بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 5 جنوری 2018
- بھارت کے ساتھ رویہ ایک جارح دشمن کا ہونا چاہیے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کی نفرت کبھی ختم نہیں ہوگی
- تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امریکہ کے ساتھ اتحاد ختم کردیاجائے لیکن اسلام تو ہمیں یہ کرنے کا حکم دیتا ہے
- اچھی طبی سہولیات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام لازمی امر ہے
تفصیلات:
بھارت کے ساتھ رویہ ایک جارح دشمن کا ہونا چاہیے۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کی نفرت کبھی ختم نہیں ہوگی
یکم جنوری 2018 کو مقبوضہ کشمیر کے جنوب میں واقع لیتھ پورا کیمپ میں ایک چھڑپ کے دوران پانچ بھارتی فوجی ہلاک اور تین مسلمان مزاحمت کار شہید ہوگئے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر تھائی لینڈ کے دارالحکومت میں ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ اور اجیت دوول کے درمیان ایک خفیہ ملاقات ہوئی۔ انڈین ایکپریس کے مطابق یہ ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی۔ روزنامہ ڈان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایک سینئر نیشنل سیکیورٹی ڈویژن کے عہدیدار کے مطابق یہ ملاقات بروز بدھ 27 دسمبر کو ہوئی تھی۔ ایک پاکستانی اہلکار کے مطابق "ملاقات اچھی رہی۔جناب دوول کا لہجہ اور رویہ دوستانہ اور مثبت تھا"۔
جب سے پاکستان معرض وجودمیں آیا ہے بھارت کے جارحانہ رویے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بھارت نے کئی بار پاکستان پر کھلم و کھلا حملہ کیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں اہم معاونت فراہم کی جسے اب بنگلادیش کہا جاتا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو حق خود ارادیت دینے سے انکار کرتا آیا ہے جبکہ اس نے خود یہ حق دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے کئی ہزار مسلمان قتل کیے اور عورتوں کی عصمت دری کی تا کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش کو دبایا جاسکے۔ بھارت نے 1984میں سیاچن گلیشیر کی چوٹیوں پر قبضہ کرلیا۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر آزادکشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کومسلسل نشانہ بنا رہا ہے اور انہیں قتل کررہاہے۔ صرف 2017 میں بھارت نے لائن آف کنٹرول پر 1300 بارجنگ بندی کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں 52 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور بھارت امریکہ کی مدد سے افغان سرزمین کواستعمال کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کے تحت دہشت گرد پاکستان بھیج رہاہے۔ لہٰذا بھارت کی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت اور دشمنی کی کوئی حد نہیں ہے۔
بھارت کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔ لیکن قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات سے بھارت کی جارحیت میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ اس قسم کی ملاقاتیں یہ اشارہ دیتی ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف جس قدر چاہے جارحیت میں اضافہ کرلے، پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کبھی اس کا منہ توڑ جواب نہیں دے گی بلکہ امریکہ کے حکم پر "تحمل" کی پالیسی کے تحت بھارت سے "امن" اور "نارملائیزشن" کی بھیک مانگی جاتی رہے گی۔ اسلام نے واضح طور پربتادیا ہے کہ بھارت جیسے جارح دشمن کے خلاف کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
فَمَنِ ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَٱعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ
"جوتمہارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو تم بھی اس پر حملہ کرو جیسا کہ انہوں نے تم پر حملہ کیا ”(البقرۃ:194)۔
نبوت کے منہج پر قائم خلافت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس حکم پر اس کی روح کے مطابق مکمل عمل کرے گی اور برصغیر کے تمام مسلمانوں اور مظلوم اقوام کو ہندو ریاست کی جارحیت سے تحفظ فراہم کرے گی۔
پاکستان کے مسلمانوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے اور اُس وقت تک اٹھاتے رہیں گے جب تک جمہوریت کے داعی ان کے معاملات پر نگران مقرر ہیں۔ جمہوریت اسلام کے احکامات کو پارلیمنٹ کی اکثریت کے ووٹ کی بنیاد پر مسترد کرتی ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے آگے بڑھنے کا واحد رستہ نبوت کے منہج پر ریاست خلافت کا قیام عمل میں لانا ہے۔
تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امریکہ کے ساتھ اتحاد ختم کردیا جائے
لیکن اسلام تو ہمیں یہ کرنے کا حکم دیتا ہے
3 جنوری 2018 کو پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ٹرمپ کی پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز ٹویٹ کا جواب ٹویٹر پر یوں دیا کہ،" جوآپ کادشمن،وہ ہمارا دشمن - ہم نے گوانٹانامو بے کو بھر دیا. ہم آپ کی خدمت میں اتنے مگن ہوئے کہ پوری ملک کو دس سال تک لوڈشیڈنگ اور گیس شارٹیج کے حوالے کیا، معیشت برباد ہو گئی لیکن خواہش تھی آپ راضی رھیں، ہم نے لاکھوں ویزے پیش کئے بلیک واٹر،ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک جگہ جگہ پھیل گئے " ۔
پاکستان کی موجودہ قیادت کا کردار امریکی مظالم میں محض تماشائی کا نہیں ہے بلکہ وہ اس میں فاعل کردار ادا کررہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ موجودہ قیادت نے امریکیوں کو جو کچھ دیا جاسکتا تھا وہ دیا اور اگر لوگوں کے غصے کا ڈر نہ ہو تو مزید بھی دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ موجودہ قیادت ہی ہے جس کی زیر نگرانی نیشنل ایکشن پلان بنایا اور نافذ کیا گیا تا کہ ملک امریکہ مخالف جذبات کو کچل دیا جائے۔ یہ موجودہ قیادت ہی ہے جس کی زیر نگرانی ردالافساد شروع کیا گیا تا کہ قبائلی مزاحمت پرزمین تنگ کردی جائے جن کا خوف قابض امریکی افواج کے دل میں گھر کر گیا ہے۔ کئی سالوں سے موجودہ حکمرانوں نے،جن میں خواجہ آصف بھی شامل ہیں، ہمیں اس بات پر قائل کرنے کے بھر پور کوشش کی کہ امریکہ کی صلیبی جنگ ہماری جنگ ہے۔ خواجہ آصف کا ٹرمپ کو جواب درحقیقت یہ تھا کہ وہ دنیا کو حقیقت اور مفروضے کا فرق بتاؤ گا۔ ہمیشہ کی طرح اس کا جواب ایک گرما گرم تقریر سے زیادہ کچھ نہ تھا جس میں لوگوں کووہ بتایا گیا جو وہ پہلے سے ہی جانتے ہیں تا کہ ان کے غصے کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت نے پاکستان کے مسلمانوں کو جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔
پاکستان کوئی امریکہ کے ہاتھ کا کھلونا نہیں ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے جس کے پاس 6 لاکھ کی لڑاکا فوج ہے جو حرکت میں آنے اور قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایک اسلامی قیادت موجود ہو تو پاکستان کے موجودہ وسائل ہمیں دنیا کی اہم طاقت بنانے کے لیے کافی ہیں جو استعماری طاقتوں، امریکہ، روس اور چین، کی غلامی سے آزاد ہو۔ اگر سیاسی و فوجی قیادت ٹرمپ کو منہ توڑ جواب دینے کے دعوی میں سنجیدہ ہوتی تو وہ امریکہ سفارت خانہ بند اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو خاتمہ کرچکی ہوتی۔ وہ امریکہ سے ہر قسم کے تعلقات منقطع اور افغانستان میں موجود اس کی افواج کے لیے پاکستان سے گزرنے والی سپلائی لائن کو کاٹ دیتی۔ لیکن موجودہ قیادت کبھی ایسا نہیں کرے گی کیونکہ نہ تو وہ تاریخ سے اور نہ ہی قرآن و سنت سےسبق لیتی ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو،میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں "(الممتحنہ:1)۔
اچھی طبی سہولیات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے
نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام لازمی امر ہے
لاہور میں سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کی کمی کے حوالے سے بڑھتی شکایات پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے 4 جنوری 2018 کو اسپتالوں کی صورتحال پر سو موٹو نوٹس لیا۔ اس نوٹس میں کہا گیا کہ"عوام کی جانب سے زندگی بچانے والی ادویات اور ہنگامی طبی آلات کی عدم فراہمی کی بہت سی شکایات ہیں"۔
پاکستان میں صحت کا شعبہ بہت ہی بری صورتحال سے دوچار ہے۔ زندگی کو خطرے میں مبتلا کرنے والی قابل علاج بیماریاں عام ہیں، مریض کو صحت کے امور سے آگاہی کا نامناسب بندوبست، علاج کے نامناسب طریقہ کار جن کی بنیاد طبی شواہد نہیں ہوتے، مربوط صحت کی سہولیات کے نظام کی عدم موجودگی، مقامی سطح پر خراب طبی تربیت اور مضبوط حقیقی طبی تحقیق کے شعبے کی عدم موجودگی جو مقامی بیماریوں اور صحت کی ضروریات کی بنیاد پرتحقیق کرے، یہ وہ مسائل ہیں جس سے پاکستان کا شعبہ صحت دوچار ہے۔ اس وقت نجی شعبہ 80 فیصد آوٹ ڈور مریضوں کو دیکھ رہا ہے۔ نجی شعبے کی بالادستی نے شعبہ صحت کو خدمت کی جگہ ایک کاروبار میں تبدیل کردیا ہے اور صحت کی سہولیات کو بنیادی حق نہیں بلکہ آسائش بنادیا ہے۔ نجی ڈاکٹروں کی بڑھتی فیسوں اور مہنگی ادویات اور ٹیسٹوں نے پاکستان کے لوگوں کے لیے طبی سہولیات سے استفادہ کرنا انتہائی مشکل بنادیا ہے۔
یہ صورتحال اُس وقت سے بہت مختلف ہے جب مسلمانوں کی خلافت موجود تھی اور ریاست رسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق شعبہ صحت کی بھر پور سرپرستی کرتی تھی ، جیسا کہ غزوہ خندق کے دوران ہوا جب رسول اللہﷺ ایک زخمی سپاہی کے پاس سے گزرے اور حکم دیا کہ ایک خیمہ طبی سہویات کی فراہمی کے لیے لگایا جائے۔ سرکاری اسپتال یا "بیمریستان" (بیمار کا گھر) لوگوں کے لیے ایک اہم سہولت ہوا کرتے تھے۔ یہ اسپتال رنگ، نسل، مذہب، شہریت یا جنس سے قطع نظر تمام لوگوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ 1283 عیسوی میں قاہرہ میں قائم المنصوری اسپتال 8 ہزار مریضوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ وہاں ہر ایک مریض کے لیے دو نگہبان (نرس) ہوتے تھے جو مریض کے آرام کے لیے تمام کام کرتے تھے۔ ہر ایک مریض کو اپنا ایک بستر ، کمبل اور کھانے کا برتن میسر ہوتا تھا۔ یہ اسپتال اِن ڈور اور آوٹ ڈور مریضوں کا علاج کرتا تھا اور انہیں مفت کھانا اور ادویات فراہم کرتا تھا۔ معزور اور دور افتادہ علاقوں میں رہنے والے مریضوں کے لیے موبائل ڈسپنسریز اور کلینک ہوتے تھے۔ یونیورسٹیوں میں طب کا مضبوط شعبہ موجود ہوتا تھا اور اسپتالوں میں تحقیق کے لیے سہولیات موجودہ ہوتی تھیں۔ مسلمان ڈاکٹروں نے سرجری سے لے کر دل کے امراض تک میں اگر کئی سو سال تک نہیں تو کئی دہائیوں تک دنیا میں طبی تحقیق کے شعبے کی قیادت کی۔ عالمی معیار کے طبی مراکز، طبی عملے اور ادویات کی وجہ سے غیر ملکی حکمران علاج کے لیے خلافت آنا پسند کرتے تھے جس کی وجہ سے طبی سیاحت کا تصور وجود میں آیا تھا۔
حزب التحریر نے آنے والی خلافت کے لیے بنائے گئے آئین کی شق 125میں لکھا ہے کہ، "رعایا کے لیے صحت اور علاج معالجے کی ضروریات کو فراہم کرنا بھی ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ ڈسپنسریاں اور اسپتال وہ سہولیات ہیں جن سے مسلمان ادویات اور علاج معالجے کے سلسلے میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یوں میڈیکل بھی مفادات اور ضروریات میں داخل ہے۔ ان مفادات اور ضروریات کی فراہمی ریاست کے فرائض میں شامل ہے کیونکہ ان چیزوں کی رعایت کرنا گویا رسول اللہﷺ کے اس قول پر عمل کرنا ہے کہ،
الإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
'امام (خلیفہ) چرواہا (نگران) ہے اور اُس سے اُس کی رعایا کے بارے میں باز پُرس ہوگی'
(اس حدیث کو بخاریؒ نے عبداللہ بن عمر کے حوالے سے نقل کیا ہے)۔
یہ حدیث صحت اور علاج معالجے کی ریاست کی ذمہ داری ہونے کے حوالے سے ایک عام نص ہے کیونکہ یہ چیزیں بھی رعایا کی نگہبانی کے زمرے میں آتی ہیں۔۔۔۔۔رسول اللہﷺ نے بحثیت حکمران ابی بن کعب کے پاس ایک طبیب (ڈاکٹر) کوبھیجا اور اسی طرح عمر بن الخطاب نے بھی، جو کہ دوسرے خلیفہ راشد ہیں، بحیثیت حکمران اسلم کے علاج کا بندوبست کیا۔ یہ دونوں عمل اس بات کی دلیل ہیں کہ صحت اور علاج بھی رعایا کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔ ریاست پر واجب ہے کہ وہ رعایا میں سے ضرورت مند کو یہ سہولیات مفت فراہم کرے"۔