المكتب الإعــلامي
ولایہ لبنان
ہجری تاریخ | 24 من جمادى الأولى 1438هـ | شمارہ نمبر: H.T.L 09/38 |
عیسوی تاریخ | منگل, 21 فروری 2017 م |
پریس ریلیز
میری لی پین کی دارالافتاء میں میزبانی کرنا
رسوائی اور بے شرمی کا ایک نیا باب
ہم کل بھی خبردار کر چکے تھے کہ اس دائیں بازو کی شددت پسند کو دارالافتاء میں آنے کی اجازت دینا بالکل درست نہیں جو کہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ ہم نے کہا تھا کہ ، "یہ سراسر سیاسی ناسمجھی ہے کہ اعتدال پسندی کا درس دینے والے لی پین جیسی شددت پسند اور غیر معتدل شخصیت سے ملیں"۔ ہم افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ سوچتے ہیں کہ "کیا یہ کوئی فقہی بہادری ہے یا کوئی جدت پسندی؟۔۔۔ کیا وزیراعظم اور دارالافتاء فرانسیسی صدارتی امیدواروں کے لیے زینہ بن چکے ہیں؟ اور وہ جو خود کو مسلمانوں کا نمائندہ کہتے ہیں کیا اس کام کے لیے رہ گئے کہ مسلمانوں کے دشمن کا حکم بجا لائیں؟!!"۔ شاید یہ آنکھیں نہیں جو اندھی ہو گئی ہیں، بلکہ یہ سینوں میں موجود دل ہیں جو تاریک ہوگئے ہیں۔
رسوائی و تذلیل کا پہلا موقع: جب لی پین نے دارالافتاء میں داخل ہو کر مفتی اعظم شیخ عبداللطیف دریان سے ملنے سے انکار کردیا جب اس کو سر پر اسکارف پہننے کا کہا گیا۔ دارالافتاء کے میڈیا آفس کا کہنا تھا کہ صدارتی امیدوار کو ان کے ایک معاون کے ذریعے کہلوادیا گیا تھا کہ دارالافتاء کے قواعد کے مطابق مفتی اعظم سے ملاقات کے وقت سر کو ڈھانپنا ہوگا۔ اس کے انکار پر انتظامیہ حیران تھی۔ جب انتظامیہ نے سر ڈھانپنے پر اصرار کیا تو اس نے انکار کیا اور مفتی اعظم سے ملے بغیر ہی وہاں سے روانہ ہو گئی۔
رسوائی و تذلیل کا دوسرا موقع: جب لی پین نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ کہا کہ وہ وہی کہتی ہے جس پر وہ یقین رکھتی ہے ۔۔۔"جب میں شیخ الاظہر سے ملی تھی میں نے تب اسکارف نہیں پہنا تھااور نہ میں اب پہنوں گی"۔
اور رسوائی و تذلیل کا تیسرا موقع: جب دارالافتاء نے بیان جاری کیا کہ " دارالافتاء کو ایسی ملاقات میں ہونے والے نامناسب رویے پر افسوس ہے"۔
یہاں ہم یہ کہتے ہیں بلکہ چیخ کر اُن لوگوں سے یہ سوال کرتے ہیں:
کیا تمہارے نزدیک یہ زیادہ بڑا مسئلہ ہے کہ وہ دشمن اسلام ایک اسکارف اوڑھ لے یا یہ کہ ایسی عورت جس کا اوڑھنا بچھونا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہو اس کو دارالافتاء میں داخل ہونے کی اجازت دینا ؟ نہ صرف یہ بلکہ اس عورت نے اپنے افکار پر پر ڈٹے رہنے اور اورآپ کے افکار کو مسترد کرتے ہوئے آپ سے ملنے سے بھی انکار کردیا۔ اس سب کے بعد مزید رسوا ہونے کی گنجائش کہاں بچتی ہے؟
کیا آپ اس سے مل کر اس کو اسلام کی دعوت دینا چاہتے تھے جو کہ آپ کی ذمہ داری ہے اور اب یہ سنہری موقع ہاتھ سے نکل جانے پر آپ افسردہ ہیں؟ یا اس سے مل کر "دہشت گردی" کے خلاف اپنا موقف واضح کرنا چاہتے تھے، اور یہ یقین دہانی کرانا چاہتے تھے کہ تم اعتدال اور جددت پسندی کے حامی ہو؟!!! ایسی اصطلاحات جو صریحاً مغربی ہیں اور ان کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ۔۔ افسوس کہ لی پین نےآپ کو اس موقع سے بھی بری الزمہ کردیا، نہ صرف یہ بلکہ اس نے آپ کی تذلیل کرنے کے لیے آپ کی ا سکارف اوڑھنے کی خواہش کو بھی رد کردیا۔
اس سب کے ردعمل میں آپ کا اس کو جواب۔۔۔ ایک اظہار افسوس۔۔ جبکہ یہاں ایک ایسا جواب ہونا چاہیے تھا جو اس شدّت پسند دشمن اسلام کو ،اس کے ملک کو اور اس کے سفارت خانے کو ہلا کر رکھ دیتا ، جو آپ کی لبنان کے مسلمانوں کا نمائندگی کو ظاہر کردیتا، جس کا آپ دعویٰ کرتے ہیں۔ شاید یہ کرنا آپ کے بس کی بات نہ ہو، اس لیے آپ نے صرف افسوس کا اظہار کرنے پر اکتفا کیا۔
ہم لبنان کے مسلمانوں سے یہ پوچھتے ہیں، کیا یہ لوگ آپ کی نمائندگی کرتے ہیں؟ اور کیا ایسی رسوائی آپ قبول کر سکتے ہیں؟ کیا وہ وزیراعظم آپ کا نمائندہ ہو سکتا ہے جس نے لی پین کا کل استقبال کیا؟ کیا اب وہ وقت نھیں آگیا کہ ہم وہ موقف اپنا لیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند ہو اور ایسی قیادت و نمائندگی سے بیزاری اختیار کر کے اپنے اسلامی تشخص کو محفوظ کرلیں؟
ولایہ لبنان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ لبنان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: 009616629524 www.tahrir.info |
فاكس: 009616424695 E-Mail: ht@tahrir.info |