الجمعة، 27 جمادى الأولى 1446| 2024/11/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حکومت کی طرف سے حزب التحریر کو بھیجے گئے "عجیب" خط پر ابتدائی رد عمل

ہمارے پاس وزیر اعظم کا خط آیا جس پر اس کی نیابت میں کونسل کے ڈائریکٹر کے دستخط بھی ہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب خط ہے، اور اس کی بیہودگی اور شرمناک تضادات سے ہمیں صدمہ پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مصدر کے بارے میں ہم شش وپنج میں رہے اور سوچا کہ یہ کسی گمنام اور جھوٹے کی طرف سے تہمت ہو سکتی ہے لیکن یہ معلوم کر کے ہم ششدر رہ گئے کہ یہ واقعی وزیر اعظم کا ہی خط ہے تب ہمیں یقین ہو گیا کہ ملک اس ناگفتہ بہ صورت حال سے کیوں دوچار ہے؟ اور اس قدر گری ہوئی حکمرانی کیوں ہے؟

یہ خط قانونی یا انتظامی نوعیت کا نہیں بلکہ ایک سیاسی بیان ہے جو کسی ایسی جماعت کی طرف سے ہو سکتا ہے جس کو حزب التحریر ایک آنکھ نہیں بھاتی اور حزب التحریر کا نظریاتی ہونا اور جدوجہد کرنا اس کے لیے ناقابل برداشت ہے، ورنہ وزیر اعظم اور اس کی حکومت پر تنقید کرنے پر ہمارا محاسبہ کرتے ہوئے وہ یہ کیوں کہتے کہ "کامیاب حکومت کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش" ...۔ہاں ہم نے یہ کہا ہے۔

کیا وزیر اعظم یہ چاہتا ہے کہ پارٹیاں حکومت کی ہاں میں ہاں ملائیں اور واہ واہ کرتی پھریں؟؟

کیا قومی مذاکرات کے شرکاء میں سے ایک نے یہ نہیں کہا تھا کہ وزیر اعظم کا تقرر مغرب کے ایماء پر ہوا ہے اور اس سے مراد تم ہی تھے؟ کیا سیاسی پارٹیوں نے تسلسل سے جھوٹے الزامات، تمسخر اڑانا اور اشتعال دلانے جیسے کام کر کے حکومتوں کوتماشا نہیں بنایا جن کی پاکی کا تم اپنے بیان میں تقدس کی حد تک گن گاتے ہو؟؟ اس کے ثبوت کے طور پر تم سینکڑوں گھنٹوں پر مشتمل ٹی وی کی ریکارڈنگ دیکھ سکتے ہو۔

ایک ٹیکنوکریٹ وزیر اعظم کی جانب سے اس بات پر ہمارا محاسبہ کرنے کے کیا معنی ہیں کہ ہم "بیشتر پارٹیوں پر پسپائی اور مغربی احکامات کے سامنے سر جھکانے کا الزام لگاتے ہیں ..."؟ کیا یہ ان پارٹیوں کی پاکدامنی کو بیان کرنے کے لیے ہے یا سرپرست اور نصیحت کرنے والے مغرب کے لیے وفاداری کا مظاہرہ کرنے کے لیے؟؟ پھر یہ بھی بتائیں کہ حزب التحریر کب کسی پارٹی کو اپنا دشمن سمجھتی ہے؟ حزب التحریر صرف حکومت کا محاسبہ کرتی ہے اور کبھی بھی اپنے راستے اور منزل سے انحراف نہیں کرتی۔

وزیر اعظم کی جانب سے اس بات پر ہمارا محاسبہ کرنے کے کیا معنی ہیں کہ ہم نے "دستور میں شریعت کو ماخذ نہ بنانے والوں پر تنقید کی"...کان کھول کر سن لو اسلامی شریعت گویا تہمت بن گئی ہے...ہم کوئی یہودی قائدین کے پرٹوکول، تلمود یا خفیہ زائنزم کے فرامین کی طرف دعوت نہیں دے رہے ہیں ...تمہاری نظروں کے سامنے ہے کہ کون صدارتی انتخابی مہم میں "اسلامی شریعت" کو منھج بنانے کی دعوت دیتا ہے غور کرو اور رد عمل کا اظہار کرو...جہاں تک اس عظیم رسوائی کا تعلق ہے کہ تم حزب التحریرکی طرف سے اپوزیشن جماعت کا کردار ادا کرنے کو اسلامی بیداری کی اس لہر کے لیے رکاوٹ سمجھتے ہو یہ تمام حدود کو پار کرنے والی اور خطرناک بات ہے...یہ کونسی آمرانہ رسوائی ہے؟ تم نےہمارے اس کام کو سیاسی نتیجے، فلسفیانہ استدلال، منطقی بنیاد، چھٹی حس، توقعات، نگرانی اور لوگوں کی خواہشات پر کنٹرول کے ذریعے انصار شریعہ کا دفاع اور انقلاب کی حفاظت کے لیے ایسوسی ایشن قرار دیا...کیا ہی تخلیق اور ذہانت ہے۔ تمہارا ارادہ اگر کچھ کرنے کا ہے اور کسی خاص صورت حال کے لیے تمہید باندھنا چاہتے ہو تو سمجھو کہ تمہاری امیدوں پر پانی پِھر چکا ہے کیونکہ ہم تمہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں اور وہ سارے دروازے بند کر چکے ہیں۔ دہشت گرد کی مذمت میں ہمارے بیانات، اس کو جرم اور حرام قرار دینا اور ایسی مجرمانہ کاروائیوں کی مکمل تحقیقات کے مطالبے کے بارے میں ہمارے بیانات سے تمہاری فائلیں اور الماریاں بھری ہیں۔ ہر کس وناکس ہمارے موقف سے آگاہ ہے۔ سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارا موقف ہی سب سے سچا، سب سے صحیح اور درست ترین ہے...جس نے بھی اس بارے میں تمہارے کان بھر دئیے ہیں یا یہ چال چلنے کی کوشش کی ہے وہ سیاست میں اناڑی ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ تم ان کے آلہ کار نہیں بنو گے جن کی خباثت اور ناموں کو بھی ہم جانتے ہیں ﴿ومكر أولئك هو يبور﴾ "اور انہی کا مکر ہی تباہ ہونے والا ہے" (فاطر:10)۔

ہم سوچ رہے تھے کہ تم ان لوگوں کے بارے میں رپورٹ، تنبیہ اور دھمکی تیار کر رہے ہو گے جو صبح و شام غیر ملکی سفارت خانوں اور انٹلیجنس ایجنسیوں سے رابطے کرتے ہیں جو ان سے بیش بہا اور قیمتی تحائف اور جدید ترین کاریں وصول کرتے ہیں۔

ہم یہ انتظار کر رہے تھے کہ تم اس اربوں کے کالے دھن کو بے نقاب کرنے کے لیے کمر کس رہے ہو گے جو بعض پارٹیوں کے پاس ہے۔

یہ کیسی بات ہے کہ ریاست کے سربراہ پر تنقید کرنے پر تم ہمارا محاسبہ نہیں کرتے بلکہ صرف اس حکومت پر تنقید کرنے پر تم سیخ پا ہوگئے جس کےنمائندہ تم خود ہو؟؟؟

ہم نے دونوں پر برابر تنقید کی اور ہمیں اس سیاسی جدوجہد کا شرف حاصل ہے کہ ہم نے لوگوں کے مفاد میں یہ کیا اور ان پر ہونے والے ظلم و زیادتی کو بےنقاب کیا۔

ہمارا یہ خیال تھا کہ تم کامیاب حکومت یا انقلاب کی ضرورت کے لیے یہ سمجھ جاؤ گے کہ حکومت اور حکمرانوں پر تنقید سیاسی جماعتوں کا پہلا کام ہے، اسی میں مقابلہ ہونا چاہیے اور اسی سے سنجیدگی اور سچائی کو جانچا جاسکتا ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہے...نبیﷺ نے فرمایا : «والله لتأمرنّ بالمعروف ولتنهون عن المنكر ولتأخذنّ على يد الظالم ولتأطّرنّه على الحق أطرا ولتقصرنّه على الحقّ قصرا أو ليضربنّ الله بقلوب بعضكم على بعض ثمّ ليلعنكم كما لعنهم...» "اللہ کی قسم تمہیں ضرور بالضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ہے تمہیں ظالم کا ہاتھ ہر حال میں روکنا ہے اور اس کو حق کے سامنے لازماً سرنگوں کرنا ہے اور حق تک ہی اس کو محدود رکھنا ہے ورنہ تمہارے دلوں میں ایک دوسرے سے نفرت ڈال دے گا پھر پہلے والوں کی طرح تم پر بھی لعنت کرے گا..."۔

یا پھر تم راز داری سے تنقید چاہتے ہو جو تنہائی میں تمہارے کان میں کی جائے جیسا کہ بعض خلیجی ممالک کے مشائخ فتوے دے رہے ہیں؟؟

تم ٹھیک ٹھاک ہوشیار آدمی ہو...اللہ سے ڈرو اس قسم کے رسوا کن، مفلسانہ اور مایوسی کے کام کر کے اپنے آپ پر ظلم مت کرو۔

اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِين﴾ " جو لوگ بلاوجہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت پہنچاتے ہیں تو وہ بہتان اور بہت بڑے گناہ کا بوجھ سر لیتے ہیں" (الاحزاب:58)۔

تیونس میں حزب التحریر  کا میڈیا آفس

Read more...

حزب التحریر لاہور میں دو ساتھیوں کی گرفتاری کی پرزور تردید کرتی ہے راحیل-نواز حکومت حزب التحریر کو زبردستی عسکریت پسند جماعت ثابت کرناچاہتی ہے

27نومبر 2014 کو لاہور کے کئی اخبارات نے یہ خبر شائع کی کہ "داعش کے لئے وال چاکنگ کرنے والوں کا تعلق کالعدم حزب التحریر سے نکلا"۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان اس خبر کی پرزور تردید کرتی ہے کہ گرفتار ہونے والوں کا تعلق حزب التحریر سے ہے اور نہ ہی حزب التحریر داعش کے حق میں وال چاکنگ یا کسی بھی قسم کی کوئی مہم چلا رہی ہے۔ اس حوالے سے حزب التحریر ولایہ پاکستان مندرجہ ذیل باتوں کی جانب توجہ مبزول کرانا چاہتی ہے:
1۔ حزب التحریر ایک اسلامی سیاسی جماعت ہےجو خلافت راشدہ کے قیام کے لئے منہج نبوت کے مطابق یعنی سیاسی و فکری جدوجہد کرتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے عسکری جدوجہد کو اسلام کی رو سے حرام سمجھتی ہے۔
2۔ اس وقت ہمارے دو اراکین حکومت کی تحویل میں ہیں ۔ ایک پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ جنہیں 11 مئی 2012 میں لاہور سے اور دوسرے ڈاکٹر اسماعیل شیخ جنہیں 18 اپریل 2014 کو کراچی سے حکومتی ایجنسیوں نے اغوا کیا تھا۔ راحیل-نواز حکومت کو آج کے دن تک نہ تو ان کی گرفتاری قبول کرنے کی ہمت ہوئی ہے اور نہ ہی انہیں کسی مقدمے کے حوالے سے عدالت میں پیش کیا ہے جن کا  حزب التحریر سے تعلق نہ صرف لوگ جانتے ہیں بلکہ ان کی سیاسی و فکری جدوجہد سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔
3۔ یہ الزام اس لحاظ سے انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ حزب التحریر کے شباب داعش کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔ کیا پاکستان میں کوئی بھی جماعت کسی دوسری جماعت کے حق میں وال چاکنگ، پوسٹرنک یا لیفلٹ تقسیم کرتی ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ جب حزب التحریر کے شباب حزب کے نام سے جاری ہونے والے پوسٹر، اسٹیکر یا لیفلٹ بانٹتے ہیں تو اس کی تو میڈیا میں اس طرح تشہیر نہیں کی جاتی لیکن داعش کی وال چاکنگ میں حزب التحریر کو زبردستی ملوث کیا جاتا ہے اور اس کی  تشہیر بھی کی جاتی ہے۔
4۔ یہ الزام اس لحاظ سے مزید مضحکہ خیز ہو جاتا ہے کہ داعش نے شام کے شہر عدلیب میں اسی مہینے حزب التحریر کے ایک رکن مصطفیٰ خیال کو چھ مہینے اپنی قید میں رکھنے کے بعد گولی مار کر شہید  کردیا ہے۔
الحمدللہ جیسے جیسے پاکستان میں حزب التحریر کی دعوت پھیلتی جارہی ہے اسی قدر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی دماغی حالت بھی بگڑتی جارہی ہے ورنہ وہ حزب التحریر کو زبردستی ایک عسکریت پسند جماعت ثابت کرنے کے لئے اس قسم کا انتہائی لغو اور بیہودہ الزام نہ لگاتے۔ راحیل-نواز حکومت حزب التحریر کی سیاسی وفکری جدوجہد کا سیاسی و فکری جواب دینے سے قاصر ہے اور اب عوام اور افواج پاکستان کو حزب التحریر سے متنفر کرنے کے لئے اس قسم کے بچکانہ الزامات لگا رہی ہے۔ حزب التحریر راحیل-نواز حکومت پر واضح کردینا چاہتی ہے کہ تمھارا خاتمہ اور خلافت کا قیام اللہ کے حکم سےعنقریب ہے اور تمھاری کوئی بھی کوشش حزب کو اس کی جدوجہد سے نہ تو روک سکتی اور نہ ہی عوام اور افواج پاکستان کو اس سے متنفر کرسکتی ہے۔
حزب التحریر میڈیا سے بھی یہ بات کہتی ہے کہ وہ حزب کی جدوجہد سے واقف ہیں لہٰذا اس قسم کے لغو الزامات کو تو انہیں خود سے ہی مسترد کردینا چاہیے اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو تم از کم حزب کے شباب سے ہی پوچھ لیا کریں جو آپ سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ حزب اس بات کی امید رکھتی ہے کہ جس جس نے اس بیہودہ خبر کو شائع اور نشر کیا ہے وہ صحافتی اخلاقیات کے مطابق اب اسی طرح حزب کی تردید کو بھی شائع اور نشر کریں گے۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حکومت کی طرف سے حزب التحریر  کو بھیجے گئے "عجیب" خط پر ابتدائی رد عمل

ہمارے پاس وزیر اعظم کا خط آیا جس پر اس کی نیابت میں کونسل کے ڈائریکٹر کے دستخط بھی ہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب خط ہے، اور اس کی بیہودگی اور شرمناک تضادات سے ہمیں صدمہ پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مصدر کے بارے میں ہم شش وپنج میں رہے اور سوچا کہ یہ کسی گمنام اور جھوٹے  کی طرف سے تہمت ہو سکتی ہے لیکن یہ معلوم کر کے ہم ششدر رہ گئے کہ یہ واقعی وزیر اعظم کا ہی خط ہے تب ہمیں یقین ہو گیا کہ ملک اس ناگفتہ بہ صورت حال سے کیوں دوچار ہے؟ اور اس قدر گری ہوئی حکمرانی کیوں ہے؟

یہ خط قانونی یا انتظامی نوعیت کا نہیں بلکہ ایک سیاسی بیان ہے جو کسی ایسی جماعت کی طرف سے ہو سکتا ہے جس کو حزب التحریر ایک آنکھ نہیں بھاتی اور حزب التحریر کا نظریاتی ہونا اور جدوجہد کرنا اس کے لیے ناقابل برداشت ہے، ورنہ وزیر اعظم اور اس کی حکومت پر تنقید کرنے پر  ہمارا محاسبہ کرتے ہوئے وہ یہ کیوں کہتے کہ "کامیاب حکومت کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش" ...۔ہاں ہم نے یہ کہا ہے۔

کیا وزیر اعظم یہ چاہتا ہے کہ پارٹیاں حکومت کی ہاں میں ہاں ملائیں اور واہ واہ کرتی پھریں؟؟

کیا قومی مذاکرات کے شرکاء میں سے ایک نے یہ نہیں کہا تھا کہ وزیر اعظم کا تقرر مغرب کے ایماء پر ہوا ہے اور اس سے مراد تم ہی تھے؟ کیا سیاسی پارٹیوں نے تسلسل سے جھوٹے الزامات، تمسخر اڑانا اور اشتعال دلانے جیسے کام کر کے حکومتوں کوتماشا نہیں بنایا جن کی پاکی کا تم اپنے بیان میں تقدس کی حد تک گن گاتے ہو؟؟ اس کے ثبوت کے طور پر تم سینکڑوں گھنٹوں پر مشتمل ٹی وی کی ریکارڈنگ دیکھ سکتے ہو۔

ایک ٹیکنوکریٹ وزیر اعظم کی جانب سے اس بات پر ہمارا محاسبہ کرنے کے کیا معنی ہیں کہ ہم "بیشتر پارٹیوں پر پسپائی اور مغربی احکامات کے سامنے سر جھکانے کا الزام لگاتے ہیں ..."؟ کیا یہ ان پارٹیوں کی پاکدامنی کو بیان کرنے کے لیے ہے یا سرپرست اور نصیحت کرنے والے مغرب کے لیے وفاداری کا مظاہرہ کرنے کے لیے؟؟ پھر یہ بھی بتائیں کہ حزب التحریر کب کسی پارٹی کو اپنا دشمن سمجھتی ہے؟ حزب التحریر صرف حکومت کا محاسبہ کرتی ہے اور کبھی بھی اپنے راستے اور منزل سے انحراف نہیں کرتی۔

وزیر اعظم کی جانب سے اس بات پر ہمارا محاسبہ کرنے کے کیا معنی ہیں کہ ہم نے "دستور میں شریعت کو ماخذ نہ بنانے والوں پر تنقید کی"...کان کھول کر سن لو اسلامی شریعت گویا تہمت بن گئی ہے...ہم کوئی یہودی قائدین کے پرٹوکول، تلمود یا خفیہ زائنزم کے فرامین کی طرف دعوت نہیں دے رہے ہیں ...تمہاری نظروں کے سامنے ہے کہ کون صدارتی انتخابی مہم میں "اسلامی شریعت" کو منھج بنانے کی دعوت دیتا ہے غور کرو اور رد عمل کا اظہار کرو...جہاں تک اس عظیم رسوائی کا تعلق ہے کہ تم حزب التحریرکی طرف سے اپوزیشن جماعت کا کردار ادا کرنے کو اسلامی بیداری کی اس لہر کے لیے رکاوٹ سمجھتے ہو یہ تمام حدود کو پار کرنے والی اور خطرناک بات ہے...یہ کونسی آمرانہ رسوائی ہے؟ تم نےہمارے اس کام کو سیاسی نتیجے، فلسفیانہ استدلال، منطقی بنیاد، چھٹی حس، توقعات، نگرانی اور لوگوں کی خواہشات پر کنٹرول کے ذریعے انصار شریعہ کا دفاع اور انقلاب کی حفاظت کے لیے ایسوسی ایشن قرار دیا...کیا ہی تخلیق اور ذہانت ہے۔ تمہارا ارادہ اگر کچھ کرنے کا ہے اور کسی خاص صورت حال کے لیے تمہید  باندھنا چاہتے ہو تو سمجھو کہ تمہاری امیدوں پر پانی پِھر چکا ہے کیونکہ ہم تمہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں اور وہ سارے دروازے بند کر چکے ہیں۔ دہشت گرد کی مذمت میں ہمارے بیانات، اس کو جرم اور حرام قرار دینا اور ایسی مجرمانہ کاروائیوں کی مکمل تحقیقات کے مطالبے کے بارے میں ہمارے بیانات سے تمہاری فائلیں اور الماریاں بھری ہیں۔ ہر کس وناکس ہمارے موقف سے آگاہ ہے۔ سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارا موقف ہی سب سے سچا، سب سے صحیح اور درست ترین ہے...جس نے بھی اس بارے میں تمہارے کان بھر دئیے ہیں یا یہ چال چلنے کی کوشش کی ہے وہ سیاست میں اناڑی ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ تم ان کے آلہ کار نہیں بنو گے جن کی خباثت اور ناموں کو بھی ہم جانتے ہیں ﴿ومكر أولئك هو يبور﴾ "اور انہی کا مکر ہی تباہ ہونے والا ہے" (فاطر:10)۔

ہم سوچ رہے تھے کہ تم ان لوگوں کے بارے میں رپورٹ، تنبیہ اور دھمکی تیار کر رہے ہو گے جو صبح و شام غیر ملکی سفارت خانوں اور انٹلیجنس ایجنسیوں سے رابطے کرتے ہیں جو ان سے بیش بہا اور قیمتی تحائف اور جدید ترین کاریں وصول کرتے ہیں۔

ہم یہ انتظار کر رہے تھے کہ تم اس اربوں کے کالے دھن کو بے نقاب کرنے کے لیے کمر کس رہے ہو گے جو بعض پارٹیوں کے پاس ہے۔

یہ کیسی بات ہے کہ ریاست کے سربراہ پر تنقید کرنے پر تم ہمارا محاسبہ نہیں کرتے بلکہ صرف اس حکومت پر تنقید کرنے پر تم سیخ پا ہوگئے جس کےنمائندہ تم خود ہو؟؟؟

ہم نے دونوں پر برابر تنقید کی اور ہمیں اس سیاسی جدوجہد کا شرف حاصل ہے کہ ہم نے لوگوں کے مفاد میں یہ کیا اور ان پر ہونے والے ظلم و زیادتی کو بےنقاب کیا۔

ہمارا یہ خیال تھا کہ تم کامیاب حکومت یا انقلاب کی ضرورت کے لیے یہ سمجھ جاؤ گے کہ حکومت اور حکمرانوں پر تنقید سیاسی جماعتوں کا پہلا کام ہے، اسی میں مقابلہ ہونا چاہیے اور اسی سے سنجیدگی اور سچائی کو جانچا جاسکتا ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہے...نبیﷺ نے فرمایا : «والله لتأمرنّ بالمعروف ولتنهون عن المنكر ولتأخذنّ على يد الظالم ولتأطّرنّه على الحق أطرا ولتقصرنّه على الحقّ قصرا أو ليضربنّ الله بقلوب بعضكم على بعض ثمّ ليلعنكم كما لعنهم...» "اللہ کی قسم تمہیں ضرور بالضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ہے تمہیں ظالم کا ہاتھ ہر حال میں روکنا ہے اور اس کو حق کے سامنے لازماً سرنگوں کرنا ہے اور حق تک ہی اس کو محدود رکھنا ہے ورنہ تمہارے دلوں میں ایک دوسرے سے نفرت ڈال دے گا پھر پہلے والوں کی طرح تم پر بھی لعنت کرے گا..."۔

یا پھر تم راز داری سے تنقید چاہتے ہو جو تنہائی میں  تمہارے کان میں کی جائے جیسا کہ بعض خلیجی ممالک کے مشائخ فتوے دے رہے ہیں؟؟

تم ٹھیک ٹھاک ہوشیار آدمی ہو...اللہ سے ڈرو اس قسم کے رسوا کن، مفلسانہ اور مایوسی کے کام کر کے اپنے آپ پر ظلم مت کرو۔

اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِين﴾ " جو لوگ بلاوجہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت پہنچاتے ہیں تو وہ بہتان اور بہت بڑے گناہ کا بوجھ سر لیتے ہیں" (الاحزاب:58)۔

ملائیشیا میں حزب التحریر  کا میڈیا آفس

Read more...

2014 کے بعد بھی امریکی فوجی افغانستان میں لڑتے رہیں گے امریکہ نے افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کو خود ہی بے نقاب کردیا

21 نومبر 2014، جمعہ کی رات امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے یہ خبر دی کہ امریکی صدر اوبامہ نے 2014 کے بعد بھی مزید ایک سال تک امریکی فوجیوں کی افغانستان میں جنگی مہمات میں حصہ لیتے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا پاکستان اور افغان حکومتوں نے خیر مقدم کیا اور افغانستان میں امن کے قیام اور ایک مستحکم حکومت کے تسلسل کے لئے امریکہ کی موجودگی کو لازمی قرار دیا۔
حزب التحریر کے لیے امریکہ کا یہ فیصلہ قطعاً حیرت کا باعث نہیں ہے کیونکہ حزب امریکہ کی جانب سے 2014 میں افغانستان سے محدود انخلاء کے اعلان کے بعد سے یہ کہتی آرہی ہے کہ امریکہ افغانستان سے جا نہیں رہا بلکہ محدود انخلاء کا دھوکہ دے کر امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو مستقل کرنے اور اسے قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ لہٰذا نئی افغان حکومت کی جانب سے دو طرفہ سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کرنےکے بعد امریکہ نے اس دھوکے سے خود ہی پردہ اٹھا دیا ہے۔ اب امریکہ ہر سال افغانستان میں قیام امن اور افغان حکومت کی مدد کے نام پر اس فیصلے میں توسیع کرتا رہے گا اور پاکستان و افغانستان کے غدار حکمران امریکہ کے فیصلے کا اسی طرح ہی خیر مقدم کرتے رہیں گے۔
امریکہ کا یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ تیرہ سال افغان مزاحمت سے جنگ لڑنے کے باوجود افغانستان میں امن قائم کرنے سے آج تک قاصر ہے اور افغان نیشنل آرمی اور پولیس کابل میں اس کی قائم کی ہوئی حکومت کا دفاع نہیں کرسکتی۔ ہزاروں مجاہدین نے صبر و استقامت سے جہاد کرتے ہوئے امریکہ کو اس کے مقصد میں ناکام کردیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اور افغانستان کے چند غداروں پر مکمل انحصار کررہا ہے۔ اگر آج افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران اپنی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹا کر خلافت کا قیام عمل میں لائیں تو خلافت ڈیورنڈ لائن کو مٹا کر اس خطے میں بسنے والے قبائلی مسلمانوں کو ساتھ ملا کر امریکہ کو اس خطے سے با آسانی نکال اور خطے کے مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا امن و سکون واپس لوٹا سکتی ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ خطے میں امن امریکہ کی موجودگی سے نہیں بلکہ اس کو نکال کر ہی قائم ہوگا۔ لہٰذا افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کا نصرۃ فراہم کریں۔
وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ
"تم نہ سستی کرو اور نہ ہی غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر ایمان دار ہو"(آل عمران:139)

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

افغانستان کو فوجی امداد کی پیشکش امریکی اہداف کو یقینی بنائے گا

6 نومبر 2014 کو جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا دورہ کیا اور راحیل-شریف حکومت کی جانب سے افغانستان کی فوج کو مضبوط بنانے کے لئے فوجی تعاون کی پیشکش کی۔ یہ دورہ اس وقت کیا گیا ہے جب امریکہ افغانستان سے 2014 کے اختتام کے بعدمحدود انخلاء کے منصوبے کے دھوکے میں افغانستان میں اپنی اور بھارت کی مستقل موجودگی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ محدودو انخلاء کے بعدافغانستان میں اس کی اور بھارتی اہلکاروں کی موجودگی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اس کی 10 ہزار افواج ناکافی ہوں گی اور افغانستان کے بہادر مسلم مجاہدین کا سامنا کرنا اس کے لئے انتہائی مشکل ثابت ہوگا۔

اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے امریکہ دو جہتوں پر کام کررہا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں مزاحمت کو کمزور کرنے کے لئے راحیل-نواز حکومت کے ذریعے امریکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کروا رہا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے ہی ذریعے افغان نیشنل آرمی کو مضبوط کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کی افادیت کو واضح کرتے ہوئے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل جوزف انڈریسن نے کہا کہ "آپریشن ضرب عضب نے افغان سرزمین پر حملے کرنے کی حقانی نیٹ ورک کی اہلیت کو کمزور کیا ہے"۔ جبکہ راحیل-نواز حکومت نے نئی کٹھ پتلی افغان حکومت کو اِس بات کی پیشکش کی ہے کہ پاکستان افغان سکیورٹی فورسز کو نہ صرف اسلحہ دینے کا خواہش مند ہے بلکہ وہ افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیے فوجی ٹرینر بھیجنے پر تیار ہے۔ امریکہ کو اپنی بزدل افواج کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے باڈی گارڈز کی اشد ضرورت ہے اور یہ باڈی گارڈز امریکیوں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھارتی اہلکاروں کے تحفظ کو بھی یقینی بنائیں گے۔
پاکستان پہلے ہی اپنی مشرقی سرحدوں پر بھارت جیسے شاطر دشمن کا سامنا کررہا ہے اور پچھلے چند ماہ سے اس کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر شہریوں کو مسلسل نشانہ بنا نا، انہیں قتل کرنا اور ان کی املاک کو تباہ کرنا روز کا معمول بن گیا ہے اور اب راحیل-نواز حکومت کا اپنی مغربی سرحد پر امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی جگہ فراہم کرنے اور ان کی موجودگی کو مستحکم کرنے میں بھر پور کردار ادا کرنا خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا بلکہ کھلی غداری ہے۔ راحیل-نواز حکومت کی غداری بالکل واضح ہے ۔ یہ حکومت پاکستان کو چکی کے دو پاٹوں میں پیسنے کے لئے دشمنوں کو مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر مستحکم کرنے کے لئے بھر پور معاونت فراہم کررہی ہے۔ لہٰذا افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران اور مسلمانوں کو اس غدار حکومت کو اکھاڑ پھینکنا چاہیے اور خلافت کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔ خلافت افغانستان میں امریکی قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے خلاف فوجی آپریشن کا خاتمہ کرے گی ، انہیں مسلح کرے گی، پاکستان اور افغانستان کے درمیان استعمار کی قائم کی ہوئی ڈیورنڈ لائن کو مٹا کر مسلمانوں کی قوت کو یکجا کرے گی اور افغانستان سے امریکی صلیبی اور نجس بھارتی وجود کا خاتمہ کرے گی۔ وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ "تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر ایمان دار ہو" (آل عمران:139)
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

pakis

 

Read more...

ایک آرٹیکل "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کے جواب میں

پریس ریلیز

جناب محترم ایڈیٹر "العرب " ویب سائٹ
مزاج گرامی، اما بعد!
آپ نے 20 اکتوبر 2014 کواپنی ویب سائٹ پر سیف الدین العامری کا ایک مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر"۔ آرٹیکل کے عنوان اور اس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والا حزب التحریر کے ساتھ عداوت اور بدخواہی کی بیماری میں مبتلاء ہے جس کی بدولت حزب کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق نہ ملی بلکہ اس کی بدنیتی اور بدخواہی اس کو حزب پر بہتان تراشی کی حد تک ہانکتی چلی گئی۔
جہاں ہم جھوٹی خبروں، مغالطوں اور حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے پر مشتمل اس بے سروپا مضمون کی اشاعت پر افسوس کرتے ہیں، اورواقعی تعجب ہے کہ ایسے مضمون کو آپ نے شائع کیسے کیا جس کے بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ مضمون میں راست بازی کا فقدان ہے اور سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو سے کوسوں دور ہے، وہی ہماری خواہش ہے کہ مضمون کا جواب بھی شائع کریں، اس پر ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔
سب سے پہلے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے تاکہ حزب التحریر کی حقیقت کو واضح کیا جائے۔
حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کی آئیڈیا لوجی (مبدا) اسلام ہے۔ یہ امت کے اندر اور امت کے ساتھ مل کر اس لئے کام کرتی ہے تاکہ امت اسلام کو ہی اپنا مسئلہ سمجھے اور زندگی میں اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کے از سر نو قیام میں اُمت کی قیادت کرے۔ حزب کا کام سیاسی طریقے سے اسلامی دعوت کو لے کر جانا ہے اورحزب رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو مثال بناتے ہوئے دعوت کے لئے مادی اعمال انجام نہیں دیتی۔ آپ ﷺ نے اسلامی ریاست کے قیام کی دعوت میں سیاسی طریقہ اختیار کیا،نہ کہ مادی....یہ بات کہ حزب کی آئیڈیا لوجی اسلام ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ حزب افکار و احکام اخذ کرنے میں صرف اسلامی عقیدہ اور شرعی نصوص کو اساس بناتی ہے۔ یہ بھی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تعمیل میں کہ: وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ "اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں" (آل عمران:104)۔
اب آتے ہیں آرٹیکل کی طرف.....تو یہ بہر حال حزب پر بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ ہے۔ ان سب کے جواب کا یہ موقع نہیں، اس لئے ہماری بات فقط بعض امور تک محدود ہوگی تا کہ مضمون نگار کے بغض وحسد اور حزب اور اس کی افکار پر بحث میں اس کے اندر راست بازی کے فقدان ، اور کذب بیانی کو واضح کریں۔
اولاً :مضمون نگار نے اپنے مقالے کے لئے ایک عنوان قائم کیا ہے:
مضمون نگار حزب اور اس کے افکار کو "تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کا نام دیتا ہے۔ کیا مضمون نگار یہ نہیں جانتا کہ حزب کے افکاراور آراء صرف اور صرف اسلامی ہیں؟؟؟ تو ذرا سوچئے کہ ان کو "تاریک نقطہ نظر" سے منسلک کرنا کیسا ہے؟۔ جہاں تک بندش اور جکڑ بندی کی بات ہے تو مضمون نگار نے یہ واضح ہی نہیں کیا کہ اس سے اس کی مراد کیا ہے؟ .....جہاں تک تکفیر (کافر قرار دینے ) کا مسئلہ ہے تو بلا شبہ یہ اس کاافترا ہی ہے کہ حزب دیگر اسلامی تحریکوں کو کافر کہتی ہے !! مضمون نگار لکھتا ہے:"تحریریوں کےتکفیری فتووں سے شاذ ونادر ہی کوئی تنظیم، ایسویسی ایشن،یا اسلامی تحریک، یا کوئی اسلامی پارٹی بچی ہوئی ہو"۔ حقیقت ایسی نہیں جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے، اور ہم مضمون نگار کو چیلنج دیتے ہیں کہ حزب کی کسی کتاب، لیفلٹ یا کسی ویب سائٹ سے کوئی ایسی عبارت لا کر دکھائے جس میں کسی اسلامی تحریک کو کافر قرار دینے کا ذکر تک موجود ہو، مگر چونکہ وہ ہرگز ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کرسکتا، اور ہمیں یقین ہے کہ مضمون نگار بغیر دلیل کے تہمتیں لگاتا جاتا ہے، اس لئے ہم اس کو نصیحت کرتے ہیں کہ حزب پر جو کیچڑ اچھالا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس پر اس کا حساب لے گا ..... جہاں تک حقیقت کی بات ہے تو حزب التحریر کا ان تحریکوں کے ساتھ تعلق دعوت کی بنیاد پر اور ان کو نصیحت کی حد تک ہے، اور حزب ان کو اسلامی احکامات کی خلاف ورزیوں پر بھی تنبیہ کرتی ہے،یہ کام حزب ایک آئیڈیالوجیکل پارٹی کے حیثیت سے انجام دیتی ہے جو اسلامی دعوت کی حامل ہے.....تو جب حزب اسلامی تحریکوں کو نہ ہی کافر ٹھہراتی ہےاورنہ ہی یہ تحریکیں مضمون نگار کے اس بے جا الزام سے متفق ہیں تو وہ بتائے کہ اسے کہاں سے یہ بات ملی ہے۔؟
جہاں تک اس کی اس بات کا تعلق ہے کہ حزب التحریر جمہوریت کو کفر سمجھتی ہے، تو یہ ایک اسلامی رائے ہے یہ صرف حزب کی پسندیدہ رائے نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کی حقیقت صرف یہ نہیں،جیسا کہ مضمون نگار اور دیگر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی منظرکشی اس طرح کریں کہ یہ عوام کا حکمرانوں کو چننے کا عمل ہے، جبکہ جمہوریت کا مطلب بنیادی طور پر یہ ہے کہ بالادستی عوام کی ہے، یعنی عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے ان نظاموں کی قانون سازی کرواتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں بالادستی شریعت کو حاصل ہوتی ہے اوریہ اسلام کے ان امور میں سے ہے جو کہ قطعی ہیں مگر مضمون نگار نے جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کیا ہے۔ شرع کی بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ شرع ہی تمام نظاموں اور قوانین کا سرچشمہ ہے، اور عوام کے ذمہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ ہے جو ان نظاموں اور قوانین کے نفاذ کی صورت میں ہوتا ہے۔ لہذا جمہوری فکر ایک کفریہ فکر ہے کیونکہ اس میں بالادستی عوام کی ہوتی ہے نہ کہ شرع کی...اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ "حاکمیت اللہ کےسوا کسی کو حاصل نہیں، اسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے" (يوسف:40) اور ارشاد ہے، وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور رسولﷺتمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اُس سے رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے"(الحشر:7)۔
ثانیاً : مضمون نگار نے حزب کے "بیانات" کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ"یہ بیانات آزادی کی منطق اوراُن نظاموں سے متصادم ہیں جنہیں انسانوں نے عام انسانی ضابطوں کے مطابق زندگی کے لئے تخلیق کیا ہے"۔
مضمون نگار یہ بھول جاتا ہے یا جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی حزب کے بارے میں گفتگو کررہاہے جس کی آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اس لئے حزب نے جن احکام کی تبنی کی ہے یا جن افکار پراس کی بنیاد قائم ہے، ان کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ ہے۔ پس جو کوئی حزب کا محاسبہ کرنا چا ہے، اُسے چاہئے کہ صرف اسلام کی بنیاد پر اس کا محاسبہ کرے۔ اس لئے مضمون نگار کا انسانی نظاموں کی بنیاد پر حزب یا اس کے افکار کا محاسبہ کرنا کسی طرح موزوں نہیں؟؟؟ پھر یہ کہ مضمون نگار بھول گیا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اسلام کو ہی اپنی سوچ اور عمل کے لئے اساس بنائے، چنانچہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پروردگار ِعالم کی بجائے انسانی قوانین کو اپنے لئے اساس یا افکار پر حکم لگانے کا پیمانہ بنائے، چہ جائیکہ وہ اُن اسلامی افکار پر جن پر حزب کھڑی ہے، لے دے کرے اور ا ن کو "تاریک خیالیوں" سے تعبیر کرے۔؟
ثالثاً : مضمون نگار حزب کے بارے میں کہتا ہےکہ "وہ بنیادی طور پر اس اُصول کو تسلیم نہیں کرتی کہ ایک مسلمان انسان آزادی اور حکمرانوں کے چناؤ، اپوزیشن میں شرکت اور احتجاج کرنے کی قابلیت رکھتا ہے"۔
کتنا واضح بہتان ہے؟!! حزب التحریر تو اپنے قیام کے پہلے دن سے لوگوں کو مغربی استعمار کی تمام شکلوں سے آزادی حاصل کرنے کی دعوت دیتی رہی ہے، اور اس استعمار کے تمام آلات واوزار کے خاتمے اور اسلامی زندگی کی واپسی کے لئے سرگرم عمل ہے...بلکہ حزب کثیر تعداد میں چھپنے والے اپنے لیفلیٹوں کے ذریعے مسلمانوں سے مطالبہ کرتی چلی آئی ہے کہ وہ حکمرانوں کا محاسبہ کریں اور ان کے ظلم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں، ان کو تبدیل کریں اور اس راستے میں قربانی دیں، بلکہ اس مقصد کے لئے مسلمانوں کو متعدد اسالیب اختیار کرنے کی دعوت دی، مثلاً زبردست عوامی مارچوں کاانعقاد، پبلک کانفرنسیں،فکری وسیاسی سیمینار اور اہل باطل کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے وفود کوبھیجنا وغیرہ ...اور چونکہ حکمرانوں کو حزب کی اہمیت کا احساس ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حزب کی آراء لوگوں کو ان کے اور ان کے ظلم کے خلاف مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ حزب کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں اور حزب کا تعاقب کرتے ہوئے گرفتاری، ٹارچر حتیٰ کہ بعض حالات میں حزب کے شباب کو شہید کرنے اور ان کے خلاف ظالمانہ احکامات دینے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ...تو مضمون نگار صاحب کس طرح ان قطعی حقائق سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور حزب کوبد نام کرنے پر تلا ہوا ہے۔فیا للعجب!
رابعًا : مضمون نگار نے لکھا ہےکہ "سیکولر پارٹیاں جو قومی یا محب ِوطن کہلائی جاتی ہیں، تحریریوں کے دائرہ فکر سے خارج ہیں، یعنی یہ انفرادیت کے حامی "کفریہ" سیاست کی حامل پارٹیا ں ہیں جو الہٰی شریعت کی قائل نہیں، چنانچہ ان سے بحث وتکرار اورلڑائی جھگڑے نہ کئے جائیں"۔مضمون نگار کے بقول کہ "حزب کی سیکولر پارٹیوں کے بارے میں سوچ یہ ہے کہ یہ شریعت ِالہٰی کی قائل نہیں، اور یہ انفرادی "کفر یہ"سیاست کی حامل پارٹیاں ہیں"...یہاں ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ کسی پارٹی کا سیکولر ہونے کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی ہے کہ یہ پارٹی دین کی زندگی سے جدائی کے فلسفے پر کھڑی ہوتی ہے، اور رب کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کو نافذ کرنے کی دعوت دیتی ہیں، بلکہ وہ زندگی میں اسلام کی واپسی کی مزاحمت کرتی ہیں ...تو ایک سیکولر پارٹی کیونکر اسلامی ہوسکتی ہے؟ پھر ایک سیکولر پارٹی سے منسوب شخص کے اسلام یا کفر کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ ایک سیکولر پارٹی کا رکن ہے، بلکہ اس کا دارومدار اس کے عقیدے پر ہے۔ سو اگر وہ دین کے زندگی اور ریاست سے جدائی کا نظریہ رکھتا ہے اور وہ اس کی حقیقت سے پوری طرح واقف بھی ہے، تو وہ یقیناً کافر ہوگا،اگر وہ یہ عقیدہ نہیں رکھتا اور اس کا ایمان اسلامی عقیدہ پر ہے، مگر وہ اپنی لاعلمی، گمراہی اور مفاد ات وغیرہ کی وجہ سے سیکولر پارٹی کا رکن بن کر اس سے وابستہ ہوگیا ہے، تو ایسا شخص گناہ گار مسلمان ہے۔ پھر مضمون نگار نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ حزب ان پارٹیوں کے ساتھ مزاحمت کی دعوت دیتی ہے...جبکہ اس نے "مزاحمت " کا مطلب قاری پر چھوڑ دیا ہے، تاکہ ایک عام قاری خود ہی اس کا معنی ومطلب متعین کرکے یہ نتیجہ نکالے کہ حزب اسلحہ کے ساتھ ان پارٹیوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دیتی ہے!! حزب کا موقف ان سیکولر پارٹیوں کے بارے میں واضح ہے۔ حزب نے واضح کیا ہے کہ ان پارٹیوں نے جو افکار اپنا ئے ہوئے ہیں، یہ کفریہ ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد دین کی زندگی سے جدائی کا نظریہ ہے نہ کہ اسلام۔ اور حزب ان پارٹیوں کے اراکین کو یہ پارٹیاں چھوڑنے کی دعوت دیتی ہےاورمسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ انہیں اتار پھینکیں۔ حزب بتاتی ہے کہ یہ پارٹیاں مسلم ممالک کو نو آبادیات بنانے والی مغربی ریاستوں کے فضلے ہیں، کیونکہ سیکولر پارٹیاں اپنی تمام شکلوں میں ایسے افکار پر قائم ہوتی ہیں جو استعماری کفار کی تہذیب سےاخذ شدہ ہوتے ہیں۔
خامساً : مضمون نگار نے مبہم بلکہ متناقض انداز میں اخوان المسلمین کےساتھ حزب کے تعلقات کی بات کی ہے، اوراپنی بات کے اختتام میں یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے، اور حزب کے بارے میں یہ واضح ہے، بخلاف اخوان المسلمین کے جو پیچیدہ قسم کے اسالیب پر انحصار کرتی ہے، اور اکثر سیاست وتشدد کے پیچ وتاب سے دوچار رہتی ہے"۔
مضمون نگار نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ جملہ دہرایا ہے "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے"۔ مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے کہ حزب مسلح اعمال کی بنیاد پر قائم ہے ...تو اگر چہ ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ حزب التحریر ایک سیاسی پارٹی ہے جو سیاسی طریقے سے دعوت لے کرجاتی ہے، مگر اس پر ہم یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ "اقتدار تک پہنچنے کا طریقہ حزب نے اپنی کتابوں اور لیفلیٹوں میں جا بجا ذکر کیا ہے اور حقیقت کے متلاشی شخص کے لئے یہ واضح ہے۔ بلکہ دور ونزدیک کے تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ حزب کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں عمومی بیداری پر مبنی اسلامی رائے عامہ ایجاد کیا جائے، نیز کار زارِحیات میں اسلام کے نفاذ کے لئے اہل قوت سے نصرۃ طلب کی جائے، حزب اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اسلحہ کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی، اس کی وجہ رسول اللہﷺ کی سیرت کی پیروی ہے"۔ عرف عام میں تو یہ ہوتا ہے کہ گواہ مدعی کے ذمہ ہیں، تو ہم اس افترا پرداز مضمون نگار سے پوچھتے ہیں کہ اپنے اس دعویٰ پر آپ کے پاس اگر کوئی دلیل ہے تو پیش کرے، اور دشمن بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حزب تبدیلی کے طریقہ کار میں صرف فکری کشمکش اور سیاسی مقابلے پر انحصار کرتی ہے۔
سادساً: مضمون نگار حزب کے اندر تضادات کی بات کرتا ہے : "ادھر حزب کہتی ہے کہ "جمہوری نظام کفریہ نظام ہے" اور ادھر یہ کہ "اس کی بعض شاخیں انتخابات میں شرکت بھی کرتی ہیں، اور اتھارٹی کی طرف سے اپنی سرگرمیوں اور بھرتیوں کے لئے ان سے لائسنس بھی حاصل کرتیں ہیں۔ یہی وہ جوہری تناقض ہے جو اسلام پسندو ں کے اس صنف کے اندر پایا جاتا ہے"۔
جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا، اگر مضمون نگار جمہوریت کی حقیقت جانتا، جیسا کہ حزب نے بتایا ہے کہ یہ کفریہ نظام ہے، تو اس کو کوئی تناقض نظر نہ آتا ...تو حزب جمہوری نظام کو مسترد کرتی ہے، کیونکہ یہ اسلام کے ساتھ مکمل متناقض ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا.. جہاں تک انتخابات کی بات ہے، یعنی لوگوں کا نمائندوں کو اپنی رائے کے اظہار میں وکیل بنانا، تو اس میں حزب اس اعتبار سے شرکت کرتی ہے کہ وہ اس کو ایک مباح امر سمجھتی ہے، مگر اس میں شرط یہ ہے کہ رائے کے اظہار میں اسلامی احکامات کی پابندی کرے، حزب نے ایک دن کے لئے بھی انتخابات میں مغربی قانون سازی کی اساس پر شرکت قبول نہیں کی۔سابعًاٍ: مضمون نگار کہتا ہے: "....کیونکہ ان کی نظر میں اسلامی خلافت کا کوئی متبادل نہیں، اور خلافت بھی ایسی جو ان کی مطبوعات میں بالکل ہی غیر واضح ہے،اور ان میں سے ایک بھی یہ واضح کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا کہ اس پُر اسرار خلافت کی طرف دُنیا کیسے منتقل ہوگی؟"۔
یہ مضمون نگار بھی ایک انوکھی شخصیت ہے!! اسلامی خلافت حزب کی مطبوعا ت میں واضح نہیں؟، اور خلافت کے دور کو پُراسراریت سے تعبیر کرتا ہے؟؟ کیا اس نے حزب کی کتابوں میں یہ تفصیلات نہیں پڑھیں،جیسے نظام الحکم فی الاسلام (اسلامی نظام حکومت) اور اجھزۃ دولۃ الخلافۃ (ریاست خلافت کے حکومتی اور انتظامی ادارے)؟؟ پھر اس نے حزب پر "پُراسرار خلافت کےدور کی طرف دنیا کی منتقلی کی کیفیت کی عدم وضاحت " کی بھی تہمت لگائی ہے، باجودیکہ حزب نے اپنی کئی کتابوں اور لیفلیٹوں میں اقتدار تک پہنچنے کی کیفیت کو بہت زیادہ واضح کیا ہے، مگر مضمون نگار نے اپنے کسی خاص مقصد کی خاطر اتنی بھی زحمت گوارانہیں کی کہ تحقیق کرتا اور حزب کی کتابوں کوپڑھ کر حقیقت کاکھوج لگالیتا۔!!
ثامناً: مضمون نگار کہتا ہے کہ"پس تحقیق کار (یعنی سعید حمودہ) نے یہ ثابت کیا ہے کہ حزب فلسطینی مسئلےکے حل میں کتابوں، آرٹیکل، تھیوری اور اصول وقواعد ڈھونڈنے کے نظریاتی حل سے آگے نہیں جاتی، نہ ہی عوامی مزاحمتی تحریک یا آزادی کی قومی تحریکات میں قابل ذکر شرکت کرتی ہے، نہ ہی اس نے اب تک کوئی مسلح ونگ کی تشکیل کی ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ اس پارٹی کا کام بس یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین (فلسطین) پر قبضہ کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو کافر ٹھہرائے۔ جبکہ انہی اوقات میں حزب کے کچھ افراد عرب دنیا کی دیگر جگہوں میں خودمسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں"۔
ایسے شخص کی باتوں پر تعجب نہیں ہوگا تو کیا ہوگا جو مسئلہ فلسطین کے اس بنیادی حل کو جو حزب نے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، اس کو محض ایک تھیوری سمجھ رہا ہے ...موضوع کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ فلسطین پر قبضہ ہوچکا ہے، قابض قوت نے اس میں اپنا ریاستی وجود قائم کیا ہے، تو اب اس کی آزادی کے لئے شرعاً جہاد واجب ہے ...اور عملی طور پرجو امر آزادی کے حصول کو ممکن بناتا ہے وہ فوج کشی ہے، پارٹیوں یا تحریکوں کا قیام نہیں جو انہی ریاستوں سے مدد لیتی ہیں جو یہودی موجودگی کی محافظ ہیں، جیسےارد گرد کی ریاستیں وغیرہ....فلسطین کی آزادی کے لئے مسلم افواج کے حرکت میں نہ آنے پر کئی عشرے گزرنے کے بعدفلسطینی قضیہ کی حقیقت پر طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج وہ لوگ جو نہر سے دریا تک فلسطین کی آزادی کی بات کرتے تھے، ان کی اکثریت یہ اعتراف کرتی نظر آتی ہے کہ فلسطین کے اکثر حصے پر قبضہ قانونی ہے، اور کچھ اس کی تیاری کرر ہے ہیں، لیکن یہ ہوگا اس وقت جب معاون ریاستیں ان مزاحمتی تحریکوں کی پرورش سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں گی اور وہ بند گلی میں پہنچ جائیں گے۔
لہذا اب کس کی تعریف کرنی چاہئے اور اس درست حل کے نفاذ کے لئے کس کے پیچھے چلا جائے، حزب التحریر کے پیچھے؟ جس نے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ ان پر آزادی کا راستہ واضح کیا کہ یہود ی وجود کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے مسلم افواج کو حرکت میں لانا ضروری ہے،اور یہ کہ امت پر واجب ہے کہ وہ ان حکمرانوں کےخلاف کھڑے ہوجائیں جنہوں نے افواج کو روکا ہوا ہے، یا ان دیگر تحریکوں کے پیچھے چلا جائے جو غلام اور زیر دست ریاستوں اور ایجنٹ حکمرانوں کے آگے جھک گئیں جنہوں نے فلسطین، اس کے لوگوں اور خود ان کا بھی سودا کیا، جبکہ آزادی کا علم بھی تھامے رکھا،اور اب لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے اچانک مکر گئے بہانہ یہ کیا کہ "جتنا کچھ ہوا اس سے زیادہ ممکن نہ تھا؟؟؟
جہاں تک مضمون نگا ر کے بقول بد تر ہونے کی بات کی ہے وہ کہتا ہے "اس سے زیادہ بدتر یہ ہے کہ اب حزب کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین پر قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو کافر قرار دے رہی ہے"!! تو وہ بتائے کہ یہ بات کہاں سے لایا؟؟ کیا حزب التحریر نے حماس، الجہاد یا حزب اللہ اور الفتح کو کافر کہاہے؟؟!! بلاشبہ حزب التحریر نے جنوبی لبنان میں، غزہ میں، عراق میں امریکی جارحیت کے مقابلے میں اور افغانستان میں مزاحمت کاروں کی ان کاروائیوں پر شاباش دی ہے، اور کہا کہ یہ بہادرانہ کارنامے ہیں، ایسی کاروائیوں کو انجام دینے والے ان شاء اللہ اجر کے مستحق ہوں گے، نہ صرف یہ کہ ان کی کاروائیوں کی اچھے انداز میں تعریف کی بلکہ مسلمانوں پر واضح کیا کہ ان کی مدد کرنا واجب ہے اور مسلم علاقوں اور انسانوں کو آزادی دلانےکے لئے فوج کی روانگی کو فرض قرار دیا ہے۔ مضمون نگار نے اپنی الزام تراشیوں کی تکمیل کرتے ہوئے حزب کے افراد پر یہ تہمت لگائی کہ یہ لوگ خود مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھاتے ہیں!! تو اس واضح بہتان کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ"اے مضمون نگار خدا کا خوف کر"۔
تاسعاً: مضمون نگار کہتا ہے: صالح زہر الدین سعید حمودہ کی باتوں کو دلیل بناتے ہوئے یہ ثابت کرچکا ہے کہ حزب التحریر کی نسبت سے جہاد فقط اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ ہے خواہ اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے،نہ کہ آزادی، ترقی، اور خوشحالی کے اہداف کا حصول۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے! حزب التحریر پر اعتراض کے لئے ایک ایسے شخص کے مضمون کو بنیاد بنایا ہے جو مخالف ذہن رکھتا ہے، بلکہ اگر مضمون نگار صالح زہر الدین کی باتوں پر غور کرتا تو وہ جان لیتا کہ اس کی باتیں حزب کی حقیقت اور تاسیس کے دن سے لے کر آج تک اس کی روِش کے ساتھ مکمل ٹکراتی ہیں۔ حزب التحریر جس نے اپنی فکر اور طریقے سے بال برابر انحراف نہیں کیا، باوجودیکہ جن ممالک میں حزب کام کرتی ہے، ریاستی اداروں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کیا ہے، تو ہر قیمت پر حصول اقتدار کی کوشش کیسے ؟ ؟ تعجب ہے مضمون نگار نے ان تحریکوں کونہیں دیکھا جن کا اولین مقصد اقتدار کا حصول تھا کہ کس طرح انہوں نے سمجھوتوں پر سمجھوتے کئے اور اپنے افکار سے دستبردار ہوگئیں۔
مذکورہ تفصیل کی بنا پر یہ واضح ہوا کہ مضمون نگار نے کوئی ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں ذکرکیا ، جس کی اس نے کوئی دلیل یا ثبوت بھی دیا ہو بلکہ جھوٹ اور بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ بیان کیا ہے، یقین کریں کہ ایک دفعہ تو ہم نے سوچا کہ ان گھٹیا باتوں کا جواب ہی نہ دیا جائے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ویب سائٹ کا ادارہ یہ قبول کرنے کے لئے تیار ہے کہ ہر ایرے غیرے کا وکیل بن کر اپنی ساکھ کھو بیٹھے؟ کیا ادارہ ادنیٰ درجہ کا کوئی کاروباری اور موضوعی اخلاق بھی نہیں رکھتا جس کی بدولت ادارہ ایسی بے ہودہ باتوں کے لئے میدان کھولنے سے پہلے سوچے؟ بالخصوص جبکہ حزب کے میڈیا آفس ہر سو پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے آدمی امت کے اندر موجود ہیں، ان سے ملنے اور ملاقات کرنے میں کوئی دشوار ی بھی نہیں۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک