بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 2 نومبر 2018
۔ جمہوریت مقامی معیشت کی قیمت پر بیرونی طاقتوں کے معاشی مفادات کو آگے بڑھاتی ہے
- تیل کی قیمتیں بڑھا کر حکومت آئی ایم ایف کے استقبال کی تیاری کررہی ہے
- آسیہ بی بی کا مقدمہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلامی عدالت کی ضرورت ہے
تفصیلات:
جمہوریت مقامی معیشت کی قیمت پر بیرونی طاقتوں کے معاشی مفادات کو آگے بڑھاتی ہے
28اکتوبر 2018 کو آل پاکستان آئل ٹینکرز اونرز ایسوسی ایشن(اے پی او ٹی او اے) نے حکومت اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو خبردار کرتے ہوئے کہاکہ اے پی او ٹی او اے چینی گاڑیوں کے ذریعے تیل کی ترسیل کے لیے پالیسی میں ممکنہ تبدیلی کے خلاف دارا لحکومت میں دھرنا دے گی۔ نیشنل پریس کلب میں اے پی او ٹی او اے کے چیرمین اسلم خان نیازی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ، "پالیسی تبدیل کر کے اورچین پاکستان معاشی راہداری کے تحت چینی گاڑیوں کو اجازت دے کر ہمیں اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم دھرنا دیں"۔ جناب نیازی نے کہا کہ تیل کی ترسیل کے لیے اب مقامی ٹینکرز سات سے آٹھ گیج (موٹی) لوہے کی چادر استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ٹینکرز پھٹتے نہیں ہیں چاہے وہ گاڑی سے نیچے گر ہی کیوں نہ جائیں۔ جناب نیازی نے دعوی کیا کہ "لیکن اب اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ چینی گاڑیاں پیٹرولیم مصنوعات کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیں جائیں۔ چینی گاڑیاں گیارہ گیج (پتلی) لوہے کی چادر استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ سے وہ آسانی سے پھٹ سکتی ہیں"۔ جناب نیازی نے کہا کہ اوگرا نے وزارتوں کے کہنے پر کام شروع کردیا ہے اور مقامی گاڑیوں کے استعمال کو یہ کہہ کر روکا جارہا ہے کہ ان کا انجن چینی گاڑیوں سے کم طاقت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا "ابھی جو گاڑیاں استعمال کی جارہی ہیں ان میں 180 سے 230 ہارس پاور کے انجن لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ کہا جارہا ہے کہ چینی گاڑیوں میں 320 ہارس پاور کے انجن لگے ہیں لیکن درحقیقت ان کی طاقت اس کی آدھی ہے"۔
یہ بات قطعی حیران کُن نہیں کی جمہوریت مقامی معیشت کی قیمت پر غیر ملکی طاقتوں کو سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ جمہوری حکومتیں یہ دعوی کرتی ہیں کہ کوئی بھی ترقی پزیر ملک غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ غیر ملکی کمپنیوں اور سرمائے کو راغب کرنے کے لیے "سرمایہ دار دوست ماحول" فراہم کرنے کے لیے حکومت غیر ملکی کمپنیوں کو وہ سہولیات فراہم کرتی ہے جن سے مقامی کمپنیاں محروم ہوتی ہیں اور اس طرح انہیں مارکیٹ سے نکلنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ سی پیک کے تحت چینی کمپنیوں کو ایسی مراعات فراہم کی گئی ہیں جن کی وجہ سے مقامی کمپنیاں چینی کمپنیوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ 9 ستمبر 2018 کو فائنینشل ٹائمز میں شائع ہونے والے انٹرویومیں وزیر تجارت، صنعت اور سرمایہ کاری، عبدالرزاق داود نے تصدیق کی کہ، "چینی کمپنیوں کو ٹیکس بریکس (مراعات)ملی ہیں، کئی بریکس اور انہیں پاکستان میں غیر معمولی فائدہ حاصل ہے؛ ان چیزوں میں سے یہ ایک چیز ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں کیونکہ یہ غیر منصفانہ ہے کہ پاکستانی کمپنیاں لازمی نقصان میں ہی ہوں"۔عبدالرزاق داود کے کھلے اعتراف کے باوجود غیر ملکی طاقتوں کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ موجودہ حکومت بھی غیر ملکی کمپنیوں اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے، چاہے اس کا تعلق چین سے ہو یا امریکا، برطانیہ یا فرانس سے ہو ،مقامی کمپنیوں کےلیے غیر سازگار ماحول کو یقینی بنارہی ہے ۔ لہٰذا ناکام براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی پالیسی کا مقصد درحقیقت ملک میں استعماری مفادات کو پنجے جمانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
آنے والی نبوت کے طریقے پر خلافت ہماری مارکیٹوں اور وسائل پر غیرملکی بالادستی کے قیام کی اجازت نہیں دے گی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری سود اور شرائط کے ساتھ آتی ہے، اور غیر ملکی طاقتوں اور ان کی کمپنیوں کو مراعات فراہم کی جاتی ہے۔ اس قسم کی غیر ملکی بالادستی ریاست کی معاشی بالادستی پر حاوی ہو جاتی ہے اور ریاست کی فیصلہ سازی کی آزادی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا غالب امکان ہے کہ ان اعمال کی وجہ سے کفار کو مسلمانوں کے علاقوں اور ممالک پر بالادستی حاصل ہوجائے گی جس کی اسلام میں ممانعت ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً "اور اللہ ایما ن والو پر کفار کو کوئی اختیار نہ دے گا"(النساء:141)۔ لہٰذا اس قسم کی سرمایہ کاری اور مراعات اس قانونی اصول کی بنیاد پر حرام ہیں: الوسيلة إلى الحرام حرام "حرام تک پہنچانے کا وسیلہ بھی حرام ہوتا ہے"۔ خلافت مقامی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرے گی تا کہ وہ کام کر کےاپنی دولت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کی صنعت، زراعت، مواصلات اور دیگر شعبوں کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے میں اپنا کرادر ادا کرسکیں۔ حزب التحریر نے مقدمہ دستور کے شق 165 میں یہ تبنی کیا ہے کہ، "غیر ملکی سرمائے کا استعمال اور ملک کے اندر اس کی سرمایہ کرنا ممنوع ہو گی اور نہ ہی کسی غیر ملکی کو کوئی امتیازی رعایت دی جائے گی۔ "
تیل کی قیمتیں بڑھا کر حکومت آئی ایم ایف کے استقبال کی تیاری کررہی ہے
31 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ کرنسی کی قدر میں کمی اور بین الا قوامی تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 13 روپے فی لیٹر تک اضافہ متو قع ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے ایک سمری فائنانس ڈویژن پہنچ گئی ہے جس میں ماہ نومبر کے لیے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لیے کہا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے پہلے ہی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اشارہ یہ کہہ کر دے چکے تھے کہ حکومت نے عام آدمی کے تحفظ کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کم سے کم کردیے ہیں لیکن قیمتیں اب بھی بڑھ رہی ہیں اور انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
تیل کی قیمتوں میں متو قع اضافہ آئی ایم ایف کے وفد کی دارالحکومت آمد سے چند دن قبل کیا جارہا ہے جو نئے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کو حتمی شکل دے گا۔ حکومت پہلے ہی گیس، سی این جی اور بجلی کی قیمتیں بڑھا چکی ہے اور ساتھ ہی آئی ایم ایف کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے روپے کی قدر میں بھی زبردست کمی کرچکی ہے۔ اب تیل کی قیمتوں میں اضافے کی باری ہے۔ آئی ایم ایف ایک استعماری ادارہ ہے جو کسی ملک کو اس لیے قرض نہیں دیتا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ پاکستان کے نئے حکمران ا قتدار میں آنے سے قبل آئی ایم ایف کے خطرات سے قوم کو آگاہ کیا کرتے تھے۔ 13 ستمبر 2011 کو برطانوی اخبار گارڈین میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ، "ایک ملک جو قرضوں پر انحصار کرے؟ اس سے موت بہتر ہے۔ یہ آپ کو اپنی استعداد کے مطابق مقام حاصل کرنے سے روکتا ہے جس طرح استعماریوں نے کیا تھا۔ امداد ذلت آمیز چیز ہے۔ وہ تمام ممالک جن کے متعلق میں جانتا ہوں کہ انہوں نے آئی ایم ایف یا عالمی بینک کے پروگرام لیے ، وہاں غریب کی غربت اور امیر کی امارت میں اضافہ ہوا"۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد موجودہ حکومت سابقہ حکمرانوں کے نقش قدم پر ہی چل رہی ہے۔ اب یہ حکومت اپنے سرمایہ دار آقاوں اور ان کے اداروں کی زبان بول رہی ہے۔ تو پیٹرولیم مصنوعات پر سے حکومتی ٹیکس ختم کرنے اور آئیل ریفائنریز اور مارکیٹنگ کمپنیوں کے منافع کو کم کرنے کی بجائے حکومت نے تیل کی قیمت بڑھا کر عام آدمی پر ہی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہمیں اس بات کی اجازت نہیں کہ آئی ایم ایف یعنی کافروں کو اپنے امور میں مداخلت اور بالادستی کا موقع فراہم کریں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ،
وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
"اور اللہ ایما ن والو پر کفار کو کوئی اختیار نہ دے گا "(النساء:141)۔
صرف اسلام ہی حقیقی تبدیلی لاسکتا ہے کیونکہ اسلام نے توانائی کے وسائل کی نجی ملکیت کو حرام قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«ثَلاثٌ لا يُمْنَعْنَ: الْمَاءُ وَالْكَلأُ وَالنَّارُ»
"تین چیزوں کو (لوگوں سے) نہیں روکا جاسکتا: پانی، آگ اور چراہگاہیں"(ابن ماجہ نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی)۔
اس حدیث میں ایک "وجہ" موجود ہے اس لیے یہ عوامی اثاثے ہیں۔ فقہا نے ان تمام اشیاء کو جو آگ پیدا کرتی ہیں عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔ صرف اسلام کی بنیاد پر حکمرانی ہی سرمایہ دارانہ معیشت کا خاتمہ اور دولت کی تقسیم کو یقینی بنائے گی۔ دولت کی تقسیم کا ایک طریقہ توانائی کے وسائل، جیسا کہ کوئلہ، تیل اور گیس وغیرہ ، کو عوامی ملکیت قرار دینا ہے۔ ان وسائل کی مالک نہ ہی ریاست اور نہ ہی کوئی فرد یا مخصوص گروہ بن سکتا ہے۔ ریاست ان وسائل کے امور کومنظم کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس سے حاصل ہونے والا فائدہ بغیر کسی رنگ، نسل یا مذہب کی تفریق کے ریاست کے تمام شہریوں تک پہنچے۔ اس کے علاوہ ریاستِ خلافت توانائی کے وسائل پر عائد ٹیکسوں کا خاتمہ کردے گی جس نے ان کی قیمت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ریاست ان وسائل کی پیداوار اور تقسیم کے حوالے سے آنے والے اخراجات کی قیمت وصول کرے گی اور غیر مسلم غیر حربی ممالک کو ان وسائل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے پر خرچ کیا جائے گا۔ لہٰذا اسلام کی توانائی کی پالیسی کی وجہ سے کم قیمت پر توانائی میسر ہو گی اور اس کی وجہ سے پاکستان میں زبردست صنعتی انقلاب آئے گا۔
آسیہ بی بی کا مقدمہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلامی عدالت کی ضرورت ہے
آسیہ بی بی کے مقدمے میں قاری محمد سلم نے یکم نومبر 2018 کو اپنے وکیل اظہر صدیقی کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں نظر ثانی کی درخواست دائر کردی۔ اس سے ایک دن قبل وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں اس فیصلے کے مخالفین کی مذمت کرتے ہوئے کہا، "اگر سپریم کورٹ ان کی خواہشات کے مطابق فیصلہ نہیں سناتی تو اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں گے اور ملک کومفلوج کردیں گے؟”
آسیہ بی بی کی بریت (رہائی) کے فیصلے کے خلاف لوگوں کے مخالفانہ ردعمل کی ایک وجہ ہے۔ موجودہ نظام اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ یہ مغربی استعماری طاقتوں اور حکمران اشرافیہ کی خواہشات کے مطابق فیصلے دے۔ اس بار یہ فیصلہ اُس و قت آیا ہے جب یورپی یونین نے پاکستان کی برآمدات کے لیے ترجیحی نظام جی ایس پی پلس کو آسیہ بی بی کے مقدمے سے منسلک کردیا تھا۔ بریت کا یہ فیصلہ پاکستان کے وزیرخارجہ کی یورپی یونین کے وفد برائے جنوبی ایشیا سے ملا قات کے ٹھیک دو دن بعد ہوتا ہے جس میں یورپ کے ساتھ مضبوط تعلقات کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ایسے کئی فیصلے کیے گئے یا نہیں کیے گئے جن کے ذریعے مغربی مفادات کا تحفظ کیا گیا جیسا کہ امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا معاملہ تھا۔ اسی طرح ریاست کی جانب سے ان لوگوں کے اغوا کے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیرکی جاتی ہے جو مغربی استعماریت کے مخالف ہیں اور مئی 2011 میں ایبٹ آباد پر امریکی حملے کی تحقیقاتی رپورٹ کو آج تک عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جو اس نظام پر لوگوں کے عدم اعتماد کی وجہ ہے۔
جمہوریت کے برخلاف اسلام میں جرم، اس کے حوالے سے شہادت اور اس کی سزا کا تعین اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ " بھلا جس نے پیدا کیا (اللہ سبحانہ و تعالیٰ)وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے "(الملک:14)۔ خلافت میں عدلیہ کے بنیاد صرف اسلام ہوتی ہے۔ یہ ایک مستقل بنیاد ہے جو کسی سیاسی یا مفادات کے دباؤ کاشکار نہیں ہوتی۔ اسلام کے علاوہ ہر چیز جہالت ہے جس میں برطانوی اور فرانسیسی پینل کوڈز بھی شامل ہیں، لہٰذا جو بھی اسلام سے ہٹ کر فیصلہ کرے گا وہ جہالت کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔ جج ، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، حنفی ہو یا جعفری، اس کا اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہونا لازمی ہے کیونکہ اُس نے صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے وہ جہنم کی آگ میں جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَاثْنَانِ فِي النَّارِ، فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ، وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ، فَهُوَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ
" قاضی تین قسم کے ہیں۔ ایک قسم جنت میں جائے گی اور دو قسمیں جہنم میں جائیں گی۔ پس جو جنت میں جائے گی وہ قاضی جنہوں نے حق کو پہچانا اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا اور وہ قاضی جو حق کو پہچاننے کے باوجود فیصلہ میں ظلم کرے وہ جہنم میں جائے گا اور وہ قاضی جس نے لوگوں کے لئے جہالت کے ساتھ (اسلام سے ہٹ کر)فیصلہ کیا وہ بھی جہنم میں جائے گا " (داود)۔