الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز5 اپریل 2019

 

۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت امریکی مفاد میں کام کرنے کے لئے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کو جواز بنا رہی ہے

۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت ذاتی مفادات کو پورا کرنے کا نظا م ہے

۔ تحمل اور نارملائزیشن کی پالیسی ایٹمی پاکستان کے شیان شان نہیں ہے

 

تفصیلات:

 

پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت امریکی مفاد میں کام کرنے کے لئے

ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کو جواز بنا رہی ہے

  31مارچ 2019 کوسابق وزیر داخلہ چوہدری نثار خان نے کہا کہ، ایسا لگتا ہے کہ فنائنشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک سیاسی ادارہ ہے جس کے ذریعے عالمی طا قتیں اپنے مفاد کے لیے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی سازش کررہی ہے اور اس معاملے کا دہشت گردی یا اس کی مالی معاونت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان میں پچھلے ایک سال سے سیاسی و فوجی قیادت ایف اے ٹی ایف کے معاملے کو بہت زیادہ اہمیت دے رہی۔ پاکستان کی قیادت کا یہ کہنا ہے کہ اگر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کردیا تو ملک مزید شدید ا قتصادی مسائل کا شکار ہوجائے گا۔ درحقیقت ایف اے ٹی ایف کے مقاصد سیاسی ہیں۔ بین الاقوامی ادارے مغرب ، جس کی سربراہی امریکا کررہا ہے،نے بنائے ہیں تا کہ ان کے ذریعے مختلف ممالک کو  بلیک میل کرکے اپنے مفاد کے مطابق کام کرنے پر انہیں مجبور کیا جائے۔ ایف اے ٹی ایف کے سیاسی مقاصد کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے ایک اور سابق  وزیر داخلہ سینٹر عبدالرحمان ملک نے 22 فروری 2019 کو سینٹ کی اسٹنڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں کہا کہ انہوں نے ایف اے ٹی ایف کے سربراہ مارشل بلینگزلے کو خط لکھا تھا جس میں ان سے بھارتی وزیر اعظم مودی کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ وہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کی مدد کررہے ہیں اور راشٹریا سہونگ سنگھ کی مالی معاونت کرتے ہیں جوکہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔  لیکن ایف اے ٹی ایف کے سربراہ نے جوابی خط میں لکھا کہ ایف اے ٹی ایف کوئی تفتیشی ادارہ نہیں ہے۔ یہ ادارہ ایک پالیسی ساز ادارہ        ہے اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خاتمے کے لیے درکار قانون سازی کے لیے سیاسی عزم پیدا کرنے کے لیے کام کررہا ہے۔ اس جواب پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایف اے ٹی ایف  کا کام تفتیش کرنا نہیں ہے  اوروہ  ایک فرد،مودی، کے خلاف کارروائی کرنے سے اجتناب کررہی ہے ، تو پھر وہی ادارہ ایک خودمختار ملک، پاکستان،کے خلاف کیسے کارروائی کرسکتا ہے؟

 

درحقیقت ایف اے ٹی ایف کے سازشی کردار سے زیادہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کے کردار اور طرز عمل پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔  جب یہ واضح ہے کہ ایف اے ٹی ایف کوئی تفتیشی ادارہ نہیں اور صرف مختلف ممالک کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے والا ادارہ ہے تو پھر پاکستان کی قیادت پاکستان کے عوام کو اس ادارے سے کیوں خوفزدہ کرنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے؟  صورتحال یہ ہے کہ جس طرح مشرف –عزیز، کیانی-زرداری اور راحیل-نواز کے دور تک پاکستان کے مفاد کو قربا ن کرتےہوئےامریکی مفاد کے لیے کام کرنے کے لیے یہ جھوٹ بولاگیا کہ اگر ہم نے امریکا کی بات نہ مانی تو وہ ہمارے علاقے میں گھس آئے گا،ہمارا تورا بورا بنادے گا اور ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا، اب باجوہ-عمران کے دور میں امریکا  کی نئی محبت،بھارت، کو خطے میں طا قتور بنانے کے لیے ایف اے ٹی ایف  کی بلیک لسٹ سے خوفزدہ کرکے کشمیر کی جدوجہد آزادی میں سیاسی، مالی اور عسکری مدد کرنے والی تنظیموں کو کچلا جارہا ہے۔  جس طرح افغانستان میں امریکا کی 18 سال تک  نام نہاد "دہشت گردی" کے خلاف جنگ، جوکہ اسلام کے خلاف جنگ ہے، میں مدد کرکے پاکستان نے کوئی سیاسی ومعاشی فوائد حاصل نہیں کیے بلکہ ہر قسم کا نقصان ہی اٹھایا ہے، اسی طرح  اب ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرکے بھی پاکستان کو کوئی سیاسی و معاشی فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ امریکا اور اس کے نام نہاد بین الا قوامی اداروں کی باتیں تسلیم کرکے ہم خسارے کا ہی سودا کریں گے لہٰذا ان کےمطالبات کو مسترد کیا جانا انتہائی ضروری ہے ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِيۡعُوۡا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يَرُدُّوۡكُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِيۡنَ‏

"مومنو! اگر تم کافروں کا کہا مان لو گے تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر کر (مرتد کر) دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے"(آل عمران:149)۔

 

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے

کہ جمہوریت ذاتی مفادات کو پورا کرنے کا نظا م ہے

پاکستان کے تمام اخباروں کاصفحہ اول پی ٹی آئی کے اندر موجود دھڑے بندی کے کھل کر سامنے آ جانے سے بھر اہوا ہے۔ وہ لوگ جنہیں عمران خان نے اس بنا پر اپنی پارٹی میں خوش آمدید کہا کہ یہ "electables" ہیں، ایک ایسے موقع پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں جب پاکستان شدیدمعاشی بحران سے دوچار ہے۔

سیاسی دھڑے بندی اور گروپنگ پاکستان کی سیاست میں اس قدر عام ہے کہ اسے کوئی عجیب بات نہیں سمجھا جاتا۔ جمہوری سیاست دان ذاتی مفاد کے حصول کے لیے کسی جماعت میں شمولیت  اختیار کرتے ہیں اورپھر جب انہیں کسی اور جماعت کا حصہ بننے میں زیادہ فائدہ نظر آتا ہے تو وہ اس میں چھلانگ لگا دیتے ہیں ۔

 

اس شرمناک صورتِ حال کا براہِ راست تعلق جمہوری سیاست سے ہے۔ جمہوریت جو کہ ایک ذاتی مفادات کو پورا کرنے کا نظام ہے، اس میں چھن کر وہی لوگ آگے آتے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کا حصول چاہتے ہیں خواہ یہ مفاد دولت میں اضافہ کرنا ہو، یا طاقت اور اثر و رسوخ کا حصول ہو۔ مفاد ہی ان لوگوں کو کسی ایک پارٹی  میں اکٹھا کرتا ہے اور مفاد ہی ان لوگوں کو ایک دوسرے سے جداکرتا ہے۔کیا  ایک ایسے وقت جبکہ پاکستان کے عوام غربت اور مہنگائی کے سیلاب میں ڈوب رہے ہیں ، پاکستان کی حکمران جماعتوں کے  لیڈروں کا  ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس جمہوری سیاست میں عوام کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں، کہ جنہیں ذاتی مفادات کی خاطر قربان کر دیا جاتا ہے ۔

مغرب کی پھیلائی ہوئی اس جمہوری سیاست میں پختہ اور اعلیٰ افکار اور نظریات کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔مغرب او رپاکستان کی سیاست میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں جماعتیں مستحکم ہیں جبکہ پاکستان میں جماعتیں اتار چڑھاؤ کا شکار رہتی ہیں کیونکہ کیونکہ اصل اقتدار سیاست دانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ فوجی قیادت میں موجود کرپٹ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کرپٹ عناصرکسی جماعت کو اس بنیاد پر اقتدار میں شامل نہیں کرتے کہ وہ کسی حد تک پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کی قابلیت رکھتی ہے بلکہ کونسی جماعت کو اقتدار میں لانا پاکستان میں  نافذ استعماری نظام کو برقرار رکھنے اور خطے میں امریکہ کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے بہتر ہے۔  لہٰذا مغرب کے مقابلے میں پاکستانی جمہوری سیاست کا ذاتی مفادات پر مبنی ہونا زیادہ واضح ہے۔

 

اس متعفن سیاسی کلچر کے  خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ موجودہ جمہوری ریاستی ڈھانچے کو اسلامی ریاست سے تبدیل کردیا جائے۔  اسلامی ریاست میں معاشرے کے ہر پہلو میں اسلام کا نفاذ تقویٰ کے ماحول کو جنم دیتا ہے ۔ ریاستی میڈیا اور نظامِ تعلیم اس ماحول کو پیدا کرنے میں ہراول دستے کا کردار ادار کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست میں سرمایہ دارانہ مفاد پرست آئیڈیالوجی سمیت کسی بھی طرح کے کرپٹ افکار کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانے اور سیاست کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔پس  ایک پاکیزہ سیاسی ماحول سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو اسلام کا شعور رکھتے ہوں اور اسلام کو اپنے قول و فعل کے لیے بنیاد بنانے کے عادی ہوں ۔ نہ کہ وہ لوگ جو صرف طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرنا چاہتے ہیں یا مادی فائدے کا حصول چاہتے ہیں۔  اسلامی ریاست میں قرآن و سنت ہی تمام تر ریاستی ڈھانچے اور قوانین  کا ماخذ ہوتے ہیں پس  حکمران یا عوامی نمائندوں کے لیے اپنے مفاد کی خاطر قوانین کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا، یہ امر کرپٹ اور مفاد پرست لوگوں کو سیاست اور ریاستی عہدوں سے دور رکھنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے۔

آج دنیا میں ہر طرف پھیلے ہوئے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے بعض لوگوں کے لیے یہ سب تصور کرنا محال ہے مگر ماضی میں اسلامی ریاست ایسا کر کے دکھا چکی ہے!

 

تحمل اور نارملائزیشن کی پالیسی ایٹمی پاکستان کے شیان شان نہیں ہے

2 اپریل 2019 کو لائن آف کنٹرول پر بھارتی افواج نے بلا اشتعال فائرنگ کر کے افواج پاکستان کے تین سپاہیوں اور دو شہریوں کو شہید جبکہ ایک سپاہی اور دو شہریوں کو زخمی کردیا۔

                  جب سے بھارت میں مودی برسراقتدار آیا ہے بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر بلا اشتعال اور جارحانہ فائرنگ ایک معمول بن گیا ہے۔ بھارت کا جارحانہ رویہ اس وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان کی سیاسی فوجی قیادت نے امریکا کے حکم پر بھارت کے خلاف "تحمل" (Restraint)کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ تحمل کی پالیسی ہی بھارت کی حوصلہ افزائی کے لیے کم نہ تھی کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے امریکا ہی کے حکم پر بھارت کے ساتھ "نارملائزیشن " کی پالیسی بھی شروع کردی جبکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کا ظلم و جبر  اس قدر بڑھ گیا کہ ہے عالمی میڈیا تک چیخ اٹھا ہے کہ کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور مقبوضہ کشمیر کے پڑھے لکھے نوجوان شہید برہان وانی کی تقلید میں اسلحہ اٹھا رہے ہیں۔ کیا کوئی ہوش مند اور عقل مند ایک ایسے جارح دشمن کے خلاف "تحمل" اور "نارملائزیشن" کی پالیسی اختیار کرسکتا ہے جو مسلسل حملے کررہا ہے ؟  پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کا انتہائی غیر معقول کردار اس  لیے بھی انتہائی قابل مذمت ہے کہ بھارت یہ جارحیت بھوٹان یا سکم کےخلاف نہیں کررہا ہے بلکہ دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت کے خلاف کررہا ہے جس کے پاس دنیا کے ساتویں بڑی آرمی بھی ہے اور جس کی فضائیہ نے حال ہی میں بھارتی فضائیہ کو دھول چٹا کر اپنی زبردست صلاحیتوں اور برتری کو بھی ثابت کیا ہے۔ تحمل اور نارملائزیشن کی پالیسی ایک بزدلانہ پالیسی ہے جو پاکستان جیسی طاقت کے کسی صورت شایان شان نہیں بلکہ پاکستان کے 22 کروڑ بہادر مسلمانوں اور افواج پاکستان کی شدید توہین ہے۔

 

                  جب تک  تحمل اور نارملائزیشن کی پالیسی کو مسترد کر کےبھارت کو صرف منہ توڑ جواب ہی نہیں بلکہ ایک بھر پور وار کرکے پورے مقبوضہ کشمیر کو اس کے جبر و استبداد سے آزاد نہیں کرایا جاتا وہ اپنی ذلالت اور خباثت کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔  لہٰذا افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران کو چاہیے کہ وہ ایک ایسی سیاسی قیادت کو نصرۃ فراہم کریں جو نبوت کے طریقے پر پاکستان میں خلافت کا قیام عمل میں لائے اور پھر خلیفہ راشد افواج پاکستان کے شیروں کو کھلا چھوڑ دے گا  جو رسول اللہﷺ کی بشارت کو حاصل کرنے کے لیے ایک طوفان کی طرح مشرک افواج پر ٹوٹ پڑیں گے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مظلوم عوام کو ظالم ہندو بنیے کے جبر سے آزاد کرائیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

فَاِنۡ قٰتَلُوۡكُمۡ فَاقۡتُلُوۡهُمۡؕ كَذٰلِكَ جَزَآءُ الۡكٰفِرِيۡنَ‏

"ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرڈالو۔ کافروں کی یہی سزا ہے"(البقرۃ:191)۔

Last modified onپیر, 08 اپریل 2019 00:58

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک