المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 18 من ذي الحجة 1445هـ | شمارہ نمبر: 45 /1445 |
عیسوی تاریخ | اتوار, 26 مئی 2024 م |
پریس ریلیز
پرائیوٹائزیشن نے توانائی کے شعبے کا بیڑہ غرق کر دیا ،
لیکن حکمران پھر بھی آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر انہی تباہ کن پالیسیوں پر عمل درآمد کے درپے ہیں
پاکستانی حکمران IMF کی ڈکٹیشن پر نج کاری کیلئے انویسٹرز کو راغب کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ 23 مئی، 2024 کو آئی ایم ایف نے زور دیا کہ پاکستانی حکمرانوں کو "انرجی سیکٹر کے استحکام ، بڑھتی قیمتوں میں کمی کیلئے اصلاحات۔۔عوامی سہولیات میں بہتری کیلئے سرکاری اداروں کی اصلاحات اور نج کاری، پرائیویٹ سیکٹر کی ترقی کیلئے سرمایہ داروں کو لیول پلئینگ فیلڈ اور گورننس میں بہتری" کی ضرورت ہے۔ اگلے ہی دن پاکستان کے وزیر تجارت پاکستان میں کوریا کے سفیر سے ملے ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی پریس ریلیز کے مطابق، وزیر نے "کورین کمپنیوں کو کھلی دعوت دی کہ وہ پاکستان کے تمام شعبوں کا جائزہ لیں اور کمرشل اور اسٹریٹیجک شعبوں میں انویسٹمنٹ کریں، اہم شعبوں، جن کی نشاندہی کی گئی، ان میں انرجی سیکٹر شامل ہے۔" نج کاری کیلئے چنے گئے اداروں میں بڑے منافع بخش توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں ، جیسے RLNG پلانٹ ، جینکو1،2،3،4، پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیاںوغیرہ۔
استعمار کی اندھی غلامی میں حکومت پاکستان نے انرجی سیکٹر کو سرمایہ داروں کیلئے سونے کے انڈے دینے والی مرغی بنا رکھا ہے، جو صنعت بشمول سٹریٹیجک ملٹری انڈسٹری کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ "قومی خزانے پر سرکاری اداروں کا بوجھ کم کرنا" اور "حکومت کا کام بزنس کرنا نہیں" کے آئی ایم ایف کے سرمایہ دارانہ ڈاکٹرائن کی گردان کرنا حکمرانوں اور مغربی تربیت یافتہ IMF کے معاشی ہٹ مینوں کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ اور انھیں جیسا قطعاً کوئی پرواہ نہیں کہ اس پوسٹ واشنگٹن کنسینسس کا خمیازہ عوام غربت، تنگدستی، قرضوں اور خودکشیوں کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ انرجی سیکٹر کی نج کاری اور تباہ کن منصوبوں کے جس ریفارمزنے اس سیکٹر کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے، وہ ریفارمز 90 کی دہائی میں آئی ایم ایف اور دیگر مغربی اداروں کی ڈکٹیشن پر ہی نافذ ہوئے تھے۔ ان ریفارمز کا نتیجہ یہ ہے کہ سال 2024-25 کیلئے حکومت 4000 ارب کے بلوں میں سے 2200 ارب صرف کیپیسٹی پیمنٹ میں ادا کرنے جا رہی ہے، خواہ یہ نجی پاور پلانٹ سنگل یونٹ بھی پیدا نہ کریں!
توانائی کے شعبوں میں اصلاحات نے مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بینکوں کے مالکان کی تجوریاں بھری ہیں۔ یوں یہ ریفارمز عوام کے گھروں پر دن دہاڑے ڈاکہ ڈال کر سرمایہ داروں اور بینکوں کی تجوریاں بھرنے کے 'ریفارمز' ثابت ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکمران انرجی سیکٹرز کے منافع بخش اداروں کی بھی نج کاری پر تلے ہوئے ہیں۔ 'نج کاری کے بعد ادارے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے'والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ سب سے پہلے جن 160 اداروں کی نج کاری ہوئی ، ان میں سے 130 کیوں بند ہوئے!' حکومت کا کام بزنس کرنا نہیں' کی رٹ لگانے والے کیوں نہیں بتاتے کہ عوام کو بنیادی سہولیات اور یوٹیلیٹیز پہنچانے کو بزنس کس نے بنایا؟ 'نج کاری سے حاصل رقوم سے ہم قرضوں کو ادا کریں گے' کے دعوے دار بتائیں کہ سینکڑوں اداروں کی نج کاری کے بعد ہمارے قرضے کتنے کم ہوئے؟ اور نج کاری کے بعد عوام کو فائدہ ہوا یا سرمایہ دار خاندانوں کو؟ سرمایہ داری دولت کو صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز کرتی ہے، اور عوام کو قوم کی دولت میں ان کے حصہ سے محروم کر دیتی ہے۔
سوشلزم اور سرمایہ دارانہ، دونوں نظاموں نے اس اہم اور سنجیدہ فکری موضوع، کہ کون سے وسائل عوام کے پاس ہو، اور کونسے ریاست یا مشترکہ ملکیت میں، کو سمجھنے میں فاش غلطی کی ہے۔ درحقیقت دونوں ہی انتہاؤں پر کھڑے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موضوع کی گہرائی محدود انسانی دماغ کی حدود سے ماوراء ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس موضوع کو لامحدود دانائی سے حل کر کے انسانیت پر اپنی رحمت نازل کی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، «المسلمون شركاء في ثلاث: في الماء والكلأ والنار» "مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں، پانی کے وسائل، چراگاہیں اور (جس سے )آگ(پیدا ہو)۔ "(احمد)۔ اسلام میں توانائی اور معدنیات عوامی ملکیت کی تعریف میں آتے ہیں۔ یہ وسائل لازمی استعمال کے باعث عوام کی ایک مشترکہ ضرورت ہیں،خواہ وہ سستے ہوں یا مہنگے، لوگ ان کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ریاست عوامی املاک کے اثاثوں کی نگرانی کرتی ہے، جیسے تیل، گیس، پانی، چراگاہوں کی زمین، بجلی اور پانی، تاکہ انھیں عوام کے استعمال کیلئے مہیا کیا جا سکے۔ مسلمانوں کے خلیفہ کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ نجکاری کے ذریعے عوامی ملکیت کے ان اثاثوں کو نجی ملکیت میں منتقل کرے۔
خلافت میں توانائی، جو معیشت میں دولت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، اجتماعی طور پر لوگوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ ملکیت کے حوالے سے اپنے منفرد نقطہ نظر کی وجہ سے اسلام معاشرے میں دولت کی گردش کو یقینی بناتا ہے۔ اسلام دولت کو چند سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہونے سے روکتا ہے۔ مزید یہ کہ اسلام کے معاشی احکام کے نتیجے میں عوام کو بجلی، تیل اور گیس سستے داموں دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ نبوت کے طریق پر بننے والی خلافت ہو گی جو نجکاری کے ذریعے عوامی املاک جیسے توانائی اور ایندھن کے استحصال کو ختم کرے گی۔ یہ صنعتی انقلاب برپا کرتے ہوئے مناسب قیمتوں پر ایندھن اور توانائی کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ مسلمانوں کو گرتے ہوئے استعماری نظام کو ایک آخری دھکا دینا چاہیے، تاکہ وہ اس کے بوجھ سے خود کو چھٹکارا حاصل کر لیں۔ مسلمانوں کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ امت کے فوجی افسران نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ دیں تاکہ امت ایک بار پھر اللہ عزوجل کی اس بے پناہ دولت سے پوری طرح مستفید ہو سکے، جو اللہ نے اسے عطا کیا ہے۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |