المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 28 من شـعبان 1444هـ | شمارہ نمبر: 30 / 1444 |
عیسوی تاریخ | پیر, 20 مارچ 2023 م |
پریس ریلیز
حکمرانوں نے چار سال میں 36 کھرب روپوں کے نوٹ چھاپ کر مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا، صرف خلافت کی دینار و درہم پر مبنی سونے و چاندی کی کرنسی ہی اس ہوشربا مہنگائی کا گلا گھونٹ سکتی ہے
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں زیر گردش کرنسی کا حجم 44 کھرب روپے تھا، جبکہ آج یہ حجم 80کھرب پر پہنچ گیا ہے ، یوں محض چار سالوں میں حکمرانوں نے 36 کھرب کے نوٹ چھاپ کر زیر گردش رقم میں 71 فیصد اضافہ کر دیا ، جبکہ پچھلے چار سال میں پیداوار میں مجموعی اضافہ 15فیصد بھی نہیں ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سالانہ مہنگائی کی شرح ریکارڈ توڑ رہی ہے اور یہ شرح 31 فیصدتک پہنچ گئی ہے۔ پس جب تک کرنسی کو سونے و چاندی کے دینار و درہم پر منتقل نہیں کیا جائے گا، حکمران مالیاتی خساروں کو نوٹ چھاپ کر پورا کرتے رہیں گے، جس کا نتیجہ "مہنگائی ٹیکس" کی شکل میں پاکستان کے عوام بھگتتے رہیں گے، جہاں حکمران ان کے خون پسینے کی کمائی کوبے قدر کر کے اس کی قوت خرید ختم کرتے جائیں گے۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرائط کے تحت حکومت اسٹیٹ بینک سے براہ راست قرضہ نہیں لے سکتی۔ یہ قرضہ عملاً اسٹیٹ بینک نوٹ چھاپ کر دیتی تھی۔ اس شرط کا مقصد یہی ہے کہ حکومت عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے پر مجبور ہو اور پرائیویٹ سودی بینکوں کا منافع دن دگنی رات چگنی ترقی کرے۔ پس حکومت نے وہی رقم پرائیویٹ بینکوں سے قرض لے کر پوری کرنی شروع کر دی جو کہ پرائیویٹ بینک اسٹیٹ بینک سے ہی حاصل کر رہے ہیں۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ پرائیویٹ بینکوں کا 83 فیصد قرضہ حکومت نے ہی لیا ہے۔ یوں حکومت نے براہ راست کان پکڑنے کے بجائے ہاتھ پیچھے سے گھما کر کان پکڑ لیا، جس سے صرف فرق یہ پڑا کہ پرائیویٹ بینکوں کی درمیان میں چاندی ہو گئی۔ بجائے یہ کہ حکومت تقریباً 5200 ارب سے زائد کی سالانہ سودی ادائیگی بند کر کے تقریباً آدھے اخراجات کو ختم کرتی، اور یوں مالیاتی خسارے کا خاتمہ ہو جاتا، حکومت مسلسل نوٹ چھپوا کر عوام کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کر رہی ہے!
اسلام کی سونے و چاندی پر مبنی کرنسی، دینار و درہم، حکومت کو مالیاتی ڈسپلن Fiscal discipline پر مجبور کرتی ہے، کیونکہ حکومت نوٹ صرف تبھی جاری کر سکتی ہے جب ان کے پاس ان نوٹوں کی قیمت کے برابر سونے و چاندی کا بیک اپ Back up موجود ہو۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت نارمل حالات میں اپنی آمدن سے زیادہ اخراجات نہیں کر سکتی اور ریاست اپنے اخراجات اپنی آمدن کی حدود میں رکھنے پر مجبور ہوتی ہے۔ یوں خلافت میں نوٹ چھاپنے کی اہلیت محدود ہونے سے عملاً مہنگائی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ خلافت ایمرجنسی یا دیگر بحرانی صورتحال میں بھی اہل ثروت مسلمانوں سے ایک دفعہ لاگو ہونے والا ٹیکس یا غیر سودی قرضے حاصل کرکے اخراجات پورا کرتی ہے، لیکن بغیر سونے و چاندی کے بیک اپ کے کبھی نوٹ نہیں چھاپتی۔ اسی طرح خلافت پھیلاؤ کی مالیاتی پالیسی expansionary fiscal policy بھی نہیں اپناتی جس میں آمدن سے زیادہ اخراجات کرکے معیشت کے پہئیے کی رفتار مصنوعی طریقے سے تیز کی جاتی ہے تاکہ کساد بازاریRecession کا خاتمہ ہو، لیکن جو مہنگائی کو بھی جنم دیتا ہے، کیونکہ اسلام کا معاشی نظام سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے اتار چڑھاؤ Boom and Bust کے چکرسے آزاد ہے۔اس پالیسی کے باعث خلافت کی معاشی خودمختاری کسی ملک کے سامنے کمپرومائز نہیں ہوتی۔
اے اہل قوت!
اللہ قرآن پاک میں فرماتا ہے،
﴿وَمَنۡ أَعۡرَضَ عَن ذِكۡرِي فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةٗ ضَنكٗا وَنَحۡشُرُهُۥ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ أَعۡمَىٰ﴾
«اورجوکوئی میرے ذکر (قرآن ) سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے»(سورہ طہ: 124)
اللہ کے دین کو خلافت کے نظام کے ذریعے نافذ نہ کرکے دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی ہماری زندگی برباد ہو جائے گی۔ ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کے بہترین معیشت دانوں کو آزما کر دیکھ لیا لیکن رسوائی کے سوا ہمیں کچھ نہ ملا، اور ہماری زندگی اور معیشت تنگ ہو گئی۔ اپنی قوم کی حالت پر رحم کرو جو دو وقت کی روٹی کو ترس گئے ہیں۔ آگے بڑھو، اور خلافت کے قیام کیلئے نصرہ دو، تاکہ خلافت کے قیام کے ساتھ ہی اسلام کی انقلابی معاشی پالیسی سے اس صورتحال کو بدلا جا سکے۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |