المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 1 من رمــضان المبارك 1438هـ | شمارہ نمبر: PR17040 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 27 مئی 2017 م |
پاکستان کی زراعت اور صنعت کو نظر انداز کیا جارہا ہے
سرمایہ دارانہ جمہوری نظام پاکستان میں مقامی پیداوار کی حوصلہ شکنی کرتا ہے
باجوہ-نواز حکومت کے وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر سے قبل یہ انکشاف کیا کہ اس سال کی اہم ترین بات یہ ہے کہ صنعت و زراعت کے شعبے کی قیمت پرخدمات کے شعبے ( سروسز سیکٹر) میں کُل ملکی پیداوار کے 2 فیصد کے برابر اضافہ ہوا ہے۔ ملکی پیداوار میں سروسز کے شعبے کا حصہ بڑھ کر 59.6فیصد ہوگیا ہے جبکہ زراعت کا حصہ19.5 فیصد اور صنعت کا حصہ 20.9فیصد ہے۔پاکستان وہ ملک ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وسیع وعریض زرعی زمینوں، دریاوں، نہروں، معدنی و انسانی وسائل سے بے انتہا نوازا ہے ۔ اس صورتحال میں اسلام کا معاشی نظام اور مخلص قیادت پاکستان کو دنیا کی صف اول کی صنعتی و زراعتی معیشت بنا سکتی تھی۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور کرپٹ قیادت نے استعماری قوتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کو اس کی صلاحیت کے مطابق طاقتور معیشت بننے ہی نہیں دیا بلکہ اس کو دن بدن کمزور کرتے جا رہے ہیں۔ یہ بات انتہائی تشویش ناک اور خطرناک ہے کہ پاکستان کی معیشت میں زراعت اور صنعت کا حصہ کم اور خدمات (سروسز) کا حصہ بڑھتا جارہا ہے۔ 1960 میں پاکستان کی کُل معیشت میں زراعت کا حصہ 43.6 فیصد جبکہ صنعت کا 25.2 فیصد تھا جو اب گھٹ کر بلترتیب 19.5 اور 20.9 فیصد رہ گیا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک کنزیومر سوسائٹی بنتے جا رہے ہیں جو اپنی ضروریات کے استعمال کے اشیاء خود نہیں بناسکتی بلکہ دوسروں سے خریدتی اور انہیں استعمال کرتی ہے۔
کوئی بھی ایسا ملک جس کی صنعت اور زراعت کا شعبہ کمزور ہو وہ ہمیشہ دوسروں پر انحصار ہی کرتا رہے گا چاہے اس کی کُل ملکی پیداوار(جی ڈی پی) میں کتنا ہی اضافہ کیوں نہ ہوجائے۔ زراعت اور صنعت کے شعبے میں کمی اور سروسز کے شعبے میں اضافہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ کاروباری حضرات پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے غیر پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ ملک کا کاروباری طبقہ بھی حکومت کے اس پالیسی پر اپنی برہمی کا اظہار کررہا ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں اور اس کا رویہ پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔لہٰذا ایسی صورتحال میں صنعت اور زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جگہ، جو بھاری ٹیکسوں اور توانائی کے بحران سے مفلوج ہوگئے ہیں، مقامی سرمایہ کار پراپرٹی اور پرچون کے کاروبار میں سرمایہ لگا رہے ہیں ۔ ملک میں صنعتی پیداوار کو نقصان پہنچانے کی پالیسی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ حکومت نے اس بجٹ میں اسٹیل کے شعبے کے لیے بجلی کی قیمت 9 روپے فی یونٹ سے بڑھا کر 10.5روپے فی یونٹ کرنے کی تجویز دی ہے۔ اسٹیل صنعتی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس حکومت نے پہلے پاکستان اسٹیل کو دوبارہ کھڑا کرنے سے مکمل اجتناب کیا اور اب جو چھوٹی چھوٹی اسٹیل ملیں ملک میں ہیں یہ انہیں بھی ان کی پیداواری لاگت بڑھا کر ختم کرنے کے درپے ہے۔ لہٰذا کُل ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کی کوئی وقعت نہیں جب سروسز سیکٹر کی قیمت پر زراعت اور صنعت کا شعبہ کمزور ہورہا ہو۔
وقت کی ضرورت ہےکہ اسلام کا معاشی نظام نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی ذریعے نافذ کیا جائے، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے مخلص قیادت، حزب التحریر، پوری مسلم دنیا میں جدوجہد کررہی ہے۔ اسلام کا معاشی نظام ریاست کے شہریوں ، کسانوں اور صنعت کاروں کو ریاست کے وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اسی لیے حزب التحریر نے اپنے مقدمہ دستور کی دفعہ نمبر 159 اور 160 میں لکھا ہے کہ،”ریاست زرعی معاملات اور زرعی پیداوار کی نگرانی اُس زرعی پالیسی کے مطابق کرے گی جس کی رُو سے زمین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے جو کہ اعلیٰ درجہ کی پیداوار کی صورت میں حاصل ہو” اور”ریاست صنعت کے شعبے کے تمام معاملات کی نگرانی کرے گی اور عوامی ملکیت سے تعلق رکھنے والی صنعتوں کی براہ راست نگرانی اور دیکھ بھال کرے گی”۔
پچھلے 70 سرمایہ دارانہ بجٹس نے، چاہے وہ جمہوری دور میں پیش کیے گئے یا فوجی آمریت کے دور میں، پاکستان کی معیشت کو مسلسل تباہ کیا ، دولت کو حکمرانوں، ان کے ساتھیوں اور ان کے استعماری آقاوں کے ہاتھوں میں مرتکز کیا۔ اور ہر آنے والا سرمایہ داریت پر مبنی بجٹ یہی کرتا رہے گا چاہے ملکی پیداوار، اوسط آمدنی، زرمبادلہ کے ذخائر وغیرہ کتنے ہی کیوں نہ بڑھ جائیں۔ ہر سرمایہ دارانہ بجٹ استعماری طاقتوں کی ہدایات کے مطابق بنایا جاتا ہے جس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنا اور استعماری ممالک کی مفادات کا تحفظ کر کے ان کی معیشتوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ بجٹ پر استعماری طاقتوں کے کنٹرول کی واضح مثال پاکستان کے بجٹ کے اعلان سے چند ہفتوں قبل حکومتی عہدیداروں کی استعماری ادارے، آئی ایم ایف کے ساتھ سالانہ اجلاس ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کفر کا نظام ہے جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس کا نفاذ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتا ہے ۔ صرف اور صرف اسلام کا معاشی نظام ہی پاکستان کی معیشت کو مضبوط و توانا کرے گا، اور اسلام کا معاشی نظام اسلام کے نظام حکمرانی، خلافت، کے تحت ہی نافذ ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو جمہوری سرمایہ دارانہ نظام سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے اور نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کی جدوجہد کا حصہ بن جانا چاہیے جو صرف اور صرف قرآن و سنت سے اخذ کردہ قوانین کو نافذ کرتی ہے۔
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً
“”جو میرے ذکر(قرآن) سے منہ موڑے کا تو اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی”(طہ:124)
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |