بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 30 نومبر 2018
۔ اسلام کے عدم نفاذ کی وجہ سے نئے پاکستان کے پہلے 100 دنوں میں لوگوں کی معاشی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے
- زراعت جمہوریت میں نہیں بلکہ صرف خلافت میں ترقی کرے گی
- کیا باجوہ-عمران حکومت کو دشمنوں کا نام زبان پر لانے میں شرم محسوس ہوتی ہے؟!
تفصیلات:
اسلام کے عدم نفاذ کی وجہ سے نئے پاکستان کے پہلے 100 دنوں میں
لوگوں کی معاشی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے
27نومبر 2018 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ " حکومت کو ورثے میں ملنے والے زبردست معاشی عدم استحکام کو دور کرنے کے لیے نئی حکومت نےجو اقدامات لیے اُس کی وجہ سے اِس کے پہلے 100 دنوں میں عام آدمی پر بوجھ میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کی وجہ بننے والے عناصر عام آدمی کی قوت خرید کو ختم کرتے جارہے ہیں کیونکہ روپے کی قدرمیں کمی ہوئی اور گیس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ انٹر بینک مارکیٹ اور کھلی منڈی میں روپے نےبلترتیب 8 اور 10.4فیصد قدر کھو دی"۔
تو نیا پاکستان کے دعویداروں نے بھی عوام کو وہی دیا ہے جو پرانے پاکستان کے داعی دیا کرتے تھے۔ ایسا اس لیے ہواہے کیونکہ یہ دونوں ہی سرمایہ دارانہ معاشی نظام نافذ کرتے ہیں جو عوام کو دولت سے محروم جبکہ مخصوص اشرافیہ کو اپنی دولت میں زبردست اضافے کا مو قع فراہم کرتا ہے۔ انسانوں کے بنائے نظام سے کسی خیر اور آسانی کی تو قع نہیں رکھی جاسکتی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ،
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى
"اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے"(طہ:124)۔
صرف اسلام کا نفاذ ہی لوگوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کی ہوئی معاشی بدحالی سے نکالے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ "مسلمان تین چیزوں میں برابر کی شریک ہیں: پانی، چراہگاہیں اور آگ"(احمد)۔ یہاں پر "آگ" سے مراد توانائی کی وہ تمام ا قسام ہیں جنہیں صنعتوں میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ گیس،کوئلہ وغیرہ۔ اسلام میں گیس عوامی ملکیت قرار دی گئی ہے جسے کسی کی نجی ملکیت میں نہیں دیا جاسکتا جو اس سے لوگوں کی قیمت پر زبردست نفع کمائیں۔ گیس سے حاصل ہونے والا نفع، چاہے وہ اس کا براہ راست استعمال کرنا ہو یا اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی قیمت ہو، اسے اجتماعی طور پر لوگوں کے امور کی دیکھ بھال پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اسلام میں کرنسی سونا و چاندی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی بنیاد کا ہی خاتمہ ہوجاتا ہے ،اور یہی وہ کرنسی ہے جس کی وجہ سے ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک خلافت میں قیمتوں میں استحکام دیکھا گیا تھا۔ یہی و قت ہے کہ مسلمان اس نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں جس سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ راضی ہوں اور ان کا غصہ ختم ہوجائے، یعنی نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کی جائے جو صرف اور صرف اللہ کی وحی کونافذ کرے گی۔
زراعت جمہوریت میں نہیں بلکہ صرف خلافت میں ترقی کرے گی
26نومبر 2018 کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ کسانوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے وعدے توڑنے پر تنقید کی ہے۔ اس خبر کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2.86ملین ہیکٹر قابل کاشت رزعی زمین میں سے صرف 1.16ملین ہیکٹر پر کاشت ہو رہی ہےجس کہ وجہ چھوٹی چھوٹی قطع اراضی اور کم قیمت اجناس کی کاشت ہے۔ یہ صورتحال اس وجہ سے ہے کہ کاشتکاروں کی پیداوار کے لیے درکار اشیاء تک محدود رسائی ہے۔اس کے علاوہ کسانوں کی مالیاتی اور تکنیکی وسائل محدود ہیں، آبپاشی کی وسائل کا کم اثر پزیر ہونا ، 0.93 ملین ہیکٹر زرعی زمین بارانی ہے اور زمین کے استعمال میں کمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمزور بیج کی صنعت ،کمزور تحقیقی شعبہ، پیداوار کا طلب کی جگہ رسد پر انحصار اور ذخیرہ کرنے کی نامناسب سہولیات بھی وہ مسائل ہیں جن سے یہ شعبہ دوچار ہے۔ کسان رابطہ کمیٹی کے کنوینئر فضل مولا نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے نہ ہی زراعت اور نہ ہی مال مویشی کے شعبے کے لیے کوئی منصوبہ پیش کیا ہے۔ سوائے ایک ارب درخت منصوبے کے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا اور یہ منصوبہ بھی مال مویشی کے شعبے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے کے تحت حکومت نے سوات، دیر، بونیر اور ہزارہ کے پہاڑوں پر جانوروں کے چرنے پر پابندی لگادی ہے۔ لیکن مال مویشی پالنے والوں کے پاس اپنے جانور کہیں اور لے جانے کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ سوات کے ایک کسان ریاض احمد نے کہا اب تک حکومت نے زرعی شعبے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ حکومت زراعت کے لیے درکار اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کو روکنے سے قاصر ہے، خصوصاً کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویات وغیرہ ،جن کی قیمتوں میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اضافہ ہوگیا ہے۔
یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے جمہوریت میں انسانوں کے بنائے قوانین نے پاکستان کو اس کی صلاحیت کے مطابق ترقی کرنے سے روکا ہوا ہے۔ پچھلے دس سال کے عرصے میں زرعی شعبے کی اجناس کی پیداوار میں سالانہ 4 سے 5 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ لیکن پاکستان کی زرعی زمین کواس کی استعداد کے مطابق استعمال نہیں کیا جارہا۔ پاکستان میں زرعی زمین کا رقبہ 30 ملین ہیکٹر ہے جس میں سے 22ملین ہیکٹر رقبے پر کاشتکاری کی جاتی ہے۔ زرعی اراضی کے قوانین دولتمندوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں جبکہ غریب کسان زمین کی ملکیت سے محروم رہتا ہے۔ غریب کسانوں کو زمین کرائے پر لینی پڑتی ہے اور اس طرح جو کاشتکاری کرتے ہیں وہ اپنی پیدوار کا مکمل فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ زمین پر جانتے بوجھتے کاشتکاری نہیں کی جاتی تا کہ طلب سے کم پیداوار حاصل ہو اور ان کی قیمت میں اضافہ ہوجائے۔ یہ تمام صورتحال اس وجہ سے ہے کہ جمہوری اسمبلیاں ایسے قوانین بناتی ہیں جس سے یہ فوائد سمیٹے جاتے ہیں۔
یہ بات مشہور ومعروف ہے کہ جب تک اس خطے پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قوانین کے مطابق حکومت کی جاتی رہی تو یہ خطہ دنیا میں زراعت کا بادشاہ تھا۔ اسلام کے زیر سایہ برصغیر پاک وہند کی کُل ملکی پیداوار دنیا کی کُل پیداوار کا 25فیصد تھی اور اس کی برآمدات شاندار تھیں جس کی وجہ سے برطانوی استعمار نے اس پر اپنی ہوس بھری لالچی نظریں گاڑ دیں تھیں ۔ لیکن جب برطانوی عہد میں وحی کے قوانین کی جگہ انسانوں کے بنائے قوانین نافذ کیے گئے تو انہی زمینوں پر قحط پیدا ہوگیا اور لاکھوں لوگ بھوک کاشکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اب تک زرعی شعبے میں انسانوں کے بنائے قوانین ہی نافذ ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اپنی صلاحیت کی مطابق زرعی پیداوار حاصل نہیں کررہا۔
صرب نبوت کے طریقے پر قائم خلافت کے واپسی کے بعدزراعت کے حوالے سے اسلامی قوانین کے نفاذ کے ذریعے پاکستان کے زرعی شعبے کی پیداوار اور دیہی روزگار میں اضافہ ہوگا۔ اسلام منفرد طریقے سے زمین کی ملکیت کو کاشتکاری کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ تو اس بات سے قطع نظر کہ زمین کے مالک کے پاس بڑی قطع عرضی ہے یا چھوٹی ، اسے بذات خود پیداواری عمل کی نگرانی کرنی ہوتی ہے۔ ریاست کاشتکاروں کی مالی مدد یا بلا سود قرضوں کے ذریعے معاونت کرے گی۔ اگرمعاونت کے باوجود زرعی زمین کا مالک کاشتکاری نہیں کرنا چاہتا یا کسی وجہ سے وہ کاشتکاری نہیں کرسکتا،تو اس کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی زمین کاشتکای کے لیے کسی اور کو کرائے پر دے دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ازْرَعْهَا أَوْ امْنَحْهَا أَخَاكَ "کاشت کرو یا اپنے بھائی کو دے دو"۔ اس کے علاوہ اسلام بے کار پڑی زرعی زمین پر کاشتکاری کی حوصلہ افزائی اس طرح کرتا ہے کہ جس زمین کا کوئی مالک نہیں ہوتا تو اگر کوئی ایسی زمین پر کاشتکاری کرتا ہے ،وہ اس زمین کامالک قرار دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ "جس کسی نے مردہ زمین کو زندہ کیا وہ اس کی ہوئی"(ترمذی)۔ لہٰذا اسلام کی بنیاد پرحکمرانی زرعی زمین کی ملکیت کو اس پر لازمی کاشتکاری سے منسلک کر کے زرعی زمین کےمکمل طور پر استعمال کو یقینی بناتی ہے۔
کیا باجوہ-عمران حکومت کو دشمنوں کا نام زبان پر لانے میں شرم محسوس ہوتی ہے؟!
26 نومبر 2018 کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ کراچی میں چینی قونصل خانے پر ناکام دہشت گرد حملے میں"بیرونی قوتیں"ملوث ہیں اور حکومت مجرموں کو "اچھی طرح " سے جانتی ہے۔ وزیر نے وضاحت کیے بغیر کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاشی اور اسٹریٹیجک تعاون میں مزید اضافے نے "دشمنوں" کو پریشان کردیا ہے اور وہ مایوسی کی کیفیت میں اس قسم کے "بے وقوفانہ عمل" کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ اس "بڑی سازش" کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانا ہے لیکن دشمن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کہ دنیا مکمل طور پر جانتی ہے کہ خطے میں کون امن اور استحکام کے ساتھ کھڑا ہے اور کون اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔
حکومت کی یہ اب ایک طرح کی عادت بن چکی ہے کہ جب کبھی پاکستان میں اس قسم کا واقع پیش آتا ہے تو وہ دشمن کا نام واضح طور پرنہیں لیتی۔ حکومت شاید دشمن کا نام زبان پر نہ لائے لیکن پاکستان کے مسلمان یقینی طور پر جانتے ہیں کہ یہ امریکہ و بھارت کا شیطانی گٹھ جوڑ ہے۔ حکومت دشمن کانام نہیں لیتی کیونکہ اس کے نتیجے میں اس پر امریکا سے تعلق توڑنے کا دباؤ آتا ہے جبکہ وہ اس کی خدمت جاری رکھنا چاہتی ہے ۔ حکومت بھارت کا نام بھی نہیں لیتی کیونکہ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ کیوں ہندو ریاست کے ساتھ تعلقات کو نارملائیزکرنا چاہتے ہیں۔ کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری جس تنظیم نے قبول کی ہے اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا سب کو علم ہے۔ بھارت ایسی تنظیموں کو مدد فراہم کرنے میں اس لیے کامیاب ہے کیونکہ امریکا نے ہندو ریاست کو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اگر حکومت امریکا-بھارت گٹھ جوڑ کا نام اپنی زبان پرلانے کی ہمت کرتی ہے تو اسے ان سے تعلقات ختم کرنا پڑیں گے اور اگر ان کا نام لینے کے بعد وہ تعلقات ختم نہیں کرتی تو اسے غدار کہا جائے گا۔
حکومت بھارت پر لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگاتی ہے۔ لائن آف کنٹرول پرپاکستان میں بسنے والے مسلمان آئے روز بھارتی افواج کی فائرنگ کا نشانہ بن کر شہید ہوجاتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پچھلے کئی سال سے تقریباًروزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر میں مسلمان پیلٹ گن کے چھروں کا نشانہ بن کر آنکھوں کی روشنی سے محروم اور دیگر مظالم کی وجہ سےشہید ہورہے ہیں۔ لیکن بھارتی جارحیت کے باوجود باجوہ-عمران حکومت پاک بھارت سرحد پر ایک زمینی راستہ کھول رہی ہے تا کہ بھارتی سکھ پاکستان میں موجود اپنے مقدس مقام، گردوارہ کرتارپور صاحب ،کی زیارت کے لیے بغیر ویزہ کے سفر کرسکیں۔ حکومت اس قدر دھوکے باز ہے کہ امریکا کے حکم پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو نارملائیز کرنے کے لیے سکھوں کو ایک آڑ کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ اور ایسا یہ حکومت اس لیے کررہی ہے تا کہ پاکستان کے مسلمان یہ سمجھیں کہ اس عمل کے ذریعے حکومت بھارت میں موجود ایک بہت بڑی اقلیت کی حمایت حاصل کررہی ہے۔
دشمن کو گلے لگانے ، اس کےحملوں کونظر انداز کرنے میں کوئی عزت نہیں ہے اور دشمن کے مفادات کو پورا کر کے امن بھی قائم نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ دشمن کو اسی زبان میں جواب دو جس زبان میں وہ تم سے بات کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
فَمَنِ اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَيۡهِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ
"اور جیسے انہوں نے تم پر حملہ کیا تم بھی ویسے ہی ان پر حملہ کرو"(البقرۃ:194)۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دشمنوں کے ساتھ دوستی کو حرام قرار دیا ہے،
اِنَّمَا يَنۡهٰٮكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيۡنَ قَاتَلُوۡكُمۡ فِىۡ الدِّيۡنِ وَاَخۡرَجُوۡكُمۡ مِّنۡ دِيَارِكُمۡ وَظَاهَرُوۡا عَلٰٓى اِخۡرَاجِكُمۡ اَنۡ تَوَلَّوۡهُمۡۚ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
" اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں"(الممتحنہ:9)