بسم الله الرحمن الرحيم
ہفت روزہ عالمی خبروں پر تبصرے
4 ستمبر 2021
امریکہ بلا آخر افغانستان سے نکل گیا
افغانستان میں امریکی شکست پر اندرونی دباؤ کی وجہ سے بائیڈن ایک مرتبہ پھرامریکی شکست کا دفاع کر رہا ہے۔ منگل کے دن امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک اور تقریر کی جو کہ افغانستان سےبلا آخر امریکہ کے انخلاء کے ایک دن بعد تھی، جس میں اس نے کہا کہ جنگ میں تو کئی سال پہلے ہی شکست ہو چکی تھی، "میں اس پرائی جنگ کو مزید طول نہیں دینا چاہتا تھا، اور میں انخلاء کو ہمیشہ کے لیے مؤخر نہیں کرسکتا تھا۔" بائیڈن نے اصرار کیا کہ امریکہ کے پاس" افغانستان کی ایک لانتیجہ جنگ میں رہنے کا کوئی واضح نصب العین نہیں تھا۔" اس دوران، بائیڈن صرف اس بات پر شیخی بکھیر سکتا تھاکہ اس نےاپنی صدارت میں تاریخ کی سب سے بڑے اور سب سے تیزجنگی انخلاء کو پایہ تکمیل تک پہنچایاجس کی خصوصیت فضائی انخلاء(Airlift)کا پیمانہ اور اس کی رفتار تھی، جو کہ ایک "غیرمعمولی کامیابی" ہے۔
بائیڈن نے کابل حکومت کے قبل از وقت انہدام پر بھی غصہ نکالاجو کہ امریکہ کے جلد انخلاء سے بھی زیادہ تیزی سے ہوا، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اس نے کہا، "افغان سکیورٹی فورسز جو کہ دو دہائیوں سے اپنے ملک کے لیے لڑ رہی تھیں اور جس میں ان کے ہزاروں فوجی مرے،کسی بھی اندازے سےبھی زیادہ جلدی ہار مان گئے اور کیسے افغانستان کے لوگوں نے اپنی حکومت کو گرتے اور صدر کو کرپشن اورخوردبرد کرتے بھاگتےاور ملک کو ان کے دشمن طالبان کے حوالے کرتےدیکھا اور امریکی فوجیوں اور ہمارے حلیفوں کے لیے خطرات میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔"
مزید برآں،بائیڈن نےوضاحت کی کہ یہ امریکہ کی صرف افغانستان میں شکست نہیں بلکہ فوجی طاقت کے ذریعےکشور کشائی کی سوچ کی ناکامی ہے اور کہا کہ انخلاء کے فیصلے سے"اس دور کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے جس میں فوجی آپریشنز کی مدد سے دوسرے ملکوں میں تبدیلیاں لائی جاتی تھیں۔" پس، متکبر اور نام نہاد غیرمعمولی طاقت امریکہ کو، جس پردوسرے کے لیے مختص قوانین لاگو نہیں ہوتے،یہ تلخ سبق دوبارہ سیکھنا پڑا جو کہ پچھلی صدی کے یورپی استعماریوں نے بھی بہت تکالیف اٹھانے کے بعد سیکھا تھاجب وہ اپنی سلطنتیں قائم نہیں رکھ سکے، بلخصوص مسلم علاقوں میں تو یکے بعددیگریورپی طاقتیں اپنی "کالونیوں" کو"آزاد" کرنے پر مجبور ہوئیں جس کا مطلب بہرحال اپنے مقامی ایجنٹ طبقےکو انتقالِ اقتدار ہی تھاجنہوں نے اپنے مغربی آقاؤں کے ایجنڈے کو نافذ کرنا تھا۔ امریکہ تو افغانستان میں یہ بھی حاصل نہ کر سکا، البتہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ وہ طالبان کو ایسی حکومت بنانے پر مجبور کرے جو امریکی اشاروں پر چلے۔
نہ صرف افغانستان بلکہ عراق میں بھی امریکہ کی شکست اور امریکہ کا عسکری طریقے سے سلطنت میں توسیع کو ترک کرنے سےغیر ملکی کفریہ طاقتوں کی اصل حد آشکار ہو گئی ہے۔ اگر مسلم امت مغرب کے ایجنٹ طبقے کی حکمرانی تلے زندگی بسر کررہے ہیں تو یہ مسلمانوں کی جانب سےمغرب کی طاقت کو حقیقت سے زیادہ سمجھنے اوراپنی اور اسلامی شریعت اور اس کے مخلصانہ نفاذ کرنے والی حکومت کی طاقت کو کم سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اللہ کے اذن سے، مسلم امت جلد نبوت ﷺ کے نقشِ قدم پراسلامی خلافت راشدہ کو قائم کرنے والی ہےجو کہ تمام مسلم زمینوں کو یکجا کرے گی اور باقی ماندہ مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے گی، اسلامی شریعت کو نافذالعمل کرےگی، اسلامی طرزِ حیات کو بحال کرے گی اور اسلام کے نور کو کل عالم میں پھیلائے گی۔
کشمیرمیں دوبارہ ظالمانہ لاک ڈاؤن
بھارتی ہندو ریاست جس نے دہائیوں سے مسلم کشمیر پرظالمانہ قبضہ کر رکھا ہے، مسلمانوں کے رہنماؤں سے ان کی موت کے بعد بھی خوف کھاتی ہے۔بروز بدھ بزرگ مسلم رہنما سید علی شاہ گیلانی جو کہ کئی سال سے اپنے گھر میں قید تھے، 91 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔بھارتی فورسز فوراً حرکت میں آئیں اور نہ صرف کشمیر میں سکیورٹی لاک ڈاؤن کو مزید سخت کر دیا اورمواصلات کو قریباً مکمل بند کردیابلکہ گیلانی صاحب کے جسدِ خاکی کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا اوران کی تدفین کو قبرستانِ شہداء میں ہونے سے روک دیا اور اس کے بجائے ان کوجلدی سے صبح ہونے سے بھی پہلےپولیس کی کڑی نگرانی میں ایک دوسرے مقام پرخود ہی دفن کر دیا۔ کشمیر دنیا کے سب زیادہ فوجی پڑاؤ رکھنے والے خطوں میں سے ایک ہے کیونکہ ظالمانہ ہندو ریاست اس مقبوضہ مسلم سرزمین پراپنا کنٹرول قائم رکھنے میں مشکلات کا شکار رہتی ہے۔ ہندو ریاست کا اس قبضے کا برقرار رکھنا مسلم حکومتوں بلخصوص پاکستان کے تعاون سے ممکن ہوا ہے۔ یہ پاکستان ہی ہےجس نے کشمیر میں جاری بھارتی قبضے کو سہولت فراہم کی ہوئی ہے جیسا کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی قبضے اور سنکیانگ میں جاری چینی قبضے کو سہولت مہیا کر رکھی ہے، یہ تینوں مقبوضہ علاقے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ملحق ہیں جو کہ مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت ہونے پر فخر کرتا ہے۔ان جوہری ہتھیاروں کی کیا قدر ہے یا پھر خود اس پاکستانی فوج کی جو کہ دنیا کی بڑی افواج میں سے ایک ہے، اگر یہ مسلمانوں کے دفاع کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتے ہیں:
وَمَا لَـكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ هٰذِهِ الۡـقَرۡيَةِ الظَّالِمِ اَهۡلُهَاۚ وَاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ وَلِيًّا ۙۚ وَّاجۡعَلْ لَّـنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ نَصِيۡرًاؕ
"اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے۔" (سورۃ النساء: 75)
امریکی شکست کےنتائج: یورپی یونین ڈیفیس فورس
افغانستان میں امریکہ کی بدترین شکست نے امریکہ کے مغربی حریفوں کوموقع فراہم کیا ہے کہ وہ امریکی قیادت اور کنٹرول میں رہنے والے نیٹو فوجی اتحاد سے الگ ایک خودمختار یورپی فوجی صلاحیت کی بحث کو دوبارہ شروع کر سکیں۔ امریکہ نے اپنے مغربی حلیفوں سے قطع نظر ہو کر اپنے انخلاء کا فیصلہ، منصوبہ بندی اور تنفیذ کی، حالانکہ وہ بھی افغانستان کے قبضے میں شامل تھے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے جمعرات کو یورپی یونین کے وزراء دفاع کی ملاقات ،جس میں نیٹو اور یو این کے اہلکار بھی شامل تھے، کے بعدایک بیان میں کہا، "افغانستان کے واقعات کے بعد یہ واضح ہے کہ آج سے قبل مزید یورپی دفاع کی اتنی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔" اس نے مزید کہا، "تاریخ میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو اسے تیز کر دیتے ہیں۔ بسااوقات، ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جو تاریخ کودھکیلتا ہے، یہ ایک تبدیلی کو پیدا کرتا ہے اور میرے خیال میں اس موسم گرما میں افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات انہی میں سے ہیں۔" امریکہ اب تک اپنے مغربی حلیفوں کی فوجی صلاحیتوں کو اپنی قیادت میں رکھنے میں کامیاب رہا ہےمگر اب یہ صرف کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ یہ امریکی قابو سے نکل جائیں۔