بسم الله الرحمن الرحيم
مغربی اخلاقیات کی حقیقت اور اس کی فکری بنیادیں
عثمان عادل
مغرب کے اخلاقیات پاکستان کے انتہائی مختصر مگر موثرسیکولر حلقے اورمخصوص میڈیا شخصیات کا من پسند موضوع ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ اس مہم جوئی میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح یہ ثابت کر سکیں کہ بطورِ انسان اور تہذیبی افکار و اقدار کے لحاظ سے مغرب ہم سے بہت آگے ہے۔ ہم ذلت و اخلاقی پستی کے گہرے کھڈ میں گرے ہوئے ہیں جبکہ مغرب نہ صرف معاشی بلکہ انسانی رویوں اور اخلاقیات کے لحاظ سے بھی ہم سے برتر اور بہتر ہے۔ اور طنزا! یہ بات کی جاتی ہے کہ ہمارامعاشرہ مذہبی ہونے کے باوجود اخلاقیات سے عاری ہے جبکہ مغرب کا معاشرہ خدا کا انکار کرنے کے باوجود اخلاقی لحاظ سے ہم سے بہت بہتر ہے ۔
دوسری طرف پاکستان کے اسلامی نظریاتی لوگ مغربی معاشرے کو جانوروں کا معاشرہ سمجھتے ہیں کہ جہاں عورت ایک کاروبار کی چیز ہے، جسم فروشی عام ہے، Incest relationship ، ہم جنس پرستی جائز ہے، مغربی اقوام دوسری اقوام کے وسائل کو چوس کر انہیں بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دینے میں عار محسوس نہیں کرتیں ۔ یوں یہ اسلامی نظریاتی لوگ مغرب کو اخلاقی لحاظ سے پست اور زوال زدہ قرار دیتے ہیں ۔
کیا مغرب اخلاقی طور پر مسلم معاشروں سے بہتر ہےیا بدتر، مغربی اخلاقیات کی بنیادیں کیا ہیں ، مغربی کے اخلاق سے متعلق افکار کی تاریخ اور پس منظر کیا ہے، اس شہریہ میں ہم اس موضوع کے کچھ پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے یہ کہ مغرب کی اقوام اخلاقیات کو بیان کس طرح کرتی ہیں ۔ مغرب کے نزدیک سب سے بنیادی اخلاقی قدر زندگی کی قدر کرنا ہے پس ایک شخص کا اپنی زندگی کو اہمیت دیناتمام اخلاقی سرگرمیوں اور اقدار کا پیمانہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس کی زندگی ہے اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ پس اس نے خوش اور بھرپور زندگی گزارنی ہے۔ یہ اس کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے اس کے بعد وہ چیزیں آتی ہیں جنہوں وہ اہمیت دیتا ہے جیسا کہ اس کے بیوی، بچے، اثاثے وغیرہ۔ خوش زندگی گزارنے کے لیے ایک شخص کو اپنے اندر کچھ خصوصیات پیدا کرنی ہیں۔ پس اسے خودمختار ہونا ہے، خود سوچنا ہے اور اپنے فیصلوں پر اعتماد کرنا ہے۔ کوئی بھی چیز جو ایک شخص کو آزادی و خودمختاری سے سوچنے سے روکے وہ غیر اخلاقی ہے کیونکہ یہ انسان کی بنیادی صفت کے خلاف ہے۔ اسے ایماندار ہونا ہے جس میں سب سے اہم سوچ اور فکرکے ساتھ ایمانداری ہے۔ جھوٹ پر مبنی زندگی گزارنا اپنے لیے بھی اور اپنے پیاروں کے لیے بھی تباہ کن ہے، پس جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر یقین رکھنا نقصان دہ چیزیں ہیں۔ اسے دوسروں لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا ہے کہ جس کے وہ حق دار ہیں۔ اگر کوئی آپ سے اچھا سلوک کرے تو آپ بھی اس سے اچھا سلوک کریں اگر کوئی آپ سے برا سلوک کرے تو آپ اسے اپنی زندگی سے نکال دیں ۔ اس کے نتیجے میں اچھے رویوں کی قدر پیدا ہوتی ہے اور اس بات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ کوئی شخص دوسرے شخص کے ساتھ برا رویہ اختیار کرے۔ اپنے آپ پر فخر ایک اچھی قدر ہے،ایک انسان کو قابل فخر بننا ہے، یہ کوشش اس کو اپنے اندر سے سے منفی عادتوں کا خاتمہ کرنے کی طرف ابھارے گی ، جب بھی اس پر ان عادتوں کا انکشاف ہو گا ۔ ان اخلاقی اقدار پر عمل کر کے ہی دنیا پرایسی زندگی وجود میں آ سکتی ہے جو کہ ممکنہ حد تک بہترین ہو۔ یہ مغربی اخلاقیات کی ایک مختصر خاکہ کشی ہے۔
اخلاقیات کے اس بیان کا جائزہ لینے سے یہ بات نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے کہ مغربی اخلاقیات کی جڑیں مذہب کی بجائے سیکولر عقیدہ سے نکلنے والے افکار میں پیوست ہیں ۔ انہیں liberal ethicsیاliberal moralsکہا جاتا ہے ۔ لبرل ازم کی سوچ یہ کہتی ہے کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو طے کرنے کے لیے مذہب کی ضرورت نہیں ۔ ایسا انسانی عقل کی بنیاد پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ انسان مذہب کے بغیر بھی اخلاقی طور پر اچھا ہو سکتا ہے ، البتہ اگر عقلی طور پر وہ یہ محسوس کرے کہ کوئی مذہبی اخلاقی اقدار درست ہے تو اسے مذہب میں سے بھی اختیار کیا جا سکتا ہے مگر عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر جیسا کہ اوپر مثال میں بیان کیا گیا کہ عقل اور فکر اہم ترین قدر ہے۔ باقی سب قدریں اس کے بعد آتی ہیں۔
مغربی فلاسفروں کے نزدیک اخلاق کے لیے درست اور غلط (مسلمانوں کی اصطلاح میں حلال و حرام )کا مذہبی پیمانہ استعمال کرناصحیح نہیں کیوں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح اور اسے طے کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کرنا ایک subjectiveیعنی نسبتی چیز ہے objectiveامر نہیں۔ انسانی زندگی اور انسان کی قدر و قیمت جیسے اصول objectiveاصول ہیں کیونکہ کسی کو بھی انسانی زندگی کے قابلِ قدر ہونے سے اختلاف نہیں ، پس اخلاقیات کو اسی پر استوار ہونا چاہئے۔
جہاں تک مغربی کے اخلاقی اقدار کی evolutionاور پس منظر کا تعلق ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ یورپی کے کئی ممالک اصل میں ماضی کی رومن ایمپائرکے ٹکڑے ہیں ۔ رومن ایمپائر ایک عیسائی ریاست تھی۔ عیسائیت سے قبل یہاں کے لوگ مشرک تھے اور نظام ہائے حیات کے متعلق ان کے تصورات hellinisticیعنی یونانی فلاسفروں سے متاثر تھے۔
یونانی فلسفے کے مطابق انسان کا ultimateمقصد خوشی کا حصول ہے، کیونکہ خوشی ایک ایسا مقصد ہےکہ یہ بذاتِ خود مکمل ہے اور اسے مکمل ہونے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دولت کا حصول انسان کے لیے ایک مقصد ہو سکتا ہے مگر یہ بذاتِ خود مکمل نہیں ہے کیونکہ اس کا فائدہ اسی وقت ہے جب انسان اس سے کوئی چیز خرید کر استعمال کرے تو دولت بذاتِ خود ایک مکمل مقصد نہیں ہے۔ جبکہ خوشی کا حصول ایک خود مختار مقصد ہے ۔ اور عقل و فکر اس وجہ سے اہم ہے کہ یہ خوشی حاصل کرنے اور اچھی زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے۔
جہاں تک عیسائیت کی بات ہے تو ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے تھے اور انہیں یہودیوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ یہودیوں کے پاس تورات موجود تھی۔ اور تورات کا بنیادی تصور اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا تھا، خواہ ان کا تعلق اخلاقیات سے ہو یا معاملات سے اور یہ کہ اللہ کی حکموں کی پابندی ہی انسان کا مقصدِ حیات ہے۔ عیسیٰ علیہ سلام نے بھی اللہ کے احکامات کی اطاعت کی بات کی اور یہ چیز ہمیں قرآن سے بھی پتہ چلتی ہے۔عیسیٰ علیہ سلام کے اٹھائے جانے کے بعد عیسائیوں پر ظلم و ستم جاری رہا مگر بالآخر روم کے بادشاہ کانسٹنٹائن Constantineنے عیسائیت اختیار کر لی اوریوں عیسائیت روم کے طول و عرض میں پھیل گئی ۔
اُس دور میں روم میں یونانی اور رومی فلسفیوں کے افکار پھیلے ہوئے تھے ۔ اس وقت کے عیسائی علما نے اس کے مقابلے میں اپنے نظریات کو پیش کیا جو اس وقت کی عیسائی تصورات کے مطابق تھے۔ ان میں سینٹ آگسٹائن کا نام قابلِ ذکر ہے جو چوتھی صدی عیسوی کا راہب اور فلسفی تھا۔ یونانی اور رومی فلسفیانہ افکار کے مطابق دانائی اور خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ philosophical reasoning ہے اس کے مقابلے میں سینٹ آگسٹائن نے کہا کہ خوشی مرنے کے بعد روح کے اللہ کے ساتھ ملاپ میں ہے۔ یعنی جسمانی لذتیں کمتر ہیں جبکہ آخرت کی زندگی میں انسان کی روحانی طور پر موجودگی اعلیٰ تر ہے۔ اور جہاں تک دانائی کا تعلق ہے تو وہ مذہبی ایمان اور خداسے محبت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عیسائی فکر ، خواہ وہ درست تھی یا غلط، یونانی فلسفے سے متاثر ہو گئی ۔ اور اخلاقیات کے متعلق عیسائیت کے تصور کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ہوا یوں کہ بعض عیسائی مفکرین نے عیسائیت کے ساتھ یونانی فلسفے کی مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں کی ، اوران کے ساتھ بھی وہی ہوا جو کہ ابن رُشد ، بو علی سینا اور فارابی کے ساتھ ہوا کہ جنہوں نے یونانی فلسفے کے ساتھ اسلام کی مطابقت پیدا کرنے کی کوشش میں اسلام کی بجائے یونانی فلسفے کو فکر کی بنیا د بنا لیا۔ اس سلسلے میں تھامس اکوینس (1225-74)Thomas Aquanusکا نام نمایاں ہے کہ جو تیرہویں صدی کا عیسائی راہب اور مفکر تھا، جو ارسطو کی سوچ سے بہت متاثر تھا ۔ اخلاق کے متعلق Aquanusکی فکر کو اس کے اس جملے میں سمویا جا سکتا ہے: “God is not offended by us except by what we do against our own good.”"اللہ ہم سے ناراض نہیں ہوتا ماسوائے ایسے عمل کے جو ہماری اپنی بھلائی کے خلاف ہو"۔ یعنی کسی عمل کے اچھا یا بر ا ہونے کو پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان یہ دیکھے کہ کون سا عمل اس کے حق میں اچھا ہےاور کون سا برا ۔ مذہب کا مقصد بھی انسان کی بھلائی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں۔ تاہم جس طرح مسلمان یونانی فکر و فلسفے سے متاثر ہونے کے باوجود اسلام ہی پر عمل کرتے رہے اور اسلام ہی کو معیار بناتے رہے اگرچہ اسلام کے احکامات تک پہنچنے میں ان کا طریقہ یونانی منطق اور فلسفے سے متاثر ہو گیا تھا اسی طرح عیسائیت کے یونانی فلسفے سے متاثر ہونے کے باوجودیورپ کا معاشرہ عیسائیت پر عمل پیرا رہا اوربنیادی طور پر یہ مذہبی معاشرہ تھا۔ خواہ عیسائیت کے مفکرین کی سوچ یہ ہوگئی کہ ہمیں خدا کے قوانین کی پیروی اس وجہ سے کرنی چاہئے کہ یہ ہمارے فائدے اور بہتری کے لیے ہیں۔
عیسائیت میں پیدا ہونے والےوسیع بگاڑ کے خلاف چرچ کی اصلاح کی تحریک نے جنم لیا ، جسےprotestant reformation movementکی تحریک کہا جاتا ہے۔ یہ تحریک 16ویں صدی کے اواخر میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک میں Martin Luther (1483–1546), John Calvin (1509–64),کا نام نمایاں ہے۔ یہ لوگ ارسطو اور دیگر فلاسفیوں کے تصورات سے بیزار تھےمارٹن لوتھر کا کہنا تھا کہ صحیح اور غلط کا پیمانہ خدا کے احکامات ہیں اور خدا کے احکامات کو اچھائی و برائی کے کسی اور آزاد پیمانے کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ اور نہ ہی خداکے احکامات کا مقصد انسان کی خواہشات کو پورا کرنا ہے، کیونکہ عیسائیت کے نزدیک انسان کی خواہشات تو ہوتی ہی کرپٹ ہیں ۔ اور نجات کی بنیاد کوئی بھی اچھا کام سرانجام دینا نہیں بلکہ نجات عیسی علیہ سلام پر ایمان اور خدا کی رحمت سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔پروٹیسٹنٹ تحریک کے مختلف افکار کا جائزہ لینے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تصورات اسلام سے متاثر تھے اور کچھ مسلمان تاریخ دانوں نے یہ بیان کیاہے کہ چرچ کی ریفارمیشن کی تحریک اسلام سے متاثر تھی۔
تاہم جس دوران یہ تحریک چل رہی تھی اسی وقت یورپ میں ایک اور سوچ جنم لے رہی تھی جس کے علمبردار لادین فلاسفر تھے جو کہ بنیاد سے ہی عیسائیت کے خلاف تھے اور مذہب کا انکار کر رہے تھے۔ ان مفکرین اور چرچ کی کشمکش کی تفصیل ہماری گفتگو کا موضوع نہیں مگر اس کے نتیجے میں جو سوچ معاشرے میں پروان چڑھی وہ یہ تھی کہ انسان مذہبی قوانین کا پابند نہیں ہے، وہ خود اپنی مرضی کے قوانین بناسکتا ہے، اپنی مرضی سے نظام ہائے حیات کو ترتیب دے سکتا ہے۔انسان کو مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے، وہ جس طرح چاہے اپنی زندگی گزارے ماسوائے یہ کہ اس کی آزادی کسی دوسرے کی آزادی میں مداخلت کا باعث نہ بنے۔ ان تصورات کو لبرل ازم کا نام دیا جاتا ہے۔ اور یہ دورمغرب کی تاریخ میں enlightenmentکا دور کہلاتا ہے۔ لبرل مفکرین نے اخلاق کو بھی اپنی بحث کا موضوع بنایا کیونکہ کسی عمل کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے کی بحث کسی چیز کے اچھا یا برا ہونے اور کسی چیز کے درست یا غلط ہونے کی بحث سے جڑی ہوئی ہے اور اسی سے یہ بحث بھی نکلتی ہے کہ آخر وہ کیا بنیاد ہے کہ جس پر یہ طے کیا جائے کہ کیا چیز کسی انسان یا معاشرے کے لیے اچھی ہے اور کونسی چیز بری ، کیا درست ہے اور کیا غلط۔ اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ یہ مفکرین مضبوطی سے اس سوچ پر جمے ہوئے تھے کہ انسان خوداپنی عقل سے طے کرے گا کہ کیا اچھا ہے کیا برا، کیا درست ہے کی غلط ۔لہٰذا اخلاق کے متعلق بھی اسی بنیاد کو اختیار کیا گیا۔ ظاہری سی بات ہے کہ اگرمقصد خدا کی رضا نہیں تو پھر لا محالہ مقصد انسان کی اپنی رضا ہے جو کہ ان مفکرین کے نزدیک جسمانی لذتوں اور خواہشات کو پورا کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ پس زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کرنے کے لیے انسان کو اپنی خواہشات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنا ہے۔ اور معاشرے کے لیے بھی وہ چیز سب سے اچھی ہے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنے۔ اور یہی معاشرے میں کسی چیز کے اچھا یا برا ہونے کا پیمانہ ہے اور یہ اخلاقیات کا پیمانہ بھی ہے۔ اسے Utilitarianismکی سوچ کہا جاتا ہے۔ مشہورمعیشت دان adma smithجسے سرمایہ دارانہ معیشت کا بانی تصور کیا جا تا ہے نے اپنی مشہور کتاب wealth of a nationسے قبل theory of moral philosophyتحریر کی ، اور اس کی moral philosophyکی سوچ ہی اس کی پولیٹیکل اکانومی کے سوچ کی بنیاد بنی کہ جس کے مطابق اللہ نے اس دنیا کو بنایا ہی اس لیے ہے کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ خوشیاں مہیا کر سکے۔
جب مفکرین اخلاقیات کے متعلق بحث کر رہے تھے اور لکھ رہے تھے اسی وقت وہ زندگی کے دیگر پہلوؤں کو بھی زیر بحث لا رہے تھے۔ اس تمام کے نتیجے میں جس سیکولر آئیڈیالوجی نے جنم لیا ، اس کے نفاذ نے مغرب معاشرے میں انسانوں کے تعلقات، رویوں اوراخلاقیات کو بہت بڑے پیمانے پر متاثر کیا۔ اس آئیڈیالوجی کے نفاذ کے نتیجے میں مادی ترقی کا حصول اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی خواہش معاشرے کا مطمع نظر بن گئی اور نظام اس خواہش کا نگران بن کر رہ گیا۔ انسانی رویوں میں ملاوٹ پیدا ہو گئی ، رشتے ، تعلقات مادی فائدے کے حصول پر استوار ہونے لگے۔ لالچ ، خودغرضی عام ہو گئی ۔ اب ایک شخص کسی دوسرے شخص کا خیال اس وجہ سے نہیں رکھے گا اور بیمار ہونے پر اس کی تیمار داری اس وجہ سے نہیں کرے گاکہ مذہب اس کا حکم دیتا ہے اور یہ اس پر لازم ہے یا بلکہ اس وجہ سے کہ دوسرے کے ساتھ relationing آپ کے اپنے فائدے میں ہے، یہ مصیبت میں آپ کے کام آئے گی، آپ کے لیے کاروباری مواقع پیدا کرے گی۔ مغربی معاشرے میں ذاتی مفاد کا primaryہونا اور باقی سب چیزوں کا secondaryہونا ایک ایسی چیز ہے جسے ہر شخص محسوس کرسکتا ہے۔ دنیا کی آسائیشوں کے حصول کی ایک دوڑ ہے جس کی طرف ہر شخص باقی سب چیزوں کو کسی حد تک نظر انداز کر کے یا یکسر پسِ پشت ڈال کر دوڑا چلا جاتا ہے۔
پاکستان کے وہ لوگ جو مغرب کے معاشرے کی حقیقت کو اور اس کے پسِ پردہ فلسفے کو گہرائی سے نہیں دیکھتے وہ مغرب کے لوگوں کے sophisticatiedاور سلجھے ہوئے انداز میں بات کرنے سے متاثر ہو جاتے ہیں اوران کچھ عادات سے impressہو جاتے ہیں جس کی وجہ ان کا productiveتعلیمی نظام اورصدیوں سے نافذایک مخصوص ریاستی ڈھانچہ ہے۔ پس پاکستان کا مسلمان ایک شائستہ اور سلجھے ہوئے اندازمیں بات کرنے والے شخص کی اچھی communication skills سے متاثر ہو تا ہے خواہ وہ شخص اپنی ذاتی زندگی میں ایک خود غرض، لالچی اورself centredانسان ہو۔
وہ لوگ جو مغرب کو اعلیٰ اخلاق کا حامل قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک اخلاق گنی چنی دو چار چیزیں ہیں، کاروبار میں ایمان داری، جھوٹ نہ بولنا، دوسروں کے ساتھ نرمی سے بات کرنا اوربرداشت ۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اخلاقیات ناپ طول میں کمی نہ کرنے اور ایک دوسرے کو بزنس میں دھوکہ نہ دینے تک ہی محدود ہیں۔ کیا وہ بیوی جو جنسی تعلق میں شوہر کو دھوکہ دیتی ہے یا مغرب کے جو مرد اپنی بیوی کو دھوکہ دیتے ہیں کیا یہ دھوکہ نہیں ہے۔ show off کرنا، arrogantانداز، بڑوں کا ادب نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی ، گالم گلوچ اور فحش بکنا، ہمسائیوں کا خیال نہ رکھنا، دوسروں کو حقیر سمجھنا ،کیا یہ اخلاقی برائیاں نہیں ہیں جو مغرب کے لوگوں میں عام پائی جاتی ہیں ۔ کیا مغرب کا میڈیا جھوٹا پروپیگنڈا نہیں کرتا، کیا سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کی فراوانی مغربی ممالک میں موجود نہیں ہے کہ جس کے متعلق وہ قوانین بنانے کی بات کرتے ہیں۔
مغرب کے اخلاقیات کو غور سے دیکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کی دیانت داری کا تعلق زیادہ کاروباری لین دین میں دھوکہ نہ دینے اور جھوٹ نہ بولنے سے ہے، پس مغربی کمپنیاں عام طور پرپراڈکٹس کے سٹینڈرڈز کو maintianکرتی ہیں، ملاوٹ نہیں کرتیں، dealingsمیں fairnessہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی معیشتی نظام پر خاص توجہ ہے کیونکہ لوگوں کے لیے مادی دولت کے حصول کو زیادہ سے زیادہ کرنا سرمایہ دارانہ نظام کا اصل مطمع نظر ہے ، اور revivedسوسائٹی ہونے کے ناطے بزنس کے متعلق مغرب کا ایک enlightenedنقطہ نظر ہے ، اور ریاست بھی اس چیز کا بہت واضح ادراک رکھتی ہے کہ کاروباری ٹرانسپیرنسی اور fainessکا نہ ہونا مجموعی معاشی سرگرمی اور ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے ، پس ہمیں نظر آتا ہے کہ مغرب کے لوگ کاروباری لین دین اور Jobمیں تو کھرے ہیں مگر ذاتی زندگی میں اتنے ہی کھوٹے ہیں جتنا کہ کوئی اور معاشرہ ۔
یہ پہلو اس کے علاوہ ہے کہ کاروباری ایمانداری اور سچائی کی اخلاقی صفت کس کاروبار کے لیے برتی جا رہی ہے۔ کیا شراب کی خرید و فروخت ، جوئے یا قحبہ خانے کے اڈے کو ایمانداری سے چلایا جائے، سچائی کے ساتھ شراب کو بیچا جائے، دیانت داری سے جوئے کے منافع کو تقسیم کیا جائے تو کیا کوئی کام محض اس وجہ سے درست اور احسن قرار پائے گا کہ اسے سچائی اور ایمان داری سے سرانجام دیا گیا ہے۔
حقیقت میں پاکستان کے معاشرے اور مغرب کے معاشرے کے درمیان موازنہ سرے سے ہی غلط ہے۔ موازنہ تو اس بات کا ہونا چاہئے کہ لبرل آئیڈیالوجی کے نفاذ سے قبل مغرب کے معاشرے میں ایک دوسرے کے لیے ایثار ، ہمدردی، دکھ سکھ میں شریک ہونے ، ہمسائیوں کا خیال رکھنے، والدین کی عزت کرنے، رشتے ناطوں کو اہمیت دینے کے جذبات کیسے تھے اور کس حد تک خالص تھے اور اب ان جذبات کی کیا صورتِ حال ہے۔ کیا لبرل آئیڈیالوجی کا نفاذ اس میں کچھ بہتری لے کر آیا ہے یااس نے ان رویوں پر معکوس عمل کیا ہے۔ 2006اور2008کے درمیان گیلپ نے ایک 145 ممالک میں ایک سروے کیا ، جوکہ 145 ممالک میں کیا گیا، اس سروے نے یہ ثابت کیا کہ دنیا کے تمام مذاہب کے پیروکار، جو مذہبی عبادت ادا کرتے ہیں ، ان میں سخاوت ، دوسروں پر پیسے خرچ کرنے، رضاکارانہ طور پر دوسروں کی مدد کرنے اور کسی اجنبی کی مدد کرنے کی شرح ان لوگوں سے زیادہ تھی کہ جو مذہبی عبادت کو ادا نہیں کرتے۔
یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ بات تو سیکولر نظریے کو سپورٹ کرتی ہے کہ مذہب کا معاشرے میں موجود ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ شاید انفرادی حیثیت میں مذہب کا ہونا بہتر ہے ۔ اور اگر مذہب لوگوں کو ایمان دار، کھرا اور دیانت دار بناتا ہے تو یہ ملکی نظام اور معیشت کے لیے بھی فائدہ مند چیز ہے۔ البتہ مذہبی تعلیمات کا ریاستی سطح پر اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نظام اور قانون کے طورپر ہونا درست نہیں۔ پس لوگوں کے اخلاق کو سنوارنے میں مذہب اپنا کردار ادا کرے اور لوگوں کی ضروریات کو انسانی عقل کی بنیاد پر انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے پورا کیا جائے ! مگر سوال یہ ہے کہ کیا مادیت کو فروغ دینے والی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کہ جو یہ قرار دیتی ہے کہ خوشی اور اطمینان مادی ضروریات کو پورا کرنے کا نام ہے ،مذہب اور نظام کے درمیان قائم کردہ اپنے اس عقلی توازن کے ذریعے لوگوں کو خوشی اور اطمینان دے سکی ہے۔ مغربی معاشرہ کس حد تک خوش اور مطمئن ہے اس کی ایک جھلک امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ اف مینٹل ہیلتھ کے اعداد و شمار سے ملتی ہے کہ جن کے مطابق 2017 میں امریکہ میں18 سال سے زیادہ عمر کی آبادی کے لوگوں میں 17.1ملین لوگوں کو اپنی زندگی میں شدید ڈپریشن کا ایک اٹیک ضرور ہوا، جو کہ امریکہ کی کل آبادی کا 7.1فیصد بنتا ہے، یعنی ہر 14 لوگوں میں سے ایک شخص شدید ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہے۔ بزنس اِن سائیڈر Business Insiderکی 2016 کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں Anti depressantکے استعمال کے لحاظ سے پہلے بارہ ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے اور اس کے بعد علی الترتیب آئس لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، سویڈن، پرتگال، برطانیہ، فن لینڈ ، بیلجئیم شامل ہیں جو سب کے سب مغربی ممالک ہیں اور اس کے بعد اگلے پانچ ممالک بھی مغرب سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ یعنی سپین ، ناروے ،لکسمبرگ، سلوانیہ ، جرمنی ،فرانس۔ اور پہلے چوبیس ممالک کی اس فہرست میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ شاید مسلم معاشروں کے مکمل اعداد و شمار میسر نہیں۔ مگرمسلم معاشروں سے قطع نظر ،یہ ایک واضح امر ہے کہ پوری دنیا کے وسائل کو چوس کر مغرب میں جمع کرنے کے بعد باوجود مغرب اپنے تمام تر لوگوں کو خوشی کی ضمانت دینے سے قاصر ہے، وہ لوگ جو دنیا کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں اور جن کی زندگی میں مشکلات کم ہیں وہ خوش ہیں اور وہ لوگ جو مغرب کے معاشرے میں کسی وجہ سے دولت ، مقام و مرتبہ یا پھراپنی سوشل لائف میں ناکام ہو جاتے ہیں وہ نروس بریک ڈاؤن سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ لبرل آئیڈیالوجی کی فکر ان کو ذہنی سہارا دینے سے قاصر ہے، کیونکہ مغرب کے نزدیک خوشی تو محض انسان کی خواہشات کے پورا ہونے کا نام ہے ، اگر خواہشات پوری نہیں تو پھر زندگی ایک عذاب ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کی فکر خوشی و سعادت کی پختہ ضمانت دیتی ہے، کہ جس کے مطابق سعادت اللہ کی رضا میں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ابتر زندگی ، نظام کی طرف سے بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی ، ظلم و جبر ، ناانصافی، استحصال کے باوجود مسلم معاشرے ڈپریشن کی اس اونچی شرح سے محفوظ ہیں کہ جس سے مغربی معاشرے دوچار ہیں۔ آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر یہی صورتِ حال امریکہ کےلوگوں کو درپیش ہو تو تب وہاں ڈپریشن اور خود کشیوں کی شرح کہاں تک جا پہنچے گی، شاید پورے معاشرے کا ہی نروس بریک ڈاؤن ہو جائے گا۔
مغربی معاشرے اور پاکستانی معاشرے کا اخلاقی موازنہ اس وجہ سے بھی غلط ہے مغرب کا معاشرہ ایک آئیڈیالوجیکل معاشرہ ہے اور پاکستان کا معاشرہ کسی آئیڈیالوجی کے بغیر ہے اور جہاں لوگوں کے رویے پھیلے ہوئے درست وغلط مذہبی افکار، علاقائی روایات، نظام کے supported کرپٹ معاشرتی افکار ، لاقانونیت، کمزور عدالتی نظام کے ملغوبے کی عکاسی کرتے ہیں۔ معاشرے پر سرمایہ دارانہ افکار و تصورات کی یلغار اور کرپٹ نظام کے نفاذ کے باوجود لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے احساس کا شدت سے موجود ہونا اور جذبہ ایثاراس بات کو ظاہر کرتا ہے اگر اس معاشرے کو ایک صالح نظام میسر آ جائے تو پھر اس معاشرے کی تصویر کیا ہو گی۔ اسلام کا کامل نفاذ دوبارا قرونِ اولیٰ کی یا تازہ کر دے گا کہ جہاں جرم کی شرح انتہائی درجے کم تھی اور لوگ اطمینان اور پر سکون زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ یقیناً وہ معاشرہ اس قدر صالح معاشرہ تھا کہ آج کا جدید انسان اس کا تصور کرنے سے قاصر ہے۔
اس بحث سے یہ مراد نہیں ہے کہ مغرب کے لوگوں میں اخلاق اور انسانی ہمدردی سرے سے موجود ہی نہیں ہیں بلکہ نکتہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی مغرب میں اخلاق کو پروان چڑھانے اوراخلاق کے لیے پائیدار بنیاد فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مغرب کے لوگوں میں موجود اخلاق اور انسانی ہمدردی کی اہم وجہ وہ عیسائی اثرات ہیں جو کہ ابھی تک کسی نہ کسی حد تک مغربی معاشرے میں موجود ہیں اور یہ امر بھی کہ انسان میں موجود species instinctیعنی جبلتِ نوع انسان کو دوسرے انسانوں سے اچھا برتاؤ کرنے اور ان کی مدد کرنے کی طرف ابھارتی ہے اور دیگر جبلتوں کی مانند یہ جبلت بھی تسکین چاہتی ہے، پس ہمیں مغرب میں بھی charity ، مصیبت زدوں کی مدد کرنے اور غریبوں کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے کے واقعات ملتے ہیں ۔
جہاں تک پاکستان کے لوگوں میں کاروباری جھوٹ اور دھوکہ دہی کا تعلق ہے کہ جس کا اکثر تذکرہ رہتا ہے تواس کی وجہ مذہب کی زیادہ ہونا نہیں بلکہ معاشرے اور نظام کا دین کی بنیاد پر استوار نہ ہونا ہے ، پس معاشرے میں کاروبار کے متعلق یہ غلط تصورپایا جاتا ہے کہ پاکستان میں کاروبار دھوکے کے بغیر نہیں چل سکتا، اور تھوڑی بہت ہیرا پھیری جو گاہک کے لیے قابلِ قبول ہو،جائز ہے، کاروباری ماحول کے کرپٹ ہونے میں دہائیوں سے موجودلاقانونیت اور غیر موثر عدالتی نظام کا بہت اہم کردار ہے ، مسلسل لاقانونیت کی فضا میں کاروباری دیانت داری کی توقع کرنا عبث ہے ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ جب پاکستان کے عوام اپنے لیڈران اور حکمران اشرافیہ کی کرپشن اور لوٹ ماراور عیش و عشرت کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو اس کا لوگوں پر براہِ راست اثر ہوتا ہے، دوسری طرف پاکستانی ریاست نے سیدھے اور صاف ستھرے طریقے سے رزق کمانے کو مشکل بنارکھا ہے،اور حکومتی ملازمین کی کم تنخواہوں کے ساتھ وسیع اختیارات اس کرپٹ ماحول کو مزید فروغ دیتے ہیں، یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ کرپشن اور اخلاقی بگاڑ ایلیٹ کلاس اور انتہائی غریب طبقے میں سب سے زیادہ ہے اور یہی طبقے اسلام سے سب سے زیادہ دور بھی ہیں۔ گویا پاکستان میں کرپشن کی وجہ مذہب نہیں بلکہ لوگوں اور نظام کی دین سے دوری ہے۔
اسلام نے جس باریکی سے شخصیت کی تعمیر اور اخلاقی رویوں کے متعلق بیان کیاہے کوئی اور مذہب یا آئیڈیالوجی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔کہاں جھوٹ بولنا حرام ہے اور کہاں جائز، کہاں رحمدلی کا معاملہ کرنا چاہئے اور کہاں سختی سے پیش آنا چاہئے، کہاں غصہ کرنا حرام ہے اور کس معاملے میں فرض ، کسے معاف کردینا بہتر ہے اور کہاں بدلہ لینے میں حکمت ہے ، دھوکہ کیا ہے اور کیانہیں، غرض یہ کہ ہر صورتِ حال کے متعلق اسلام ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ تفصیلات کسی اورمذہب یا آئیڈیالوجی میں نہیں ۔ اسلام اخلاقیات کو اللہ کے اوامر و نواہی قرار دیتا ہے ، پس مختلف اخلاقی صفات کو اپنے اندر اس وجہ سے پیدا کرنا چاہئے کہ یہ اللہ کے احکامات ہیں نہ کہ یہ کہ ان سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے یا یہ صفات بذاتِ خود ایک مقصد ہیں۔ پس محض نظام کو اللہ کے اوامر و نواہی پر استوار کرنے اور معاشرے میں تقویٰ کو پروان چڑھانے سے معاشرے میں یہ اخلاقی صفات خود بخود پیدا ہو جاتی ہیں ۔معاشرے پر اسلام کا ہمہ گیرنفاذ ہی علیٰ اخلاقی اقدار کی موجودگی کی ضمانت ہے۔