بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز یکم فروری 2019
۔ برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور سیاحت پر توجہ کسی بھی صورت مضبوط صنعتی بنیاد کے قیام کا متبادل نہیں ہے
- اسلام کے زرعی قوانین کسانوں کوسرمایہ دارانہ نظام کے ظلم سے نجات دلائیں گے
- اسلام کا نظامِ حکمرانی خلافت ہے نہ کہ جمہوریت چاہے وہ پارلیمانی جمہوریت ہو یا صدراتی جمہوریت ہو
تفصیلات:
- برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور سیاحت پر توجہ کسی بھی صورت
- مضبوط صنعتی بنیاد کے قیام کا متبادل نہیں ہے
28 جنوری 2019 کو وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل اور صنعت جناب عبدالرزاق داود نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکا کی مدد کررہا ہے، اور امریکا کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ ہونا کافی مشکل ہے۔ ساٹھ ممالک کے باشندوں کو پاکستان آمد پر سیکیورٹی کلیرنس اور ویزے کی فراہمی کے متعلق جناب داود نے کہا کہ حکومت پہلے یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کے لیے اپنے دروازے کھولنے سے کیا صورت پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، "اس فیصلے کے ذریعے ہم یہ جان پائیں گے کہ ان ممالک سے کتنے لوگ پاکستان آتے ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں ان کے کیا مفادات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے شعبہ سیاحت کے فروغ میں بھی یہ فیصلہ مددگار ثابت ہوگا"۔
آئی ایم ایف کے تجویز کردہ نسخہ کیمیاء کی وجہ سے حکومت ڈ ا لر کے ذخائر بڑھانے کے لیے برآمدات، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور سیاحت کے شعبوں پر توجہ مرکوز کررہی ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکے گی بلکہ مغرب پر اس کا انحصار برقرار رہے گا۔ برآمدات کے ذریعے ڈالر آتے ہیں لیکن توجہ اُن اشیاء کی پیداوار پر رہتی ہے جو مغربی ممالک کی ضروریات ہوتی ہیں نہ کی اُ شیاء کی پیداوار پر توجہ مرکوز ہوتی ہے جن کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔ یہ رجحان خطرناک ہے کیونکہ ملک کی صنعتوں کی قسمت بین الاقوامی بازار میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے منسلک ہوجاتی ہے جبکہ ان کی پیداوار کو ملکی ضروریات سے جڑا ہونا چاہیے۔ اس پالیسی سے حکومت مطمئن ہے کہ اس طرح پھلوں،سبزیوں،اجناس، چمڑے اور کھیلوں کے سامان سے زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ لیکن بھاری صنعتوں اور ائر کرافٹ ، ریل اور گاڑیوں کے انجن سازی کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان غیر ملکی طاقتوں کے رحم کرم پر رہے گا کیونکہ ہم اپنی دفاعی ضروریات اور مقامی بھاری مشینری کی ضروریات کو ان کی مدد کے بغیر پورا نہیں کرسکیں گے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حکومت کی یہ پالیسی ہماری معیشت کی ترقی میں رکاوٹ بلکہ تنزلی کا باعث ہے۔ جہاں تک براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو ابتداء میں تو ڈالر آتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے مقامی بازاروں اور صنعتوں پر غیر ملکی کمپنیاں چھا جاتی ہیں اور مقامی کمپنیاں پیداواری عمل سے باہر ہوتی جاتی ہیں اور آخر میں آنے والے ڈالر بھی کمپنیوں کے منافع کی صورت میں ملک سے باہر جانا شروع ہوجاتے ہیں۔ سیاحت سے بھی ملک میں ڈالر آتے ہیں لیکن اس سے توجہ ملک کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے سے ہٹ جاتی ہے جس کے لیے بھاری صنعتوں کا قیام انتہائی ضروری ہے۔
نبوت کے طریقے پر قائم خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ پاکستان اپنی مکمل استعداد اور صلاحیت کے مطابق معاشی ترقی کی منازل طے کرتا ہوا ایک زبردست معاشی طاقت بن جائے۔ خلافت صنعتوں کے فروغ کے لیے انسانی و مالیاتی وسائل کی فراہمی پر بھرپور سرمایہ کاری کرے گی تا کہ امت زرعی مشینری ، انجنز، بھاری صنعتیں اور عالمی معیار کی دفاعی اشیاء پیدا کرسکے اور استعماری طاقتوں پر انحصار کے تباہ کُن دورکا خاتمہ کردے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَ تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
"اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کرو اور دنیا سے اپنا حصہ بھی نہ بھلاؤ اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو۔ اور ملک میں فساد نہ ہو۔ کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا "(القصص 28:77)
اسلام کے زرعی قوانین کسانوں کوسرمایہ دارانہ نظام کے ظلم سے نجات دلائیں گے
ڈان اخبار نے 28 جنوری 2019کو یہ خبر شائع کی کہ ملک کے کسا ن دوسرے منی بجٹ میں اعلان کیے گئے اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس منی بجٹ میں چھوٹے زمینداروں کے مفادات کو سامنے نہیں رکھا گیا۔ کسان رابطہ کمیٹی پاکستان کے جنرل سیکریٹری فاروق طارق نے کہا کہ، "بینکوں کو ٹیکس میں دی جانے والی مراعات سے پیسوں تک کسانوں کی رسائی آسان نہیں ہو گی۔ زرعی پیداوار اور زرعی پروسیسنگ یونٹ کو ایک ہی چیز قرار دیا گیا ہے۔۔۔زراعت کے نام پر قرضے اب فیڈ ملز ، ہیچریز اور دیگر پروسیسنگ یونٹس کو دینے کی پیشکش ہورہی ہے"۔ کسان اتحاد کے صدر جناب کھوکھر نے پنجاب حکومت کی دستاویز کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں باسمتی چاول کی پیداواری لاگت بھارت کے مقابلے میں 34 فیصد زائد ہے جبکہ گندم،کپاس، پیاز اور چنے کی پیداوار لاگت بلترتیب 37، 57، 44 اور 34 فیصد زائد ہے۔
دن بہ دن کسانوں کی معاشی صورتحال گرتی چلی جارہی ہے کیونکہ ہر آنے والی حکومت نے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی نافذ کیا ہے۔ کسانوں کا پیداوار کے لیے درکار اشیاء تک محدود رسائی ، ان کے کمزور مالیاتی اور تکنیکی وسائل، غیر مناسب آب پاشی کے وسائل جہاں 0.93ملین ہیکٹر زمین بارشوں سے سیراب ہوتی ہے، زمین کی کاشتکاری میں کمی،ان تمام اسباب نے پاکستان کی زرعی صلاحیتوں کو محدود کیا ہے۔ اس کے علاوہ کمزور بیج کی پیداواری صنعت، کمزور تحقیق و ترقی اور گوداموں کی نامناسب سہولیات بھی کسانوں کی مشکلات میں اضافے کا سبب ہیں۔صرف خیبر پختونخوا میں 2.86ملین ہیکٹرقابل کاشت زمین میں سے 1.16ملین ہیکٹر زمین استعمال میں ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان کی قابل کاشت زمین کو اس کی مکمل استعداد کے مطابق استعمال نہیں کیا جارہا۔ پاکستان کا کُل قابل کاشت رقبہ 30 ملین ہیکٹر ہے جس میں سے 22 ملین ہیکٹر پر کاشتکاری کی جاتی ہے۔ جس زمین پر کاشتکاری کی جاتی ہے اس میں سے بھی 6 ملین ہیکٹر زمین پر فصل کاشت نہیں کی جاتی۔ صرف 7 ملین ہیکٹر زمین پر سال میں ایک سے زائد بار کاشتکاری کی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے چھوٹے سے زرعی اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا ہے اور چھوٹے زمین د اروں کو اور بے زمین کسانوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ اکثر وہ کسان جوزمین کاشت کرتے ہیں انہیں زمین کی ملکیت کے حقوق نہیں دیے جاتے۔اور اگر وہ زمین کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ خود پر سودی قرضوں کابوجھ ڈال لیتے ہیں جس سے ان کی مشکلات و مصائب میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کر کے خلافت زرعی پیداوار اور دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقعوں میں اضافہ کرے گی اور پاکستان کی خوراک کی صورتحال کو بہتر بنائے گی۔ منفرد طریقے سے اسلام زمین کی ملکیت کو اس کی کاشتکاری کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ تو اس بات سے قطع نظر کے زمین دار کے پاس بہت زیادہ زمین ہے یا کم زمین ہے، اسے خود اس پر کاشتکاری کرنی ہوتی ہےیعنی وہ زمین کو کرائے یا مزارعت پر نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ ریاست زرعی زمین کے مالکان کی گرانٹ یا بلاسودی قرضوں کے ذریعے مدد بھی کرے گی۔ اگر زمین کا مالک اپنی زمین پر کاشتکاری نہیں کرنا چاہتا یا وہ ایسا کرنے سے معزور ہے جبکہ اسے معاونت بھی فراہم کی جائے تو اس صورت میں اسے اس بات کا حق نہیں کہ وہ کسی اور کو وہ زمین پیداوار میں شراکت کی بنیاد پر مزارعت پر دے دے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،
ازْرَعْهَا أَوْ امْنَحْهَا أَخَاكَ
"کاشتکاری کرو یا اپنے بھائی کو دے دو"۔
اسلام بے کار پڑی زرعی زمین کو بحال کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس زمین کے مالکانہ حقوق اس شخص کے حوالے کردیے جاتے ہیں جو اس پر کام کر کے اس سے زرعی پیداوار حاصل کرے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،
مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ
"جس کسی نے مردہ زمین کو بحال کیا تو وہ اس کی ہوئی"(ترمذی)۔
اس کے علاوہ خلافت زبردست آبپاشی کانظام قائم کرے گی تا کہ پانی کے ذخائر سےدور موجود زمینیں بھی سیراب ہوسکیں۔ خلافت نرسریاں اور تحقیقی ادارے بنائے گی تا کہ اچھے معیاری بیج اور کھادیں دستیاب ہوں اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی فصلیں کاشت ہوں۔
اسلام کا نظامِ حکمرانی خلافت ہے نہ کہ جمہوریت چاہے وہ پارلیمانی جمہوریت ہو یا صدراتی جمہوریت ہو
27جنوری 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت نے ملک میں حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھ دی ہے جس میں ہر حکمران کا احتساب کیا جاسکے گا اور وہ کسی صورت عوام کے پیسے کولوٹ نہیں سکے گا۔ وزیر اعظم نے یہ تقریر اس وقت کی ہے جب یہ افواہیں عام ہیں کہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی جگہ صدارتی جمہوریت لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس قسم کی افواہوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کو کرپٹ سیاسی قیادت کے ہاتھوں سے لے کر کرپٹ فوجی قیادت کے ہاتھوں میں دے دیا جائے۔ اس چیز کا مظاہرہ ہم اس سے پہلے صدر جنرل مشرف کی "حقیقی جمہوریت" میں دیکھ چکے ہیں ، وہ مشرف جس کا نام سن کر ہی ہمارے جذبات بھڑک جاتے ہیں۔ عمران خان اقتدار میں اِس وعدے پر آئے تھے کہ وہ اسلام کے نام پر وجودمیں آنے والے پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے، لیکن اب وہ حقیقی جمہوریت کی بات کررہے ہیں جو کہ انسانوں کا بنایا کفریہ نظام ہے۔
جمہوریت اور ریاست مدینہ کی بنیادیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں۔ جمہوریت کی بنیاد سیکولر ازم ہے جس کے تحت وحی یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا معاشرتی زندگی اور اس کے امور کومنظم کرنے کے لیے درکار قوانین کی تشکیل میں کوئی کردار نہیں ہے اور اسے ایک فرد کی ذاتی زندگی تک محدود ہونا چاہیے۔ لیکن مدینہ کی اسلامی ریاست اس عقیدے پر کھڑی کی گئی تھی کہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی معاشرے اور فرد کی زندگی کومنظم کرنے کے لیے درکار قوانین کو بناسکتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡ ؕ وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيۡنًا
"اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا "(الاحزاب 33:36)۔
قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ہر حکمران نے اسلامی نعرے لگا کر پاکستان کے مسلمانوں کو بے وقوف بنایا ہے ، لیکن اسلام کبھی نافذ نہیں کیا بلکہ برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے سیکولر نظام کو نافذ کیا ۔ پاکستان کے مسلمان اسلام سے شدید محبت کرتے ہیں اور وہ اپنی زندگی اسلام کے احکامات کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں لیکن یہ خواہش جمہوریت میں کبھی پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ انسانوں کابنایاہوا نظام ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دین اور دنیا جدا جدا رہیں۔ خلافت کا نظامِ حکمرانی اسلام کے مکمل نفاذ کو یقینی بناتا ہے اور دین و دنیا کو یکجا کرتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلامی طرز زندگی کے احیاء کے لیے جمہوریت کو ختم کر کےاس کی جگہ نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَهۡدِىۡ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوٰنَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَيُخۡرِجُهُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ بِاِذۡنِهٖ وَيَهۡدِيۡهِمۡ اِلٰى صِرٰطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ
"اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہے"(المائدہ 5:16)