الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

تمام امریکی اہلکاروں کو گرفتار اور امریکی سفارت خانے کو بند کرو سبزی منڈی میں قتل عام: ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک نے کور کمانڈرز کانفرنس کے منہ پر تھپڑ مارا ہے

بدھ 9 اپریل 2014 کے دن جب راولپنڈی میں کور کمانڈرز کانفرنس جاری تھی کہ دارلحکومت ، اسلام آبادکی سبزی منڈی میں ایک خوفناک بم دھماکے نے زبردست تباہی مچادی۔ کم از کم 19 افراد اس دھماکے میں جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک نے افواج پاکستان اور ان کی قیادت کے منہ پر تھپڑ مارا ہےجو کئی سال قبل تنظیمی لحاظ سے کمزور قبائلی نیٹ ورکس میں سرائیت کر چکا ہے۔ یہ تھپڑ امریکی خارجہ پالیسی کا شاخسانہ ہے خاص طور پر محدود تنازعات کو پروان چڑھانے کی امریکی پالیسی جس کے تحت "بلیک آپریشنز " کے ذریعے ان محدود تنازعات کو ہوا دی جاتی ہے۔
جب تک پاکستان ہر قسم کی امریکی موجودگی کا خاتمہ نہیں کردیتا، ہماری افواج اور عوام اس فتنے کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ ہماری افواج کو لازماً امریکی سفارت خانےکو بند کرنےاور امریکی اہلکاروں بشمول اس کے سفارت کاروں ، فوجی اہلکاروں ، انٹیلی جنس اور نجی امریکی سیکورٹی تنظیموں کو ملک بدر کرنے کے لئے حرکت میں آنا چاہیے۔ اور ہمارے قبائلی عوام کو اپنے درمیان موجود ان فساد پھیلانے والے عناصر کو نکال دینا چاہیے جو افواج پاکستان پر حملے کرنے کی دعوت دیتے ہیں بلکہ انہیں افواج پاکستان سے خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ طلب کرنی چاہیے۔
ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری افواج اور قبائلی جنگجو اپنے گولہ بارود کا رخ امریکہ کی جانب موڑ دیں جوحملوں کی منصوبہ بندی، سرمائے اور جدید ترین گولہ بارود کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے جس کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے فوجی و شہری تنصیبات پر حملے ہو رہے ہیں۔جب تک ہماری سرزمین پر امریکہ موجود رہے گا ہم کبھی بھی اس بھیانک جنگ کا خاتمہ ہوتے نہیں دیکھ سکیں گے چاہے ہم اس سے بھی زیادہ نقصان ہی کیوں نہ اٹھا لیں جتنا کہ پہلے ہی اٹھا چکے ہیں۔ اور یقین رکھیں کہ خلافت کی واپسی پر ، جس کا قیام انشاء اللہ قریب ہے، ہماری افواج اور قبائلی جنگجوؤں دونوں کو بغیر کسی تاخیر کے خطے سے امریکی موجودگی کے خاتمے کے لئے حرکت میں لایا جائے گا۔ اور ان کا حرکت میں آنا کافر امریکہ کو خوف سے کپکپانے پر مجبور کردے گا اور اس امت کے خلاف ان کی ناپاک خواہشات کو ان کے منہ پر دے مارے گا۔
ہم افواج پاکستان میں موجود اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خطے میں امریکی موجودگی کے خاتمے کے لئے حزب التحریر کو خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ فراہم کریں جو امریکہ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا اور خلافت اس امت پر مسلط ہونے والی تذلیل اور شکست کے دور کو عزت، طاقت اور شہرت کے دور سے بدل دے گی۔انشاء اللہ
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
"عزت تو صرف اللہ تعالٰی کے لئے اور اس کے رسولﷺ کے لئے اور ایمان والوں کے لئے ہے لیکن یہ منافق نہیں جانتے " (المنافقون: 8)

Read more...

قومی اسمبلی نے امریکی کالے قانون کو منظور کیا ہے تحفظ پاکستان بِل امریکی راج کو تحفظ فراہم کرے گا

کل رات ،پیر ، 7اپریل 2014 کو راحیل۔نواز حکومت نے قومی اسمبلی میں اپنی عددی برتری کو استعمال کرتے ہوئے "تحفظ پاکستان بِل" کے نام پر ایک کالے قانون کو منظور کرلیا۔ یہ قانون مبینہ ملزمان کو دیکھتے ہی گولی مارنے، 90 دن تک بغیر کسی عدالتی کاروائی کے قید اور قید کی جگہ کو خفیہ رکھنے کے غیر معمولی اختیارات فراہم کرتا ہے۔ کیا پاکستان کو تحفظ فراہم کرنے کا یہ طریقہ ہے؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اِن طریقوں کو پچھلے تیرہ سالوں سے استعمال کررہے ہیں۔ یہ قانون دہشت گردی کےخلاف لڑنے کے لئے نہیں بنایا گیا کیونکہ اس بِل میں جتنی بھی تجاویز دیں گئی ہیں وہ تمام کی تمام نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی شروعات سے استعمال کی جارہی ہیں۔ اگر راحیل۔نواز حکومت دہشت گردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کا خاتمہ کرچکی ہوتی جو دہشت گردی کی اصل وجہ ہے۔ درحقیقت یہ قانون اُن لوگوں کی زبانوں کو تالا لگانے کے لئے بنایا گیا ہے جو ملک سے امریکی راج کے خاتمے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کے دین کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اس قسم کےقوانین کا مقصدامریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے اورامریکہ مسلم دنیا میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان قوانین کو نافذ کرواتا ہے۔ 1970 سے امریکہ نے اپنی مرضی کے مطابق داخلی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کی تعریف کا تعین کیا ہے۔ کمیونزم کے خاتمے کے بعد جب سے امریکہ نے اسلام کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے، وہ دہشت گردی کے خلاف قوانین کو مسلم ممالک میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے اور انہیں اپنی گرفت میں رکھنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اسلامی تحریکوں کو امریکہ دہشت گرد قرار دیتا ہے یہاں تک کہ ان سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کو بھی دہشت گرد قرار دیتا ہے جو اپنے مقصد کے حصول کے لئے عسکری یا مادی جدوجہد نہیں کرتیں۔ لہٰذا امریکہ ہر اس جماعت، تحریک یا ریاست کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جو اسلام کی واپسی کی جدوجہد کرتیں ہیں اور اُن کی اِس جدوجہد کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ اس جواز کو استعمال کر کے اور ان ریاستوں کو مجبور کر کے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف قوانین اختیار کررکھے ہوتے ہیں ،امریکہ اس قابل ہوتا ہے کہ مسلم ممالک کی افواج کواپنی قیادت میں حرکت میں لائے اور اِن جماعتوں، تحریکوں اور ریاستوں کی قیادت کو نشانہ بنائے۔
اس امریکی راج کے قانون کی منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اسلام کے خلاف امریکی صلیبی جنگ کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں۔ قانون بنانے کی طاقت اور عددی اکثریت کے زور پر ان غیر انسانی اعمال کو قوانین کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ یہ ہے انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کی حشرانگیزیاں کیونکہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت ، ایک دستخط سے حرام کو حلال قرار دیا جاسکتا ہے۔
اب میڈیا اور دوسرے شعبوں میں موجود اُن مسلمانوں پر یہ لازم ہے جو خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں یا اس کی حمائت کرتے ہیں کہ وہ اس قانون کی حقیقت کو اسلامی اور بین الاقوامی رائے عامہ کے سامنے بے نقاب کریں۔ وہ لازمی اِس امریکی پالیسی کو آشکار کریں کہ امریکہ اِن قوانین کے ذریعے دنیا پراپنی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور یہ کہ دنیا بھر میں ہونے والے بم دھماکوں اور حملوں کے پیچھے کسی مسلم فرد، جماعت یا ریاست کا ہاتھ نہیں بلکہ درحقیقت امریکہ کااپناہی ہاتھ ہوتا ہے۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

نوید بٹ کو رہا کرو مہم حزب التحریر نے نوید بٹ کو رہا کرو مہم کے تحت ایس۔ایم۔ایس جاری کردیا

حزب التحریر ولایہ پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل ایس۔ایم۔ایس کو پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ، جو 11 مئی 2012 سے حکومتی ایجنسیوں کے غنڈوں کی تحویل میں ہیں، کی حمائت میں ہر اس شخص کو بھیجیں جنہیں وہ جانتے ہیں ۔
"میں اللہ کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان میں خلافت کے عظیم داعی ،نوید بٹ کے اصولی اور بہادرانہ موقف کی حمائت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں ان کی دو سالہ طویل جبری گمشدگی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتا ہوں ۔ برائے مہربانی اس پیغام کو اپنے دوستوں کو بھیجیں۔ اللہ تعالٰی بہت جلد امت کو خلافت عطا فرمائے"۔

 

Read more...

صرف خلافت ہی سندھ کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے

پریس ریلیز
پیر 10 مارچ کو رائیٹرز، بی۔بی۔سی اور میڈیا کے دیگراداروں نے یہ خبر دی کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں پچھلے چند ماہ کے دوران سیکڑوں بچے قحط کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غذائیت کی کمی اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مقامی میڈیا نے اس علاقے میں پچھلے تین ماہ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 140 کے لگ بھگ بتائی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس قحط سے 9 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ پیر کے دن پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اس علاقے کا دورہ کیا اور 10ملین ڈالر کی امداد اور خالی وعدوں کا اعلان کیا کہ "لوگ جلد ہی اپنے گھروں کو جانے کے قابل ہوجائیں گے اور خوشحالی اس علاقے میں بھی آئے گی"۔
ایک کے بعد دوسری آنے والی پاکستان کی نااہل اور سیکولر قیادت نے قدرتی آفات کو انسانی المیے میں تبدیل کردیا ہے۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے لوگوں پر آنے والی اس آفت میں کئی گنا اضافہ کی ذمہ دار دہائیوں سے جاری ناکام سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیاں، وسائل کی نامناسب تنظیم، زراعت کے شعبے میں ضرور ت سے انتہائی کم سرمایہ کاری اور پاکستان کی کرپٹ، اپنی جیبیں بھرنے والی جمہوری اور آمر حکومتیں اور حکمران ہیں ۔ اس علاقے میں صحت کی مناسب سہولیات کے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غربت نے ایسی صورتحال کو پیدا کیا جس کے نتیجے میں اس مسئلہ کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کا تاخیر سے پہنچنے کی وجہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹروں کو سالوں سے ان کے باقیاجات ادا نہ کرنا بھی بتایا جارہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کے ذمہ ٹرانسپورٹروں کے 60 ملین روپے کی ادائیگی واجب ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ انسانی المیے سے بچا جاسکتا تھا اگر اس کا سامنا کرنے کی تیاری اور احتیاتی تدابیر اختیار کرلی جاتیں لیکن ایسا اس صورت میں ممکن تھا اگر ملک کے حکمران صاحب بصیرت اور اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوتے۔ لہٰذا ان بچوں کی اموات کی ذمہ داری صرف اور صرف سابقہ اور موجودہ سیکولر حکومتوں اور نظام پر عائد ہوتی ہے جس نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک ادارہ تو بنا دیا لیکن اس کو کام میں نہیں لاتے۔ مزید یہ کہ یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے کہ کئی مہینے کے قحط اور سینکڑوں اموات کے بعد پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے اس بحران کی سنگینی کا احساس کیا ہے۔ کیا متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے حکومتی اداروں کو فوراًپہنچ نہیں جانا چاہیے تھا؟ لیکن اس کی جگہ امت پر ایسے لوگ حکمران ہیں جو ایک ایسے وقت میں مہنگے اور نفیس ترین کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ اس امت کے بچے بھوک سے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ایک ایسا ملک جس کا سب سے اہم قدرتی خزانہ اس کی قابل کاشت زمین اور پانی ہے اور جو دنیا میں گندم، چاول، دودھ، گنا اور چنے کی پیداوار میں سرفہرست ہے، وہاں پر لوگ غربت اور غذائی قلت کا کیسے شکار ہوسکتے ہیں۔
صرف خلافت ہی سندھ اور پوری مسلم دنیا کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند اسلام کی حکمرانی میں دنیا میں زراعت کی پیداوار کا انجن تھا اور اس کی معیشت کُل دنیا کی معیشت کا 25فیصد تھی اور ایسا صرف اسلام کے معاشی نظام اور زرعی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ خلافت کی دولت اس قدر وسیع تھی کہ وہ دوسرے ممالک کو قدرتی آفات کی صورت میں امداد فراہم کرتی تھی جیسا کہ انیسویں صدی میں عثمانی خلافت نے تین بہت بڑے بحری جہاز جو غذائی اجناس سے لدے ہوئے تھے، اس وقت آئرلینڈ بھیجے جب وہ شدید قحط سالی کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ صرف ریاست خلافت ہی ہوگی جو اسلامی قوانین کو مکمل طور پر نافذ کرے گی جس کے نتیجے میں امت صحیح معنوں میں خوشحالی کے تصور سے آشنا ہوگی۔ خلافت زرعی زمینوں کو منظم اور انہیں سیراب کرے گی اورمسلم دنیا کے بیش بہا خزانوں کو پوری امت کے مفاد میں استعمال کرے گی اور اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ یہ دولت چھوٹے سے امیر اشرافیہ کے گروہ کی ملکیت میں نجکاری کے نام پر دے دی جائے یا وہ اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں۔ یہ وہ ریاست ہو گی جس کے مخلص حکمران اس ذہنیت کے حامل ہوں گے کہ ان پر عوام کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ دوسرے خلیفہ راشد، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے ہوں گے جنہوں نے اس وقت جب جزیرۃ العرب شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا تو مصر کے گورنر امر بن العاص کو حکم جاری کیا کہ دریائے نیل اور بحیرہ احمر کے درمیان ایک نہر کے ذریعے غذائی اجناس جزیرۃ العرب بھیجیں اور کہا کہ "اگر تم یہ چاہتے ہو کہ مدینہ میں بھی غذائی اجناس کی وہی قیمت ہو جو مصر میں ہے تو دریا اور نہریں تعمیر کرو"۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ لکھا کہ "میں ضرور یہ کروں گا اور میں اس میں جلدی کروں گا"۔ لیکن مصر کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی کہ اس کے نتیجے میں مصر کی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ لکھ کردیا کہ "جلدی کرو، اللہ اس تعمیر میں مصر کو تباہ کردے اور مدینہ کو آباد کردے"۔ اس کے نتیجے میں مصر کی دولت میں اضافہ ہوا اور پھر مدینہ نے کبھی 'راکھ کے سال' جیسا قحط نہیں دیکھا۔ قحط کے دوران جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحت خراب ہونے لگی تو ان سے کہا گیا کہ اپنی صحت کا خیال کریں تو انہوں نے کہا کہ "اگر تکلیف کا مزہ نہیں لوں گا تو میں کس طرح دوسروں کی تکلیف کو جان سکوں گا؟"۔ یہ ہے وہ زبردست قیادت جس کا حق سندھ کے بچے رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر نظرین نواز
رکن مرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

Read more...

حزب التحریر ازبک سفیر کے بیان کو مسترد کرتی ہے حزب التحریر ایک پر امن سیاسی جماعت ہے اور اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں

حزب التحریر ازبک سفیر کے بیان کو مسترد کرتی ہے اور اس کے بیان کی سختی سے مذمت کرتی ہےجو ایک اخبار میں بروز جمعہ 14مارچ 2014 کو شائع ہوا۔ اس بیان میں ازبک سفیر نے حزب التحریر کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کی اور یہ بے بنیاد الزام عائد کیا کہ حزب التحریر سے منسلک ازبک باشندے پاکستان کے قبائلی علاقے میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کررہے ہیں۔ حزب التحریر سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ حزب التحریر ایک پرامن سیاسی جماعت ہے جو خلافت کے قیام کی جدوجہد میں رسول اللہﷺکے منہج پر سختی سے کاربند ہے اور اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
ازبکستان کی مجرم حکومت اور اس کے بے شرم اہلکار اسلام کے خلاف کسی بھی محاذ میں اپنے حصہ ڈالنے کے لیے تیاررہتے ہیں۔ اس وقت جبکہ پاکستان کی حکومت مذاکرات اور آپریشن کا ڈرامہ کھیل کر افغانستان کے نام نہاد الیکشن کو کامیاب بنانے میں مدد فراہم کر رہی ہےاور ان لوگوں کونشانہ بنارہی ہے جو جزوی امریکی انخلاکے نام پرافغانستان میں مستقل امریکی اڈوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، تو ازبکستان کی حکومت بھی آگے بڑھی ہے تاکہ قبائلی علاقے کے مسلمانوں کا خون بہانے میں اپنا کردار ادا کرے اور ساتھ ہی اس نے حزب کے صاف دامن پر کیچڑ اچھالنے کو بھی ضروری سمجھا ،تاہم یہ ازبکستان کی حکومت کی پہلی ناکام کوشش نہیں ہے۔ ازبکستان کی مجرم حکومت ایک عرصے سے حزب التحریر کو بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث دکھانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ لیکن اس کی نتیجے میں امت کی نظر میں حزب التحریر کی قدر و منزلت میں اضافہ ہی ہوا۔ کیونکہ امت خلافت کے تصور اور اس کی نگہبانی کرنے والی جماعت حزب التحریر کی پر امن سیاسی و فکری جدوجہد کےطریقہ کار سے آگاہ ہے اور امت اس بات کو بھی جان چکی ہے کہ کس طرح مسلم دنیا کہ غدار حکمران اپنے استعماری آقاؤں کی خاطر اسلام کی واپسی ، خلافت کے دوبارہ قیام کے راستے میں کھڑے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو خلافت کے قیام کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ ازبکستان کی جیلیں اس بات کا سب سے بڑاثبوت ہیں جہاں حزب التحریر کے درجنوں شباب کو شہید کیاجا چکا ہے، محض اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔
حزب التحریر ازبکستان کے سفیر کو خبردار کرتی ہے کہ اب وہ دن زیادہ دور نہیں کہ جب کفار کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والی مسلم دنیا میں قائم مصنوعی حکومتیں کیفر کردار تک پہنچیں گیں ، کیونکہ خلافت کا قیام اب بہت قریب ہے۔ عنقریب خلافت کا قیام ان کے چہروں کو خوف سے بے رونق اور سیاہ کر نےوالاہےا وروہ وقت کیسا ہو گا کہ ازبکستان کے مجرم حکمران کو دنیا میں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اس وقت یہ استعماری کفار کہ جن کی خاطر ازبکستان کا حکمران مسلمانوں اور ان کے نظامِ خلافت کے خلاف لڑنے کے لیے دن رات ایک کرتا رہااس سے منہ موڑ لیں گے ، جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے ایجنٹوں کے ناکارہ ہوجانے پر ان کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔
كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ๐ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ ๐ وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ ๐ كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ ๐ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ
"وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے اور کھیتیاں اور راحت بخش ٹھکانے اور وہ آرام کی چیزیں جن میں عیش کررہے تھے ، اسی طرح ہوگیا اور ہم ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنادیا۔ ان پر نہ تو آسمان و زمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی" (الدخان:29-25)

Read more...

روپے کو سونے یا چاندی سے منسلک کئے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں روپے کی قدر میں حالیہ وقتی اضافے نے ڈالر کے قرضوں کی بنیاد پر چلنے والی معیشت کی کمزوری کو واضح کردیا ہے

پچھلے چند دنوں میں روپے کی قدر میں ہونے والے حیرت انگیز اضافے نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کی ہے کہ روپے کا ڈالر سے منسلک ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کی صورتحال ہمیشہ ڈالر کی صورت میں ملنے والے قرضوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ قرضوں، کرنسی مارکیٹ میں ہونے والی سٹے بازی ، ذخیرہ اندوزی اور دوسرے ذرائع سے ملک میں ڈالر کی رسد (سپلائی) کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے پاکستانی روپیہ گرتا اور بڑھتا ہے جس کے نتیجے میں ہر شے کی قیمت متاثر ہوتی ہے۔ 12 مارچ 2014 کو ایک پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس بات کا اعتراف کیا کہ روپے کی قدر میں حالیہ اضافے کی اہم وجہ ایک بار پھر 1.5ارب ڈالر کا ملنے والا قرضہ ہے۔ اس طرح کے ڈالر میں ملنے والے قرضے نہ صرف انتہائی مہنگے ثابت ہوتے ہیں بلکہ سود کا گناہ عظیم بھی اپنے ساتھ لاتے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت مسلسل مفلوج ہوتی جارہی ہے۔ لیکن بصیرت سے عاری راحیل۔نواز حکومت اس وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والے عارضی اضافے پر اپنی تعریفیں کرنے میں مگن ہے جو کہ ڈالر کی رسد بڑھنے کی صورت میں لازمی طور پر ہونا ہی تھا۔ روپے کو ڈالر سے منسلک کرکے پاکستان کی معیشت کو ڈالر کی غلامی میں دے دیا گیا ہے۔ مقامی کرنسی کو اس قسم کے زبردست اتار چڑھاؤ سے بچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کرنسی کو لازمی سونے اور چاندی سے منسلک کیا جائے جیسا کہ اسلام نے اس کا حکم دیا ہے۔ یہ عمل پاکستان کو ڈالر کی بالادستی سے نجات دلا دے گا اور افراط زر کے مسئلہ کو جڑ سے اکھاڑ دے گا۔
ڈالر، پاؤنڈ، فرانک وغیرہ کی مانندپاکستانی روپے کی بنیاد بھی اصل دولت یعنی قیمتی دھات پر ہوتی تھی۔ اس نظام نے کرنسی کی قدر و قیمت کو اندرون ملک اور بیرون ملک بین الاقوامی تجارت میں استحکام فراہم کر رکھا تھا۔ آج دنیا میں اس قدر سونا اور چاندی موجود ہے جو دنیا کی اصل معیشت یعنی کاروباری معاملات جیسے خوراک، کپڑے، رہائش، اشیائے ٔ تعیش، صنعتی مشینری ، ٹیکنالوجی اور دیگر اشیا ء کی خریدوفروخت کے لیے کرنسی کے طور پردرکار ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے کرنسی کی پیداوار کی طلب میں اس قدر اضافہ کردیا جسے سونے اور چاندی کے ذخائر پورا نہیں کرسکتے تھے۔ ریاستوں نے قیمتی دھات کے پیمانے کو چھوڑ دیا لہٰذا کرنسی نوٹ کی بنیاد کسی قیمتی دھات کی بجائے اس نوٹ کوجاری کرنے والی ریاست کی طاقت پر اعتماد ہوگئی، جس کے نتیجے میں ریاستوں کے پاس زیادہ سے زیادہ کرنسی نوٹ چھاپنے کا اختیار آگیا۔ اب کرنسی کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی بنیاد سونا یا چاندی نہیں رہے جس کے نتیجے میں ہر نیا چھپنے والا نوٹ پہلے نوٹ کے مقابلے میں کم قدرو قیمت رکھتا ہے۔ اس صورتحال نے اکثر لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کردیں اور پھر کئی ممالک نے اپنی کرنسی کو ڈالر کے ساتھ منسلک کردیا۔ لہٰذا روپیہ جو برطانوی قبضے سے قبل 11 گرام چاندی کے برابر قیمت رکھتا تھا اب دو سو سالہ سرمایہ دارانہ نظام سے گزرنے کے بعد ایک گرام چاندی کے 900ویں حصے کے برابر قیمت رکھتا ہے۔ عراق اور افغانستان کے مسلمانوں پر امریکی یلغار سے قبل ایک ڈالر 30.97روپے کے برابر ہوتا تھا اور پھر مشرف-عزیز کی حکومت کے دوران 15 اگست 2008 کو یہ بڑھ کر 76.9روپے کے برابر ہوگیا اور اُس وقت پاکستان میں افراط زر کی شرح پچھلے تیس سالوں کی سب سے بلند سطح پر تھی۔ اور اب مارچ 2014 کو راحیل-نواز حکومت کے دور میں ایک ڈالر 100 روپے کے لگ بھگ کا ہوگیا ہے۔
اسلام ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ مسلمان اپنی کرنسی سونے یا چاندی یا دونوں کو قرار دیں یا پھر ایسی کرنسی جاری کریں جس کی بنیاد سونا یا چاندی ہو۔ لیکن یہ حکم جمہوری یا آمر حکمران نافذ نہیں کرسکتے بلکہ صرف اور صرف مسلمانوں کی ریاست، خلافت ہی نافذ کرسکتی ہے کیونکہ خلافت، ریاست کے تمام معاملات بشمول مالیاتی اور معاشی نظام میں صرف اور صرف اسلام کو نافذ کرنے کی پابند ہوتی ہے۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک