بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز14دسمبر 2018
۔ اسٹاک مارکیٹ کےاتار چڑھاؤ کی وجہ غلط سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے
- جمہوریت کبھی بھی غریب، بے گھر اور مشکلات سے دوچار لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال نہیں کرے گی
- باجوہ-عمران حکومت نے افغانستان میں بھارت کو کردار ادا کرنے کی دعوت دے کر ایک اور ریڈ لائن عبور کرڈالی
تفصیلات:
اسٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی وجہ غلط سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے
6 دسمبر 2018 کو بھی اسٹاک مارکیٹ گرتی چلی گئی کیونکہ سرمایہ کار گرتی ہوئی معیشت اور پیداواری عمل میں کمی کو روکنے کے حوالے سے حکومتی منصوبوں پر"غیر یقینی" کی کیفیت کا شکارہیں ۔ کے ایس سی 100 اینڈیکس تقریباً ایک ہزار پوائنٹس گر کر 38300 کی حد پر بند ہوا۔ اگرچہ مارکیٹ نے خطے کی دوسری مارکیٹس سے سمت کا تعین کیا لیکن وہ شرح سود میں 150 بیسز پوائنٹس اور روپے کی قدر میں ایک ہی دن میں تقریباً 4 فیصد کمی کی وجہ سے معیشت میں آنے والے آفٹر شاکس پر اپنے ردعمل کا اظہار کررہی تھی۔ ان واقعات نے ایسی آگ لگائی کہ اس کے اثرات سے اسٹاک مارکیٹ پانچ ہفتوں بعد بھی نکل نہیں سکی۔ میڈیا آج کل اسٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ جدید معیشت میں میڈیا اسٹاک مارکیٹ کے حوالے سے بہت زیادہ خبریں دیتا ہے۔ اسٹاک ماکیٹ،کرنسی مارکیٹ اور فیوچر مارکیٹ کا حجم اس قدر پھیل چکا ہے اور وہ اتنا اثرورسوخ رکھتی ہیں کہ وہ اشیاء اور خدمات کی حقیقی مارکیٹ کی اہمیت کو کم کردیتے ہیں۔
اسٹاک مارکیٹ اور مالیاتی مارکیٹس وہ بازار ہیں جہاں لوگ کمپنیوں کے شیئرز کی خریدوفرخت کرتے ہیں۔ لیکن یہ بازار حقیقی بازاروں سے بالکل مختلف ہیں جہاں لوگ کپڑوں ،پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیاء کی خریدو فروخت کرتے ہیں۔ بنیادی طور پرلوگ پیسہ کمانے کے لیے شیئرز خریدتے ہیں کیونکہ اس کی مارکیٹ اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ تو لوگ شیئرز خریدتے ہیں جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قیمتیں اوپر جائیں گی اور بیچتے ہیں جب اس کی قیمت نیچے جاتی ہے۔ اس تمام صورتحال کا کمپنیوں کےمتعلق اور عمومی طور پر ملکی معاشی صورتحال پر "اعتماد" سے ہوتا ہے۔ آج کی غلط کاغذی معیشت میں قیاس آرائیوں کی زیادہ تر بنیاد "اعتماد" ہوتا ہے۔ جیسے ہی "اعتماد" میں کمی آتی ہے، چاہے اس کی وجہ متوقع ہو یا غیر متوقع ، تو مارکیٹ گرنا شروع ہو جاتی ہے اور کئی اسٹاک ہولڈرز فوراً اپنے شیئرز کو فروخت کرنے کے لیے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ شیئرز کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو منافع کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس لیے وہ جلد ازجلد اپنے شیئرز فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح قیمتیں گرنا شروع ہو تی ہیں اور گرتی چلی جاتی ہیں کیونکہ بہت سارے شیئر ہولڈرز اپنے اسٹاکس فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ مارکیٹ میں ایک لہر چل پڑتی ہے اور عموماًاس صورت میں تمام لوگوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ کا قیام سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی تین بنیادی خصوصیات کی وجہ سے ہوا:
1) پبلک لمیڈڈ کمپنی سسٹم (اور اس سے جڑی اسٹاک مارکیٹ جس میں اس کے شیئرز کی تجارت ہوتی ہے،
2) سودی بینکاری کانظام،
3) کاغذی کرنسی کا نظام۔
یہ تین نظام مل کر سرمایہ دارانہ معیشت کو مزید دو حصوں یا یہ کہیں کہ دو قسم کی مارکیٹوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی پہلی قسم یا مارکیٹ وہ ہوتی ہے جسے حقیقی معیشت کہاجاتا ہے جہاں اشیاء کی پیداوار ہوتی ہے اور خدمات کا تبادلہ ہوتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کی دوسری قسم یا مارکیٹ وہ ہوتی ہے جسے مالیاتی معیشت کہا جاتا ہے یا بعض دفعہ اسے طفیلی (پیراسائیٹ) معیشت بھی کہا جاتا ہے جہاں مختلف قسم کے مالیاتی کاغذوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ ہے مغرب میں اسٹاک مارکیٹ کی حقیقت اور ان تمام ممالک میں جو اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ وہ مقام ہے جہاں کاروباری حضرات پروان چڑھتے ہیں،جہاں وہ کوئی شے نہیں بناتے جس سے لوگ فائدہ اٹھا سکیں اور جہاں سرمایہ کار کو سرمایہ لگانے میں صرف اس وجہ سے دلچسپی ہوتی ہے کہ یہاں سے جلدی اور آسانی سے دولت کمائی جاسکتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ ایک طرح کی رقص گاہ ہے جس میں ایک بہت بڑا ہال ہوتا ہے جہاں جوا کھیلا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کا مکڑی کا جالا ہے جسے آسانی سے جھنجوڑا اور تارتار کیا جاسکتا ہے ۔ یہ سرمایہ دارانہ ہوس اور مادی اور مالیاتی فائدے کا نشان ہے۔
جو واحد چیز دنیا کو سرمایہ دارانہ ہوس، پبلک لمیڈڈ کمپنی، سودی بینکاری اور کاغذی کرنسی سے محفوظ کرسکتی ہے وہ اس غلط سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ ہے۔ یہ نظام فطری طور پر جواری کے وعدے اور غلط قیاس آرائیاں کرنے والی مارکیٹوں پرکھڑا ہے۔ سودی بینکاری اور کاغذی کرنسی کا نظام ختم کرکے سونے اور چاندی کے مالیاتی نظام کو بحال کیا جانا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں تباہ کن افراط زر اور سودی قرضوں کا خاتمہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوگا جنہوں نے مالیاتی مارکیٹس کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ سودی بینکاری کی ضرورت ہی ختم ہوجائے گی اور اس طرح دنیا میں معاشی صورتحال مستحکم اور مالیاتی بحران ختم ہوجائے گا۔ منی مارکیٹ کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور اس کے ساتھ ہی معاشی بحران اور عدم استحکام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اگر نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا جائے۔
جمہوریت کبھی بھی غریب، بے گھر اور مشکلات سے دوچار لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال نہیں کرے گی
9 دسمبر 2018 کو کراچی کے دورے کے دوران وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دعویٰ کیا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں کسی کے خلاف نا انصافی نہیں کی جائے گی اگرچہ اب تک اس عمل میں ہزاروں لوگ کئی ہفتوں سے اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وفا قی حکومت چاہتی ہے کہ بے گھروں کو گھر فراہم کیے جائیں اور اگر تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران کسی کے خلاف ناانصافی ہوئی ہے تو وہ متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن 10 دسمبر 2018 کو جوائنٹ ڈائریکٹرلینڈ اینڈ ریلوے،جناب صدیقی نے اعلان کیا کہ کراچی سرکیولر ریلوے کی زمینوں پر قائم تجاوزات کے خلاف مہم کو ایک دن لیے موخر کردیا گیا ہے، جی ہاں صرف ایک دن کے لیے۔ ان تجاوزات میں کئی دہائیوں سے رہنے والے کس طرح ایک دن یا چند دنوں میں وہ جگہ خالی کردیں؟ کسی طرح سے کوئی بھی حکومت،چاہے وہ وفا قی ہویا صوبائی یا پھر شہری حکومت، فوری متبادل جگہ فراہم کیے بغیر گھروں اور کاروبار کو تباہ کرسکتی ہے ؟ کیا اچھی حکومت کا معیار طا قت کا ستعمال ہے یا لوگوں کے امور کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کرنا ہے؟
کراچی اربن لیب (کے یو ایل) کے محققین نے بتایا کہ کراچی میں ہر سال 80ہزار نئے گھروں کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ با قاعدہ تعمیراتی شعبہ 32 ہزار گھر فراہم کرتا ہے جبکہ 32 ہزار کچی آبادیوں میں بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر کی 75 فیصد آبادی غریب ہے اورگھروں کی جس طلب کو پورا نہیں کیا جاتا وہ زیادہ تر اسی طبقے کی جانب سے آتی ہے۔ جب کسی غریب کو ان تجاوزات میں چھت نصیب ہوجاتی ہے تو اچا نک کئی سال گزر جانے کے بعد انہیں گھر کی چھت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے 2011 میں کرائے جانے والے ایک سروے کے مطابق تجاوزات میں رہنے والے 70فیصد افراد ان تجاوزات میں کم ازکم 20 سال سے رہ رہے ہیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ بے گھروں کے لیے گھروں کابندوبست کیا جائے، حکومت ان تجاوزات میں بنے گھروں کوہی گرانے کے لیے چل پڑتی ہے۔ تجاوزات کے خلاف مہم شروع کردینے کے بعد ان کے آبادکاری اور تلافی کے باتیں نہیں ہونی چاہیے تھیں بلکہ یہ کام اس مہم کے شروع ہونے سے پہلے ہونے چاہیے تھے کیونکہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سب سے اہم ترین کام ہے۔ حکومت پچاس لاکھ گھروں کے جس منصونے پر کام کررہی ہے وہ بھی درحقیقت غریبوں کو نجی تعمیراتی کمپنیوں اور بینکوں کے جال میں پھنسانے کا منصوبہ ہے۔ غریب کو ڈاون پیمنٹ کے نام پر پہلے 6 لاکھ روپے جمع کرانے ہیں اور پھر اس پر سودی قرض کا بوجھ ڈال دیا جائے گا جبکہ وہ تو پہلے ہی بوجھوں تلے دبا ہوا ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ ریاست کا رویہ ایک خیال رکھنے والی ریاست کانہیں ہے بلکہ اس کا طرز عمل استعماری حکمرانوں جیسا ہے۔ ایک طرح سے موجودہ ریاست اپنی جمہوری قدرکے عین مطابق ہے جو صرف اور صرف چھوٹے سے طا قتور اشرافیہ کے معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے جو باری باری حکومت کرتے ہیں اور عام عوام کے لیے صرف اور صرف مشکلات ہی ان کامقدر ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف اسلام نے تمام انسانیت کے لیے گھر ایک بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
لَيْسَ لابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ: بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ
"ان چیزوں کے علاوہ کسی چیز پر ابن آدم کا حق نہیں ہے: رہنے کے لیے گھر، ستر چھپانے کے لیے کپڑا ، بھوک مٹانے کے لیے روٹی و پانی"۔
لہٰذا ریاستِ خلافت میں ریاست کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ ہر ایک شہری کے لیے گھر کے حصول کو یقینی بنائے۔ گھروں کی لاگت کو کم سے کم رکھنے کے لیے ریاست پورے ملک میں سہولیات فراہم کرےگی۔ ریاست صرف موجودہ شہروں میں ہی گھروں کی تعمیر پرتوجہ نہیں دے گی کیونکہ اس سے شہروں کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے اور زمین کی قیمت بھی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے بلکہ نئے شہر بسائے گی۔ زمین کی قیمت میں اضافہ بھی شہروں میں تجاوزات کے قیام کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
ریاستِ خلافت تعمیراتی شعبے میں موجود سرمایہ کاروں کے گٹھ جوڑ کا خاتمہ کرےگی جس نے شہری علا قوں کی زمین کی قیمت کوکئی گنا بڑھا دیا ہے جبکہ بہت سی زمین خالی پڑی ہیں۔ اس کے علاوہ خلافت اسٹاک شیئر کمپنی کا خاتمہ کردے گی جس کی وجہ سے نجی شعبہ بہت بڑی تعمیراتی کمپنی کھڑی کرنے میں کامیاب ہوجا تا ہے۔ اس کے بر خلاف ریاستِ خلافت بذات خود تعمیراتی شعبے میں اپنا کردار عملی طور پر ادا کرے گی اور اس طرح سے گھروں کی قیمت میں نمایاں کمی ہوگی کیونکہ اس کامقصد نفع کمانا نہیں ہوگا۔ ان تمام ا قدامات کے بعد بھی اگر کوئی اپنے بل بوتے پر اپنے لیے گھر کا بندوبست نہیں کرسکے گا تو ریاست اس کے لیے گھر کابندوبست کرے گی کیونکہ اس صورت میں یہ ریاست کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے ریاست کے پاس وافر وسائل میسر ہوں گے کیونکہ اسلام کامعاشی نظام نافذ العمل ہوگا۔
باجوہ-عمران حکومت نے افغانستان میں بھارت کو کردار ادا کرنے کی دعوت دے کر ایک اور ریڈ لائن عبور کرڈالی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں جاری امن اور مصالحاتی عمل میں بھارت سمیت تمام علا قائی کھلاڑیوں کا تعاون مانگا ہے اور یہ کہا ہے کہ تمام ذمہ دار ی صرف پاکستان پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ 10 دسمبر 2018 کو قومی اسمبلی کے چھٹے سیشن میں جمعیت علمائے اسلام –ف کے قانون ساز مولانا عبدالواسع کی جانب سے اٹھائے گئے پوائنٹ آف آرڈر کے جواب میں جناب قریشی نے کہا، "کیونکہ وہا ں (افغانستان) بھارتی موجودگی ہے اس لیے اس کا تعاون بھی درکار ہے" ۔
جب امریکا نے افغانستان کے دروازے بھارت پرکھولے تھے تا کہ وہ اپنا سیاسی و معاشی اثرورسوخ استعمال کرسکے تو اس و قت کی سیاسی و فوجی قیادت نے امریکا کے اس ا قدام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ پچھلی سیاسی و فوجی قیادت نے سرکاری طور پر امریکا سے یہ کہا تھا کہ وہ بھارت کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے پاکستان کے حقیقی سیکیورٹی خدشات کو نظر انداز کررہا ہے۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال ہونے کی بھی نشاندہی کی تھی۔ لیکن موجودہ حکومت نے امریکی دباؤ کے بعد ان خدشات سے دستبرداری اختیار کرلی ہے۔ 3 دسمبر کو عمران خان نے اس بات کا اعلان کیاانہیں امریکی صدر ٹرمپ کا خط ملا ہے جس میں اس نے درخواست کی ہے کہ افغانستان کے سیاسی حل کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔ پھر 7 دسمبر 2018 کو امیریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے نئے آنے والے کمانڈر لیفٹیننٹ کینیتھ میکنزی نے کہا کہ وہ " پاکستان سے ترجیح بنیادوں پر رابطہ رکھیں گے"۔ اس نے مزید کہا کہ، "اس و قت ایسا لگتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنا اثرو رسوخ مکمل طور پر استعمال نہیں کررہا ہے۔۔۔ ہم اب بھی یہ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کومستحکم افغانستان کا حصہ بننے پر نہیں بلکہ بھارت کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے "۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کے نام نہاد اتحادی کو افغانستان میں بھارت کی موجودگی کے حوالے سے پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ توپاکستان کی جانب سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پرلے آنے کی صورت میں بھی پاکستان کےسیکیورٹی خدشات کو حل کرنے سے انکاری ہے۔ اور یہ صورتحال حیرت انگیز نہیں کیونکہ جب غلام اندھی پیروی کرتے ہیں تو ان کا آقا ایسے ہی تکبر کا مظاہرہ کا کرتا ہے۔
11/9 کے بعد تواتر سے آنے والی سیاسی و فوجی قیادت نے امریکی مطالبات کے سامنے یہ کہتے ہوئے سرجھکایا کہ وہ سپر پاور ہے اور اس لیے ہم اس کی مخالفت مول نہیں لے سکتے۔ لیکن افواج کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھارت کے حوالے سے یہ کہتے تھے کہ وہ کبھی بھی بھارت کی خطے میں بالادستی کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ یہ وہ ریڈ لائن ہے جسے کبھی بھی پامال نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن امریکا کی غلامی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایک ایک کر کے تمام ریڈ لائنز پامال ہو گئیں، اور ان کی پامالی مسلمان مشرف کے دور سے دیکھتے آرہے ہیں۔ اس قسم کے حکمران صرف اور صرف امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بناتے ہیں اور انہیں ان لوگوں کے مفادات کی کوئی پروا نہیں ہوتی جن پر وہ حکمرانی کررہے ہوتے ہیں۔ آخر کن بنیادوں پر باجوہ-عمران حکومت نے افغانستان میں بھارت کی موجودگی کو قبول کرلیا؟ کیا اچانک بھارت نے مقبوضہ کشمیر خالی کردیا ہے؟ کیا بھارت نے پاکستان کی زمینوں کوبنجر بنانے والے ڈیموں کی تعمیر روک دی ہے؟ کیا بھارت نے افغانستان میں قائم اپنے ایک درجن سے زائد قونصلیٹ بند کر دیے ہیں؟ کیا بھارت نے کلبھوشن یادیو نیٹ ورک ختم کردیا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کےخلاف بھارت کی جارحیت جاری وساری ہے لیکن اس کے باوجود باجوہ-عمران حکومت بھارت کو افغانستان کے مسئلے کے حل میں شرکت کی دعوت دے رہی ہے۔
پچھلے حکمرانوں کی طرح باجوہ-عمران حکومت بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی پیروی نہیں کرتی ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَاقۡتُلُوۡهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡهُمۡ وَاَخۡرِجُوۡهُمۡ مِّنۡ حَيۡثُ اَخۡرَجُوۡكُمۡ
"اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو"(البقرۃ:191)۔
حکومت اپنے آقاامریکا کے احکامات کی پیروی کرتی ہے جو بھارت کو خطے میں بالادست قوت بنانا چاہتا ہے تا کہ چین اور خطے کےمسلمانوں کے خلاف اسے استعمال کرسکے۔ پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو صرف اورصرف صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتی ہو،اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں تمام مسلمانوں کو امریکا-بھارت گٹھ جوڑ تورنے کے لیے جمع کرے۔ ایسی قیادت نبوت کے طریقے پرخلافت کے قیام کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔