بسم الله الرحمن الرحيم
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے لیے صالح لوگوں کی دوستی اور صحبت اختیار کرنا
مصعب عمیر
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کی غیر موجودگی کی وجہ سے دوستی اور لوگوں کی صحبت اختیار کرنا،اپنے اندازاور اہمیت دونوں لحاظ سے کم ہو چکا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تعلقات متوقع مادی فوائد کی بنیاد پر تعمیر کیے جاتے ہیں، چاہے یہ فوائد مال و دولت سے متعلق ہوں یا دنیاوی اثرو رسوخ سے یا معاشرے میں بلند مقام سے ۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کے لیے اُس وقت تک ملتے جلتے اور اکٹھے وقت گزارتےہیں جب تک ایک دوسرے سے مادی فوائد ملتے رہیں اور جیسے ہی ان فوائد کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے ویسے ہی ملنا جلنا بند اور تعلق بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کے ساتھ جو وقت گزارا جاتا ہے اس کا مقصد دنیاوی فوائد کو سمیٹنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنا ہوتا ہے جس سے مال کی محبت مزید بھڑکتی ہے۔ آخرت کی فکر اور تیاری کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ صحبت دنیا وی حصول کے گرد اس طرح گھومتی ہے جیسا کہ یہی سب کچھ ہے۔ دنیاوی فوائد کےحصول کے لیے بنائے گئے رشتے اور دوستیاں معاشرے کو پستی پر برقرار رکھتے ہیں اور یہ اسلام کی بنیاد پر استوار اعلیٰ معاشرتی معیار سے کوسوں دور ہے ۔
یقیناً روز آخرت جب ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے تو نافرمانی، گمراہی اور گناہ کی بنیاد پر قائم کی گئی دوستیاں ہمارے لیے انتہائی شرمندگی اور افسوس کا باعث ہوں گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يوَيْلَتَا لَيْتَنِى لَمْ أَتَّخِذْ فُلاَناً خَلِيلاً - لَّقَدْ أَضَلَّنِى عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَآءَنِى وَكَانَ الشَّيْطَـنُ لِلإِنْسَـنِ خَذُولاً
"ہائے شامت !کاش !میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے نصیحت (کتاب)کے میرے پاس آنے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا۔ اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے "(الفرقان، 25:28-29)۔
یعنی وہ شخص اپنے دوست کو سچی ہدایت سے موڑ کر گمراہی کے راستے پر چلنے کی طرف رہنمائی کی ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانیت کو خبردار کیا ہے کہ،
الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ
"(جو آپس میں) دوست (ہیں) اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ مگر پرہیزگار (کہ باہم دوست ہی رہیں گے)"(الزخرف 43:67)۔
یقیناً شیطان اور گناہگار کی دوستی اور صحبت کا پھل سب سے کڑوا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ وقت گزارنے سے انسان کا نفس آلودہ ہی ہوتا ہے۔ ایک حامل ِ دعوت جو ایسے شخص کو ہدایت کے رستے پر لانے کے لیے اس کے ساتھ وقت گزارتا ہےاسے بھی اس پہلو سے خبرداررہنا چاہئے۔
نبی آخرالزمان محمدﷺکو ان کے رب سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے حکم دیا گیا تھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو اور ان لوگوں کی صحبت سے خبردار کیا جو دنیا کی چمک دمک اور نمو د و نمائش کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطاً
"اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ مل کرصبر کرتے رہیں۔ اور آپ کی نگاہیں ان میں (گزر کر کسی اور طرف) نہ دوڑیں کہ آپ آرائشِ دنیا کے خواستگار ہوجائیں۔ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا کبھی نہ ماننا "(الکھف 18:28)۔
اس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو حکم دیا کہ ان لوگوں کی صحبت اختیار کریں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں ، جو اس (اللہ)کے واحد و لاشریک ہونے کی گواہی دیتے ہیں، جو اس (اللہ) کی تعریف کرتے ہیں، جو اس (اللہ) کی شان و عظمت بیان کرتے ہیں، جو اس(اللہ) کی بڑائی بیان کرتے ہیں اور دن رات صرف اس(اللہ) ہی کوپکارتے ہیں: اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے مخلص خدمتگار چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، کمزور ہوں یا طاقتور۔ اس آیت کے متعلق امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیاکہ سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمایا،
كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ستة نفر ، فقال المشركون للنبي صلى الله عليه وسلم : اطرد هؤلاء لا يجترئون علينا! . قال : وكنت أنا وابن مسعود ، ورجل من هذيل ، وبلال ورجلان نسيت اسميهما فوقع في نفس رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله أن يقع ، فحدث نفسه ، فأنزل الله عز وجل :
( ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه"
پیغمبرﷺ کے ساتھ ہم چھ لوگوں کا گروہ موجود تھا۔ بت پرستوں نے محمد ﷺ سے کہا ،'ان لوگوں سے کہو کہ یہاں سے چلے جائیں تا کہ ان کی وجہ سے ہمیں غصہ نہ آئے'۔وہاں میں، ابن مسعود، ھذیل کا ایک آدمی، بلال اور دو مزید لوگ تھے جن کا نام میں بھول گیا ہوں۔ آپ ﷺ کے دل میں جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ آپ ﷺ نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری:«وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ» 'مت ہٹا ئیں ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام اور چاہتے ہیں اس کی رضامندی'(الأنعام: 52)" ۔
یعنی دنیا کے پیچھے بھاگنے والے قریش نے رسول اللہﷺ سےمطالبہ کیا کہ ان کمزور لیکن نیک صحابہ :بلالؓ، عمارؓ، خبابؓ اور ابنِ مسعودؓ، کو خود سے دور کردیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو ایسا کرنے سے منع کردیا۔
جہاں تک اس آیت:﴿وَلَا تَعۡدُ عَيۡنَاكَ عَنۡہُمۡ تُرِيدُ زِينَةَ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا﴾" اور تمہاری نگاہیں ان میں (گزر کرکسی اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ " کا تعلق ہے تو ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ،ولا تجاوزهم إلى غيرهم: يعني: تطلب بدلهم أصحاب الشرف والثروة "دوسروں کو ان پر ترجیح مت دو یعنی دولت مند اور اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کو ان (نیک) لوگوں پر ترجیح مت دو"۔ لہٰذا اہل قوت اور اثرورسوخ رکھنے والے لوگوں میں سے مخلص افراد کو اپنے درمیان موجود ایسے کرپٹ لوگوں سے خبردار رہنا چاہیے۔انہیں ان لوگوں سے ملتے ہوئے ہوشیار رہنا چاہیے جو دولت اور رتبے کا لالچ دے کر انہیں آگ کے طرف بلائیں گے۔ انہیں قریش کی شرمناک مثال کی پیروی کبھی نہیں کرنی چاہئے جنہوں نے اُن نیک صحابہ کو ذلیل سمجھا جو اُنہیں سچائی کی راہ دیکھانا چاہتے تھے ،کیونکہ وہ رتبے اور دولت کے لحاظ سے کمتر تھے،حالانکہ یہ صالح آخرت میں نیکی اور رتبے کی بلندیوں پر ہوں گے۔
وہ جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے واقعی پُرجوش ہیں اور جنت کی عظیم نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ، وہ صالح لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور ان کی زیادہ سے زیادہ صحبت اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ " آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے "(ابو داؤد، ترمذی)۔ ایک ایسے دور میں جب لوگ اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں ، یہ لوگ اپنے گھر والوں اور اپنے کام سے کچھ وقت نکال کر ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں جن کے ساتھ ان کا محبت کا تعلق صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وجہ سے ہے، کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ محبت جنت میں ان کے درجات کو بڑھا دے گی۔ بزار نے حسن اسناد کے ساتھ عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، مَنْ أَحَبَّ رَجُلا لِلَّهِ ، فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّكَ لِلَّهِ ، فَدَخَلا الْجَنَّةَ ، فَكَانَ الَّذِي أَحَبَّ أَرْفَعُ مَنْزِلَةً مِنَ الآخَرِ،الْحَقُّ بِالَّذِي أَحَبَّ لِلَّهِ "جو بھی کسی شخص سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہے اور کہتا ہے: میں تم سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں، اور پھر انہیں جنت میں داخل کردیا جاتا ہے، تو وہ جس سے محبت کرتا تھا اگر اس کا درجہ اِس سے بلند ہوگا تواِس کوبھی اُس شخص کے ساتھ ملا دیا جائے گا جس سے وہ محبت کرتا تھا" ۔
آج کے سرمایہ دارانہ انفرادیت پسندی کے دور میں وہ لوگ جو رسول اللہﷺ کی صحبت حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں آپس کی ملاقات میں ایک دوسرے کواس بات کی یاددہانی کرانی چاہیے کہ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ربیع بن کعب نے بیان کیا، "ایک رات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا اور ان کے لیے پانی لایا ، جو انہوں نے منگوایا تھا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا، سَلْ "پوچھو(جو بھی پوچھنا چاہتے ہو)"۔ میں نے کہا ، أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ "میں جنت میں آپ کا ساتھ چاہتا ہوں"۔ آپﷺ نے فرمایا، أَوَغَيْرَ ذَلِكَ "اس کے علاوہ بھی کچھ چاہتے ہو"۔ میں نے کہا، هُوَ ذَاكَ "بس یہی چاہتا ہوں"۔ آپﷺ نے فرمایا، أَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ "تو عبادات اور سجدوں میں اضافے کے ذریعے اپنے اس مقصد کے حصول میں میری مددکرو"(مسلم)۔ وہ لوگ جن کی نگاہیں آخرت پر جمی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ نیک لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ ابو سعید خذریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
لا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلا يَأْكُلْ طعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ
"صرف ایمان والوں کو اپنا دوست بناؤ اور صرف نیک آدمی ہی تمہارا کھاناکھائے"(ترمذی، ابو داؤد)۔
آج کے سرمایہ دارانہ دور میں جب صرف کاروبار اور تجارتی مفاد کے لیے ہی وقت نکالاجاتا ہے، تو ہمیں چاہیے کہ ہم بہترین تجارت کے حصول میں اپنا وقت لگائیں، آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتوں کے حصول کی تجارت۔ عبد اللہ بن عمروؓ نے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، خَيْرُ الأَصْحَابِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ " اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو، اور اللہ کے نزدیک پڑوسیوں میں سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو "(ترمذی)۔
نیک لوگوں کے ساتھ تھوڑے سے وقت کے لیے صحبت کو بھی ہمیں معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ قتادہ نے حدیث روایت کی: میں نے انسؓ سے پوچھا، أَكَانَتِ الْمُصَافَحَةُ فِي أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم "کیا صحابہ میں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے کا رواج تھا؟"، انہوں نے کہا، "ہاں"(بخاری)۔ ہمیں چاہیے کہ جو وقت ہم اچھے لوگوں کی صحبت میں گزارتے ہیں اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور اس بات پر توجہ دیں کہ کوئی بھی اس سے محروم نہ رہے۔ عبد اللہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، إِذَا كُنْتُمْ ثَلاَثَةً فَلاَ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا فَإِنَّ ذَلِكَ يُحْزِنُهُ " جب تم تین آدمی ایک ساتھ ہو، تو دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو اکیلا چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں کیونکہ اس سے اسے دکھ اور رنج ہو گا "(ابن ماجہ)۔ ایک ایسے دور میں جب لوگوں کے پاس ایک دوسرے سے ملنے کے لیے وقت نہیں ہے اور وہ اپنی تسکین کے لیےصرف سوشل میڈیا پر پیغامات کا تبادلہ کررہتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خاطرلوگوں سے براہِ راست روابط بنائیں۔
صحابہ ؓ کی اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے دوستی اور صحبت نے انہیں وہ بلندی عطا کی کہ وہ آنے والی تمام نسلوں میں سب سے بہترین کہلوائے گئے۔ صرف نبی کریم ﷺ کے صحابہ ؓ کی عادات کا بغور جائزہ لینا اور ان پر عمل کرنا ہی کافی ہے کیونکہ یہ وہ گروہ ہے جس کے ایمان اور صبر واطاعت کی وجہ سےاللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس سے اپنی رضامندی کا اظہار قرآن میں فرمایا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
وَالسَّـبِقُونَ الاٌّوَّلُونَ مِنَ الْمُهَـجِرِينَ وَالأَنْصَـارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِىَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ
" جن لوگوں نے سبقت کی یعنی مہاجرین اور انصار ۔ اور جنہوں نے اچھے طور پر ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں"(التوبہ 9:100)۔
اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ مہاجرین و انصار سے راضی ہے اور ان سے بھی جنہوں نے ان کی احسن انداز میں پیروی کی ، اور یہ کہ وہ اللہ سے راضی ہیں اوراللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کررکھے ہیں جن کا لطف کبھی ختم نہ ہوا۔
یقیناً یہ اسلام کی بنیاد پر دوستی ہی ہے جو امت کی سب سے بہترین نسل تیار کرتی ہے۔ رسول اللہﷺ کے صحابہؓ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی۔ رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد یہ رسول اللہﷺ کے صحابہؓ ہی تھے جنہوں نے نبوت کے نقشِ قدم پر پہلی خلافت راشدہ قائم کی۔ وہ لوگ جو دوسری بار نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں ان کے لیے رسول اللہﷺ کے صحابہؓ کی دوستی میں کئی عظیم سبق ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ
" جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی پھر اللہ اسے اٹھانا چاہئے گا تو اٹھالے گا پھر طریقہ نبوت پر گامزن خلافت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھالے گا ،پھر موروثی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھالے گا، اس کے بعد ظلم کی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھالے گا پھر طریقہ نبوت پر گامزن خلافت آجائے گی پھر نبی کریم ﷺ خاموش ہوگئے "(احمد)۔
اس دور میں کہ جب کوئی نبی نہیں آئے گا، ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ روز آخرت انبیاء ان لوگوں کو ستائش کی نگاہ سے دیکھیں گے جنہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے دوستی کی تھی۔ حاکم نے اپنی مستدرک میں ابن عمرؓ سے روایت کیا اور کہا یہ روایت درست ہے اگرچہ اسے بخاری و مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
إن لله عباداً ليسوا بأنبياء ولا شهداء يغبطهم الشهداء والنبيون يوم القيامة لقربهم من الله تعالى ومجلسهم منه، فجثا أعرابي على ركبتيه فقال يا رسول الله صفهم لنا وحلّهم لنا قال: قوم من أفناء الناس من نزاع القبائل، تصادقوا في الله وتحابوا فيه، يضع الله عز وجل لهم يوم القيامة منابر من نور، يخاف الناس ولا يخافون، هم أولياء الله عز وجل الذين لا خوف عليهم ولا هم يحزنون
"اللہ کے ایسے بندے ہیں جو نہ پیغمبر ہیں اور نہ ہی شہداء، لیکن روز آخرت شہداء اور پیغمبر ان کے درجات اور اللہ سے ان کی قربت پر حیرت و پسندیدگی کا اظہار کریں گے۔ پھر ایک بدو اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ!ہمارے لیے ان کی وضاحت کریں اور انہیں بیان کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ مختلف لوگوں میں سے ہوں گے اور اپنے قبیلوں سے جدا ہوئے ہوں گے۔ وہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے دوستی کریں گے اور اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کریں گے۔ روز ِآخرت اللہ ان کے لیے نور کے منبر بنوائے گا جس پر وہ بیٹھیں گے۔ لوگوں کو اس دن خوف ہو گا مگر وہ بے خوف ہوں گے ۔ وہ اللہ عزوجل کے دوست ہیں جنہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی کوئی افسوس "۔
لسان العرب میں ہے کہ(حدیث میں موجود لفظ) افناء کا مطلب ہے :مختلف انواع کے ملے جلے لوگ ۔
آئیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خاطر دوستی کے ذریعے ایسے لیڈرز کی نسل تیار کریں جو صحابہؓ کی پیروی کرے۔ آج کے دور میں اہل قوت اور بااثر لوگ زبردست کرپشن اور دنیاوی کشش کا سامنا کررہے ہیں۔ تو آئیں ہم سب اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم دین کو جاننے اور سمجھنے والوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے وقت نکالیں گے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ دنیاوی معاملات میں آگے نکلنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کی بجائے ہماری آپس کی دوستی ہمیں اس بات کی طرف اُبھارے کہ ہم آخرت کے اعلیٰ درجات کے حصول کی دوڑ میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں: اسلام کا علم ، اس علم پر عمل اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے ذریعے ۔ اور بہت جلد ہم یہ دیکھیں کہ بالآخر امت کے امور اس قیادت نے اپنے ہاتھوں میں لے لیے ہیں جس نے اپنی نگاہیں آخرت کی نعمتوں پر جمائی ہوئی ہیں، جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکمرانی کرتے ہیں اور ہمارے دین کے مخلص نگہبان ہیں۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
مصعب عمیر- پاکستان