المكتب الإعــلامي
ازبکستان
ہجری تاریخ | 22 من ذي الحجة 1442هـ | شمارہ نمبر: 08 / 1442 |
عیسوی تاریخ | اتوار, 01 اگست 2021 م |
پریس ریلیز
روس وسطی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے
31جولائی 2021کو KUN.UZ ویب سائیٹ نےایک خبرشائع کی کہ روسی فوج کےسپاہی ازبک-روس مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لینےکیلئےازبکستان پہنچےہیں، یہ مشقیں سرخان دریاکےعلاقےمیں ترمزٹریننگ گراونڈمیں ہورہی ہیں۔ یہ اعلان ازبک ملٹری آف ڈیفنس کی جانب سےکیاگیاجبکہ یہ مشقیں 30 جولائی سے10 اگست کےدرمیان ہوناتھیں۔ اوران مشقوں میں روس اورازبکستان کےتقریبا1500 سپاہیوں نےحصہ لیا۔یہ مشقیں اس وقت ہورہی ہیں جبکہ افغانستان میں طالبان اورافغان فورسزکےدرمیان جاری لڑائی کےباعث حالات دن بدن خراب ہورہےہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ روسی فوج نےتاجک افغان سرحدکےقریبی علاقےمیں مشقوں میں حصہ لیا۔
روس جوخودکوسابقہ سوویت یونین کاجانشین خیال کرتاہے، وسطی ایشیائی ریاستوں کواپناہی علاقہ سمجھتاہے۔ اسی لئےروس ان ریاستوں میں دوسری عالمی طاقتوں ، خاص طورپرامریکا کےاثرورسوخ کوپسندنہیں کرتا۔ اسی لئے روس افغانستان سےامریکی انخلاء کےبعد وسطی ایشیائی ریاستوں خصوصاًازبکستان اورتاجکستان میں امریکی فوجی اڈوں کی بھی مخالفت کررہاہے۔ روسی فارن انٹیلی جنس سروس کےڈائریکٹرسرگئی نریشکن کےمطابق روس کوامیدہےکہ افغانستان کےہمسایہ ممالک امریکی فوجی اڈوں کےقیام سےانکارکردیں گے۔ روس بخوبی واقف ہے کہ امریکہ سامنےوالےدروازےسےافغانستان سےنکلناچاہتاہےمگرپاکستان اورترکی میں اپنےایجنٹس کےذریعہ پچھلےدروازےسےدوبارہ افغانستان میں داخل ہوناچاہتاہے۔ مثال کےطورپرترکی اورازبکستان کےدرمیان فوجی مشقیں جواسی علاقےمیں مارچ کےمہینہ میں منعقدکی گئیں، اس ہدف کی تکمیل کیلئےایک قدم تھا۔ ماسکونےافغانستان سےامریکی اورنیٹوافواج کےانخلاء کےبعدترک افواج کی موجودگی کی بھی مخالفت کی ہے۔
وسطی ایشیا کا علاقہ امریکا کے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے، اسی لئے امریکا اس علاقے کو روس کیلئے تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اور یہی بات امریکا کئی بارکہہ چکا ہے، مثال کے طور پر سابق صدر بل کلنٹن کے دورمیں سابق امریکی نائب وزیر خارجہ اسٹراب ٹالبوٹ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے میں تیل کے 233 ارب بیرل کے ذخائر موجود ہیں۔ اورامریکی مفادات کے مطابق یہ علاقہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لئے اکیسویں صدی میں توانائی کے ذخائر روس کے زیر اثر نہیں چھوڑے جا سکتے۔ یقیناً روس سیاسی اورمعاشی طور پرامریکا کا مقابلہ نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ سوویت یونین نہیں ہے، جو ایک نظریاتی ریاست تھی اور معاشی اور دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط تھی۔ مگر اس سب کے باوجود روس نہیں چاہتا ہے کہ شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑ دیا جائے۔
امریکی اثرورسوخ سے بھی بڑھ کر ایک اورچیزجو روس کو خوفزدہ کئے ہوئے ہے وہ خطے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری ہے۔ روس بخوبی جانتا ہے کہ حزب التحریر افغانستان میں بھی کام کر رہی ہے۔ جو طالبان کی درست راستہ کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے افغانستان میں خلافت قائم کر سکتی ہے۔ اس لئے وسطی ایشیا میں روسی فوجی نقل وحرکت کو اس تناظر میں دیکھنا بھی ضروری ہے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
''اے ایمان والو! اللہ اور رسول کا حکم مانو جس وقت تمہیں اس کام کی طرف بلائے جس میں تمہاری زندگی ہے، اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے اور بے شک اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے''(سورة الانفال: 24)
ازبکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ازبکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: |