الأربعاء، 25 محرّم 1446| 2024/07/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

قاتلوں کے ساتھ خائنوں کی بات چیت کی ابتدا منہ پر تھپڑ مارنے سے ہوئی! اتحاد کے خائن مکوں اور لاتوں سے ایک دوسرے کی تواضع کر رہے ہیں اور اپنے آقا امریکہ کو راضی کرنے کے لیے جنیوا2 کانفرنس میں شرکت کے لیےدوڑے چلے جا رہے ہیں

اتحادی ٹولے کے سرغنہ مجرم الجربا نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بے وقوفی اور دلالی میں سفاک بشار کی جگہ لینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے استنبول میں ہونے والےاہم اجلاس کے موقعے پر جس میں اتحاد کی جانب سے جنیوا 2 میں شرکت کا عندیہ ظاہر کیا گیا اس نے فری سیرین آرمی کے نمائندے لؤی المقداد کے منہ پر کچھ خیانت پر مبنی امور میں دونوں کے درمیان اختلاف ہونے پر طمانچہ مارا اور الجربا نے کُرد قومی کونسل کے ارکان کو اتحاد میں شامل کرنے پر اصرار کیا۔شامی قومی اتحاد کے رکن کمال اللبوانی نے اتحاد کے ارکان اور سرغنہ احمد الجربا پر الزام لگایا کہ وہ کُرد قومی کونسل کو شامی اپوزیشن اتحاد میں ضم کرنے کے حوالے سے امریکی اشاروں پر چل رہا ہے۔در حقیقت الجربا اور اس کا اتحاد اور ان کے ساتھ ادریس اور اس کی ملٹری کونسل سب نے شام کے مسلمانوں کے ساتھ بغیر کسی شرم و حیا کے بہت بڑی خیانت کی ہے اوران کے اس جرم پر کسی قیمت پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔
اے اسلام کے مسکن شام کے صابر اور ثابت قدم مسلمانو!کیا یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ تم اپنی قیادت اتحاد کے ان خائنوں کے سپرد کرو جنہوں نے مسلمانوں کے بد ترین دشمنوں روس اور امریکہ کی چھتری تلے ہونے والی جنیوا2 کانفرنس میں شرکت کی حامی بھر کر تمہارے خلاف بین الاقوامی سازش کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیاتاکہ ایک ایسے حکمران کے لیے راہ ہموار کی جائے جو امریکہ کا منظور نظر ہو اورہو سکتا ہے کہ یہ کوئی امریکی شہری ہی ہو کیونکہ اتحاد کے کئی ارکان دوہری شہریت کے حامل ہیں؟!۔۔۔اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ شام کے مسلمانوں کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں کیونکہ اللہ کے دشمن اور ان کی تحریک کے دشمن آل اسد کی مجرم حکومت میں سے امریکی ایجنٹ، نئے اتحاد میں سے لادین عوامی جمہوری ریاست کے داعی امریکی ایجنٹ سب کے سب اکھٹے ہوکر اہل شام میں سے ان مخلص لوگوں کے خلاف گھات لگا کر بیٹھ گئے ہیں جو اسد حکومت کے خاتمے کے ذریعے شام سے امریکہ کے اثرو رسوخ کی بیخ کنی اور خلافت اسلامیہ کے قیام کے لیے جان کی بازی لگا رہے ہیں ۔
اے شام کے مؤمن مسلمانو! اللہ کے حکم پر ہی ثابت قدم رہو اوراس بات پر بھی ثابت قدم رہو کہ تمہارا معاملہ تمہارے اپنے ہاتھ میں ہو اورجنیوا چاہے کوئی بھی نمبر والا ہو انکارکردو اورطعمہ اور اسد حکومت کو مسترد کردو اورکسی خائن الجربا کو نہیں صرف باوقار مخلص لوگوں کو قبول کر لو اور بابنگ دہل اس کا اعلان کرو جس کو تمہارا رب اوراس کا رسول ﷺ پسند کرتے ہیں اور اللہ تمہاری حالت کو بدل دیں گے یعنی خلافت راشدہ کا اعلان کروجس سے اسلام اور اہل اسلام کی عزت بحال ہو گی اورامریکہ اور اس کے ہمنوا رسوا ہو جائیں گے اوریہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔اس لیے صرف اللہ کے ساتھ ہو جاؤ تاکہ وہ تمہاری مدد کرے۔ اور حزب التحریر اپنا ہاتھ تمہاری طرف بڑھارہی ہے تاکہ اللہ کے ساتھ عہدکرلیا جائے ۔ہمارے رب کا فرمان ہے: (( إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا )) "اے محمد جو لوگ تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ یقینا اللہ سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔تو جو شخص عہد شکنی کرے وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا"۔(الفتح:10)

ہشام البابا
ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

کرائے پردی ہوئی پراپرٹی(جائد اد) پرکوئی زکوٰۃ نہں ۔۔۔۔۔۔۔۔ زکوٰۃ اس مال پرہے جس پرسال گزرجائے اوراس کانصاب بھی پوراہو

پریس ریلیز

اخبار(آخرلحظہ) شمارہ( 2572) کے مطابق ،خرطوم کے زکوٰۃ چیمبر اورعلاقائی عوامی کمیٹیوں کے سربراہان کے درمیان مشترکہ اجلاس میں یہ تجویز دی گئی کہ کرائے پر دیے گئے رہائشی گھروں پر بھی زکوۃ لاگو کی جائےاور زکوٰۃ لینے کیلئے مکان کے مالکان سے بذات خود رابطہ کیا جائے تاکہ چیمبر کی منصوبہ بندی کے تحت محصولات میں اضافہ کیا جائے ۔
آئمہ اورعلماء اسلام کااس پراتفاق ہے کہ عبادات کے معاملات کا تعین صرف اور صرف وحی کرتی ہے اس میں اجتہاد نہیں کیاجاسکتا۔ کوئی بھی فریق ،خواہ کتنا ہی شرعی قانون کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو، عبادات کے احکام میں کمی بیشی کامجاز نہیں اور زکوٰۃ عبادت ہے اورارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے حوالے سے ہم شرعی حدود کی پابندی کریں۔ لوگوں سے کوئی بھی مال نہیں لیا جاسکتا جس کی اجازت اسلا م نے نہ دی ہو ، اس لئے کرایہ پر دئی ہوئی جائدادوں اورتنخواہوں وغیرہ ، جس پراسلام نے زکوٰۃ فرض نہیں کی ، زکوٰۃ نہیں لی جائے گی۔
اسلام نے ان اموال کوواضح طور پر بیان کیاہے ، جن پر زکوٰۃ فرض ہے اوراس سلسلے میں کسی قسم کاابہام نہیں چھوڑاگیا۔ زکوٰۃ مندرجہ ذیل اموال پرفرض کی گئی ہے:
1۔ مویشی جیسے اونٹ ،گائے اوربھیڑبکری: اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کوابوذررضی اللہ عنہ نے نبیﷺ سے روایت کی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: «... مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ ولا بَقَرٍ ولا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ»"۔۔۔ کوئی ایساشخص نہیں جو اونٹ، گائے اوربھیڑبکریوں کامالک ہواوران کی زکوٰۃ ادانہ کرے ، مگرقیامت کے دن یہ جانورانتہائی موٹے اورفربہ ہوکرآئیں گے ، اس کواپنے سینگوں سے ماریں گے اور اپنے کُھروں اورسُموں سے روندتے جائیں گے، آخری جانورکے گزرجانے کے فوراً بعد پہلاجانورآپہنچے گا، (یہ معاملہ جاری رہے گا) یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیاجائے ۔" اس حدیث کو مسلم اوربخاری نے روایت کیاہے ۔
2۔ کھیتی اورپھل: اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کایہ قول ہے: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ"کٹائی کے دن ا س کاحق( زکوٰۃ) دیدیاکرو" (الانعام:141)۔ یہ آیت لسانی نقطہ نظرسے عام ہے اوررسول اللہ ﷺ نے چاراصناف کے ساتھ اس کی تخصیص کی ہے جوابوموسیٰ اورمعاذبن جبل کی حدیث میں آئے ہیں، ان کوجب رسول اللہﷺ نے لوگوں کودین کاعلم سکھانے کیلئے یمن بھیجاتوان سے فرمایا «لا تأخذا الصدقة إلا من هذه الأربعة الشعير والحنطة والزبيب والتمر»، زکوٰۃ صرف ان چارمیں سے لیاکرو۔ جو، گندم، کشمش اورکھجور۔ بیہقیؒ نے کہاہے کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں اوراس کی سند متصل ہے۔
3۔ سونااورچاندی: چاہے نقدی کی شکل میں ہویاغیرنقدی، ابوہریرۃ ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ ولا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ...» رواه الخمسة إلا الترمذي۔"کوئی سونے یاچاندی کامالک ایسانہیں جو اس کی زکوٰۃ ادانہ کرے، مگر جب قیامت کادن ہوگاتواس کیلئے آگ کی پلیٹیں تیارکی جائیں گی پھر ان کوجہنم کی آگ میں گرم کردیاجائے گا، پھر اس کے پہلو، پیشانی اورپیٹھ کوان سے داغاجائے گا، جوں ہی یہ پلیٹیں ٹھنڈی پڑجائیں گی توان کودوبارہ گرم کیاجائے گا، یہ اس دن ہوگاجوپچاس ہزارسال کے برابرہے (اوریہ معاملہ اس کے ساتھ ہوتارہے گا) یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کیاجائے اس کے بعد ہی اسے اپناراستہ نظرآئے گایاتوجنت کی طرف یاجہنم کی طرف۔"
4۔ سامان تجارت: اس میں وہ تمام اشیاء داخل ہیں جن کونقدی کے علاوہ بقصدمنفعت تجارت اورخریدوفروخت کیلئے استعمال کیاجائے ، جیسے کھانے پینے کی اشیاء، ملبوسات، فرنیچراوردیگرمصنوعی سازوسامان، حیوانات ، معدنیات، جائیداداور تعمیرات میں سے وہ اشیاء جس کی خرید وفروخت کی جائے ۔ تجارتی سامان پر زکوٰۃ فرض ہے ، اس میں صحابہ کااختلاف نہیں ، «عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنْ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ»"سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا : امابعد ،پس رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اس سامان میں سے زکوٰۃ نکال دیاکریں جسے ہم نے فروخت کیلئے رکھاہو۔"
تویہ وہ متعین اموال ہیں جن پراسلام نے زکوٰۃ واجب کردی ہے ۔ان پر غور و فکر سے یہ پتہ چلتاہے کہ وہ رہائش گاہ جو کرائے پر دی گئی ہو،ان پرزکوٰۃ نہیں، بلکہ زکوٰۃ ایسے مال پرہے جس کانصاب پوراہواوراس پرسال بھی گزرجائے۔
اس لئے زکوٰۃ چیمبر کرائے پر دیے گئے گھروں پر زکوٰۃ وصول نہیں کرسکتی ۔کرائے پر دیے گئےرہائشی جائیدادوں سے زکوٰۃ لیناحرام ہے۔اس طرح یہ مال لینا حرام ہے بالکل ویسے ہی جیسے زکوۃ چیمبر کے دیگر محصولات اکٹھا کرنے کے لیے غیر شرعی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے اور پھر انھیں خرچ بھی اس طرح سے نہیں کیا جاتا جیسا کہ شرع نے تعلیم دی ہے۔
ریاست خلافت جو اللہ کے اذن سے جلدہی دوبارہ لوٹنے والی ہے ، لوگوں سے صرف ان اموال کووصول کرے گی جن کواسلام نے فرض کردیاہے ، جس کی قرآن وسنت میں سے کوئی دلیل بھی موجود ہو۔ کیونکہ زکوٰۃ جوکہ اسلام کاایک رکن اورعبادت ہے، اس میں نصوص ہی کی پابندی کی جائے گی ،اللہ عزوجل کاارشادہے ولا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حلالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ "اورجن چیزوں کے متعلق محض تمہاراجھوٹادعویٰ ہے،اُ ن کےمتعلق یوں نہ کہاکروکہ فلاں چیز حلال اورفلاں حرام ہے، جس کاحاصل یہ ہوگاکہ اللہ پرجھوٹی تہمت لگاؤگے، بلاشبہ جولوگ اللہ پرجھوٹ لگاتے ہیں وہ فلاح نہ پائیں گے۔" (النحل: 116)

ابرہیم عثمان (ابوخلیل)
ولایہ سوڈان میں حزب التحریر کے ترجمان

Read more...

پاکستان سے امریکی وجود کا خاتمہ کرو مسلمان محرم میں لاشوں کو گنتے رہے جبکہ کیانی و شریف حکومت نے امریکہ کی موجودگی پر آنکھیں بند کررکھی ہیں

حزب التحریر راولپنڈی میں قتل ہونے والے مسلمانوں، ان کے املاک کو پہنچنے والے نقصان اوراس محرم کے مہینے میں ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مارے جانے مسلمانوں کی ہلاکت کی پرزور مذمت کرتی ہے اور کیانی و شریف حکومت کو ان تمام واقعات و سوانح کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ حکومت نے کرفیو نافذ کیا، موبائل فون اور ڈبل سواری پر پابندی لگائی کہ موبائل فون بم دھماکوں میں جبکہ موٹر سائیکل ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی نہیں رُکی ۔ درحقیقت یہ سوانح اس قسم کے نمائشی اقدامات سے روکنے والے نہیں بلکہ یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ ان قدامات سے محض یہ ہوا کہ لوگ اپنے گھروں میں محصور اورٹرانسپورٹ و مواصلات کے ذرائع اور سہولیات سے محروم ہو گئے۔ اس قسم کے سوانح اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک حکمران ہمارے درمیان زہریلے امریکی وجود کو موجود رہنے اور اپنا زہر پھیلانے کی اجازت دیتے رہیں گے جو فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی اصل وجہ ہے۔
پاکستان میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ اور خوف کی وجہ امریکہ کی بڑھتی ہوئی موجودگی ہے۔ اس صورتحال پر اس وقت حیرت نہیں ہوتی جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ جیسے ہی امریکہ نے عراق پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے قدم جمائے تو فرقہ وارانہ حملوں نے انتہائی بھیانک اور خوف ناک شکل اختیار کرلی تھی اور جو آج تک جاری ہے۔ ہمارےمعاملے میں یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب مشرف کے دور میں امریکہ نے اپنے قلعہ نما سفارت خانے اور قونصل خانوں کو توسیع دینا شروع کی جو پاکستان میں اپنے ایجنٹ تیار کرنے اور انھیں مالی و مادی وسائل فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں قائم امریکی سی۔آئی۔اے اور ایف۔بی۔آئی کے درجنوں دفاتر بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں جو ہمارے ہی لوگوں کے خلاف خفیہ آپریشنز کرتے ہیں۔ یہ امریکی دہشت گردی کا نیٹ ورک براہ راست تباہی و بربادی کے منصوبوں کی نگرانی کرتا ہے اور مقامی گروہوں میں اپنے ایجنٹ بھی داخل کرتا ہے۔ یہی وہ نیٹ ورک ہے جو ان تباہی و بربادی کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مالی وسائل، ہتھیار اور جدید ترین بم فراہم کرتا ہے۔ ہمارے درمیان فرقہ واریت کے مسئلہ نے ایک کینسر کا روپ اس وقت سے اختیار کیا ہے جب سے امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ہے۔
کرفیو صرف ان ہی علاقوں میں نہیں لگایا جانا چاہیے تھا جہاں پر صورتحال خراب ہوگئی تھی بلکہ ان امریکی مراکز کے گرد کرفیولگانا چاہیے تھا جہاں پر یہ شیطانی منصوبے بنائے جاتے ہیں اور دہشت گردوں کو مالی و مادی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ اگر ایسا کردیا جائے تو دہشت گردوں کو ملنے والی اکسیجن رُک جائے گی اور اس افراتفری کا خاتمہ ہوجائے گا۔
حزب التحریر دعوت دیتی ہے کہ پاکستان میں خلافت قائم کی جائے تا کہ اس خون خرابے کا خاتمہ ہو۔ یہ مسلمانوں کا خلیفہ ہی ہوگا جو امریکی سفارت خانے، قونصل خانوں اور اڈوں کو بند کرے گا۔ وہ امریکی سفارت کاروں، فوجیوں، نجی سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس کو ملک بدر کرے گا۔ لہٰذا صرف خلافت ہی تما م مسلمانوں کو امن اور تحفظ فراہم کرے گی اس بات سے قطع نظر کہ وہ جعفری، حنفی یا کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔

Read more...

مذاکرات کے ذریعے امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا ہے

پریس بریفنگ

پاکستان کے میڈیا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس نے اس مسئلہ پر مندرجہ ذیل پریس بریفینگ جاری کی ہے۔ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما کی ہلاکت کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟ آخر امریکہ کیوں "معتدل" طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟
میڈیا آفس ان سوالات کے جوابات کو جاننے کے لیے مندرجہ ذیل نکات کو پیش کررہا ہے:
1۔ جہاں تک طالبان سے عمومی طور پر مذاکرات کی بات ہے تو امریکہ افغانستان سے اپنے محدود انخلاء کے منصوبے کی آڑ میں افغانستان میں اپنی مستقل موجودگی کو مذاکرات کے ذریعے ایک قانونی حیثیت دینا چاہتا ہے۔ اسی منصوبے کا حصہ اسلام آباد میں دنیا کے دوسرے بڑے امریکی سفارت خانے کی تعمیر، افغانستان میں نو(9) امریکی اڈوں کا حصول اور ایک لاکھ سے زائد نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز کو افغانستان اور پاکستان میں تعینات کرنا بھی شامل ہے۔ افغانستان میں موجود طالبان ، جن کی بڑی تعداد پشتون ہے، اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اہم ہیں ۔ ان کی حمائت کے بغیر کوئی بھی معاہدہ بے معنی ہوگا کیونکہ افغانستان کی تاریخ میں پشتون ہی سب سے اہم اور بااثرگروہ ہے۔
جہاں تک پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کا تعلق ہے ، امریکہ کو اپنے منصوبے کی کامیابی کے لیے ان کی حمائت بھی درکار ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کے افغانستان کے پشتونوں سے گہرے اور مضبوط روابط ہیں ۔ پاک و افغان سرحد ڈیورنڈ لائن، جوکہ برطانوی استعمارنے قائم کی تھی، کے دونوں جانب رہنے والےپشتونوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے امریکی قابض افواج کے خلاف لڑنے والوں کے لیے فراہم ہونے والی معاونت کو ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ یہ چاہتا ہے کہ افواج پاکستان قبائلی علاقوں میں مصروف رہیں اور اس کے خلاف ہونے والی مزاحمت کا خاتمہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی ساکھ کو جس قدر ممکن ہو پشتونوں کی نظر میں خراب کردے۔ یقیناً امریکہ یہ امید کرتا ہے کہ اگر وہ امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک کو کمزور اور اس کی ساکھ کو خراب کردے تواس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ عام پشتون حکومت اور "معتدل" طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی حمائت کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ افغانستان اورپاکستان کےقبائلی علاقوںمیں لڑنے والے طالبان کئی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہیں جن میں آسانی سے اپنے ایجنٹ داخل کیے جاسکتے ہیں اور ان گروہوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ لہٰذا امریکہ ان گروہوں کو "معتدل" اور "سخت گیر" طالبان کے نام دیتا ہے۔
2۔ یقیناً امریکہ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہے کہ مسلمان اس کی مستقل موجودگی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ شک و شبہ طالبان، علماء دیوبند، پشتونوں، عمومی طور پر مسلمانوں اور خصوصاً افواج میں بھی پایا جاتا ہے۔ پہلے بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ امریکہ نے یہ محسوس کیا تھا کہ کیانی و زرداری حکومت اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی حمائت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔یہ نظر آتا ہے کہ اس صورتحال نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ اس نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لائے جسے اس نے اپنے ایجنٹ مشرف کے ذریعے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا کیونکہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ کی مزاحمت کرنے والےاسلامی دائیں بازو کی جماعتوں اور قوم پرستوں کے سخت موقف میں نرمی لانے میں کامیاب ہو جائے گا۔نواز شریف اور اس کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی معاشرے کے قدامت پسند طبقے میں جڑیں موجود ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے، امریکہ نے اپنے ایجنٹ نواز شریف کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ "ڈرون حملوں کے خاتمے" اور "انخلاء کے لیے امن مذاکرات" کو اہم مسائل کے طور پر اجاگر کرے۔ امریکہ مخالف موقف اپنانے سے،امریکہ یہ امید رکھتا ہے کہ نواز شریف امریکہ سے اپنے اتحاد کو چھپا سکتا ہے اور امریکہ کے مفادات کو زیادہ مزاحمت کا سامنا کیے بغیر حاصل کرسکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسا کہ ماضی میں مسلم دنیا میں دوسرے ایجنٹ بھی یہ کام اسی طرح کرچکے ہیں کہ انھوں نے خوب امریکہ مخالف نعرے بازی کی جبکہ ہر ممکن طریقے سے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے کام بھی کرتے رہے۔
3۔ یہ امریکی منصوبے کا حصہ ہے کہ اس کے ایجنٹ اس کے خلاف بیان بازی کریں تا کہ اس کی خواہشات کی تکمیل ہو سکے ،لہٰذا امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اس بات کو عام کریں کہ امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے۔ تو اس طرح ایسا نظر آئے گا کہ جیسے امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے اور امریکی مخالفت میں مسلمان ان مذاکرات کی حمائت کرنا شروع کردیں گے ۔ یہ ایک "ڈبل گیم" ہے جس کے تحت مسلمان یہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے کہ ایسا کر کے وہ امریکی منصوبے کو ناکام کررہے ہیں کیونکہ بظاہر امریکہ تو ان مذاکرات کی مخالفت کررہاہے۔ اس کے علاوہ، حکومت نے یہ جھوٹ بھی پھیلایا ہے کہ مذاکرات امریکہ کے خلاف کامیابی کی نشانی ہےجبکہ امریکہ کو ان مذاکرات کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایک طویل اور مہنگی جنگ کے بعدجو کچھ ممکن ہے اپنے لیےحاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا افغانستان اور پاکستان میں امریکی ایجنٹ اس امریکی "ڈبل گیم" کے تحت اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھا گیا جب نواز شریف تازہ ترین ہدایت لے کر امریکہ سے واپس آیاتو امریکہ نے پاکستان میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو قتل کردیا۔ ایجنٹوں نے بہت شور مچایا کہ مذاکرات کا عمل خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔ یکم نومبر 2013 کو انگریزی اخبار ڈان نے خبر شائع کی کہ "ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ ان کا نشانہ ملک میں امن کے قیام کی کوششوں کو سبوتاژکرنا ہے۔ کل(ہفتےکے دن) ایک وفد طالبان سے بات چیت کے لیے روانہ ہونے والا تھا۔ چوہدری نثار نے یہ بیان اس وقت دیا جبکہ اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی تھی کہ مارے جانے والا عسکریت پسند کمانڈر حکیم اللہ ہے"۔ پھر 2 نومبر 2013 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "جمعہ کو ڈرون حملے میں مارے جانے والے پاکستانی طالبان سربراہ کی ہلاکت کو خطے کے امن پر امریکی حملہ قرار دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ہفتے کو کہا کہ امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی"۔ اور 2 نومبر 2013 کو ہی ڈان اخبار نے یہ خبر شائع بھی شائع کی کہ "وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت محسود کی تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے منصوبے کوآگے لے جانا چاہتی ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ اس بار ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈرون نے امن مذاکرات پر حملہ کیا ہے لیکن ہم امن مذاکرات کے عمل کو ختم نہیں ہونے دیں گے"۔ جہاں تک افغانستان میں امریکی ایجنٹوں کا تعلق ہے تو ایکپریس ٹربیون نے AFPکے حوالے سے 4نومبر 2013 کو یہ خبر شائع کی کہ "افغان صدر حامد کرزئی نے تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی غلط وقت پر امریکہ کے ہاتھوں قتل کیے جانے پر نکتہ چینی کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ واقعہ علاقائی امن کی کوششوں کو ناکام کرنے کا باعث نہیں بنے گا۔ کرزئی نے افغانستان کے دورے پر آئے امریکی کانگریس کے وفد سے کہا کہ ڈرون حملہ صحیح وقت پر نہیں کیا گیا لیکن وہ امید رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں امن کے عمل کو نقصان نہیں پہنچے گا"۔
4۔ یہ اسی "ڈبل گیم" کا نتیجہ ہے کہ امریکی ایجنٹ ڈرون حملے کی مذمت کرنے کے باوجود طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے پر بھی اصرار کررہے ہیں۔ 3نومبر2013کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جس ڈرون حملے میں محسود مارا گیا اور اس سے ایک روز قبل ہونے والے ڈرون حملے پر احتجاج کرنے کے لیے اس نے پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کوطلب کیا۔ وزارت سے جاری ہونے والے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ڈرون حملے کے باوجود حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذکرات کے عمل کو جاری رکھنے کا قطعی ارادہ رکھتی ہے"۔ اور 3نومبر2013 کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ "جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے ہفتے کو حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ حالیہ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کے قتل کے باوجود وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ مولانا نے کہا کہ حکیم اللہ کی موت نے ملک میں ایک جذباتی فضاء قائم کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان کے سربراہ کے قتل کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل کچھ دنوں کے لیے تاخیر کا شکار ہوجائےگا لیکن امن اور مفاہمت کے دشمنوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی اجازت نہ دی جائے"۔

5۔ امریکہ ایک طرف بظاہر یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ مذاکرات کا مخالف ہے جبکہ درحقیقت سرحد کے دونوں جانب "معتدل" طالبان کے ساتھ بات چیت اس کی اس وقت شدید ضرورت ہے تا کہ وہ خطے میں اپنے موجودگی کو جاری رکھ سکے اور یہ مفاد امریکہ اپنے بزدل فوجیوں اور دم توڑتی معیشت کے بل بوتے پر میدانِ جنگ میں حاصل نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب امریکہ مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ "سخت گیر" طالبان صرف امریکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اس کوشش کا مقصد مزاحمت کی ساکھ کو مسلمانوں کی نظر میں خراب کرنا اور مذاکرات کے لیے فضاء پیدا کرنا ہے اور یہ کہ امریکی قبضے کے خلاف مسلسل مزاحمت کی رائے عامہ کو تبدیل کیا جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے پاکستان میں قتل و غارت گری اور بم دھماکوں کی مہم چلائی جبکہ اس کے ایجنٹ ہر بم دھماکے اور قتل کے بعد یہ چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ "دیکھو، بہرحال اب یہ جنگ ہماری بھی ہے"۔ دنیا بھر میں اس قسم کی مجرمانہ اور تباہ کن مہم چلانے کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔یہ حملے False flag attacksکہلاتے ہیں جس میں خود ہی حملہ کیا جاتا ہے اور اس کا الزام اپنے مخالف پر ڈال دیا جاتا ہے تا کہ اپنی فوجوں کو اپنے مخالفین کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا جائے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔ ایسے حملے کروانا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے براہ راست یا مزاحمتی گروہوں میں اپنے ایجنٹ داخل کرکےاور پاکستانی ایجنسیوں میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے حملے کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں، افواج اور لوگوں کو تو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اور امریکی قونصل خانے حملے اور تباہی سے محفوظ رہیں۔ لہٰذا اِن پُر تشدد واقعات کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے ایک نیا تصور پیش کیا ہے کہ افواج پاکستان کا قبائلی علاقوں میں رہنے کا مقصدپاکستان کو اندرونی خطرے سے محفوظ رکھنا ہے۔اس نئے تصور کواس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے پیش کیا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز ان پشتون مسلمانوں کے خلاف کیے جاتے ہیں جو سرحد عبور کر کے افغانستان پر قابض امریکی افواج کے خلاف لڑتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ان حملوں کے ذریعے امریکہ نے اپنی جنگ کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ یکم دسمبر 2009 کواوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد اُنکی جنگ نہیں ...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے ... تو یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کے تین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کےلوگ جتنا زیادہ ان کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔
یہ خوفناک اور بہیمانہ تشدد جاری رہے گا تا کہ امریکی ایجنٹ افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں رکھنے کا جواز پیش کرسکیں۔ یقیناً امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ نہ صرف پاکستان کے عوام امریکی جنگ، امریکہ کی موجودگی اور اس کے انخلاء کے منصوبے کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی اکثریت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کی مخالف ہے۔ تو امریکہ اپنی یہ کوشش جاری رکھے گا کہ تحریک طالبان پاکستان کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے تا کہ قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان کی موجودگی کے لیے ایک جواز مہیا ہوسکے اورپاکستان کے عوام کو کسی حد تک مطمئن کیا جاسکے۔لہٰذا اس کے منصوبے کے ایک حصے کے تحت امریکہ افغانستان کےمسلمانوں سے جنگ کررہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی انخلاء اور افغان آرمی کو معاملات سپرد کرنے کی بات بھی کررہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ پاکستان کی افواج، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف رہیں۔ اس طرح امریکہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ خطے میں اپنی موجودگی کو انخلاء کے پردے میں برقرار رکھ سکے گا۔
6۔ لہٰذا امریکہ ، پاکستان اور افغانستان دونوں ہی جگہ حقیقی امن کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ خطے میں فوجی آپریشنز میں اس کی شمولیت کم سے کم ہو کیونکہ اس کی افواج کی ساکھ اور معیشت اگرچہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی مگر انتہائی خستہ حال ضرور ہوچکی ہے۔لیکن وہ اپنے سٹریٹیجک مفادات کے حصول کے لیے خطے میں اپنی افواج کی ایک اچھی تعداد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اب تک کی تمام تر کوششیں ضائع ہو جائیں گی۔ امریکہ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے اہداف کے حصول اور اپنی موجودگی کو برقرارکے لیےایک معاہدہ چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ 2014 کے بعد بھی اپنی افواج کی موجودگی کے جواز کے لیے وہ طالبان کے خطرے کو پیش کرتا رہے گا۔ درحقیقت امریکہ اور افغانستان کے درمیان ہونے والے سٹریٹیجک معاہدے کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکی افواج کو افغانستان میں رہنے کی اجازت دینے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ آزادانہ دہشت گردی خلاف فوجی آپریشنزکرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر باراک اوبامہ جہاں انخلاء کی بات کرتا ہے وہی انتہاپسندوں کے خطرے کی بھی بات کرتا ہے۔ 23 مارچ 2013 کو اوبامہ نے کہا "افغانستان میں ہم سکیورٹی کی ذمہ داری افغانیوں کے حوالے کردیں گے۔ ہماری افواج گھر واپس آجائیں گی۔ ہمارے جنگی مشن ختم ہوجائیں گے۔ اور ہم افغان حکومت کے ساتھ مل کر ان کی سکیورٹی فورسز کی تربیت کریں گے اور اس دہشت گردی کے خلاف ایک فورس قائم کریں گے جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ القائدہ کبھی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں حاصل نہ کرسکے۔ افغانستان سے باہر دہشت گردی کے خلاف ہم عالمی جنگ نہیں کریں گے بلکہ ہماری کوششیں اس بات پر مرکوز ہوں گی کہ ہم امریکہ کے خلاف کام کرنے والے مخصوص انتہاپسند گرہوں کے خلاف ٹارگٹ آپریشن کریں۔ کئی معاملات میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا"۔ دہشت گردی کے خطرے کو پیش کرکے امریکہ نے اپنی موجودگی کا مستقل جواز فراہم کردیا ہے جبکہ وہ خود اس خطے کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔
7۔ خلاصہ:امریکہ طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔ وہ یہ بات جانتا ہے کہ ایسے کسی معاہدے کے بعد ہی وہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنزاور افغان آرمی کی تربیت کی آڑ میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو امریکہ یہ جانتا ہے کہ افغانستان میں کوئی امن معاہدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک افغانستان کے سرحدی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سے پشتون علاقے کو اس پر راضی نہ کرلے۔ باخبر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم علاقوں میں امریکی موجودگی کے خطرات کو سمجھیں، چاہے یہ موجودگی سفارتی شکل میں ہو یا فوجوں کی موجودگی کی شکل میں یا امریکی نجی سکیورٹی اداروں اور امریکی انٹیلی جنس کی موجودگی کی شکل میں ہو۔ یہی وہ امریکی موجودگی ہے جو بم دھماکوں کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جو بات چیت کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کے رخ کا تعین کرتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جس نے مسلمانوں کے لیے ہر قسم کی مصیبت پیدا کی ہوئی ہے۔ اسلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس موجودگی کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ مقصد نہ تو کوئی گروہ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی بات چیت کے ذریعے امریکی موجودگی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ صرف اور صرف ریاست اپنی افواج کو متحرک کر کے ہی امریکی موجودگی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ امریکہ اپنے قیام سے لے کر آج تک کبھی بھی کسی بین لاقوامی معاملے کو حل نہیں کرسکا۔ اور اس کی معیشت میں شدید کمزوری اوراس کی بزدل افواج نے اب تو اس کی یہ صلاحیت مزید کم کردی ہے۔ غدار مسلم حکمران اب بھی اس کے خوف اور دبدبے کی وجہ سے ایسے ہی اطاعت کررہے ہیں جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد بھی جن یہ سمجھتے ہوئے ان کی اطاعت کرتے رہے جیسے کہ وہ اب بھی زندہ ہوں۔ اور اِنہی غداروں کی وجہ سے ہمارے علاقوں میں امریکی اثرو نفوذ اب تک باقی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی کرپشن اور اس کے غلط ہونے کی وجہ سے امریکہ کی ناکامی یقینی ہے ۔ یہ وہ نظام ہے جس کا امریکہ عَلم بردار ہے اور اسے پوری دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی ناکامی اس کے پالیسی سازوں کی نااہلی کی وجہ سے بھی یقینی ہے۔ لیکن صحیح اور حقیقی رہنما جو اس دنیا کے معاملات کو انصاف اور حق کی بنا پر چلائیں گے جیسا کہ خلفائے راشدین تھے ،تو ایسا صرف جلد ہی قائم ہونے والی خلافت کے قیام کے ذریعے ممکن ہوگا اور حزب التحریر کے شباب وہ رہنما ہوں گے۔ یہی شباب وہ ہوں گے جو امریکہ اور مغرب کو سیکھائیں گے کہ کس طرح دنیا کے معاملات کو خلافت کے زیر سایہ چلایا جاتا ہے۔ اور وہ اس خود ساختہ بین الاقوامی براداری کو اپنے اشاروں پر نچائیں گے اور وہ دن جلد ہی آنے والا ہے۔
وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ ۭ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ
"یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان کی تمام چالوں کا علم ہے اور ان کی چالیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں " (ابراھیم:46)

Read more...

جمہوریت:  عوام کےلئے موت ہے

پریس ریلیز

عوام کو عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی کے خونخوار پنجوں سے چھڑانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوج کے مخلص افسران موجودہ حکومت کو برطرف کرکے اقتدار ان مخلص اور بیدار سیاستدانوں کو منتقل کریں جو اسلام کے ذریعے حکمرانی کریں گے
اپوزیشن اتحاد کی جانب سے انتخابات کے دوران غیر جانبدار عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے کے لیے ہونے والے مظاہروں میں گزشتہ چار دنوں کے دوران سیاسی تشدد اور پولیس کی جانب سےگولی چلانے سے 20 سے 25 افراد قتل کردیے گئے ۔اس طرح 2013 میں سیاسی تشدد اور پولیس گردی کے ذریعے قتل کیے گئے افراد کی تعداد تقریبا 2800 ہوگئی ہے۔صرف یہی لوگ جمہوریت کے ہاتھوں مارے نہیں گئے بلکہ جمہوریت نے تو اپنے نفاذ کے پہلے ہی دن سے مختلف طریقوں سے بے شمار لوگوں کو قتل کیاہے۔رانا پلازہ میں اپنے پیاروں کو کھونے والوں کی چیخ وپکار کی آوازیں اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔جمہوریت کے ہاتھوں قتل ہونے والے تمام افراد کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ترتیب دی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ جمہوریت کے متعلق بیان کی گئی مندرجہ ذیل تمام باتیں بھی درست ہیں:
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرپشن اور لوٹ مار
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھی آبادی کا غربت کی دلدل میں زندگی گزارنا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواتین کو استحصال کا نشانہ بنانا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام کی صورت کو بگاڑنا اورنبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا
جمہوریت کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استعمار کا غلبہ
وغیرہ وغیر۔۔۔۔۔
یہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے عوامی لیگ، نیشنل پارٹی اور جمہوریت کی پالیسیوں کا انعام ہے۔پھر نام نہاد آزاد اور شفاف انتخابات کی ضمانت کا یہ واویلا کس لیے؟! کیا اس بات کی کوئی اہمیت ہے کہ حسینہ یا خالدہ مذاکرات کرتی ہیں یا نہیں؟! یہ دونوں بے اختیار اور مجبور ہیں۔ یہ دونوں اپنے آقا ؤں ، امریکہ اور ہندوستان کے ایجنٹ ہیں۔ حسینہ اور خالدہ کے درمیان کو ئی بات چیت ہو بھی جاتی ہے یا تمام پارٹیاں انتخابات میں حصہ بھی لے لیتی ہیں، نتائج پھر بھی وہی ہوں گے۔لوگوں کی زندگیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔حقیقی تبدیلی صرف موجودہ نظامِ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے ہی آئے گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فوج کے مخلص افسران کو اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑاہونا پڑے گا۔ لوگ تبدیلی کے لیے چیخ وپکار کررہے ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں تبدیلی لانے کی طاقت نہیں ہے۔ تبدیلی لانے کی طاقت مخلص افسران کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ انھیں کے پاس وہ طاقت ہے جس کے ذریعے حکومت کو اٹھا کر پھینکا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حکومت کا خاتمہ کریں نہ کہ کوئی فوجی حکومت قائم کردیں، بلکہ ریاست خلافت کے قیام کے لیےاقتدار کو مخلص اور بیدار سیاست دانوں کے سپرد کریں۔
لہٰذا حزب التحریر تمام مخلص اور بیدارلوگوں کو دعوت دیتی ہے کہ:
1۔ عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی کی حکو مت کو مسترد کردیں۔ ان کے جرائم پر خاموش نہ رہیں تاکہ یہ(عدم خاموشی) ان کے خلاف شہادت بن جائے۔ اور ووٹ کے ذریعے انھیں دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ان کے درمیان دوبارہ مذاکرات اور انتخابات کا انتظار نہ کریں۔
2 ۔ اس نظام سے چھٹکارہ پانے اور ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے ساتھ مل کر کام کریں۔
3 ۔ فوج میں موجود اپنے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں میں سے مخلص افسران سے حکومت کو برطرف کرکے اقتدار ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو منتقل کرنے کا مطالبہ کریں۔
فوج کے مخلص افسران کو ہماری یہ دعوت ہے کہ :
1 ۔ مسلمان ہونے کے ناطے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے اٹھ کھڑے ہو جاؤ۔ جتنا باقی مسلمانوں پر ریاست خلافت کا قیام فرض ہے اتنا ہی تم پر بھی ہے بلکہ تم پر ریاست خلافت کے قیام کا فرض دوسرے تمام مسلمانوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ اقتدار کی کنجی تمھارے ہاتھوں میں ہے۔
2 ۔ اپنے اس حلف کی پاسداری کرو جو تم نے ملک و قوم کی حفاظت کے لیے اٹھا رکھی ہے۔ تمہاری قسم اس حکومت کی چوکیداری کے لیے تو نہیں تھی جو اپنی عوام کو ظلم وستم کا نشانہ بنا کر دشمن کی خدمت کر رہی ہے۔
3 ۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرو اور دوسری خلافت راشدہ قائم کرکے انصار جیسے بن جاؤ۔ انصار کی مدد سے رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی اور وہ ریاست 1324 ھ/1924ء تک قائم رہی ۔اگر تم دوسری اسلامی ریاست کے انصار بن گئے تو اللہ تمہیں بھی ان شاء اللہ پہلے انصار کی طرح اجر عطا فرمائیں گے۔اس لیے تم فوراَ َ شیخ حسینہ کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار ریاست خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے حوالے کرو۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے پکاریں جس میں زندگی ہے"( الانفال:24)

Read more...

خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کے حصول کی مہم افواج پاکستان لازماً خلافت کا قیام عمل میں لائیں اور اللہ کےعلاوہ کسی سے نہ ڈریں

حزب التحریر ولایہ پاکستان ،ملک بھر کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کی مہم چلارہی ہے۔جس طرح رسول اللہﷺ نے انصارکی نصرۃ (مدد)سے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تھی،ویسے ہی حزب کے بہادر شباب نبوت کے اس طریقہ کار کے مطابق افواج پاکستان سے خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ افواج پاکستان میں موجود اپنے والد، چچاؤں، بھائیوں اور بیٹوں سے مطالبہ کریں کہ وہ کفریہ جمہوریت کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے نفاذ کے لیے مدد فراہم کریں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں : وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور تم ایسے وبال سے بچوکہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے" (الانفال:25)۔ ہمارا ایمان ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کبھی بھی ظالم کے ظلم سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ ہمیں اللہ کے غضب سے ڈرنا چاہیے اگر ہم نے ظالم کے کھڑے کیے ہوئے فتنے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی معاشی بدحالی اوراقوام عالم کے سامنے تذلیل کی دلدل میں ڈوب جانے پر خاموشی اختیار کی۔اب بہت ہوچکا کہ آپ کے درمیان مشرف اور کیانی جیسے لوگوں کو مزید برداشت کیا جائے!بہت ہوچکی ان کی اطاعت جو زرداری اور نواز شریف جیسے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں! ان غداروں کی غداری کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور ان کے امریکی آقاؤں کو ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کی حزب التحریر کی جدوجہد کا ساتھ دو۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی مصیبت تم پر نہیں آسکتی، اللہ کی راہ میں آگے بڑھو۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُمْ مِنْ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلاَ يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا "پوچھئے!اگر اللہ تعالٰی تمھیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمھیں بچا سکے؟اپنے لیے سوائے اللہ تعالٰی کے نہ کوئی حمائتی پائیں گے نہ مددگار" (الاحزاب:17)۔

مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک