بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز27 ستمبر 2019
۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی خلافت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں
-سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا بھی قرضوں میں ڈوبنا معیشت کی تباہی کے تسلسل کا ثبوت ہے
۔ مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کے لیے شرح سود نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے
تفصیلات:
مقبوضہ کشمیر کی آزادی خلافت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں
22 ستمبر 2019 کو آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے لائن آف کنٹرول کے پاس چکوٹھی کے مقام پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، آزاد کشمیر کے لوگ لائن آف کنٹرول کے پار "ٹھوس" مدد کرنے کے لیے شدید بے چین ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ،"ہمارے بہن اور بھائی مقبوضہ کشمیر میں انتہائی تکلیف دہ صورتحال میں ہیں۔۔۔جب وہ وہاں راتیں جاگ کر گزار رہے ہیں تو ہم کیسے یہاں سکون کی نیند سو سکتے ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "کوئی طاقت کشمیریوں کو اس منحوس لائن کو توڑنے سے روک نہیں سکتی"۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان اور آزاد کشمیر کے مسلمانوں پر یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان کی جانب سے ان کی بھر پور مادی مدد نہ کی جائے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے مسلمانوں کی جانب سے اب حکمرانوں سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھارتی ظلم و وستم سے نجات اور آزادی دلانے کے لیے پاکستان کی مسلم افواج کو فوراً حرکت میں لایا جائے۔ اس مطالبے کی شدت کو محسوس کرتےہوئے عمران خان کو 12 ستمبر 2019 کو آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں ایک جلسے سے خطاب میں یہ کہنا پڑا کہ آپ لوگ اس وقت تک لائن آف کنٹرول کی جانب نہیں جائیں گے جب تک میں آپ کو جانے کانہ کہوں۔
پاکستان کا سیاسی نظام کفر پر مبنی ہے یعنی یہاں فیصلے قرآن و سنت کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی عقل اور خواہشات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ یہ انسانی عقل اور خواہشات حکمرانوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ طاقتور کا ساتھ دیں اور مظلوم سے منہ موڑ لیں۔ اور اس بات کا اقرار عمران خان نے خود یہ کہہ کر کیا کہ دنیا اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے بھارت پر دباؤ نہیں ڈالتی۔ لہٰذا انسانوں کے بنائے نظام میں، چاہے وہ جمہوریت ہو یا فوجی آمریت، حکمران کبھی پاکستان کی مسلم افواج کو مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو ہندو ریاست کے ظلم سے نجات اور ان کی غلامی سے آزادی کے لیے حرکت میں نہیں لائے گی۔ تو نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام نہ صرف اسلامی فرض ہےبلکہ آج کی اس کی اشد ضرورت بھی ہے۔ خلافت میں حکمران انسانی عقل اور خواہشات کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔ تو آنے والی خلافت کا خلیفہ ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس حکم،
اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِۚ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ الطَّاغُوۡتِ فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِيَآءَ الشَّيۡطٰنِۚ اِنَّ كَيۡدَ الشَّيۡطٰنِ كَانَ ضَعِيۡفًا
"جو مومن ہیں وہ تو اللہ کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ بتوں کے لئے لڑتے ہیں سو تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو۔ (اور ڈرو مت) کیونکہ شیطان کا داؤ بودا ہوتا ہے"(التوبۃ 4:76)
پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی مسلم افواج کو حرکت میں لائے گا اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ہندو ریاست کے ظلم اور غلامی سے نجات دلائے گا۔ اب پاکستان کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے کمر کس لیں اور افواج میں موجود اپنے رشتہ داروں سے نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ دینے کا مطالبہ کریں تا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا سورج جلد از جلد طلوع ہوسکے۔
سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا بھی قرضوں میں ڈوبنا معیشت کی تباہی کے تسلسل کا ثبوت ہے
24 ستمبر کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ حکومتی قرضوں میں گزشتہ ہفتے میں 99فیصد کا یک مشت اضافہ سامنے آیا۔ یکم جولائی سے 6 ستمبر تک موجودہ حکومت نے 455.5 ارب روپے کا قرض لیا جبکہ 6 ستمبر سے 13 ستمبر تک کے ہفتے میں موجودہ حکومت نے 443.5 ارب روپے کا قرض لے کر کُل قرضے کی رقم کو 899 ارب روپے تک پہنچا دیا۔ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق یہ قرضے اسٹیٹ بینک کی بجائے طے شدہ نجی بینکوں سے لیے گئے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ریاستیں اخراجات پورا کرنے کیلئے صرف اپنے محصولات پر ہی انحصار نہیں کرتیں بلکہ حکومتی بینکوں (جیسے پاکستان میں اسٹیٹ بینک) جیسے اداروں سے بوقتِ ضرورت قرضہ لے کر بھی اپنے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ بعد ازاں ان قرضوں کواداکرنے کیلئے عوام پر عائد ٹیکس میں اضافہ کیا جاتا ہے یا مزید نئے ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں تاکہ حکومت اپنے اخراجات خود اٹھا سکے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت جو کفایت شعاری کا نعرہ مار کر برسرِ اقتدار آئی تھی، اور جس نے لوگوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے اخراجات کو اس قدر کم کرے گی کہ نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑی ہو کر دکھائے گی بلکہ عوام پر ٹیکس کا بوجھ بھی کم کرے گی، آج حکومت کا ایک سال گزرنے پر اس کی یہ حالت ہے کہ بجٹ کا خسارہ ملک کی تاریخ کے پچھلے 40 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اس حکومت نے پاکستان کی کُل واجب الادا رقم میں پچھلے ایک سال میں 10 کھرب روپے کا اضافہ کیا۔ کفایت شعاری کا نعرہ مارنے والی یہ حکومت آج عوام پر ٹیکس کے ایٹم بم گرا کر بھی اپنا خرچہ نہیں چلا پا رہی، اور سود پر کئی گنا قرضہ لے کر آنے والے دنوں میں عوام پر مزید ٹیکس عائدکرنےکا جواز پیدا کر رہی ہے۔
اسلام کی معاشی پالیسی مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں معیشت کو قرضوں سے چلانے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ اسلامی ریاستِ خلافت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ایسے محصولات نافذ کرتی ہے جو نہ صرف حکومتی اخراجات کیلئے کافی ہوتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے عوام کی ضروریات کو بھی بخوبی پورا کیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ، خراج، جزیہ، فئے، رکاز، خمس، حمہٰ وغیرہ جیسے محصولات کی وجہ سے اسلامی ریاستِ خلافت کو نہ صرف قرض کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ عوام پر کسی قسم کے ٹیکس کا بوجھ بھی نہیں پڑتا۔ صرف کچھ مخصوص حالات میں کچھ مخصوص ضروریات کیلئے (جیسے جہاد وغیرہ) اگر بیت المال میں رقم نہ ہو تو خلیفہ ان ضروریات کیلئے معاشرے کے امیر افراد پر ایمرجنسی کی صورت میں کچھ حد تک ٹیکس عائد کر سکتا ہے، یا ان سے قرضہ لے سکتا ہے۔ اللہ سبحان وتعالیٰ نے اپنے اقتصادی احکامات کو نافذ کرنے کے نتیجے میں آنے والی خوشحالی کا ذکر قرآن میں بھی کیا۔
وَلَوۡ أَنَّہُمۡ أَقَامُواْ ٱلتَّوۡرَٮٰةَ وَٱلۡإِنجِيلَ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيۡہِم مِّن رَّبِّہِمۡ لَأَڪَلُواْ مِن فَوۡقِهِمۡ وَمِن تَحۡتِ أَرۡجُلِهِمۚ،
"اور اگر وہ تورات اور انجیل کوقائم رکھتے اور اس کو جو ان پر اُن کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے تو اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے کھاتے"(المائدہ5:66)۔
مہنگائی کے جن کو قابو کرنے کے لیے شرح سود نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 13.25 فیصد پر قائم رکھنےکا اعلان کیا۔ مالیاتی پالیسی کمیٹی کے مطابق سال 2020 میں مہنگائی 11 فیصد سے 12 فیصد تک کم ہو جائے گی اور اور اگلے 24 مہینوں میں 5 سے 7 فیصد کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔
سرمایہ دارانہ جمہوری نظام میں شرح سود کو عمومی طور پر مہنگائی کو قابو کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں میں روپے کی قدر میں حالیہ کمی کے باعث بڑھنے والی مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے کہنے پر اسٹیٹ بینک شرح سود کو بڑھارہا ہے تاکہ لوگ اپنا پیسہ کاروبار میں لگانے کی بجائے بینکوں میں رکھیں اور سود پر منافع کمائیں۔ اس پالیسی سے امید کی جاتی ہے کہ بازاروں میں میں روپے کی گردش میں کمی ہو گی اور اس کی مانگ بڑھنے سے اس کی قدر میں اضافہ ہو گا جوکہ مہنگائی میں کمی کا باعث بنے گا، لیکن اس سے کاروبار کو ہونے والے نقصان سے معیشت کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔
اسلام اس تصور پر مبنی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو جڑ سے ہی رد کرتا ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اسلام بنیادی طور پر سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی کے اجراء کا حکم دیتا ہے جس کی قدر کسی بیرونی کرنسی سے جڑے ہونے کی بجائے اس کی اپنی ہوتی ہے۔ لہٰذا ڈالر یا کسی بیرونی کرنسی کےاتار چڑھاؤ کے باعث اس سے مہنگائی جنم نہیں لیتی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے معیشت میں کرنسی کو سونے اور چاندی پر مبنی کرنے کا حکم دیا۔ قرآن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
ۗ وَٱلَّذِينَ يَكۡنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلۡفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَہَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرۡهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۬
" اور جو لوگ سونا اورچاندی جمع کرتے ہیں اور اسے الله کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ا‘نہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیئے "(التوبہ9:34)۔
یہ اور اس جیسی بیشتر آیات و احادیث سونے اور چاندی ہی کو کرنسی کے طور استعمال کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ صرف سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی کے نظام سے ہی یہ ممکن ہے کہ قیمتیں مستحکم رہیں جیسے خلافت کی 1400 سالہ تاریخ میں ہوا۔ ان شاءاللہ آنے والا دور ایک بار پھر اسلام کے معاشی احکامات کی بدولت ہی سرمایہ دارانہ نظام کے کھڑے کیے گئے مسائل سے چھٹکارا پائے گا۔