المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 15 من صـفر الخير 1360هـ | شمارہ نمبر: 1441/11 |
عیسوی تاریخ | پیر, 14 اکتوبر 2019 م |
پریس ریلیز
KPK ڈسٹرکٹ اینڈ ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز ایکٹ 2019:
سرکاری ہسپتالوں کی درجہ بدرجہ نج کاری غریبوں کی جانوں سے کھلواڑ ہے
خیبر پختونخواہ کے وزیر صحت ڈاکٹر انعام ہشام اللہ نے صوبائی اسمبلی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ اینڈ ریجنل اتھاریٹیز ایکٹ 2019 بل پاس کرتے ہوئے پشتو میں تقریر کرتے ہوئے کہا، "ایک بات مجھے اور آپ کو تسلیم کرنی ہوگی، ہم ایک غریب ملک ہیں، ہماری اتنی capacity نہیں ہے، کہ ہم ہر ایک کو مفت علاج مہیا کریں، مفت دوائیاں دیں، فری ڈاکٹر دیں۔ تو کہیں نہ کہیں ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ بھی لائیں گے، اور کہیں نہ کہیں ہم ریٹس بھی بڑھائیں گے۔" پس ریاستِ مدینہ اور سوشل ویلفئیر کے دعوے کرنے والی اس حکومت نے برسربازار اپنا بھانڈا پھوڑتے ہوئے جمہوریت کی حقیقت بھی عوام پر ننگی کر دی کہ یہ صرف سرمایہ داروں اور امراء کی آمریت اور قانونی لوٹ مار کا نظام ہے۔ جبکہ یہ نظام غریب کو سرمایہ داری نظام کے گرم تھپیڑوں کے حوالے کر دیتا ہے۔
اس نئے ایکٹ کے پاس ہونے سے تمام صوبائی اسپتال، دیہی مراکزِ صحت، ڈسپنسریاں، زچہ و بچہ مراکز اور سرکاری لیبارٹریاں ریجنل اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھاریٹیز کو منتقل ہو جائیں گی، جن کو محدود گرانٹس دی جائیں گی، جبکہ باقی اخراجات کا انتظام ان کو اپنے پلے سے کرنا ہوگا، اس کا مطلب ہے کہ غریب عوام یا تو اپنا خون نچوڑ کر سرکاری ہسپتالوں کے بل بھریں، یا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں۔ پہلے ہی پاکستان کی 75 فیصد عوام اپنا علاج پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکوں سے کراتی ہے کیونکہ سرکاری ہسپتالوں کی سہولیات نہ صرف یہ کہ ناکافی ہیں بلکہ ان کا معیار بھی انتہائی گھٹیا ہے، اس پر مستزاد، وہ غریب طبقہ جو مجبوراً سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتا تھا، ان کو بھی اس سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یعنی جمہوریت نے بنیادی صحت کو بھی ایک عیاشی بنا کر رکھ دیا ہے، جہاں مریض کو مریض نہیں بلکہ گاہک سمجھا جاتا ہے جس سے ہوشربا منافع کمانا مقصود ہو۔ اس پر یہ حکمران ڈھٹائی سے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ ہم اسپتالوں کو بہتر کر رہے ہیں اور یہ کہ کسی قسم کی کوئی نجکاری نہیں کی جا رہی۔ یہی حال مغرب کا ہے جہاں صحت کی سہولیات انشورنس کمپنیوں کے حوالے کر کے حکومت اس بنیادی معاشرتی ضرورت کو بھی سرمایہ دار انشورنس کمپنیوں اور پرائیویٹ اسپتالوں کے بے پناہ منافعوں میں تبدیل کر چکی ہے۔
اسلام صحت، تعلیم اور سیکیوریٹی کو معاشرے کی بنیادی ضرورت گردانتے ہوئے خلیفہ کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ معاشرے میں ان سہولیات کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ امام مسلم نے جابرؓ سے روایت کیا:
"رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ طَبِيبًا، فَقَطَعَ مِنْهُ عِرْقًا ، ثُمَّ كَوَاهُ عَلَيْهِ
"رسول اللہ ﷺ نے ایک طبیب کو ابی بن کعبؓ کے پاس بھیجا جس نے نس کاٹ کر اسے داغا۔"
الحاکم نے مستدرک میں زید بن اسلم سے، جنہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انھوں نے فرمایا:"میں عمر بن الخطابؓ کے دور میں شدید بیمار ہوا، تو انھوں نے ایک طبیب بلایا جس نے میرے جسم کو اتنی گرمی پہنچائی کہ میں کھجور کی ہڈیاں چوسنے لگا۔" اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
والإمام راع ومسئول عن رعيته
"امام نگہبان ہے اور اپنے رعایا کیلئے ذمہ دار ہے۔" (البخاری: 2751)
یہ دلائل واضح کرتے ہیں کہ صحت کی سہولیات معاشرے کو بہم پہنچانا ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ خلیفہ منصور کا بیمارستان المنصوری جو 1283ء میں بنا، آج بھی دنیا میں اس سے بڑا اسپتال نہیں بن سکا۔ اس میں 8 ہزار مریضوں کو داخل کرنے کی گنجائش تھی جس میں ہر مریض کیلئے دو اٹینڈنٹ تھے۔ جمہوریتیں اور آمریتیں عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہیں، صرف وحی الہی کے ناقابل تبدیل اصولوں کی بنیاد پر بنے خلافت کا نظام ہی انسانیت کو ان ماڈرن ڈاکوؤں کے نظام سے نجات دلا سکتا ہے۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |