ہے۔ اسی نیٹوکو وہ ایک طرف اسلام کے خلاف استعمال کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے بہانے یورپ کو اپنی علیحدہ فورس بنانے نہیں دیتا۔
2) برطانیہ، جو کہ مکمل طور پریورپی یونین میں شامل نہیں ہونا چاہتا بلکہ اپنا آزاد اور بالادست و جود قائم رکھنا چاہتا ہے، اپنا مفاد یورپ سے بھی حاصل کرنا چاہتا ہے اور امریکہ کا ساتھ بھی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس وجہ سے وہ یونین کے اندر تقسیم اور اختلاف کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ چیز امریکی مفادات کا تحفظ جو کمزور یورپی یونین سے جڑا ہوا ہے یقینی بناتی ہے۔
3) مشرقی یورپ کے کئی ممالک جو 2003ء میں یورپی یونین میں شامل ہوئے تھے جن میں پولینڈ، بلغاریہ، چیک ریپبلک، ہنگری، رومانیہ اور دوسرے شامل ہیں ان میں سے زیادہ تر ممالک کے ساتھ امریکہ کے فوجی و سکیورٹی معاہدات ہیں جو ایک طرف یونین پر امریکی اثر و رسوخ کو بڑھاتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان ممالک کو یونین کی علیحدہ فورس بنانے کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔
4) امریکہ دنیا میں زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہےاور یہ چیز یورپ کو امریکہ پر انحصار کرنے پر مجبورکرتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا تیسری دنیا کے ممالک کے حکمرانوں پر گہرا اثر و رسوخ بھی دنیا بھر کی تجارت اور دوسرے معا ہدات میں یورپ کے مقابلے میں امریکہ کے غلبے کو یقینی بنا تا ہے۔
ان وجوہات کی بناہ پر امریکہ کا یورپ پر پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے گو کہ امریکہ خود بھی شدید اقتصا دی بحران کا شکار ہے۔ امریکہ میں بھی بے روز گاری کی شرح بڑھ رہی ہے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے تیس ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ ساڑھے چار کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں مگر دو وجوہات کی بنیاد پر امریکہ کی ریاست کو یورپی یونین کے مقابلے میں ٹوٹنے کا خطرہ نہیں۔
1) امریکہ کی فیصلہ سازی یورپی یونین کی طرح 28 ممالک میں تقسیم نہیں بلکہ تمام فیصلے واشنگٹن ڈی سی میں ہی ہوتے ہیں۔ یہ امر اُس کی سیاسی طاقت کو تقسیم نہیں ہونے دیتا۔
2) امریکہ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کی حیثیت کو چیلنج کرنے والی کوئی نظریاتی ریاست فی الحال موجود نہیں۔
اس کے باوجود یورپ جب اور جہاں موقع پائے امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ امریکہ نے جب چا ہااقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے اپنے مفادات اور منصوبوں کے مطابق قرار دار کو پاس کروا لیتا چاہے وہ کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگانے کا معاملہ ہو یا کسی ملک پر حملہ کرنے کا۔ مگر2003ء میں فرانس اور جرمنی نے عراق کے خلاف سکیورٹی کونسل کو امریکہ کی حمایت کرنے اور دنیا کو عراق پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھا ہونے سے روک دیا۔ فرانس نے با لخصوص ایسی مہم چلائی کہ ایک طرف تو سکیورٹی کونسل نے امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ جب امریکہ نے اکیلے ہی عراق پر چڑھائی کی تو فرانس نے امریکہ کو ایک ایسی ریاست کے طورپر مشہور کیا جو بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہے اور اپنے غرور میں کسی اصول اور ضابطے کی پر واہ نہیں کرتی۔ اس طرح پوری دنیا میں امریکہ کا image متاثر ہوا۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ گو کہ امریکہ نیٹو کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے مگر بعض یورپی ممالک اہم مواقع پر اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر کے، واپس بلوا کر یا فوجیوں کو نہ بھجوا کر اہم مہمات میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے نیٹو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں۔ عراق کے خلاف جنگ میں برطانیہ کے علاوہ کوئی دوسرا یورپی ملک شامل نہ ہوا۔ جبکہ افغانستان کے خلاف جنگ میں گو کہ یورپی ممالک شروع میں نیٹو کے پلیٹ فارم سے امریکہ کے ساتھ شامل تھے لیکن پچھلے چار سے پانچ سالوں میں یورپی ممالک کی اس حمائت میں واضح کمی آئی ہے بلکہ کئی ممالک نے تو اپنی پارلیمنٹ سے منظوری نہ ملنے کے بہانے کو استعمال کرتے ہوئے سرے سے فوج بھیجنے سے ہی انکار کر دیا جبکہ برطانیہ سمیت چند ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنے فوجیوں کی تعیناتی افغانستان کے اُن اضلاع میں کرواتے ہیں جہاں طالبان کا خطرہ کم سے کم ہے اور خطر ناک علاقوں میں زیادہ تر امریکی افواج کو ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اس جنگ میں نیٹو افواج کی بجائے امریکی افواج کی اموات زیادہ ہیں۔
یورپ عام طور پر امریکی انتخابات والے سال بھی امریکہ کے لیے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ تمام امریکی حکومتیں انتخابات والے سال کسی نئے مسئلہ یا تنازع میں الجھنا نہیں چاہتیں تاکہ آنے والے انتخابات میں اُن کی ساکھ متاثر نہ ہو اور اس صورت حال کا فائدہ مضبوط یورپی ممالک اٹھاتے ہیں اور انتخابات والے سال مختلف انداز سے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
اس ساری گفتگو سے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کے تمام علمبرداروں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ یہ تمام ممالک ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود جس نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) پر یقین رکھتے ہیں وہ ان میں صرف مادیت اور منفعت کے حصول کی لالچ ہی پروان چڑھاتی ہے اور اسی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے بھی صرف فائدے کی بنیاد پر ہی رشتہ استوار کرتے ہیں اور فائدے کے حصول کی خاطر یہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے سے بھی نہیں چوکتے اور ان کے دل آپس میں ٹکراتے ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کے لوگوں کو باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) سے پھوٹنے والے ظالمانہ اور استحصالی نظام کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ وہ نظام جو خود شدید مشکلات کا شکار ہے اور ان ممالک کی بنیادوں میں شدید کمزوریاں پیدا کرچکا ہے۔ آج اگر کمی ہے تو صرف ایک ایسی ریاست کی جو حق نظریہ حیات (آئیدیالوجی) کی بنیاد پر وجود میں آئے اور ان کی کمزوریوں کو سیاسی بصیرت کے ذریعے مکمل ناکامی میں بدل دے۔ آج پوری دنیا کو ریاست خلافت کی ضرورت ہے جو اسے کفر کے اندھیرے سے نکال کر حق کے نور کی طرف لے جائے۔ ان کے آپس کے اختلافا ت اور ان کے نظام کو بار بار بحران سے دو چار ہوتا دیکھ کراحساس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ کےاِذن سے قائم ہونے والی خلافت کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے۔ خلافت کے قیام سے پہلے ہی الحمد اللہ ان ممالک کے عوام اور کئی دانشو ر اور مفکرین اپنے نظام کی خامیوں کے خلاف احتجاج کرتے اور تحریر یں لکھتے نظر آتے ہیں لیکن بد قسمتی سے کسی دوسرے نظریہ حیات (آئیڈیا لوجی) کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی باطل نظام سے حل ڈھونڈھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن انشا ء اللہ خلافت کے قیام کے ساتھ ہی خلافت کی قیادت اور ہزاروں سیاست دان جو کہ تیار بیٹھے ہیں اسلام کی دی ہوئی ہدایت اور سیاسی بصیرت کے ذریعے وہ اقدامات کریں گے جو انشا ء اللہ کفار کے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) کو مزید ناکامی سے دو چار کرنے اور اسلامی نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کو اس پر غالب کرنے میں زبر دست کامیابیاں سمیٹ سکیں۔
خلافت اپنے قیام کے ساتھ ہی مضبوط میڈیا اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے شباب چاہے وہ یورپ میں ہوں امریکہ، مشرقی وسطیٰ یا کہیں بھی، کے ذریعے سر مایہ دارانہ نظام کی غلاظت اور باطل فکر کو دنیا کو لوگوں پر بے نقاب کرے گی اور اسلامی ریاست کے اندر اسلام کے قوانین اور نظاموں سے پیدا ہونے والے ثمرات اور خوشحالی کی تصویر انہیں دکھائے گی جو یقیناً ان لوگوں میں آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے نظام کے خلاف نفرت بھی پیدا کرے گی اور یاد رہے کہ اس سے پہلے سوویت یونین بھی ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ایسا کر چکا ہے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوویت یونین کے پرو پیگنڈا نے ہی ان ریاستوں کومجبور کر دیا تھا کہ اپنی آئیڈیالوجی میں فلاحی ریاست (welfare state) کے تصور کا پیوند (patchwork) کریں تاکہ پرو پیگنڈا سے متاثر ہوتی عوام کو مطمئن کرسکیں۔
ریاستِ خلافت اپنی خارجہ پالیسی اور اسلام کے حکم کے مطابق دوسرے مسلم علاقوں کو اپنے اند ضم کرنے کا عمل تیز کرے گی اس عمل میں وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں اسلام کے حق میں موجود عوامی رائے عامہ، شباب اور اہل قوت میں ہونے والا کام انتہائی مدد گار ثابت ہوں گے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ میں شامل ممالک تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان علاقوں کو اسلامی ریاست اپنے اندر ضم کرنے کے بعد یہاں کے تیل اور گیس کے ذخائر کی براہ راست مالک ہوگی اور یہ چیز اسلامی ریاست کو دنیا کے باقی ممالک پر زبر دست برتری دلائے گی۔ اسلامی ریاست یورپ سمیت باقی دنیا کے وہ ممالک جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہونے کی وجہ سے غیر حربی ہیں تیل اور گیس فراہم کرنے کی پالیسی کے تحت امریکہ اور گنتی کے چند یورپی ممالک کے تسلط سے نجات دلائے گی اور ان کے کیمپ سے نکالے گی۔ اس کے لیے وہ ان ممالک سے مختصر مدتی معاہدات بھی کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ یورپ آج کے روس جو اب نظریاتی ریاست نہیں رہا، کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکا جب روس نے جار جیا اور یوکرائن کے خلاف جارحیت کی کیونکہ یورپ روس کی گیس کا محتاج ہے تو کل آنے والی نظر یاتی ریاست خلافت کی پھیلنے کی پالیسی (expansion policy) کے خلاف یورپ یا امریکہ کا برا ہ راست سامنے کھڑا ہونا اتنا آسان دکھا ئی نہیں دیتا اور اگر ایسا خطرہ ہوا بھی تو خلافت بھاری صنعت اور فوجی میدان میں تیز تر ترقی اور پہلے سے موجود زبر دست افواج اور ان میں موجود جذبہ جہاد کے ذریعے اس سے نپٹنے کے لیے تیار ہو گی۔
یہ اسلامی ریاست ہی ہوگی جو اِس وقت دنیا پر نافذ ڈالر کی حکمرانی کا خاتمہ کر دے گی کیو نکہ اسلامی ریاست ہی سونے اور چاندی کی کرنسی کا اجرا ء کرے گی۔ صرف یہی کرنسی آج ڈالر کی طلب کو کم کر سکتی ہے کیو نکہ دنیا خود بھی جانتی ہے کہ اصل دولت کاغذی کرنسی نہیں بلکہ سونا اور چاندی ہے۔ اسلامی ریاست اور خاص کر وسیع ہوتی اسلامی ریاست میں اس کرنسی کا نفاذ دنیا میں امریکہ اور ڈالر کی سیاسی اورمعاشی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچائے گا اور اس سے دنیا میں امریکی اثر و رسوخ کم کرنے میں زبر دست مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے اقدامات کے ذریعے امریکی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اس کی 30 ریاستوں کے اندر وفاق سے علیحدہ ہونے کی خواہش کے عمل کو بھی ہوا دی جا سکتی ہے۔ اگر یہ عمل بہت تیز نہ بھی ہو تو بھی امریکہ کی توجہ بیرونی محاذوں سے ہٹاکر اندرونی مسائل کی طرف موڑنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ دوسری طرف کئی مسلم علاقے جن میں آج امریکی اڈے موجود ہیں اور دنیا میں امر یکی بالادستی کا ذریعہ ہیں، اسلامی ریاست میں ضم ہو کر امریکی ٹھکانے نہیں رہیں گے۔ امریکہ سے اس کے اڈوں کا اس طرح چھن جانا دنیا پر اس کی بالا دستی کو انشا ء اللہ و اپسی کے سفر پر گامزن کر دے گا۔
دوسری طرف وہ غریب ممالک جو مسلم علاقے نہیں ہیں، اسلامی ریاست اپنی expansionپالیسی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کو انتہائی آسان شرائط پر قرضے اور بعض اوقات محض امداد دے کر عالمی بینک، آئی۔ ایم۔ ایف اور امریکی تسلط سے نجات دلائے گی اور ان میں اسلامی ریاست سے ہمدردی اور دوستی کے جذبات پیدا کرے گی۔ اس طرح پوری دنیا کو باطل آئیڈیالوجی کے علمبردار وں سے آہستہ آہستہ کاٹنے کے عمل میں مدد ملے گی۔
یہ سارے اقدامات گو کہ زبر دست سیاسی بصیرت کے متقاضی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ آنے والی خلافت کی قیادت اسلام کی بنیاد پر حاصل ہونے والی اس سیاسی بصیرت کی حامل ہے اور اس قیادت کی نگرا نی میں تیار ہونے والے ہزاروں لاکھوں فرزندانِ اسلام پوری دنیا کو اسلام کے نور سے منور کرنے اور انسانیت کو ہدایت اور فلاح کے راستے پر گامزن کرنے کےلیے بے چین بیٹھے ہیں۔
اللہ ربّ العزت اس قیادت اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک