الأربعاء، 23 جمادى الثانية 1446| 2024/12/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 15 فروری 2019

 

-  واشنگٹن کونسینسس کے ہتھوڑے سے آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کررہی ہے

۔ جمہوریت توانائی کی بڑی کمپنیوں کو غریب عوام کی قیمت پر زبردست نفع کمانے کی اجازت دیتی ہے

- صرف خلافت ہی مسلم افواج کو ریاست خلافت کے جھنڈے تلے یکجا کرے گی

تفصیلات:

 

واشنگٹن کونسینسس کے ہتھوڑے سے آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کررہی ہے

11فروری 2019 کو وزیرخزانہ اسد عمر نے دعوی کیا کہ ورلڈ گورنمنٹ سَمٹ کے دوران وزیر اعظم عمران خان کی آئی ایم ایف کی چیرپرسن کرسٹین لگارڈ سے ملاقات کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اختلافات کم ہورہے ہیں۔ اسدعمر نے پشاور میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے خطاب میں کہا کہ "آئی ایم ایف نے اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں"۔

                  وزیر خزانہ  بد حال معیشت کی  آئی ایم ایف کے ہاتھوں مزید بربادی شروع  ہونے سے پہلے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف  نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ اس نے اپنا چارٹر اور استعماری  واشنگٹن کونسینسس  کے اصولوں  کو برقرار رکھا ہے جس کی بنیاد پر معیشت میں "استحکام" کے لیے"اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام"کے تحت قرضے دیے جاتے ہیں۔  واشنگٹن کونسینسس دس معاشی نسخوں کا ایک مجموعہ ہے جس کی بنیاد پر آئی ایم ایف ، عالمی بینک اور امریکی دفترے خزانہ واشنگٹن کے ہاتھوں  بحران زدہ تمام ترقی پزیر ممالک کو ایک جیسا ہی  اصلاحاتی پروگرام دیتا ہے۔  اس  پروگرام کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ قرض لینے والے ملک کی معیشت بین الاقوامی تجارت میں ڈالر کی بالادستی کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کرے۔ اس  پروگرام کے نتیجے میں مقامی معیشت مفلوج اور مقامی مارکیٹوں میں استعماری ممالک کی کمپنیوں کی بالادستی قائم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

                  واشنگٹن کونسینسس معیشت کے اُن شعبوں سے زرتلافی(سبسیڈی) کے خاتمے  کاحکم دیتا ہے جنہیں آگے بڑھنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس طرح ملک خودانحصاری کی رستے سے ہٹ جاتا ہے۔ واشنگٹن کونسینسس ٹیکسوں میں اضافے کا حکم دیتا ہے جس سے معیشت کے اہم شعبے مفلوج ہوجاتے ہیں اور لوگوں میں ضروری اشیاء کی خریداری  کی صلاحیت  کم ہوجاتی ہے۔  واشنگٹن کونسینسس "مسابقتی شرح تبادلہ" کاحکم دیتا ہے جس کے ذریعے وہ مقامی کرنسی کو کمزور کرنے کا حکم دیتا ہے جس کے بعد مہنگائی ، درآمدی اشیاء کی قیمتوں اور غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔  واشنگٹن کونسینسس تجارتی آزادیوں کا حکم دیتا ہے جس کے نتیجے میں غیر ملکی اشیاء کے لیے ملکی دروازے مکمل طور پر کھل جاتے ہیں اور اس طرح مقامی پیداواری صنعتی شعبے کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔  واشنگٹن کونسینسس سرکاری اداروں کی نجکاری کا حکم دیتا ہے جس کے بعد ریاست دولت پیدا کرنے والے وسائل سے محروم ہوجاتی ہے اور اس کا سودی قرضوں پر انحصار  مزید بڑھ جاتا ہے۔ واشنگٹن کونسینسس بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کے لیے کھلا ماحول دینے کاحکم دیتا ہے جس کے بعد  غیر ملکی کمپنیاں مقامی صنعتی شعبے کی مالک بنتی چلی جاتی ہیں۔ واشنگٹن کونسینسس  بازاروں کو آزاد کرنے کا حکم دیتا ہے جس کے بعد ان میں غیر ملکی کمپنیاں اپنے بے پناہ وسائل کی وجہ سے چھا  جاتی ہیں اور مقامی کمپنیاں ان کا مقابلہ ہی نہیں کرپاتیں۔

                  رسول اللہ ﷺ نے خبردار کیا تھا،

 

»لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ«

"مؤمن ایک ہی سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا"(بخاری و مسلم)۔

 

کئی دہائیوں سے صرف چہرے ہی تبدیل ہورہے ہیں، لیکن پاکستان کی معیشت واشنگٹن کونسینسس سے ہی منسلک رہی ہے جو اسے مسلسل کچل رہی ہے۔ حقیقی تبدیلی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے اور اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا جائے۔ خلافت سودی قرضوں کومسترد کردے گی جس نے پاکستان کی معیشت کو چوس چوس کر خشک کردیا ہے۔خلافت اسلام کا ٹیکس نظام نافذ کرے گی جو توانائی اور معدنی وسائل کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے پورا معاشرہ مستفید ہوتا ہے۔ خلافت  سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دے گی جس کے نتیجے میں قیمتوں میں استحکام آئے گا۔ اور خلافت معیشت کے ان شعبوں میں جہاں بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے سرکاری شعبے میں صنعتیں قائم کرے گی تا کہ ان سے حاصل ہونے والی زبردست دولت کے ذریعے وہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرسکے۔

 

جمہوریت توانائی کی بڑی کمپنیوں کو غریب عوام کی قیمت پر زبردست نفع کمانے کی اجازت دیتی ہے

6 فروری 2019کو توانائی پر سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو یہ بتایا گیا کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی  پیز) کو سالانہ 422 ارب روپے بجلی پیدا کیے بغیر کیپیسیٹی  پیمنٹ  کے نام پر دیے جاری ہیں ۔ سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے مشورہ دیا کہ حکومت کو لازمی ایسے معاہدے  کرنے چاہیے جس میں کیپیسیٹی پیمنٹ ادا کرنے کی شرط نہ ہو اور بجلی کے کارخانے جو بجلی پیدا کریں صرف اس کی ادائیگی انہیں کی جائے۔

یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ پچھلی صدی میں نوے کی دہائی سے حکومتوں نے نجی کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کیے جس کے وجہ سے انہیں اُس وقت بھی زبردست نفع  کمانے کا موقع ملا جب بجلی کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ عموماً سردیوں کے موسم میں ہوتا ہے۔  یہ ایک عظیم ظلم اور ناانصافی ہے۔ جب  عام آدمی کوئی کاروبار شروع کرتا ہے تو اسے کسی بھی جانب سے ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی کہ اس کا مال اِ س صورت میں بھی خریدا جائے گا جب اس کی کوئی طلب بھی موجود نہیں ہوگی۔ لیکن  جمہوریت میں طلب و رسد کے اصول کی با آسانی خلاف ورزی کی  جاتی ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں کے حکمران اشرافیہ سے تعلقات ہوتے ہیں اور وہ ایسی خصوصی مراعات حاصل کرلیتے ہیں جو کوئی دوسرا حاصل نہیں کرسکتا۔ حکمران آسانی سے خصوصی مراعات انہیں دے سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس قانون بنانے یا تبدیل کرنےکا اختیار ہوتا ہے جو جمہوریت نے انہیں دےرکھا ہے۔

                  اگر پاکستان میں خلافت ہوتی تو یہ صورتحال پیدا ہی  نہیں ہوسکتی تھی۔ اسلام نے توانائی کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے ،لہٰذا اس کے ذخائر عوامی ملکیت ہیں اور ان کے پیداواری یونٹس عوامی ملکیت کے تحت صرف ریاست ہی قائم کرسکتی ہے۔ توانائی کے ذخائر اور ان کے پیداواری یونٹس کی نجکاری بھی نہیں کی جاسکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، 

 

»الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ«

"مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراہگاہیں اور آگ"(احمد)۔

 

  اس حدیث میں "آگ" سے مراد توانائی کی وہ تمام اقسام ہیں جو صنعتوں ، مشینوں اور پلانٹس میں بطور ایندھن استعمال ہوتی ہیں ۔ لہٰذا اسلام نے بجلی کو عوامی ملکیت قرار دیا اور ریاست پر فرض کیا کہ وہ لوگوں کے وکیل کی حیثیت سے بجلی کے معاملات دیکھے اور چلائے، اور اس سے حاصل ہونے والے نفع کو لوگوں تک پہنچائے۔ تو اگر خلافت میں ایک حکمران عام لوگوں کی قیمت پر توانائی کے شعبے میں کچھ دولت مند لوگوں کومنفعت پہنچانا چاہتا بھی ہو تو وہ ایسا نہیں کرسکے گا  کیونکہ اسلام نے بجلی کو عوامی  ملکیت قرار دیا  ہے اور صرف اور صرف ریاست ہی لوگوں کے وکیل کی حیثیت سے اس کے امور چلانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اسی طرح حکمران اِس قانون کو تبدیل بھی نہیں کرسکے گا کیونکہ  اللہ سبحانہ و تعالیٰ  نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہو خلافت میں کوئی اسے حلال قرار نہیں دے سکتا۔  لہٰذا خلافت میں ایسی کوئی صورت نہیں ہوتی کہ حکمران اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قوانین  تبدیل کرکے اپنے حواری دولت مندوں کو مالی منفعت پہنچا سکے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ توانائی کے شعبے میں موجود بحران صرف اسی صورت میں ختم ہوسکتا ہے جب پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت  قائم کی جائے۔   

 

صرف خلافت ہی مسلم افواج کو ریاست خلافت کے جھنڈے تلے یکجا کرے گی

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے بتایا کہ 11 فروری  2019 کو سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف نے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے راولپنڈی میں آرمی کے جنرل ہیڈکواٹر میں ملاقات کی۔ جنرل راحیل شریف اس وقت سعودی قیادت میں بننے والے 41 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی کررہے ہیں۔ پریس ریلزمیں کہا گیا کہ "ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی گئی جس میں علاقائی امن اور استحکام بھی شامل تھے"۔

                  یہ ایک انتہائی المناک صورتحال  ہے کہ مسلم دنیا کئی قومی ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے جہاں ہر ریاست کا الگ آئین، جھنڈا اور سرحد ہے۔ ان کے مفادات ، ترجیحات اور اعمال کو استعماری طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں۔  جہاں تک جنرل باجوہ کا تعلق ہے تو اِس وقت اِن کی ترجیح یہ ہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر کے اپنے آقا امریکا کے لیے افغانستان میں مستقل قیام کی کوئی صورت پیدا کریں۔  اور جہاں تک جنرل راحیل شریف کا تعلق ہے تو وہ ایک ایسی فوج کی سربراہی کررہے ہیں جسے یہ کام دیا گیا ہے کہ وہ امریکا کی "دہشت گردی" کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرے جو کہ حقیقت میں مسلم علاقوں میں بیرونی طاقتوں کے قبضے کے خلاف ہونی والی مزاحمت کو کچلنا ہے۔

                  اسلام نے مسلمانوں کو قومی ریاستوں میں تقسیم ہونے سے منع فرمایا ہے ۔ اسی طرح ان قومی ریاستوں کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی یونین اور لیگز کی بھی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں نظامِ حکومت وحدانی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ریاست، یعنی ریاستِ خلافت  میں مسلمانوں کے ایک واحد خلیفہ کے زیر سایہ رہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کی ایک اکائی کی صورت میں رہنے کو فرض قرار دیا ہے اور مسلمانوں کے خون کو زندگی و موت کا مسئلہ قرار دیا ہے۔ ابو سعد الخدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ، فَاقْـتُلُوا الآخَرَ مِنْهُمَا

" جب دو خلفاء سے بیعت کی جائے، تو جس سے آخر میں بیعت ہوئی ہو اس کو مار ڈالو(اس لیے کہ اس کی خلافت پہلے خلیفہ کے ہوتے ہوئے باطل ہے)"

 

۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

سَتَكُونُ هَنَاتٌ، وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَهُم جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْف كَائِنًا مَنْ كَانَ

"قریب ہیں فتنے اور فساد پھر جو کوئی چاہے اس امت کے اتفاق کو بگاڑنا تو اس کو تلوار سے مارو چاہے جو کوئی بھی ہو"۔

 

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ

" جو شخص تمہارے پاس آئے اور تم سب ایک شخص کے اوپر جمے ہو۔ وہ چاہے تم میں پھوٹ ڈالنا اور جدائی تو اس کو مار ڈالو"۔ 

 

اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمانوں کی ایک ریاست کو تقسیم کر کے کئی ریاستیں بنائیں جائیں۔ مسلمانوں کی ایک ہی ریاست ہونا فرض ہے۔ لہٰذا موجودہ صورتحال مسلمانوں سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ 3مارچ 1924میں خلافت کے انہدام کے بعد قائم استعماری بالادستی ،مسلمانوں کے درمیان موجود مصنوعی سرحدوں ، ان پر مسلط ایجنٹ حکمرانوں اور ان کے کفریہ نظام کے خاتمے کے لیے کام کریں۔ اور مسلمانوں کولازمی نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کرنی چاہیے جو  کہ مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف ایک واحد انتہائی موثر طاقت میں تبدیل کردے گی۔

Last modified onجمعرات, 14 فروری 2019 17:18

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک