المكتب الإعــلامي
امریکہ
ہجری تاریخ | 22 من رجب 1446هـ | شمارہ نمبر: 05 / 1446 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 22 جنوری 2025 م |
پریس ریلیز
امتِ مسلمہ اور مسلمان معاشروں پر ٹرمپ کی صدارت کے اثرات !
)عربی سے ترجمہ)
ٹرمپ کے امریکی صدر کے طور پر حلف برداری کے موقع پر عالمی سطح پر اور داخلی سطح پر ملا جلا رجحان پایا گیا۔ وہ افراد، جو امریکی سیاست کی حقیقتوں سے واقف ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں فیصلے کس طرح سے کیے جاتے ہیں، ان کے لئے یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ اور اس کی وہ انتظامیہ جو اس نے اپنے گرد اکٹھی کی ہے، ان کی اولین ترجیحات دولتمند اشرافیہ کے مفادات کو آگے بڑھانے پر مرکوز ہیں – یعنی وہ کھرب پتی اور بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کے مالکان جنہوں نے ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے لئے حمایت کی تھی۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ، ٹرمپ کا اقتدار میں آنا ممکنہ طور پر پسماندہ قوموں اور یہاں تک کہ خود امریکی عوام کے لیے بھی نقصان کا باعث بنے گا۔
ٹرمپ کا تعلق سرمایہ داروں اور ارب پتیوں کی اشرافیہ سے ہے — وہی اشرافیہ جو عالمی سطح پر بھوک وافلاس اور ظلم و جبر کا ارتکاب کرنے کی ذمہ دار ہے۔ دنیا بھر کی دولت کو اپنے اکاؤنٹس میں ذخیرہ کرکے اور دوسروں کو دنیا کی دولت تک رسائی سے روک کر، اس اشرافیہ نے عدم مساوات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایک برطانوی کنفیڈریشن برائے غربت و عالمی ناانصافی، Oxfam نے 20 جنوری 2025ء کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ 2024ء میں کھرب پتی افراد کی دولت میں 2 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا جو کہ ہوشربا طور پر روزانہ 5.7 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ ان کی ذاتی دولت میں اضافہ ہونے کی یہ شرح گزشتہ سال کی نسبت تین گنا زیادہ تھی، جبکہ غربت میں زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں 1990ء سے لے کر اب تک بمشکل ہی کوئی تبدیلی آ سکی ہے۔ سال 2023ء میں، امریکہ، برطانیہ، اور فرانس جیسے ممالک کے امیر ترین 1 فیصد افراد نے دنیا کے جنوبی ممالک سے مالیاتی نظام کے ذریعے ہر گھنٹے کی بنیاد پر 30 ملین ڈالر اینٹھ لئے۔ دنیا کے شمالی ممالک جو کہ اگرچہ دنیا کی آبادی کے لحاظ سے 21 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن دنیا کی 69 فیصد دولت کو کنٹرول کرتے ہیں، جن میں سے 77 فیصد دولت ان ارب پتیوں کے پاس ہے اور یہ ممالک دنیا کے 68 فیصد ارب پتیوں کا گھر ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ ان ارب پتیوں پر قسمت یونہی مہربان نہیں ہوئی بلکہ یہ دولت کمزور اقوام کا استحصال کر کے، ان کے وسائل کی لوٹ مار کے، اور حتیٰ کہ اپنے ہی عوام سمیت دیگر لوگوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر، مہنگی قیمتوں اور کرنسی کی ہیرا پھیری کے ذریعے لوٹی گئی ہے۔ امریکہ کی قیادت میں سرمایہ دارانہ نظام اسی طرح کے طریقوں سے ہی پروان چڑھتا ہے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ، موجودہ انتظامیہ سے بھی ان استحصالی اصولوں سے انحراف کرنے کی کوئی امید بمشکل ہی کی جا سکتی ہے۔ اس کے بجائے، دنیا کو مزید چالبازیوں اور ساز باز حکمت عملیوں کے لئے تیار رہنا ہو گا جو اس شکاری نظام کو محفوظ رکھنے اور مضبوط کرنے کے لیے تیار کی جائیں گی۔
جب امتِ مسلمہ کے حوالے سے بات کی جائے تو اگرچہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ نے ”اسرائیل“ کو غزہ پر حملے روکنے کے لیے دباؤ ڈالا ہوا ہے، لیکن حقیقت اس سے چنداں مختلف ہے۔ سابقہ امریکی انتظامیہ پہلے ہی وسیع پیمانے پر اس قدر خونریزی اور تباہی پھیلا چکی تھی کہ اس کے بعد اس علاقے میں مزید بربادی مچانے کے لیے کچھ کم ہی باقی رہ گیا تھا۔ اور آج، ہم دیکھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی خاموش آشیر باد کے ساتھ، یہودی وجود مغربی کنارے میں اپنی جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
”شام“ میں بھی، انقلاب کی خاتمہ کے بعد کی صورتحال میں بہت ہی کم امید نظر آتی ہے۔ ”ٹرمپ انتظامیہ“ اور ”شام“ کی حکومت کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات، جو کہ پابندیوں میں نرمی اور تہنیتی پیغامات کے تبادلے سے ظاہر ہوتے ہیں، یہ تعلقات اس خطے اور اس کے لوگوں کے لیے خطرناک ارادوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اسی طرح مسلم دنیا کے دیگر حصوں کے لئے بھی، ٹرمپ جابر و ظالم حکمرانوں کا پکا حامی ہے، وہی ٹرمپ جو کہ کبھی مصر کے صدر السیسی کا اپنے ”پسندیدہ آمر“ کے طور پر حوالہ دیتا تھا۔ یہ حکمران مسلمان علاقوں کا استحصال کرنے کے لئے آلۂ کار کے طور پر کام کرتے رہتے ہیں، امریکی کمپنیوں کو اپنے وسائل لوٹنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ اپنے ہی عوام کو جابرانہ قوانین کے تحت غلام بنائے رکھتے ہیں۔
داخلی سطح پر، ٹرمپ کی پالیسیوں کے لئے اقلیتی گروپوں پر مزید دباؤ ڈالنے کی توقع کی جا رہی ہیں، جو کہ ٹرمپ کے اختلافی بیانات اور امتیازی پالیسیوں کی تاریخ کو اجاگر کرتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ اقلیتی گروپوں، بشمول مسلمانوں، کو نشانہ بنانے کے لیے قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن بہرحال امریکی قوانین ٹرمپ کی طاقت کو وسیع پیمانے پر یکسر تبدیلیاں نافذ کرنے سے محدود کرتے ہیں۔ لہٰذا، امریکہ کی مسلم کمیونٹی کو ٹرمپ کی انتظامیہ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بجائے، انہیں اپنے قانونی حقوق کا دفاع کرنے اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے میں ثابت قدم رہنا چاہیے۔ مزید یہ کہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی اور فکری جدوجہد کے ذریعے عالمی سطح پر اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں کی حمایت کریں۔
امریکہ میں مقیم مسلمان، جنہیں امریکی قانون کے تحت حقوق بھی حاصل ہیں اور وہ اپنے عقیدہ کی ذمہ داریوں پر بھی عمل پیرا ہوتے ہیں، ان مسلمانوں کا ایک اہم کردار ہے۔ انہیں امت مسلمہ کے سفیروں کے طور پر عمل کرنا چاہئے، اس کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہئے اور فاصلوں سے قطع نظر انہیں اپنی امت کے ساتھ اپنے اٹوٹ رشتہ کو یاد رکھنا چاہیے۔ اسلامی اصولوں کو مضبوطی سے تھام کر اور اپنے ایمان پر فخر کے ساتھ زندگی گزار کر ہی وہ مسلمان سیکولر نظام میں ضم ہونے کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔ اور اس سے کہیں آگے بڑھ کر ان مسلمانوں کو اسلام کی سچائی کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کا عظیم فرض سونپا گیا ہے، جو سرمایہ دارانہ لبرلزم کی تاریکی کا متبادل نظام پیش کرتا ہے۔ یہ مشن ایک رحمت اور انصاف کا عمل ہے، جو قرآن مجید کی اس آیت کے عین مطابق ہے،
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾
”اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے“ (الانبیاء؛ 21:107)۔
مسلمانوں کو دانشمندی کے ساتھ یہ ذمہ داری ادا کرنی چاہیے، تاکہ وہ ان لوگوں کے لئے امید کی کرن بن سکیں جو موجودہ زندگی کی جدوجہد میں ہی کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہیں تو ان عطر فروشوں کی مانند ہونا چاہئے، جو جہاں بھی جائیں ہر طرف اپنی خوشبو پھیلاتے جاتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں نصیحت کی گئی ہے،
﴿ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾
”اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو، اور ان سے احسن طریقے سے بحث کرو جو سب سے بہتر ہو ، بے شک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے“ (النحل؛ 16:125)۔
امریکہ میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير امریکہ |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: +1 (202) 930-1924 www.hizb-america.org |