الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری (پرائیوٹائزیشن) ایک نقصانِ عظیم ہے اور اسلام کی رُو سے حرام ہے

29 اکتوبر سے لے کر8 نومبر 2014ء تک آئی.ایم.ایف نے پاکستان کے وزیر خزانہ، گورنر سٹیٹ بینک اور دیگرعہدیداروں کے ساتھ طویل مذاکرات کیے جس کا بنیادی نقطہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری تھا۔ان مذاکرات کے فوراً بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ایک تابعدار ملازم کی طرح بذاتِ خود چین اور جرمنی کا دورہ کیا اور ان ممالک کی کمپنیوں کو پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جبکہ یہی دعوت وہ اس سے قبل امریکی کمپنیوں کو بھی دے چکے ہیں۔ یقیناً نجکاری کے ذریعے پاکستان کے توانائی کے شعبے کی ملکیت کا حصول استعماری قوتوں کے منصوبے کا اہم جزو ہے، یہی وجہ ہے کہ استعماری مالیاتی ادارے توانائی کے شعبے کی نجکاری کو پاکستان کو قرضے فراہم کرنے کے لیے بنیادی شرط قرار دے رہے ہیں۔ 7 اپریل 2014ء کو آئی.ایم.ایف کی جاری کردہ رپورٹ "پاکستان-پروگرام نوٹ" میں توانائی کی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے "حکومتی شعبے میں موجود کمپنیوں کی نجکاری" پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح 2 مئی 2014ء کو پاکستان کے لئے عالمی بینک کے ڈائریکٹر نے بھی توانائی کی "قیمتوں میں اضافے" اور "اس شعبے کو نجی کمپنیوں کے لئے کھول دینے" پر زور دیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری پاکستان کی معیشت کو بحال و مضبوط نہیں بلکہ کمزور کررہی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس اہم شعبے پر غیر ملکی کنٹرول قائم ہو رہا ہے جو ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔

آئی.ایم.ایف، عالمی بینک اور راحیل-نواز حکومت مل کر مسلسل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کررہے ہیں تا کہ توانائی کے شعبے کی نجی ملکیت میں منتقلی کے ساتھ ہی ان کے نئے مالکان کو زبردست منافع ملنے لگے چاہے اس کے نتیجے میں عوام کو انتہائی تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ 5 اگست 2014ء کو حکومتی ملکیت میں چلنے والے ادارے آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (OGDCL) نےمالیاتی سال 14-2013ء میں 124 ارب روپے کے ریکارڈ خالص منافع کا اعلان کیا، یہ منافع پچھلے سال کے مقابلے میں 36 فیصد زیادہ ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُن کمپنیوں کی نجکاری کی جارہی ہے جو منافع کما رہی ہیں اور یہ امت کے مفاد میں نہیں ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ "حکم شرعی" کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے تحت تیل و گیس عوامی اثاثے ہیں۔اس کے علاوہ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں اس لئے مسلسل بڑھائی جاتی ہیں کہ لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر نجی شعبے کی کمپنیوں کے نفع کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ توانائی کے شعبے کی نجکاری ہی ہر روز کئی کئی گھنٹوں طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ ہے کیونکہ جب بجلی کی پیداوار سے اچھا منافع ممکن نہیں ہوتا تو بجلی کمپنیوں کے نجی مالکان بجلی کی پیداوار کوکم کر دیتے ہیں۔ 25 جون 2013ء کو کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (K.E.S.C) کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 3007 میگاواٹ تھی جس میں IPPs سے حاصل ہونے والی 626 میگاواٹ بجلی بھی شامل ہے۔ لیکن کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن نے محض 1200 سے 1400 میگاواٹ بجلی پیدا کی جبکہ کراچی جو کہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، کی ضرورت 2100 میگاواٹ تھی۔

اس کے علاوہ جب یہ کمپنیاں نجی ہاتھوں میں ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی بھی ہوں تو وہ مقامی معیشت کو مضبوط کرنے کی پرواہ نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنی حکومتوں یا استعماری اداروں کے جانب سے اس بات کی پابند ہوتی ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے رکھیں کہ پاکستان اور اس کی معیشت عالمی سطح پر مقابلہ نہ کرسکے۔ لہٰذا فروری 2013ء سے ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لئے ملکی کوئلے کی جگہ مہنگا برآمدی کوئلہ استعمال ہو جبکہ پاکستان کے علاقے تھر میں دنیا کا چھٹا بڑا کوئلے کا ذخیرہ موجود ہے۔ توانائی کے شعبے میں کئی دہائیوں سے جاری نجکاری کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیاں مسلسل نفع بنارہی ہیں جبکہ مقامی صنعت اور زراعت زوال اور تباہی کا شکار ہورہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور مسلسل مہنگی ہوتی بجلی اور گیس نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اور پاکستان کو دولت کے ان وسیع ذخائر سے محروم کر دینا ہی کافی نہ تھاکہ استعماری طاقتیں پاکستان پر مسلط اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں بھی مسلسل اضافہ کرتی جارہی ہیں تا کہ معیشت کی تباہی میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ یہ سب کچھ اس بہانے کیا جارہا ہے کہ اتنے محصول اکٹھے کیے جائیں جس سے غیر ملکی سودی قرضوں کی ادائیگی کی جاسکے جبکہ پاکستان پہلے ہی قرضوں کی اصل رقم سے کئی گنا زیادہ پیسے ادا کرچکا ہے۔ یہ ایک استعماری جال ہے جس کو اس مقصد کے لئے بُنا گیا ہے تا کہ پاکستان کبھی بھی اس دلدل سے نکل کر ایک عظیم اور مضبوط ریاست نہ بن سکے۔

پاکستان کی بیمار معیشت کا علاج نجکاری، غیر ملکی سرمایہ کاری یا استعماری قرضے حاصل کر کے ممکن نہیں بلکہ یہ تو خود انتہائی خطرناک بیماریاں ہیں جو معیشت کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہیں۔ اس بیمار معیشت کا علاج صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کیا جائے جس کی بدولت اس قدر محصول اکٹھا ہوتا ہے کہ پوری معیشت میں انقلاب برپا ہوجائے۔سرمایہ داریت (Capitalism) اور کمیونزم کے برخلاف اسلام میں توانائی کے وسائل نہ تو ریاست کی ملکیت ہیں اور نہ ہی یہ کسی پرائیویٹ کمپنی کی ملکیت ہو سکتے ہیں بلکہ اسلام نے انہیں مسلمانوں کے لئے عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء والکلاء والنار "مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ (توانائی)" (ابو داؤد)۔ لہٰذا اگرچہ ریاستِ خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں کے امور کی دیکھ بھال کرتی ہے لیکن خلافت کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی عوامی اثاثے کو نجی ملکیت میں منتقل کردے چاہے وہ کوئی فرد ہو یا گروہ کیونکہ یہ مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی آمدن لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اور عوامی سہولیات پر ہی خرچ کی جا سکتی ہے نہ کہ ریاستی اخراجات پر۔ یہ اصول تمام عوامی اثاثوں پر لاگو ہوتا ہے چاہے وہ توانائی کے وسیع ذرائع ہوں جیسا کہ تیل، گیس، بجلی وغیرہ یا معدنیات جیسا کہ تانبے، لوہے کی کانیں یا پھر پانی جیسا کہ سمندر، دریا، ڈیم یا پھر چراہ گاہیں اور جنگلات۔ یقیناً یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ اگرچہ امت مسلمہ دنیا میں موجود تیل و گیس اور معدنیات کے بہت بڑے حصے کی مالک ہے لیکن اسلام کے معاشی نظام کے نافذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان غربت کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں اور امت دنیا کے امور میں کوئی وزن نہیں رکھتی جبکہ ایسے ممالک دنیا کے امور پر چھائے ہوئے ہیں جو اس دولت کے بہت کم حصے کے مالک ہیں۔

اے پاکستان کے مسلمانو! جب تک ہم کفر کی حکمرانی تلے رہیں گے جو استعماری طاقتوں کو ہمارے امور پر فیصلے کرنے کا اختیار دیتی ہے، ہماری معیشت کی تباہی و بربادی اسی طرح جاری و ساری رہے گی۔ اس جبر و استحصال کے نظام میں ہم نقصان ہی اٹھاتے رہیں گے چاہے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف یا کوئی بھی حکمرانی کی باگ ڈور سنبھال لے۔ تباہی و بربادی کا شکار صرف وہ لوگ ہی نہیں ہوتے جو کفر کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں بلکہ وہ بھی اس کا شکار ہوتے ہیں جو کفر کی حکمرانی کو جاری و ساری دیکھنے کے باوجود اسے ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ " اور ڈرو ایسے فتنے سے جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ظالم ہیں اور جان لوکہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے " (الانفال:25)۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے منصوبے میں اپنا حصہ ڈالے، اور اس کے حصول کے لئےحزب التحریر کے بہادر اور باخبرشباب کےساتھ مل کربھرپور جدوجہد کرے تا کہ اسلامی طرزِ زندگی ایک بار پھر زندہ ہوجائے۔

اے افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران! آپ نے جن لوگوں کے دفاع کی قسم اٹھائی ہے وہ مشکلات و مصائب میں پِس رہے ہیں۔ جس ملک کے دفاع کی آپ نے قسم اٹھائی ہے اسے برباد و ویران کیا جارہا ہے اور اسے اس کی صلاحیت کے مطابق مقام حاصل کرنے سے روکا جارہا ہے۔ جس دین کی سربلندی کی آپ نے قسم کھائی ہے اسے پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے، اس سے غفلت برتی جا رہی ہے اوراس کے نفاذ کو روکا جا رہاہے۔ آپ نہ تو اس صورتحال کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو اس کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں کیونکہ یہ آپ ہی ہیں جو خلافت کے قیام کو ممکن بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آپ مدینہ کے جنگجو انصار کے وارث ہیں جنہوں نے بطورِ ریاست و قانون اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کو نُصرۃ فراہم کی تھی۔ آج تبدیلی لانے کا فرض عملاً آپ پر عائد ہوتا ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ خلافت کے قیام کے لئے مشہور فقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی قیادت میں حزب التحریر کو نُصرۃ فراہم کریں اور اِس امت کے اُس مقام کو بحال کر دیں جس کی یہ حق دار ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ * وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ " اس روز مسلمان شاد مان ہوں گے، اللہ کی مدد سے۔ وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے" (الروم:6-4)۔

Read more...

خلافت کو قائم کرو جو مسلمانوں کوہندو ریاست کی بالادستی سے نجات دلائے گی

بھارت لگاتارکئی دنوں تک پاکستان پر جارحانہ حملے کرتا رہا، جو عید کے دوران بھی جاری رہے، بچے، عورتیں اور بوڑھے ان حملوں میں ہلاک اور زخمی ہوتے رہے، لیکن راحیل-نواز حکومت نے محض لفظی مذمت کو ہی کافی سمجھا۔ حالانکہ اس طرح کا کمزور ردعمل ہمیشہ دشمن کا حوصلہ بڑھانے کا باعث بناہے۔ پس 9 اکتوبر 2014ء کو، جبکہ پاکستان کے مسلمانوں پر ایک ہزار مارٹر گولے برسائے جا چکے تھے، بھارتی وزیر اعظم مودی نے ایک سیاسی جلسےمیں اشتعال انگیز انداز میں کہا: "دشمن چیخ و پکار کررہا ہے دشمن نے یہ جان لیا ہے کہ وقت اب بدل چکا ہے اور اس کی پرانی عادتوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا"۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت 10 اکتوبر 2014ء کو بالآخرنیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے لیےاکٹھی ہوہی گئی، جس کے بعد وزیراعظم کے دفتر نے یہ بیان جاری کیا کہ"جنگ کوئی آپشن نہیں ہے۔ یہ دونوں ممالک کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوراً کشیدگی کا خاتمہ کریں"، بے شک یہ بیان بھارت کی ننگی جارحیت کے جواب میں پھولوں کانذرانہ پیش کرنے سے کم نہیں۔

ایک طرف ہندو ریاست ہے جوپاکستان کے خلاف عملی طور پر دشمنی اور جارحیت کا مظاہرہ کر رہی ہے، جبکہ دوسری طرف راحیل-نواز حکومت ہے جو دشمن کے سامنے اس حد تک جھک گئی ہے کہ اس نے حملے سے بچاؤکے لیے جنگ کو آپشن سے ہی نکال دیا ہے۔ اس حکومت نے اپنی عوام پر برسنے والی آگ اور بارود کے جواب میں محض مذمتی بیان جاری کیے اور اس کمزور مذمت کو امن، مذاکرات اور حالات کو معمول پر لانے کی بھیک مانگ کر مزید کمزور کردیا۔ پھر اس حکومت نے مسلمانوں میں موجود ایمان کی حرارت کو سرد کرنے کے لیے اپنے چمچوں کو متحرک کیا، بجائے یہ کہ وہ مسلمانوں میں موجود فتح اورشہادت کے جذبات کو اجاگر کر کے انہیں مضبوط کرتی۔ اس حکومت نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کو حل کے طور پر پیش کیا جبکہ یہ حکمران اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اقوامِ متحدہ استعماری طاقتوں کی آلہ کار ہے اور مسلمانوں کی ابتر صورتِ حال کی ذمہ دارہے، یہ اقوامِ متحدہ ہی ہے کہ جس نے اسلامی علاقوں کو مصنوعی سرحدوں کے ذریعے ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہےاوردنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے کفار کو جواز مہیا کرتی ہے۔ افسوس! یہ سب اقدامات ایک ایسی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں کہ جس کی کمان میں مسلم دنیا کی سب سے طاقتور فوج موجودہے جو نہ صرف ایٹمی اسلحے سے مسلح ہے بلکہ اس میں بے شمار ایسے جوان اور افسران موجود ہیں جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ بے شک رسول اللہﷺ نے سچ فرمایا کہ: ما ترك قوم الجهاد إلاّ ذُلّوا "جو قوم جہاد چھوڑ دیتی ہے وہ ذلیل و رسواء ہو جاتی ہے" (احمد)۔

اے پاکستان کے مسلمانو! بھارت کی حالیہ جارحیت اور راحیل-نواز حکومت کا ہندو ریاست کے سامنےسرنگوں ہونا امریکی منصوبے کے مطابق ہے جو وہ اس خطے میں نافذ کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ بھارت کو خطے میں بالادست ریاست کے طور پر ابھرنے میں مدد فراہم کررہا ہے تاکہ بھارت امریکہ کے حریف چین کے خلاف کھڑا ہو سکے نیز بھارت اس پوزیشن میں آ جائے کہ وہ آپ کے اسلامی ریاستِ خلافت کے طور پر ابھرنے سے روکنے میں امریکہ کو مدد فراہم کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی انتخابات میں مودی کی جماعت بی.جے.پی کی کامیابی کے چند ہفتوں بعد ہی امریکی سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے بھارت کا دورہ کیا اور 10 اگست 2014 کو کہا کہ "انڈو پیسیفک (Indo-Pacific) کےطول و عرض میں ہمارے (امریکہ اور بھارت کے) مفادات جتنے اب یکساں ہیں اتنے پہلے کبھی نہ تھے" اور مزید کہا "جیسا کہ بھارت جنوبی ایشیا اور پورے پیسیفک (اوقیانوس) کی امن وسلامتی میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے، تو امریکہ اس کی مدد اور حوصلہ افزائی کرے گا"۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ برما اور اینڈامن (Andaman) اور نیکوبار (Nicobar) کے جزیروں تک اپنا اثر و رسوخ پھیلائے، یہ جزیرے آبنائے ملاکہ کے دہانے پر واقع ہیں جو اُن سمندری گزرگاہوں میں سے ایک ہے جہاں سے دنیا کی فوجی اورتجارتی ٹریفک کا بہت بڑا حصہ گزرتا ہے۔

اورجہاں تک آپ کا تعلق ہے تو امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان یہ قوت رکھتا ہے کہ اگر وہ اس امریکی منصوبےکی مخالفت کی سوچ لےتووہ اسے ناکام بنا سکتا ہے اور اس منصوبے کی کامیابی اس چیز سےمنسلک ہے کہ پاکستان اس منصوبے کو قبول کرلے اور اسے پورا کرنے میں امریکہ کا ساتھ دے۔ یہی وجہ ہے کہ آمریت ہو یا جمہوریت ہر حکومت نے امریکہ کے وفادار خدمت گار کے طور پر اس امریکی منصوبے کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اوربھارت کے مقابلے میں آپ کی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ امریکہ آپ میں موجود جذبہ جہاد سے خوفزدہ ہے جو کہ میدانِ جنگ میں آپ کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے، لہٰذا امریکی ایجنٹ حکمران اُن تنظیموں سے دستبردار ہوگئے اوران کا تعاقب کرنے لگے جو کشمیر کو بھارت کے تسلط سے آزاد کرانےکے لئے اسکے خلاف لڑرہی تھیں۔ اس کے بعد امریکی ایجنٹوں نے پاکستان کی افواج کو قبائلی علاقوں کے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی جنگ کا ایندھن بنادیا۔ پھر ان امریکی ایجنٹوں نے افواجِ پاکستان کی "سبز کتاب" (The Green Book) میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کی تاکہ آپ کی فوج کی توجہ کوبھارت سے ہٹا کر اسے پاکستان کے اندر ہی مصروف کردیا جائے اور فوج کی بڑی تعداد کو بھارتی سرحد سے ہٹا کر افغانستان سے متصل قبائلی علاقوں میں منتقل کردیا۔ امریکہ کی وفادارحکومتوں کے ان اقدامات کے نتیجے میں ہماری افواج پر مسلط کی گئی کمزوری کو بھارت نےجان لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ 12 اگست 2014ء کو بھارتی وزیر اعظم مودی نے کارگل میں موجود بھارتی افواج سے خطاب کرتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا: "پاکستان اب روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیت کھو چکا ہے"۔

امریکی ایجنٹوں نےہماری فوجی صلاحیتوں کو کمزور کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ وہ ہمارے سیاسی اثرو رسوخ اور اقتصادی طاقت کو بھی کمزور کررہے ہیں۔ اس حکومت میں موجود امریکی ایجنٹ پاکستان کو اُن علاقائی کانفرنسوں میں گھسیٹ رہے ہیں جہاں بھارت کو بالادستی حاصل ہے جبکہ بھارت اس سے آگے بڑھ کراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے پر نظر جمائے ہوئے ہے جہاں امتِ مسلمہ کی تباہی و بربادی کے منصوبے بُنے جاتے ہیں۔ یہ تمام اقدامات ہندو ریاست کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ہمارے سیاسی معاملات میں بھر پور مداخلت کرے، حالانکہ ہندوؤں کو جب بھی مسلمانوں کےمعاملات پر کسی بھی درجے کا اختیارحاصل ہوا انہوں نے مسلمانوں کونقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہےتویہ حکومت توانائی کے کئی معاہدوں کا حصہ بن کر بھارت کومشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا میں موجود امت کے تیل و گیس کے ذخائر تک رسائی دے رہی ہے تاکہ توانائی کی قلت کے شکار بھارت کی اشد ضرورت کو پورا کیا جائے۔ اورجہاں تک تجارتی معاہدوں کا تعلق ہے تو ان کے ذریعے پاکستانی حکومت امریکہ کی طے کردہ حکمت عملی کو پورا کررہی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، جہاز سازی اور خلائی ٹیکنالوجی جیسے اعلیٰ شعبے تو ہندوؤں کے لیے ہوں گے لیکن مسلمانوں کو سیاحت، قالین سازی اور کھیلوں کے سامان کی تیاری جیسے معمولی شعبوں تک محدود رکھاجائے گا۔

اے پاکستان کے مسلمانو!اسلام مسلمانوں کو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ وہ بے وقعت مشرکین کی جارحیت کے سامنے سر جھکا دیں، چاہے وہ ہندو ہوں یا کوئی اور۔ اسلام نے ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کفار ہمارے معاملات پر حاوی ہوں اوران میں مداخلت کریں۔ بلکہ اسلام ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ دشمن کو جواب دینے کے لیے تمام تر اسباب و ذرائع کواختیار کیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ "مشرکین کے ساتھ لڑو اپنے مال کے ساتھ، اپنی جانوں کے ساتھ اور اپنی زبانوں کے ذریعے" (ابو داود)۔ لیکن بجائے یہ کہ حکومت ہماریطاقت کو دشمن کے خلاف استعمال کرتی وہ اس طاقت کو بھارت کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے، اور بھارت کو مضبوط کرناخطے کے متعلق امریکہ کا وسیع تر منصوبہ ہے۔ یہ صورتِ حال ہم پر لازم کرتی ہے کہ ہم اس عظیم نقصان سے بچاؤ کے لئے حزب التحریر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی ڈھال یعنی خلافت کے قیام کے لئے دن رات کام کریں۔

اے افواج پاکستان! سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار، مسلمانوں کو ہندو ریاست کا غلام بنانے کے لئے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ تو کیا آپ مایوسی اور نامیدی کے عالم میں اس صورتِ حال سے لاتعلق رہنا پسند کریں گےاور ان کی غداریوں کو قبول کرلیں گے؟ جبکہ آپ اس امت کے شیر ہیں جنہیں زنجیروں میں قید رکھا گیا ہے۔ وہ ہندو جو کئی سالوں کے دوران لاکھوں کی فوج کے باوجود معمولی اسلحے سے لیس چند ہزار مسلم مجاہدین کو کشمیر میں شکست نہیں دے سکا وہ آپ کا سامنا کس طرح کرسکتا ہے؟ آج کی سپر پاور امریکہ اس خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لئے آپ پر انحصار کرتا ہے اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ آپ اسے یہاں سے نکال باہر کرسکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں آپ نےاُس وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو نکال باہر کیا تھا۔ یہودی آپ سے خوفزدہ ہیں اور ان کی نیندیں حرام ہیں کہ کہیں آپ مسجد اقصٰی کے مسلمانوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے حرکت میں نہ آجائیں اور یہودی ریاست کا خاتمہ کردیں۔ تم وہ شیر ہو جسے یہ یقین دلایا گیا ہے کہ تم تو کسی معمولی مخلوق کا سامنا بھی نہیں کرسکتے، لیکن تمہارے ہاتھ کا صرف ایک وار ہی تمہیں یہ دکھا دے گا کہ امتِ مسلمہ دنیا کی دیگر تمام اقوام کے مقابلے میں کس قدر مضبوط ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: يا أيها الذين ءامنوا قاتِلوا الذين يَلونكم من الكفار وَلْيجِدوا فيكمْ غِلْظَةً واعْلَموا أنَّ اللّـهَ مع المتقين "اےایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے نزدیک رہتے ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے"(التوبۃ:123)۔

اس شکست خوردہ اور غدار حکومت کو مسترد کردو، اٹھو اور اسلامی خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نُصرۃ فراہم کرو۔ صرف اسلام کے نفاذ کی صورت میں ہی ہم رسول اللہﷺ کی اس بشارت کو پورا ہوتے دیکھ سکیں گے جسے ابوہریرہ ؓنے روایت کیا کہ وَعَدَنا رسولُ اللّـهِ (ﷺ) غزوةَ الهند، فإنْ أدركتُها أُنْفِقْ نفسي ومالي، وإنْ قُتِلْتُ كنتُ أفضلَ الشهداء، وإنْ رجعتُ فأنا أبو هريرة الـمُحَرَّرُ "اللہ کے رسولﷺ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ کیا۔ اگر میں نے وہ زمانہ پالیا تو میں اس کے لئےاپنی جان اور مال لگا دوں گا۔ اگر میں مارا گیا تو میں بہترین شہداء کی صحبت میں ہوں گا اور اگر میں زندہ واپس آیا تو میں (گناہوں سے) آزاد ابوہریرہ ہوں گا" (احمد، نسائی، الحاکم)۔ اور ثوبانؓ نے روایت کیا کہ عِصابتان من أُمّتي أَحْرَزَهُما اللّـهُ من النار: عِصابةٌ تغزو الهندَ، وعِصابةٌ تكون مع عيسى ابن مريم عليهما السلام "میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ کردیا ہے۔ ایک وہ جو ہند فتح کرے گا اور دوسرا وہ جو عیسٰی ابن مریم علیہ اسلام کے ساتھ ہوگا"(احمد، النسائی)۔

 

Read more...

  حکمران اور عوام کی زمہ داری   یہ کتابچہ حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خواتین ممبران کی جانب سے جاری کیا گیا

 

اِس کتابچے میں حکمران اور عوام کے درمیان تعلق کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ،اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ایک مضبوط اسلامی معاشرے کے لیے اس تعلق کی کتنی اہمیت ہے۔یہ کتابچہ ایک انتہائی اہم موضوع کاتعارف ہے۔اِس میں اس بنیادی نکتے کوبیان کیاگیاہے کہ ایک مسلمان کی کیاذمہ داری ہے اور خاص کرعوام کے حوالے سے حکمران کی اورحکمران کے حوالے سے عوام کی کیا ذمہ داریاںہیں۔جب اللہ گکے حکم سے خلافت کی واپسی ہوگی، تواُمت پرلازم ہوگاکہ اسے اپنے دانتوں کی گرفت سے پکڑلے، تاکہ وہ تباہ کن حالات دوبارہ ہم پر مسلط نہ ہوسکیں جو اسلامی خلافت کی غیرموجودگی میں ہم آج بھگت رہے ہیں۔

 

PDF فائل داؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

 

Read more...

نوید بٹ کو رہا کرو پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کی رہائی کے لیے انڈونیشیا سے لے کر تیونس تک جاری بین الاقوامی مہم  

نوید بٹ ،اس امت کا معزز اور قابل احترام بیٹا، اسلام اور خلافت کا بے خوف داعی،جسے 11مئی2012کو پاکستان میں چیف امریکی ایجنٹ جنرل کیانی کے غنڈوں نے اغوا کرلیا تھا۔ کیانی کا یہ جرم اس امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت اسلام اور خلافت کی واپسی کی بڑھتی ہوئی خواہش کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔نوید آج بھی ظالموں کی قید میں اور لاپتہ ہے۔

Read more...

شامی مسلمانوں کے انقلاب کے خلاف امریکی قیادت میں جدید صلیبی اتحاد مکڑی کے جالوں سے بھی کمزور ثابت ہوگا

﴿سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ﴾
"(حقیقت تو یہ ہے کہ) اس جمعیت کو عنقریب شکست ہو جائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے" (القمر:45)


23 ستمبر 2014 کو امریکی بمبار طیاروں نے "تنظیم البغدادی "، "النصرۃ فرنٹ" اور متعدد دیگر دھڑوں کے ٹھکانوں پر درجنوں حملے کئے جس کے باعث بہت سے جنگجو اور شامی شہری قتل اور زخمی ہوئے ۔ اس گناہ اور جرم میں اس کے ساتھ سعودیہ، بحرین ، امارات ، قطر اور اردن بھی شریک ہوئے۔ یہ حملے کرکے امریکہ ایک نئے منصوبے میں داخل ہوا ہے ، جس کے ذریعے وہ شام کے معاملات کو خود ہی اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے جبکہ اس کا ایجنٹ مجرم بشار، ایران اور اس کے پیروکار شام کے اندر مسلمانوں کو اپنا تابع بنانے اور شام کے حق میں امور طے کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ چنانچہ شامی قوم پر بمباری کا مشن اسد کی جگہ اوباما سرانجام دے گا تاکہ امریکی سیاسی حل کی راہ ہموار کرنے کے لئے اسے تقویت فراہم ہو۔
بلا شبہ امریکہ" البغدادی تنظیم" کی آڑ لے کر حقیقت میں شام کے اندر اپنے اثر و نفوذ اور وہاں اپنے مفادات کی نگہبانی کرنے کی کوشش کررہا ہے اوریہ کام وہ ایسے متبادل امریکی ایجنٹ کے ذریعے کروائے گا جو حکومت کی باگ ڈور سنبھال سکے ۔اس لئے اوباما نے کل ایک پریس کانفرنس کے دوران عہد کیا کہ "ہم شامی اپوزیشن کی تربیت اور تیاری کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں ، جو اس قابل ہوگی کہ وہ داعش اور اسد حکومت کی جگہ ایک بہتر اور متبادل توازن کو تشکیل دے"۔ کیونکہ اوباما نے غرور و تکبر میں ڈوبے ہوئے لہجے میں پہلے سے اعلان کیا تھا کہ "ایسے سیاسی حل تک پہنچنا جس کا ہدف شامی بحران کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرنا ہے" اس مہم کے اہداف میں سے ہے۔ اس سے اوباما کے اُس بیان کی وضاحت ہوجاتی ہے، جب اس نے کہا تھا "شام میں داعش کے حوالے سے کوئی بھی منصوبہ وقت لے گا "۔ اور اگر "تنظیم البغدادی " کے خاتمہ کو صرف عسکری پہلو تک محدود رکھا جانا ہوتا تو ان طویل المدتی پالیسیوں پر بات کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔
یہ ہے امریکہ جس کی یہ فطرت کبھی بدلتی نہیں کہ وہ ہمیشہ سے صرف مفاد کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں بناتا ہے اور جسے صرف اپنے آپ کی فکر ہی لگی رہتی ہے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت اس کے جرائم کی بھینٹ چڑھتی ہے۔ یہ حقیقت سویت یونین کے سقوط کے بعد کھل کر سامنے آئی، جب اس نے ایک تہذیبی منصوبے کی حیثیت سے اسلام کے خلاف اپنی کشمکش کا محاذ کھول دیا ۔ اور اوباما دور میں بالخصوص شام میں مسلمان مقتولین کی تعداد اپنے پیش رو بدنام زمانہ بش جونئیر کے دور سے بھی زیادہ ہوچکی ہے ۔ چونکہ اوباما کو مسلمانوں کے خلاف کئے گئے اپنے جرائم اور دشمنی کی کرتوتوں کا اندازہ ہے، اس لئے اس معرکے میں خطے کے ممالک کو شریک کرنے پر اصرار کیا تاکہ وہ یہ باور کرائے کہ یہ "صرف امریکی جنگ " نہیں، جیسا کہ اوباما نے کہا ۔ بلکہ اس نے ایک ایک ملک کا نام لے کر اسے حکم دیا کہ وہ سرکاری بیانات کے ذریعے اپنی شرکت کا اعلان بھی کریں ۔ وائٹ ہاوس نے شام پر فضائی حملوں میں شرکت کرنے والی پانچ عرب ریاستوں کے وفود کے قائدین کواوباما کی اس خواہش سے مطلع کردیا کہ وہ نیویارک پہنچتے ہی ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب اس لئے کیا تاکہ مسلمانوں کے خلاف اپنے جرائم کی حقیقت پر پردہ ڈالے ۔ یقیناً یہ خیانت ہے کہ مسلمانوں کے یہ گھٹیا حکمران فضائی حملوں میں شرکت کررہے ہیں، جبکہ یہ ان حملوں کے نتائج سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہر ایک حملے کے نتیجے میں درجنوں معصوم مسلمان قتل ہوتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور یمن میں کیا ہورہا ہے جن کے حالات اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے ہم تک پہنچتے رہتے ہیں۔ اس بنا پر ان پانچ ریاستوں نے جس جارحیت کا ارتکاب کیا ہے جن کی قیادت سعودیہ کررہا ہے جو جھوٹے اور خودساختہ طور پر اسلام کی حمایت و حفاظت کا بھی دعویدار اور علمبردار ہے، ایک ناقابل معافی جرم ہے ۔ نیز قومی اتحاد کی طرف سے اس جارحیت کی حمایت کا اعلان اور مبارکباد سچ مچ اس بات کا اعلان ہے کہ وہ امریکی جارحانہ پالیسی کا ایک سستا پیرو کار ہے اور یہ اتحاد اپنے آپ کو موجودہ عراقی حکمرانوں کی مثل کردار ادا کرنے کے لئے پیش کررہا ہے۔ اس لئے یہ ریاستیں بشمول ِاتحاد ایمان کے ہیڈ کوارٹر میں آنے کی بجائے امریکی کفر یہ ہیڈ کوارٹر میں جاگھسے ہیں۔ اور ہم صراحت کےساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج بلادالشام میں خلافت راشدہ کے عظیم منصوبے سے مسلمانوں کو باز رکھنے کے لئے امریکی قیادت میں ایک نیا صلیبی اتحاد وجود میں آگیا ہے، جس پر پردہ ڈالنے اور اس کے اہداف کو نظروں سے اوجھل رکھنے کے لئے اوباما نے ان پانچ عرب ریاستوں کو شریک کیا جوخیانت کے بین الاقوامی کلب کے مستقل ممبر ہیں ۔ ہم ان حکمرانوں کے بارے میں مسلمانوں کوخبردار کرتے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ بلاد الشام کے اندر امت کا انقلاب ہماری خواہش ہے، جبکہ یہی حکمران مسلمانوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں اور نہایت گندا کردار ادا کررہے ہیں ۔ اور شام کے اس مبارک انقلاب کو سیاسی رقوم سے خرید کر مغرب اور امریکہ کو بیچ دینے کی کو شش کرتے ہیں ۔ تو یہ ریاستیں انقلاب کے حوالے سے ایران سے کم خطرناک نہیں ہیں۔ آج یہ ریاستیں اسلام کے خلاف جنگ میں اس لئے امریکہ اور مغرب کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں کیونکہ ان کو یہ خوف ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام سے ان کے تخت دھڑام سے نیچے گرجائیں گے، جیساکہ امریکہ کو بھی یہی خوف بے چین کئے ہوئے ہے۔ یہ کوتاہ نظر حکمران یہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ کے "جدید مشرق وسطیٰ " کے تقسیم کے منصوبے کی ہوائیں ان کو بھی لگیں گی اور یہ بچ نہیں پائیں گے، جبکہ اپنی غدار اور مجرمانہ حرکتوں کے سبب اللہ کے عذاب کا مزہ بھی ضرور چکھ لیں گے۔
بلا شبہ شام کے مسلمانوں پر جارحیت میں امریکہ کے ساتھ بعض حکمرانوں کی شرکت اللہ کے ہاں ایک جرم عظیم ہے، جبکہ امریکہ اسلام اور مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے اور اس کے خطرناک معروضی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ یہ امریکی منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور اسلامی سرزمینوں پر اسے تسلط دلانے کے مترادف ہے اور ساتھ ہی اسلامی خلافت کی شکل میں اسلامی منصوبے پر ٖضرب لگانا ہے جس کو قائم کرنا اللہ تعالیٰ کاحکم ہے یعنی خلافت علی منہاج النبوۃ ۔ اس شرکت سے امریکہ ان کو اپنے فوجیوں کی طرح استعمال کرنے لگا ہے جو اس کے لئےلڑتے ہیں اور اس کے لئے جاسوسی کرتے ہیں اور اس سے مسلمان آپس کی جنگ میں الجھ گئے ہیں ۔ اس میں مسلمانوں کے لئے کوئی خیر نہیں، کوئی خیر نہیں جیسا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا ۔
سوریا الشام کے صابر اور مخلص مسلمانو! بے شک امریکہ آج تک اسلام کے خلاف فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، اسلام جو اُس کے تہذیبی منصوبے سے نبرد آزما ہے جس کو امریکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے پردے میں برپا کئے ہوئے ہے، اور اوباما نے اپنے پہلے دور اقتدار میں ایک کمزور قراداد پاس کروائی کہ وہ روئے زمین پر فوجی جنگوں میں اپنے ملک کی مداخلت کے خلاف ہے تاکہ زبردست انسانی اور بھاری مادی نقصانات سے بچا جاسکے، جیسا کہ افغانستان اور عراق میں ہمیں سامنا کرنا پڑا اور یہ نقصانات اس کے عالمی منصب پر اثر انداز ہوئے، یہاں تک کہ ایک وقت پر ایسا محسوس ہونے لگا کہ امریکہ عالمی سپر پاور کے منصب کو سنبھال نہیں پائے گا، کیونکہ اسلام کے خلاف جنگ کے عین وسط میں امریکہ مالیاتی بحران سے دوچار ہوا جس کے بارے میں اوباما نے کہا تھا " کساد عظیم کے دور سے لے کر آج تک یہ ہماری معیشت کا بدترین مندا ہے"۔ پھر یہ کہ جب سے امریکہ نے خطے میں جس جنگ کاآغازکیا ہے، اب تک تہذیبی کشمکش اسلام کے مفاد میں جارہی ہے ۔ کیونکہ آج وہ حقائق بے نقاب ہوچکے ہیں جو کسی زمانے میں سربستہ راز تھے۔ اب مسلمانوں کی طرف سے خلافت راشدہ کے قیام کی ضد اور اس کے مقابلے میں مغرب کا مسلمانوں کو اس سے روکنے کی ضد سے جنم لینے والی کشمکش کھل کر سامنے آئی ہے ۔ اور امریکہ نے بغدادی کی مزعومہ خلافت اور اسلام کے نام پر اس کی تنظیم کے بھیانک قتل اور خون خرابے کا اس طور پر فائدہ اٹھا یا، کہ مسلمانوں کے ذہنوں میں خلافت کا ایک مسخ شدہ تصور راسخ کیا جائے۔ ان حالات کے سبب امریکہ ایسی سازگار فضا تیار کرنے کے قابل ہوا کہ اس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نیا صلیبی اتحاد قائم کیا اور جس کے باعث مسلم ممالک کے خائن حکمرانوں کو اس اتحاد میں امریکہ اور مغرب کے شانہ بشانہ اپنے فوجی بھرتی کرنے کا موقع ملا .....مگر یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پہلا اتحاد نہیں، کیونکہ اس سے پہلے بھی قدیم صلیبیوں اور تاتاریوں نے اس قسم کے اتحاد قائم کئے تھے مگر امت نے ان کو روند ڈالا اور وہ اتحاد نیست ونابود ہوگئے اور امت بلند وبرتر رہی.....اور انشاء اللہ اس نئے اتحاد کو بھی اسی قسم کی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ گزشتہ زمانے میں ہوا۔ اور صبح کا انتظار کرنے والا بہت جلد اس کو دیکھ لے گا إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ "یقین رکھو کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے" (غافر:51)۔
سوریا الشام کے صابر اور مخلص مسلمانو! ہم آپ کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ مسلمان کبھی عددی قوت کی کمی یا سامان جنگ کی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوئے۔ ان کی مغلوبیت کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ ان کے اندر ایمانی کمزوری آجائے اور آپس میں پھوٹ پڑ جائے۔ ہمارے لئے تو رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اصحاب بہتر ین نمونہ ہیں۔ وہ سختیوں کے وقت صرف اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ ان حالات میں ہم صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ اور امت کےساتھ مخلص لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے دین پر متحد ہوجائیں، تاکہ اللہ صرف ہماری مدد کرے۔ کیونکہ نصرت اور کامیابی صرف اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی طاقت ور اور قدرت والا ہے، وہ بے پروا ہے، وہی ناصر ہے وہی عزت دینے والا اور ذلت دینے والا ہے وہی ہے کہ جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے لے لے۔ مگر نصرت کی شرائط ہیں جو ہمیشہ ایک رہی ہیں جو نہ تو پہلے زمانے میں حنین میں بدلے تھے جب مسلمانوں کو اپنی کثرت پر ناز ہوا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پسپائی سے دوچار کیا اور نہ ہی اُحد کے دن جب کچھ صحابہ رسول اللہﷺ کے امر پر پورا نہیں اترے تھے تو ان کی ہوا اکھڑ گئی تھی ۔
اور جنگجو دھڑوں میں سے مخلص لوگوں سے ہم کہتے ہیں: کہ صلیبی اتحاد کے یہ حملے جیسا کہ ہم نے پہلے کہا اس زمین بوس ہونے والی حکومت کو سہار ا دینے اور اس امریکی حل کے نفاذ کے لئے ہورہے ہیں جو امریکہ کے پسندیدہ سیاسی حل تک لے جائے گا۔ اس لئے تمہارے اوپر لازم ہے کہ اپنی صفوں میں وحدت پیدا کرو اور اس سے پہلے کہ امریکہ اپنے اہداف کو حاصل کرے اپنے حملوں کواس طور پر منظم کرو کہ اس نظام کو گرجانے کی سمت لے جائیں۔ ایک کا م یہ کرو کہ ادھر ادھر کے فرنٹ بنا کراپنی کوششوں اور قوت کو منتشر نہ ہونے دواور آپس میں نہ لڑو، کیونکہ یہی (انتشار) وہ چیز ہے جو حکومت اور صلیبی اتحاد کی خواہش ہے ۔ سو خدا را ہماری جانوں ہمارے آباؤجداد، ہماری ماؤں، بچوں اور عورتوں پر ترس کرو اور اللہ کے دین پر بھروسہ کرواور اللہ کے صراط مستقیم پر چل کر اپنے المیوں میں کمی لاؤ۔ یہی اللہ کی طرف سب سے قریب ترین اور نزدیک راستہ ہے۔ شرع نے جو بتا یا ہے وہ بالکل روشن اور واضح ہے اور شام یا دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں، اس سے امید کی جاتی ہے کہ جلد تبدیلی آنے والی ہے۔
﴿وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾.
"اور ( اے پیغمبر! اِن سے ) یہ بھی کہو کہ یہ میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اس کے پیچھے چلو، اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو ورنہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے۔ لوگو! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تم متقی بنو" (الانعام:153)۔

Read more...

افواجِ پاکستان کوجمہوریت کی حمایت کرنے کی بجائے خلافت کے قیام کے لئے نُصرہ فراہم کرنی چاہیے


پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہونے والی طویل اور پرتشدد محاذ آرائی کے دوران امریکہ نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ وہ جمہوریت کی حمایت کرتا ہے۔ جب یہ بحران پروان چڑھ رہا تھا تو اس دوران پاکستان میں موجود امریکی سفیر مد مقابل جماعتوں سے ملاقاتوں میں مصروف تھا اور اس نے سب پر واضح کیا کہ وہ صرف ایسی تبدیلی کی حمایت کرے گا جو جمہوریت کے آئین کے مطابق ہو گی۔ پھر جب بحران سنگین ہوتا چلا گیا تو امریکی دفتر خارجہ کے نائب ترجمان نے 22 اگست 2014 کو بیان دیا کہ "امریکی سفیر کی پاکستان میں کئی عہدیداروں سے اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں" اوراس بیان کے دوران امریکی نائب ترجمان نے ایک مرتبہ پھر جمہوریت کے آئین پر عمل کرنے پر زور دیا۔ اس کے بعد 29 اگست 2014 کو جب پرتشدد ٹکراؤکا خطرہ منڈلا رہا تھا، امریکی دفتر خارجہ نے پھر اس بات پر زور دیا کہ "پر امن مظاہرے اور آزادیٕٔ اظہار...جمہوریت کے اہم پہلو ہیں "۔
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے کہ جن کے ذریعے امریکہ پاکستان اور اس کی افواج کو کنٹرول کرتا ہے تو انہوں نے بھی اپنے آقا کی بات کوہی دہرایا کہ وہ جمہوریت کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ راحیل-نواز حکومت نے یکم ستمبر 2014 کوآئی.ایس.پی.آر (ISPR) کے ذریعے یہ بیان دیا کہ "فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے جو کئی موقعوں پر جمہوریت کی حمایت کا واضح اظہار کرچکا ہے"۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس نے اعلان کیا کہ اس کی جدوجہد جمہوریت ہی کے لیے ہے اور یوں اس نے خود کو پاکستان کے عوام کے سامنے بے نقاب کردیا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرح وہ بھی پاکستان پر حکمرانی کرنے کی اہل نہیں ہے۔یکم ستمبر 2014 کو عمران خان نے بڑے فخر سے کہا کہ "میری اٹھارہ سال کی جدوجہد انصاف اور 'جمہوریت' کے لیے ہے"۔
پس امریکہ نے براہِ راست بھی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ جمہوریت ہی کی حمایت کی جائے گی کیونکہ آمریت کی طرح جمہوریت بھی پاکستان میں امریکہ کے مفادات کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 12 دسمبر 2012 کو بی.بی.سی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے پورے اعتماد سے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں "ہمارا گھوڑا جمہوریت ہے"۔ جی ہاں ! یقینا، یہ جمہوریت ہی ہے جسے امریکہ اپنے مفاد کے مطابق چلاتا ہے چاہے کوئی بھی اس گھوڑے کا سوار بن جائے ، خواہ وہ پی پی پی ہو، پاکستان مسلم لیگ (ن) ہو یا پاکستان تحریک انصاف۔
جمہوریت کی باگ ڈور حقیقتاً امریکہ ہی کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ جمہوریت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے بغاوت کا نظام ہے۔جمہوری نظام اسمبلیوں میں موجود مرد و خواتین کو قانون ساز قرار دیتا ہے اور انہیں اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ ان احکامات کو پسِ پشت ڈال دیں جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق قوانین بنائیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرما چکا ہے: (وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ) "(اے محمدﷺ) ان کے درمیان اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق حکمرانی کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی ہرگز نہ کیجئے گا اور خبردار رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں" (المائدہ:49)۔ امریکہ پاکستان کے حکمرانوں اور اسمبلیوں کے اراکین سے مسلسل رابطے رکھتا ہےاور ان کے ذریعے پاکستان کے قوانین کو اپنے مفادات کے مطابق بنواتا ہے۔ لہٰذا یہ جمہوریت ہی ہے جس نے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کو روک رکھا ہے اور اس کی بجائے امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنارہی ہے۔
پس جمہوریت کے ذریعے امریکہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ نجکاری کے ذریعےپاکستان کے توانائی کے وسیع ذخائراور معدنیات کی دولت کی لوٹ کھسوٹ جاری ر ہے اور پاکستان ایک طاقتور معاشی طاقت کے طور پر نہ ابھرسکے۔ جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پاکستان کی طاقتور افواج کو مغربی مفادات کی تکمیل کے لئے تودنیا کے کونے کونے میں بھیجا جائے لیکن جب کشمیر و فلسطین کے مسلمان اپنی افواج کو پکاریں تو انہیں بیرکوں میں ہی پڑا رہنے دیا جائے۔ آج جمہوریت ہی پاکستان میں امریکہ کے قائم کردہ وسیع جاسوسی اور نجی فوجی نیٹ ورک کو کام کرنے کی اجازت دیے ہوئے ہے جو ہماری افواج پر حملے کرواتی ہیں تا کہ ان حملوں کو جواز بنا کرپاکستانی افواج کو امریکہ کی جنگ لڑنے کے لئے قبائلی علاقوں میں بھیجا جاسکے۔ اس کے علاوہ اس لاحاصل اور تباہ کن جدوجہد کا بندوبست کرکے کہ کون اس امریکی گھوڑے یعنی جمہوریت پر سواری کرے گا، امریکہ مسلمانوں کے رخ کو پاکستان میں خلافت کے قیام کے ذریعے امریکی راج کے خاتمے سے پھیرنا چاہتا ہےکیونکہ صرف خلافت ہی پاکستان کے وجود کو امریکی موجودگی اور اس کے اثرو نفوذ کی غلاظت سے پاک کرسکتی ہے۔
اے پاکستان کے مسلمانو! جمہوریت سے منہ موڑ لو، اس سے کوئی امید نہ لگاؤکیونکہ یہ کفر کا نظام ہے، جسے تمہارے سروں پر اس لیے نافذ کیا گیا ہے تاکہ تمہاری اعلیٰ تمناؤں اور عظیم صلاحیت کو کچلا جا سکے۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ جمہوریت کے خاتمے اور خلافت کے قیام کے لئے کام کریں۔ اور آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ حزب التحریر میں شمولیت اختیار کریں جس کا نظریہ حیات اسلام ہے اور جو رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَلْتَكُنْ منكُمْ أمّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ويَأمُرُونَ بِالمَعْرُوفِ ويَنْهَوْنَ عَنِ المُنْكَرِ وَأُولئكَ هُمُ المُفْلِحُون) "اور تم میں کم ازکم ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے اور یہی لوگ کامیاب ہیں" (آل عمران:104)۔
اے افواج پاکستان! یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی آپ پر ہی منحصر ہے اور باقی مسلم دنیا کی بھی یہی حقیقت ہے۔ مصر کی افواج کی رضامندی اس بات کا سبب بنی کہ مرسی کو جمہوری گھوڑےکے سوار کے طور پر لایا گیا اور پھر مصری افواج کے حرکت میں آنے کے نتیجے میں ہی مرسی کےا قتدار کا خاتمہ ہوا اور پھر جمہوریت کے گھوڑے پر سواری کے لیے ایک نیا سوارجنرل سیسی آگیا۔ ترکی میں بھی جمہوریت فوج کے کندھوں پر کھڑی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو آج ہمارے لوگ اس لیے مصائب کا شکار ہیں کیونکہ آپ کی قیادت میں موجود غدار آپ کی طاقت کو جمہوریت کے امریکی گھوڑے کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تو آپ کس طرح اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ آپ کی طاقت کو جمہوریت کے کفریہ اور اللہ سے بغاوت پر مبنی نظام کی خاطر استعمال کیا جائے؟!
اے افواج پاکستان ! جان لیں کہ یہ آپ کی قیادت میں موجود غدار ہی ہیں جو جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنائے ہوئے ہیں اور اسلام کی واپسی کو روکے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غدار ہر اس آفیسر کو ترقیاں دیتے ہیں اور انعامات سے نوازتے ہیں جو ہمارے دشمن امریکہ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار ہو اور دنیا کے مال و دولت کے بدلے اپنے لوگوں اور اپنے دین کو بیچ دے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی قیادت میں موجود غدار ہر اس آفیسر کو سزا دیتے ہیں جواسلام کا مضبوط حامی ہو جیسا کہ بریگیڈئر علی خان جیسی معزز شخصیت ، جنہیں پندرہ مہینے تک محبوس رکھنے کے بعد قید کی سزا سنائی گئی اور وہ اب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خلافت کے قیام کے جشنِ استقبال میں انہیں کندھوں پر اٹھایا جاتا ۔ تو آپ کیسے اپنی طاقت و قوت کے موجودہ غلط استعمال کو قبول کرسکتے ہیں جبکہ آپ نے اللہ کے سامنے یہ قسم اٹھا رکھی ہے کہ آپ اس ملک اور اس کے لوگوں کی حفاظت کریں گے؟!
جان لیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک خاص طریقہ کار پر چلتے ہوئے اسلامی ریاست قائم کی اور تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود آپﷺ اس طریقہ کار سے پیچھے نہیں ہٹے اور وہ طریقہ کار یہ تھا کہ طاقت و قوت کے حامل لوگوں سے اسلامی ریاست کے قیام کے لئے نُصرہ طلب کی جائے۔ پس رسول اللہﷺ ذاتی طور پر عرب قبیلوں کے جنگجو سرداروں سے ملے اور ان سے دین کے مکمل اور فوری نفاذ کے لئے نصرۃ طلب کی۔ اے افواجِ پاکستان یہ آپ کےآباؤ اجداد تھے اور آج آپ ان کے جانشین ہیں۔ رسول اللہ ﷺ صبر و استقامت کے ساتھ اسی طریقہ ٔکار پر کاربند رہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے اور نہ ہی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پروا کی یہاں تک کہ اللہ نے انصارِ مدینہ کے مختصر لیکن مخلص اور بہادر جنگی گروہ کے ذریعے آپﷺ کی مدد کا اہتمام فرما دیا جنہوں نے عقبہ کے مقام پر آپﷺ کو بیعت دی، جو کہ اس دین کے نفاذ و تحفظ کی خاطر لڑنے کی بیعت تھی ۔
رسول اللہﷺ کا اختیار کردہ طریقہ کار اس بات کو فرض بناتا ہے کہ اسلام کو حکمرانی اور ریاست کے طور پرقائم کرنے کے لئےنصرۃ دی جائے۔ لہٰذا آج حزب التحریر آپ کے سامنے موجود ہے اور آپ سے خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے کہ جس سے آپ اس دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں عزت حاصل کریں گے،جب آپ ظلم کی حکمرانی کا خاتمہ کریں گے اور نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کردیں گے۔ امام احمدبن حنبل روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ)) "پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ اس کا خاتمہ کردے گا جب وہ چاہے گا۔ اور پھر خلافت قائم ہوگی نبوت کے نقشِ قدم پر۔ اس کے بعد آپﷺ خاموش ہوگئے"۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک