إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللهُ "بے شک ہم نے آپ پر ایک سچی کتاب نازل کی ہے تا کہ آپ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں جس سے اللہ نے آپ کو روشناس کیا ہے" (النساء:105)
- Published in پاکستان
- Written by Super User
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
اے مسلمانانِ پاکستان! جب دینِ حق اسلام کو مکمل حکمرانی حاصل تھی تو رمضان کا مہینہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کا عظیم ذریعہ تھا۔ اُس وقت مسلمانوں کے اعمال صرف روزوں، تراویح اور دعوتِ افطار تک ہی محدود نہ تھے بلکہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلام زندگی کے تمام معاملات میں نافذالعمل ہو، چاہے وہ انفرادی معاملات ہوں یا اجتماعی، معیشت ہو یا خارجہ پالیسی،تعلیم ہو یا حکمرانی۔ جوکوئی بھی مدد کے لیے پکارتا تھا مسلمان اسے بچانے کے لیے حرکت میں آتے، غریبوں اور پسے ہوئے لوگوں کے بوجھ اور مصیبت کو ہلکا کرتے۔ یہ وہ وقت تھا جب دشمنوں کی فوجیں میدانِ جہاد میں مسلمانوں کا سامنا کرنے سے گھبراتی تھیں اور کلمہ طیبہ 'لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ' سے مزین جھنڈے دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ بدر میں قریش کے خلاف فتح ہو یا فتح مکہ،بویب کی جنگ میں سلطنتِ ایران کے خلاف کامیابی ہویا اموریہ کی فتح اور یا پھرعین جالوت کی جنگ میں تاتاریوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ،رمضان کا مہینہ مسلمانوں کے لیے کامیابیوں اور فتوحات کا مہینہ ہوا کرتا تھا۔
لیکن آج اسلامی ریاست یعنی ریاستِ خلافت کی عدم موجودگی میں، چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی اور مہینہ، ہماری حالت یہ ہے کہ شکست اور ذلت و رسوائی ہماری مستقل ساتھی بن چکی ہے۔ باوجودیکہ ہمارے پاس وسیع علاقے، بے پناہ قدرتی وسائل اور زبردست افواج موجود ہیں، لیکن ہم اس قدر عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہر شخص کواپنی اور اپنے خاندان کی جان کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ ہماری غربت اس حد تک بڑھ چکی ہےکہ مشقت، تنگی اور بدحالی ہماری کمر توڑ رہی ہے اور ہم اپنے دشمنوں کے سامنے اس قدر ذلیل و رسوا ہو چکے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہو گئی ہے کہ ہمارے دشمن ہی کامیابی کے حق دار ہیں، وہ دشمن کہ جو اپنے کفرکے جھنڈے کو سربلند کرنے کے لیے ہمارے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو خون میں نہلا رہا ہے۔ ہماری زوال کی حالت کی وجہ یہ ہے کہ جب 1924 میں خلافت کا خاتمہ ہواتواسلام کی بنیاد پر حکمرانی کی مضبوط گرہ کھل گئی اور پھر ایک ایک کر کےاسلام کی تمام گرہیں کھلتی چلی گئیں۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((لتنقضن عرى الإسلام عروة عروة فكلما انتقضت عروة تشبث الناس بالتي تليها فأولهن نقضا الحكم و آخرهن الصلاة)) "اسلام کی گرہیں ایک ایک کرکےکھلتی جائیں گی۔ جب بھی کوئی گرہ کُھلے گی تو لوگ اس کے بعد والی گرہ کو تھام لیں گے۔ سب سے پہلی گرہ جوکُھلے گی وہ حکمرانی کی گرہ ہوگی اور آخری گرہ نماز کی ہو گی" (مسند احمد، ابنِ حبان، الحاکم)۔
اے مسلمانانِ پاکستان! اسلام کی بنیاد پر حکمرانی ہم میں سے ہر ایک کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ ہونا چاہئے۔ اللہ نے ہمیں ان حکمرانوں کے حوالے سے خبردار کیا ہے جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی نہیں کرتے۔ پس وہ حکمران جو اسلام کی صلاحیت کا انکار کرے اور اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعےحکمرانی نہ کرے تو اللہ نے اسے کافر قرار دیا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ﴾ "اور جو کوئی اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں" (المائدہ:44)۔ اور وہ حکمران جو اسلام کی صلاحیت کا انکار تو نہیں کرتا لیکن اللہ کے احکامات کے مطابق حکمرانی بھی نہیں کرتا تو اسے ظالم و فاسق قرار دیا گیا اور وہ اللہ کی جانب سے سخت سزا کا حقدار ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾ "اور جو کوئی اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں" (المائدہ:45) اور فرمایا: ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْفَاسِقُونَ﴾ "اور جو کوئی اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے لوگ ہی فاسق ہیں" (المائدہ:47)۔
آج پاکستان کے حکمران پرلے درجے کے خطاکار ہیں۔ ایسا شخص جو خلافت کے فرض میں کوتاہی کرے، جو کہ مسلمانوں کی طرف سے ایک خلیفہ کو قرآن و سنت کے نفاذ کی شرط پر بیعت دینے سے قائم ہوتی ہے،اور اگر اسے اسی حالت میں موت آجائے تو اس کی موت زمانۂ جاہلیت کی موت جیسی ہوگی۔ یہ ہے اس فرض میں کوتاہی برتنے کے گناہ کی سنگینی۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً)) "اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں خلیفہ کی بیعت کا طوق نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا" (مسلم)۔ اگرچہ اس فرض کے پورا نہ ہونے کا گناہ سب سے زیادہ حکمرانوں پر ہے لیکن حکمرانوں کی یہ کوتاہی ہماری گردنوں کو اس فرض سے آزاد نہیں کرتی۔ خلافت کا قیام ایک ایسا فرض ہے جسے کسی صورت نہیں چھوڑا جاسکتا، اس میں سستی کی کوئی گنجائش نہیں اور اسے پورا کرنے میں کوتاہی کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔
بے شک حکمرانوں کا ہم پر اسلام کوبطورِ نظام نافذ نہ کرنا ان کا انفرادی عمل نہیں کہ ہم ان کے اس گناہ پر لاپروا ہو جائیں کیونکہ اسلام نے ہم پر یہ لازم کیا ہے کہ ہم ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کریں اور اپنی صورتحال کو تبدیل کریں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ((أَفْضَلَ الْجِهَادِ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ)) "افضل ترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے" (نسائی)۔ حکمرانوں کا محاسبہ کرنا ہم سب پر لازم ہے اور اس عمل میں کوتاہی اللہ کے عذاب کا موجب ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّى يَرَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ يُنْكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ)) "اللہ خاص لوگوں کے عمل کی وجہ سے عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا۔ لیکن اگر ان کے سامنے منکر رونما ہو اور وہ اس کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں لیکن نہ روکیں تو پھر اللہ خاص و عام دونوں کو سزا دے گا" (احمد)۔
اے مسلمانانِ پاکستان! آئیں اس رمضان ہم سب ظلم کی حکمرانی کے خاتمے اور خلافت کے دوبارہ قیام کی جدوجہد کریں۔ صورتحال ہمارے حق میں ہے کہ پوری دنیا اسلام کے متعلق بات کررہی ہے، امت اسلام کی جانب سنجیدگی سے پلٹ رہی ہے اور شریعت، اسلامی آئین اور خلافت کی ضرورت کی بحث ہمارے ملک کے ہر حصے اور ہر طبقے میں پہنچ چکی ہےاور یہ بحث وگفتگو ہماری طاقتور افواج میں بھی جاری ہے۔ صرف یہی نہیں کہ صورتحال ہمارے حق میں ہے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد بھی ہمارے حق میں ہے کیونکہ اللہ کی مدد کا وعدہ صرف انبیاء کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ یہ وعدہ مؤمنین کے لیے بھی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الأَشْهَادُ﴾ "ہم اپنے پیغمبروں کی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور (قیامت کے دن بھی) جس دن گواہ کھڑے ہوں گے" (غافر:51)۔ اور رسول اللہﷺ نے ہمیں خوشخبری دی ہے کہ ظالم حکمرانوں کے دَورکے بعد خلافت دوبارہ قائم ہو گی۔ امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ)) "پھر ظالمانہ حکمرانی کا دور ہو گا اور اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اس کا خاتمہ کر دے گا۔ اور پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہوگی، یہ کہہ کر رسول اللہﷺ خاموش ہوگئے"۔
آئیں اور آج سے ہی حزب التحریر کے ساتھ خلافت کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔ حزب التحریر نے ضابطہ حیات، ریاست اور دستور کے طور پر اسلام کی واپسی کے لیے مکمل تیاری کررکھی ہے۔ حزب التحریرنے 191 دفعات پر مشتمل ریاستِ خلافت کا آئین تیار کررکھا ہےاوراس کی ایک ایک شق کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل کو دو ضخیم جلدوں میں بیان کیاہے۔ حزب التحریرنے ایسی کتابوں کا وسیع ذخیرہ ترتیب دیا ہے جو خلافت کے قیام اور اس کے بعد اس ریاست کو چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ کتابیں اسلامی عقائد اور اسلامی شخصیت سازی سے لے کر ریاست خلافت کے تنظیمی ڈھانچے اور اسلام کے معاشی نظام تک مختلف پہلوؤں کا جامع طور پراحاطہ کرتی ہیں۔ اور حزب التحریرنے ایسے قابل مرد و خواتین سیاست دانوں کی ایک فوج تیار کررکھی ہے جو ظالم اور جابرحکمرانوں کے خلاف اپنی جدوجہد میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ رَهْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا رَآهُ أَوْ شَهِدَهُ فَإِنَّهُ لَا يُقَرِّبُ مِنْ أَجَلٍ وَلَا يُبَاعِدُ مِنْ رِزْقٍ)) "جب تم میں سے کوئی حق بات کو دیکھ لے تو لوگوں کا خوف اُسے حق کوبیان کرنے سے نہ روکے کہ حق بات کہنا نہ تو موت کو قریب کرتا ہے اور نہ ہی رزق میں کمی کرتا ہے " (احمد)۔
اے پاک فوج کے مخلص افسران! تم ان جنگجو انصارِ مدینہ کی اولاد ہو کہ جنہوں نے اسلام کو ایک ریاست و آئین کی صورت میں نافذ کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کونُصرۃ فراہم کی تھی۔ اس رمضان، تم پر یہ لازم ہے کہ حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرو جو اپنے امیر، مشہور فقیہ اور مدبر سیاست دان، شیخ عطا بن خلیل ابورَشتہ کی قیادت میں خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔ صرف خلافت کے قیام کی صورت میں ہی اس غدار اور مجرم حکومت کا خاتمہ ہوگا، کفر کی حکمرانی اختتام کو پہنچے گی، اسلام ایک ریاست و آئین کی صورت میں دوبارہ بحال ہوگا اور رمضان کو پھر و ہی شان و شوکت حاصل ہو گی جیسا کہ اس سے قبل صدیوں تک اسے حاصل تھی۔ اللہ سبحانہ و تعالی ٰنے ارشاد فرمایا: ﴿إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلاَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِى يَنصُرُكُم مِّنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾ "اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں ہوسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے جو تمھاری مدد کرے گا اور ایمان والوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے" (آلِ عمران:160)