بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
محمد بن سلمان اور یہودیوں کے مابین نارملائزیشن
=====================
( عربی سے ترجمہ)
سوال:
بی بی سی نیوز عربی نے 21 ستمبر 2023 کو اپنی ویب سائٹ پر نشر کیا: (امریکی فاکس نیوز نیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران، جس کے اقتباسات بدھ کو نشر کیے گئے تھے، سعودی ولی عہد نے اعلان کیا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پہ لانے کی طرف "پیش قدمی کر رہا ہے"۔ انہوں نے کہا: ”ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے مقصد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں“۔ انہوں نے مزید کہا، "اس مقام تک پہنچنے کے لیے صدر بائیڈن کی انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے...")۔ ایک یہودی وفد سعودی عرب میں پہلے ہی عوامی طور پر شرکت کر چکا ہے : (اسرائیلی حکام نے ریاض میں اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (UNESCO) کے اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب میں ایک سرکاری وفد کی موجودگی پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف پہلے قدم سے تعبیر کیا۔ فرانس 24، 11 ستمبر، 2023)۔ کیا سعودی عرب غداری پر مبنی عرب معاہدوں پر عمل کرنے والا ہے اور یہودی وجود کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والا ہے؟
جواب:
جواب کو واضح کرنے کے لیے، ہم درج ذیل امور کا جائزہ لیں گے:
اول : گردش کرنے والی خبروں کے مطابق، تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں یہودی وجود، سعودی عرب اور امریکہ فریق ہیں، اور ان تینوں فریقوں سے متعلق کچھ حقائق یہ ہیں:
1- یہودی وجود، عرب اور اسلامی خطے میں کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کے معمول پر آ جانے کو، یہودی وجود کے بطور وجود استحکام کے لیے اور اسے اپنی خواہشات کے مطابق "پائیدار" بنانے کے لیے بہت بڑی کامیابی سمجھتا ہے۔ لہٰذا یہودی وجود کی تمام حکومتیں کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں جس کے ذریعے وہ اسلامی ممالک اور بالخصوص عرب ممالک میں اثر و رسوخ قائم کر سکیں۔
2- چونکہ سعودی عرب خطے کی ان حکومتوں میں سے ایک ہے جو پورے فلسطین کی آزادی کے لیے یہودیوں سے جنگ نہیں چاہتے ، لہٰذا سعودی حکومت، کچھ عرصے سے یہودی وجود کے ساتھ خفیہ طور پر بعض رابطے رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے سعودی عرب کو اصولی طور پر یہودی وجود کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ درحقیقت یہ سعودی عرب کے سابق بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود ہی تھا جس نے 2002 میں عرب سے 'خیانت ' کے اقدامات کا آغاز کیا تھا اور اب تک سعودی عرب مسلسل اس پر قائم رہنے کا اعلان کرتا آ رہا ہے۔
3- جہاں تک اس معاملے میں امریکہ کے کردار کا تعلق ہے تو تمام تر امریکی انتظامیہ کئی دہائیوں سے یہودیوں اور ان کے عرب حکمران ہمسایوں کے درمیان (امن) کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ یہودی وجود کو مستحکم کیا جا سکے، اسے خطے میں ضم کیا جا سکے، اور اس کی عدم قبولیت کو ختم کیا جا سکے۔ اس معاملے پر دونوں امریکی جماعتوں (ڈیموکریٹ اور ریپبلکن) میں کوئی اختلافِ رائے نہیں ہے۔
دوم : تینوں فریقوں کی جانب سے تعلقات کو معمول پر لانے کی فضاء قائم کر لینے کے باوجود یہ مسئلہ بڑی سیاسی پیچیدگیوں سے لبریز ہے:
1- 2015 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی عوامی سطح پر مخالفت کرنے اور امریکی کانگریس کو اس معاہدے کے خلاف اکسانے کے نتیجے میں نیتن یاہو ایرانی جوہری معاملے پر اس وقت کے امریکی صدر ،اوباما کی پالیسی کے مخالف ہو گئے تھے اور یہ بات امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ یہودی وجود کے تعلقات کو خراب کرنے کا باعث بنی رہی۔ پھر جب صدر ٹرمپ اور ان کی ریپبلکن انتظامیہ 2017 کے آغاز میں واشنگٹن میں برسر اقتدار آئی تو واشنگٹن میں یہودی وجود اور ریپبلکن انتظامیہ کے درمیان تعلقات میں بہتری آ گئی اور ریپبلکن انتظامیہ نے یروشلم کو یہودی وجود کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیا، اور امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کر دیا گیا، اور ساتھ ہی گولان کا الحاق بھی کر دیا گیا۔ پھر جب 2021 کے اوائل میں بائیڈن کی قیادت میں ایک نئی ڈیموکریٹ انتظامیہ اقتدار میں واپس آئی تو تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات ایک بار پھر سرد مہری کا شکار ہو گئے۔ یہاں تک کہ بائیڈن انتظامیہ نے تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے تک، وائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو کا استقبال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نیتن یاہو کے انتخابی وعدوں میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا بھی شامل تھا اور حال ہی میں نیتن یاہو اور محمد بن سلمان کے درمیان حقیقی رابطوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ ](اسرائیلی اخبار "یروشلم پوسٹ" نے بروز پیر 22/5/2023 کو خبر دی کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتوں کے دوران سعودی ولی عہد سے دو بار فون پر بات کی... اور ریاض نے اسرائیل کو مسئلہ فلسطین سے متعلق مطالبات کی ایک فہرست پیش کی ہے۔ (عرب پوسٹ، 23 مئی، 2023)[
2- ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سعودی عرب میں امریکی ایجنٹ محمد بن نائف کو اقتدار سے ہٹا کر دوسرے ایجنٹ محمد بن سلمان کو اقتدار سونپنے کے بعدسے محمد بن سلمان کی زیر قیادت موجودہ سعودی حکومت امریکہ کےحق میں سب سے زیادہ تابعدار سمجھی جاتی ہے۔ یہ 2017 کے وسط میں ہوا تھا، یعنی واشنگٹن میں ٹرمپ کی ریپبلکن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے چھ ماہ بعد۔ یہی وجہ ہے کہ محمد بن سلمان کی حکومت امریکہ کی بہت مطیع ہے لیکن اس کا زیادہ جھکاؤ، پہلے تو ریپبلکن اور پھر ٹرمپ کی جماعت کی طرف رہاہے۔ لہٰذا محمد بن سلمان کی حکومت نے امریکہ میں ٹرمپ کی جماعت کی جانب سے خفیہ حوصلہ افزائی پا کر بائیڈن سے منہ موڑ لیا اور بائیڈن انتظامیہ نے بھی بدلے میں وہی کیا۔ خاشقجی قتل کے تناظر میں بائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ محمد بن سلمان سے مصافحہ نہیں کریں گے۔
3- امریکہ میں پائی جانے والی شدید اور خطرناک تقسیم کی موجودگی میں بائیڈن انتظامیہ، 2021 میں، امریکہ میں برسر اقتدار آئی، اور یہ تقسیم اب بھی مجموعی طور پر امریکہ کی سیاسی زندگی کا مرکز ہے۔ پس دونوں مخالف جماعتیں (ڈیموکریٹ اور ریپبلکن)، اپنے درمیان پائے جانے والے تنازعات کے وسیع اندرونی اور بیرونی میدان میں کھل کر ایسے آمنے سامنے آ گئے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی میدان میں موجود امریکی ایجنٹ اور پیروکار بھی تقسیم ہو گئے اور امریکہ کی اندرونی کشمکش میں ایک فریق کے خلاف اور دوسرے فریق کے فائدے کے لیے کام کرنے لگے۔ مثال کے طور پر 2022 میں کانگریس کے انتخابات کے دوران ڈیموکریٹس کو دھچکا لگانے کے لیے سعودی عرب نے روس کے ساتھ مل کر تیل کی پیداوار میں کمی کرنے کا اعلان کیا، اور مثال کے طور پر نیتن یاہو کی اقتدار میں واپسی کے بعد یہودی وجود کی طرف سے، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے خلاف، پرزور بیانات جاری کیے گئے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن سے ریپبلکن پارٹی اور ٹرمپ کی جماعت دوبارہ اقتدار میں واپس آنے کے لیے فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور اسی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ نے محسوس کیا کہ، 2022 کے آخر میں نیتن یاہو کے اقتدار میں واپس آنے کے بعدسے یہودی وجود کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو معمول پر لانے کا منصوبہ اس کے قابو میں نہیں ہے۔
سوم : امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لیا اور اس میں گرمجوشی بحال کی۔ اس نے یہودی وجود کے اندر بھی اپنے روابط کو مضبوط کیا، لیکن بااثر قوت کے طور پر ایک مؤقف کے ساتھ۔ اس سب کا مقصد یہ تھا کہ سعودی عرب اور یہودی وجود کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کا منصوبہ ان کے قابو میں ہی رہے اور وہ ریپبلکنز کے ہاتھوں میں نہ کھیلتے رہیں :
1- محمد بن سلمان کی حکومت کی جانب سے 2022 میں تیل کی پیداوار میں کمی کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی بائیڈن انتظامیہ کی درخواست کو مسترد کرنے کے بعد، بائیڈن انتظامیہ کو ٹرمپ کی جماعت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی گہرائی کا احساس ہوا، اس لیے بائیڈن انتظامیہ نے فوری طور پر سعودی عرب پر اپنی تنقید کو کم کرنا شروع کر دیا۔ بائیڈن کے محمد بن سلمان سے مصافحہ نہ کرنے کے اصرار پر اور مٹھی سے ہاتھ ملانے پر، اور محمد بن سلمان سے نجی ملاقات سے انکار کر کے، شاہ سلمان کی قیادت میں سعودی وفد میں ان سے ملاقات کرنے کی وجہ سے امریکہ میں ریپبلکنز نے صدر بائیڈن کا مذاق اڑایا اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے لیے بائیڈن کی پالیسی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
2- امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے گرمجوشی سے ملاقات کی۔ اور ایک جمود کے بعد سعودی عرب میں امریکی عمل دخل کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، اور اس کا اظہار سوڈان سے امریکیوں کے انخلاء پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کرنے، یمن میں پیش رفت کے حوالے سے امریکہ سے مشاورت کرنے، سعودی عرب کو امریکی سیاست اور ہندوستان کو دنیا سے جوڑنے میں ایک اہم کردار دینے کی صورت میں کیا گیا۔ (فرانس-24، 8/5/2023)۔
3- امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ، بلنکن، کا سعودی عرب کا دورہ: (امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ، بلنکن نے دونوں ممالک یعنی دو اسٹریٹجک اتحادیوں کے درمیان ہم آہنگی اور شراکت داری پر زور دیا۔ کانفرنس کے دوران، دونوں وزراء نے 'شام' کی عرب لیگ میں واپسی، سوڈانی بحران، اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے جیسے امور پر بات کی۔ فرانس-24، 6/9/2023)۔
4- ایران-سعودی کشیدگی کو دور کرنا: 1 اپریل، 2023 کے سوال (سعودی ایرانی اتفاق رائے) کے جواب میں اسکی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ سعودی عرب جانتا ہے کہ اس کی حکمرانی کے استحکام کے لیے یہ معاہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اور امریکہ یہ اعلان کر رہا ہے کہ چین، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ اس سے آگاہ ہے۔ امریکہ نے 8مئی، 2023 سے سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورس کے درمیان جدہ میں جنگ بندی کے مذاکرات میں اس کے ساتھ شرکت کر کے سعودی عرب کی حیثیت کو بھی بلند کیا۔
5- 9 ستمبر 2023 کو ہندوستان میں منعقد ہونے والے G20 سربراہی اجلاس میں، سعودی عرب اور یہودی وجود کے ذریعے ہندوستان کو یورپ سے جوڑنے والے یعنی ہندوستان سے مشرقی سمندری خطوط اور مغرب سے یورپ تک، ایک درمیانی زمینی لائن کے بائیڈن اقتصادی راہداری کے منصوبے میں سعودی عرب ایک اہم عنصر کے طور پر اُبھرکے سامنے آیا۔]سعودی عرب نے شروع میں ہی ہندوستان کے ساتھ تقریباً 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر اتفاق کیا۔ (الجزیرہ نیٹ، 11ستمبر، 2023)[۔ ڈیموکریٹ پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود یہ سب کچھ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں میں محمد بن سلمان کی بڑھتی ہوئی شمولیت کی دلیل ہے، چاہے وہ ریپبلکنز کے ساتھ تعلقات کو منقطع نہ بھی کرے!
6- بائیڈن انتظامیہ محمد بن سلمان کی حکومت اور یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر بات چیت کر رہی ہے۔ اور اس کے ذریعے وہ سعودی عرب اور یہودی وجود کے درمیان کسی بھی امن معاہدے کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ امریکی انتخابات میں وہ اس کا فائدہ اٹھائے اور ریپبلکن پارٹی اور ٹرمپ کی جماعت اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے اور خاص طور پر آئندہ انتخابات میں اس معاملے کو استعمال کرتے ہوئے یہودی لابی کو ٹرمپ اور ریپبلکنز سے دور کر کے پہنچنے والے ممکنہ نقصان کو اپنے حق میں اثرورسوخ کا باعث بنا دے۔
7- بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدے کے لیے نیتن یاہو کی حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے: ]اسرائیل میں امریکی سفیر، تھامس نائیڈز Thomas Nidesنے انکشاف کیا تھا کہ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اور دو امریکی حکام نے امریکی ویب سائٹ Axios کو بتایا کہ اس سے پہلے کہ صدر جو بائیڈن اپنی صدارتی مہم میں مصروف ہوجائیں، وائٹ ہاؤس اگلے چھ سے سات ماہ کے اندر ریاض اور تل ابیب کے درمیان ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔ (عربی پوسٹ، 23 مئی، 2023)[۔یہودی میڈیا نے بھی یہودی وجود کے وزیر خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدے کے حصول کے لئے ماضی کی نسبت اب کہیں زیادہ قریب ہے"۔ (BBC،22 اگست، 2023)۔
8- لیکن نیتن یاہو دوسرے زاویے سے جانتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والے معاملے کے ساتھ سنجیدگی سے منسلک ہوگئی ہے اور اس سمت میں بائیڈن انتظامیہ کے بغیر کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ لہٰذا، نیتن یاہو نے 17 اگست 2023 کو ایک وفد واشنگٹن بھیجا، جس کی سربراہی اس کے انتہائی قابل اعتماد اور یہودی وجود کے اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر Ron Dermerنے کی، اور اس نے امریکی حکام سے براہ راست سعودی عرب کے معاملے سے متعلق بات چیت کی، جن کے نام یہ ہیں : (وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان، امریکی صدر کےمشرق وسطیٰ کے پہلے مشیر، بریٹ میک گرکBrett McGurk، اور صدر کے توانائی کے سینئر مشیر، آموس ہوچسٹینAmos Hochstein، یہ وہ تین امریکی اہلکار ہیں جو اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے مقصد سے کی جانے والی سفارتی کوششوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ( بی بی سی، 22 اگست، 2023)۔ اس طرح، نیتن یاہو نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بائیڈن کا رخ کیا ہوا ہے۔
9- پھر آخرکار، 20ستمبر، 2023 بروز بدھ کو ایک سوال میں محمد بن سلمان کے بیان کا ذکر ہے کہ: (امریکی فاکس نیوز نیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران، جس کے اقتباسات بدھ کو نشر کیے گئے تھے، سعودی ولی عہد نے اعلان کیا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف "پیش قدمی کر رہا ہے"۔ انہوں نے کہا: "ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے مقصد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں"۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے مزید کہا، "اس مقام تک پہنچنے کے لیے صدر بائیڈن کی انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے جبکہ فلسطین کا مسئلہ ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں اس معاملے کو حل کرنے کی ضرورت ہے جس کی بابت ہمارے درمیان ابھی تک مذاکرات جاری ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ معاملہ کون سا رخ اختیار کرتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ معاملہ ایسی جگہ پر پہنچے گا جہاں فلسطینیوں کے لیے زندگی آسان ہو جائے گی اور اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ضم ہو جائے گا"۔ دوسری جانب، اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن Eli Cohenنے جمعرات کو کہا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے امریکہ کی ثالثی میں ایک فریم ورک معاہدہ اگلے سال کے آغاز تک مکمل ہو سکتا ہے۔۔۔)
چہارم : ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے حقیقی حکمران، محمد بن سلمان کا اپنے معاملات پر زیادہ کنٹرول نہیں ہے۔ اور وہ ریپبلکنز، جو کہ اسے ریاض میں اقتدار میں لے کر آئے، اور ان کے حریف ڈیموکریٹس کے درمیان کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔ وہ ایک فریق یا دوسرے فریق کی خواہشات کا جواب سعودی مفاد کے نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ خیانت کرتے ہوئے اور بطورغلام دیتا ہے۔ عرب اور مسلم حکمران اپنے آقاؤں کی اطاعت میں کسی حد کو نہیں پہچانتے اور بیشک مسلم ممالک کے حکمران یہ بھول چکے ہیں کہ فلسطین اور اس کے گرد و نواح کی سرزمین، ایک بابرکت سرزمین ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ﴾
"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ، جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں" ( بنی اسرائیل: 1)۔
پس، مسلمانوں کی افواج پر واجب ہے کہ وہ اس ارضِ مقدس کو یہودیوں کے مکروہ عزائم سے آزاد کرنے اور پاک کرنے کے لیے حرکت میں آئیں، نہ کہ فلسطین کو یہودیوں کے سامنے نارملائزیشن، اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کی وجہ سے سونے کی طشتری میں پیش کر دیں۔
بہرصورت فلسطین اسی طرح پاکیزہ اور بابرکت لوٹے گا جیسا کہ خلافتِ راشدہ کی قیادت میں حق کے علمبردار مسلمانوں کے لشکروں کی تلواروں کے دور میں تھا۔ تب پھر یہودیوں اور ان کے حامیوں کا ہجوم شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر لے گا، اور ان کے دلوں میں خوف طاری ہو جائے گا یہاں تک کہ ان میں سے کوئی ایک پتھر کے پیچھے چھپ جائے گا جو اس یہودی کواپنے پیچھے چھپانے سے زیادہ اسے سامنے ظاہر کردے گا!! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا:
«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ»
"تم یہودیوں سے ضرور لڑو گے اور انہیں ضرور قتل کرو گے یہاں تک کہ ایک پتھر یہ کہے گا کہ اے مسلمان، یہ یہودی ہے، تو آؤ اور اسے قتل کر ڈالو"۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ «هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي» "یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہے"۔ اس کی سند بھی وہی ہے اور اسے مسلم نے ابن عمر سے روایت کیا ہے۔ ان شاءاللہ یہ جلد ہی ہو گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيباً﴾
"اور وہ کہتے ہیں، یہ کب ہو گا؟ کہہ دو، کہ یہ جلد ہی ہو جائے گا"۔ ( بنی اسرائیل: 51)۔
پھر جن لوگوں نے یہودیوں سے تعلقات کو معمول پر لا کر جرم کیا ان کو سوائے رسوائی اور دردناک سزا کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾
"عنقریب مجرموں کو ان کے مکرو فریب کے بدلے میں اللہ کے ہاں ذلت اور شدید عذاب پہنچے گا"( الانعام: 124)
دسں ربیع الاول 1445ھ
بمطابق 25 ستمبر، 2023 عیسوی