الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 22 مارچ 2019

 

۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم و جبر  میں اضافے کے باوجود نارملائیزشن کا عمل پورے زور و شور سے جاری ہے

۔ خلافت پاکستان کو عالمی زرعی طاقت بنادے گی

۔ مغرب اسلامو فوبیا کا شکار ہے کیونکہ خلافت موجود نہیں ہے جو اسلام کاپیغام پیش کرے اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم  کرے

 

تفصیلات:

 

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم و جبر میں اضافے کے باوجود

نارملائیزشن کا عمل پورے زور و شور سے جاری ہے

سفارتی ذرائع کے مطابق 19 مارچ 2019 کو پاکستان اور بھارت کے تکنیکی ماہرین زیرہ پوائنٹ پر ملے جس میں انہوں نے کارتارپور راہداری کی تعمیر کے معاملے کو آخری شکل دی۔ کرتارپور راہداری کو اس سال بابا گرونانک صاحب کی 550 ویں سالگرہ  کے موقع پر سکھ یاتریوں کے لیے کھولا جائے گا۔ 14مارچ کو اٹاری پر ہونے والی بات چیت کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں جانب کے تکنیکی ماہرین 19 مارچ کو اس معاملے پرمزید بات چیت کریں گے۔

پاکستان کی حکومت نے ہندو ریاست کے سامنے پُرامن رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے باوجود اس کے کہ اُس نے کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ بھارتی ظلم و جبر اس سطح پر ہے کہ مودی کا آقا، امریکا، جس نے اسے کھلا چھوڑ رکھا ہے،اس معاملے پربات کرنے پرمجبور ہوگیا۔ امریکی دفتر خارجہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ برائے 2018 ، 13 مارچ 2019 کو جاری ہوئی، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جولائی 2016 سے فروری 2017 کے درمیانی عرصے میں مقبوضہ کشمیر میں 9042 افراد زخمی اور 51 افراد جاں بحق ہوئے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ انڈین آمرڈ فورسز  اسپیشل ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) کو واپس لیاجائے جو سیکیورٹی فورسز کو مقبوضہ کشمیر میں یہ اختیاردیتا ہے کہ وہ "امن و امان کے قیام کے لیے" زبردست قوت استعمال کریں اور ہر اُس شخص کو اس کی گرفتاری کی وجہ بتائے بغیر محض اس بات پر  گرفتار کرسکتے ہیں کہ اس  کے خلاف "کافی شک" کامواد موجود ہے۔ اس کے علاوہ انڈین پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)،جوکہ مقبوضہ کشمیرمیں لاگو ہوتا ہے، ریاست کے حکام کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی شخص کو بغیر کسی الزام اور عدالتی نگرانی کے دو سال تک گرفتار رکھ سکتے ہیں اور اِس دوران اُسے  گھر والوں سے بھی ملنے کاحق حاصل نہیں ہوتا۔ جابر ہندو ریاست نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کردیا  ہے بلکہ اس نے پیلٹ بندوق کے استعمال کے ذریعے جولائی 2016 سے فروری 2017 کے درمیانی عرصے میں 6221 مسلمانوں کو زخمی بھی کردیا جن میں سے کوئی لوگ اپنی بینائی کھو بیٹھے۔

پاکستان کی حکومت نے اس وقت ہندو ریاست کے سامنے پرامن رہنے کا فیصلہ کررکھا ہے جبکہ اسلام اس کے ساتھ جنگ کامطالبہ کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کررہی ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾

"جن لوگوں نے دین کی وجہ سے تمہارے ساتھ قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی ا للہ تعالیٰ ان لوگوں سے دوستی کرنے سے تمہیں منع کرتاہے جو لوگ ان سے دوستی کرتے ہیں وہی ظالم ہیں"(الممتحنہ 60:9)۔

 

پاکستان کی حکومت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہے کیونکہ واشنگٹن میں بیٹھے اس کے آقا اس سے "تحمل" اور "نارملائزیشن"کامطالبہ کرتے ہیں تا کہ ہندو ریاست کو پاکستان سے کسی بھی قسم کا چیلنج درپیش نہ ہو اور وہ خطے کی بالادست طاقت بن سکے۔خطے کے مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک صورتحال جنم لی رہی ہے جسے صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی روک سکتی بلکہ اسے مکمل  طور پر ختم بھی کرسکتی ہے۔  

           

خلافت پاکستان کو عالمی زرعی طاقت بنادے گی

18 مارچ 2019  کو پاکستان کاٹن جینرز ایسوسی ایشن نے  تا زہ ترین اعداوشمار جاری کیے جس کے مطابق 15 مارچ 2019 تک کپاس کی پیداوار 6.84فیصد کم ہوکر  10.762ملین گانٹھ (بیلز)ہوگئی جبکہ پچھلے سال اسی دورانیے میں 11.5ملین گانٹھ   کپاس کی پیداوار ہوئی تھی۔  وزیر اعظم عمران خان نے حکومت کے متعلقہ محکموں کو ہدایت جاری کی کہ وہ 15 ملین گانٹھ کی پیداوار حاصل کرنے کو یقینی بنائیں۔

اسلام کے نفاذ کے بغیر پاکستان کبھی بھی اپنی صلاحیت کے مطابق پیداوار حاصل نہیں کرسکے گا۔ اس وقت پاکستان دنیا میں کپاس کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہے لیکن 92-1991 سے کپاس کی پیداوار  میں مستقل بنیادوں پر کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہورہا۔ پچھلے تقریباً تیس سال کے عرصے میں پاکستان میں کپاس کی پیداوار 10 ملین گانٹھ سے 12 ملین گانٹھ کے درمیان ہورہی ہے۔ 15-2014 میں پاکستان نے 15 ملین گانٹھ کپاس کی پیداوار حاصل  کی تھی لیکن یہ ہدف بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ 1990 میں پاکستان نے تقریباً 14ملین گانٹھ کا ہدف حاصل کرلیا تھا۔ پاکستان میں کپاس کی فی ہیکٹر پیداوار 680 کلو گرام ہے اور فی ہیکٹر پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں 13ویں نمبر پر ہے، لیکن آج کے دور میں یہ پیداواری صلاحیت قابل قبول نہیں ہے کیونکہ آسٹریلیا اس وقت 1887 کلو فی ہیکٹر کپاس کی پیداوار حاصل کررہا ہے۔ یہ اعداوشمار ثابت کرتے ہیں کہ زراعت میں عمومی طور پر اور کپاس کی پیداوار میں خصوصی طور پر مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کیا جارہا ہے۔

پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ عالمی زرعی طاقت بن سکے۔ اس وقت جبکہ ہماری تمام زرعی اجناس میں فی ہیکٹر پیداواری صلاحیت عالمی پیمانوں کے لحاظ سے کم ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان زرعی پیداوار میں دنیا میں 8ویں نمبر پر ہے۔ کپاس کی پیداوار میں پچھلے تیس سال سے کوئی قابل ذکر اضافہ نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس عرصے میں آنے والے تمام حکومتوں نے زمین،پانی، بیج، کاشتکاری کی تکنیک، زرعی زمین  کی ملکیت اور کاشتکار کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ تحقیق نہیں کی۔ نبوت کے طریقے پر قائم خلافت  زرعی پیداوار میں زبردست اضافہ کرے گی کیونکہ اسے امت کے امور کی لازمی  نگرانی و نگہبانی کرنا ہو گی۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،

 

»الإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ«

"امام (خلیفہ)نگراں ہے اور اُس سے اُس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا"(بخاری نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی)۔

 

زرعی امور کے عمومی نگہبانی کرنا   امت کے امور کی نگہبانی کرنا ہے جو کہ امام (خلیفہ) کے فرائض کا لازمی حصہ ہے۔  یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جب برصغیر پر اسلام کی حکمرانی تھی تو دنیا کی کُل پیداوار کا 23 فیصد برصغیر پیدا کرتا تھا جس کابڑا حصہ زرعی پیداوار پر مشتمل تھا۔  حزب التحریر نے مقدمہ دستور  کی شق 159 میں تبنی کیا ہے کہ، "ریاست زرعی معاملات اور زرعی پیدوار کی نگرانی اُس زرعی پالیسی کے مطابق کرے گی جس کی رو سے زمین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے جو کہ اعلیٰ درجہ کی پیداوار کی صورت میں حاصل ہو"۔ اللہ کی حکمرانی کے قیام کے بعد ان شاء اللہ پاکستان ایک عالمی زرعی طاقت بنے گا۔

 

مغرب اسلامو فوبیا کا شکار ہے کیونکہ خلافت موجود نہیں ہے

جو اسلام کاپیغام پیش کرے اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم  کرے

15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ میں دومساجد پر ہونے والے حملے اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ دنیا میں اسلامو فوبیا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ا قوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نےاس بات کی نشاندہی  17 مارچ 2019 کو اس طرح کی کہ "جب مسلمانوں کو پاگل قرار اور ان کی کردار کشی کرنی ہوتو کھل کرکی جاتی ہے،اور بعض اوقات جان بوجھ کر ان کی جانب سے کی جاتی ہے جو نفرت انگیز باتیں کرتے ہیں"۔  لیکن موجودہ حکومتیں جو بات نہیں بتاتیں وہ یہ ہے کہ اسلامو فوبیا صلیبی نفرت کا براہ راست نتیجہ ہے جس کی مغربی حکومتوں نے نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کی شروعات سے اجازت دے رکھی ہے اور اس کی سرپرستی کرتی ہیں۔ یورپ ، جو کبھی مسلم مہاجرین کو خوش آمدید  کہتا تھا ،حالیہ سالوں میں مسلمانوں کے لیے غیر مہمان نواز بنتا جارہا ہے۔ اس برے سلوک کا سامنا یورپ کی شہری مسلمان اور غیر شہری مہاجر مسلمان ، دونوں  ہی کررہے ہیں ۔ فرانس میں مسلمان لڑکیوں کو صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ لمبی قمیضیں پہنتی تھیں  جبکہ ابھی انہوں نے جلباب یا عبایہ بھی نہیں پہنا ہواتھا۔ایک لمبی قمیض،جسے فرانس میں غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں پہنتے ہیں، مذہب اسلام کی نشانی کیسے بن گیا؟  ہین اوور میں جرمن پولیس آفیسر نے ایک افغان مہاجر کو زبردستی سڑے ہوئے سور کا گوشت  کھانے پر مجبور کیا جس کی وڈیو بھی بن گئی، یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ کچھ فرانسیسی سیاست دان یہ کہتے ہیں کہ "سور کھاؤ ورنہ بھوکے رہو"۔ یہ ریاست کی سرپرستی ہے جس نے اسلامو فوبیا کے مسئلے کوخوفناک حد تک  بڑھایا۔ گیلپ کی جانب سے بنائی جانے والی رپورٹ :"اسلامو فوبیا: مغرب میں اسلام مخالف جذبات کا فہم "کے مطابق، "11 ستمبر 2001 کے دہشت گردی کے حملوں سے پہلے بھی اسلامو فوبیا بنیادی طور پرموجود تھا لیکن پچھلی ایک دہائی کے دوران اس کے واقعات اور شدت میں اضافہ ہوگیا ہے"۔

وسیع پیمانے پر موجود صلیبی جذبات کی مغربی سیاسی اشرافیہ آبیاری کرتی ہے تا کہ وہ  مسلم دنیا کے خلاف اپنی جنگ میں اپنے عوام کا استحصال کرسکیں۔ مغربی سیاست دان بلا خوف تسلسل سے اسلام مخالف بیانات دیتے رہتے ہیں۔ میرین لی پین، جو کہ جین میرز کی بیٹی ہے، نے مساجد میں مسلمان نمازیوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کو فرانس پر نازی جرمنی کے قبضے سے تشبیہ دی۔ دائیں بازو کی انتہا پسند ڈچ فریڈم پارٹی کے رہنما گرٹ ویلڈرز تسلسل سے اسلام پر تنقید کرتا رہتا ہے اور رسول اللہ ﷺکے خلاف توہین آمیز بیانات بھی دے چکا ہے۔ آسٹریلین سینیٹر فریزر اینیگ نے کہا " اگرچہ اس قسم کی پرتشدد نگرانی کو کبھی بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اس سے جس بات پر روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے  ہمارے معاشرے، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ دونوں،  میں خوف بڑھ رہاہے"۔ مغربی سیاسی اشرافیہ نے صلیبیوں کے وقت اسلام کے خلاف جو نفرت کی فضاء موجود تھی اسے ایک بار پھر تازہ کردیا ہے۔ صلیبی جنگوں کے زمانے میں عیسائی مذہبی اشرافیہ نے یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کو بدی کی طاقت کی صورت میں پیش کیا تھا۔ ایک فرانسیسی مصنف کاونٹ ہنری ڈیکاسٹری نے اپنی کتاب "اسلام اِن 1896" میں تحریر کیا، "میں تصور نہیں کرسکتا کہ مسلمان کیا کہیں گے اگر وہ قرون وسطی کے زمانے کی کہانیاں سن لیں اور جان لیں کہ عیسائی خطیب کس قسم کی شاعری پڑھا کرتے تھے؛ہماری شاعری جس میں وہ شاعری بھی شامل ہے جو بارہویں صدی عیسوی سے پہلے کی ہے، اُس ایک ہی تصور سے نکلتی  تھی جس کی وجہ سے صلیبی جنگیں شروع ہوئی تھیں، یہ شاعری مسلمانوں کے حوالے سے شدید نفرت پرمبنی تھی کیونکہ وہ ان کے مذہب کے متعلق بالکل بھی نہیں جانتے تھے۔اس شاعری  اور گیتوں کی وجہ سے لوگوں کے دماغوں میں اس مذہب کے خلاف نفرت اور غلط تصورات نے بہت گہری جڑیں پیدا کرلیں جس میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ ہر کوئی مسلمانوں کو مشرک، کافر، بت پرست اور دہریہ سمجھتا تھا"۔

آج مغربی اشرافیہ اسلام کے حوالے سے یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتی ہے کہ مغرب کی ناکام ہوتے سرمایہ دارانہ نظریہ حیات کا واحد متبادل اسلام ہی ہے۔ مسلم دنیا پر حملوں، قبضوں اور انہیں لوٹنے کا جواز دینے کے لیے وہ اسلاموفوبیا کا ماحول پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔ صلیبی ماحول مغربی معاشروں میں موجود مسلمانوں کے ذریعے اسلام سے ان  کے اپنےشہریوں کو  متاثر ہونے روکنے کاباعث بھی بنے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

قَدْ بَدَتِ ٱلْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِى صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ

"ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہوہی چکی ہے اور جو (کینے) ان کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں"(آل عمران3:118)۔

 

نبوت کے طریقے پرقائم خلافت نہ صرف مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ڈھال ہو گی بلکہ وہ اسلام کے پیغام کو پوری طاقت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرے گی تا کہ مغربی دنیا پراسلام کے نفاذ کے لیے راہ ہموار کی جائے۔                       

Last modified onمنگل, 26 مارچ 2019 00:50

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک