المكتب الإعــلامي
ولایہ افغانستان
ہجری تاریخ | 19 من صـفر الخير 1442هـ | شمارہ نمبر: Afg. 1442 / 02 |
عیسوی تاریخ | منگل, 06 اکتوبر 2020 م |
پریس ریلیز
امریکا سے امن و سکون کی امید رکھنا
ایسے ہی ہے جیسے شیطان سے ہدایت کی امید رکھنا!
جیسے ہی دوہا (قطر) میں بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کے ساتھ ہی افغانستان میں جنگ کی شدت میں بےپناہ اضافہ ہوگیا۔ مشرقی صوبے ننگرہار اور لغمان میں ہونے والے حالیہ انتہائی مہلک دھماکوں میں کم از کم 23 شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 90 سے زائد افراد زخمی ہوئے جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ درحقیقت دونوں فریقین بیک وقت جنگ اور مذاکرات کر رہے ہیں تا کہ مذاکرات کی میز پر دوسرے فریق کو دباؤ میں لا کر اپنا موقف تسلیم کرواسکیں۔ اسی دوران امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکا اب افغان جنگ کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہیں اٹھائے گا۔ اس کے علاوہ زلمے خلیل زاد، امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان، نے کہا کہ افغان اب مزید امریکا کو مورد الزام اور ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے۔ اس نے یہاں تک کہا کہ بین الافغان مذاکرات کی کامیابی کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی جاسکتی اور اگر یہ مذاکرات کسی اطمینان بخش نتیجے پر نہ پہنچے تو خانہ جنگی کا امکان ہے۔ جلد یا بدیر ہم ایک بار پھر افغانستان میں 1990 کی دہائی میں ہونے والی خانہ جنگی دوبارہ دیکھیں گے۔
ولایہ افغانستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس مندرجہ ذیل اہم نقاط کو سامنے رکھنا چاہتا ہے تا کہ معاملے کے مختلف پہلوواضح ہوجائیں:
پہلی بات، یہ امریکا ہی ہے جس نے افغانستان میں خونی جنگ شروع کی تھی اور اس کو تقریباً 20 سال تک اپنے مفادات کے حصول کے لیے جاری رکھا ۔ اور اب یہ غالب گمان یہ ہے کہ وہ اسے اس انداز میں ختم کرے گا جو امریکا کے مفادات کو یقینی بنائے خواہ افغانستان کے لوگ جنگ کی آگ میں جلتے رہیں، جس سے امریکا کے قومی مفادات، اس کے فوجی اڈوں، ایجنسیوں اور امریکی شہریوں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ پس امریکہ افغانیوں کی خون سے ہولی کھیلنے اور یہ عمل جاری رہنے میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کا قابل محاسبہ اور ذمہ دار نہیں سمجھے گا۔
دوسری بات، امن بات چیت کے حوالے سے امریکا کا موقف انتہائی منافقت اور دوغلا ہے۔ امریکا افغان گروپوں کے درمیان ہونے والی بات چیت پر اس طرح سے اثرانداز ہونے کی کوشش کررہا ہے کہ جس کا نتیجہ لازمی دو نوں فریقین کے درمیان سنجیدہ تنازعات کے صورت میں نکلے، اور پھر وہ ان تنازعات کو حل کرنے یا رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے آگے آجائے۔ اس پالیسی پر عمل کرنے سے یقیناً امریکا دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ افغانستان کے مسائل کی جڑ امریکا نہیں ہے بلکہ یہ افغان گروہ ہیں جو انتہائی اہم معاملات پر اتفاق رائے پیدا نہیں کررہے، لہٰذا امریکی مداخلت اس انتہائی اہم اور نازک مرحلے پر بہت ضروری ہے کیونکہ افغان خود اپنے اندرونی معاملات کو سنبھال نہیں پارہے۔ امریکہ افغانستان میں 40 سال سے جاری جنگ کا اہم کھلاڑی ہے جس نے اپنی دھوکے پر مبنی پالیسیوں اور بے رحمانہ حکمت عملیوں کے ذریعے ملک کو سنگین بحران اور فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار کردیا ہے۔
افغانستان کے مسلمان اور مجاہد لوگوں کو کسی صورت "امن" اور "جنگ کا خاتمے" کے نام نہاد نعروں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے، اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ امریکا سے امن و سکون کی امید لگانا ایسے ہی ہے جیسے شیطان سے ہدایت کی امید رکھنا۔ امریکی امن اس کے سوا کچھ نہیں کہ جنگ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو۔ درحقیقت افغانستان میں جنگ صرف بات چیت اور معاہدوں پر دستخط کرنے سے ختم نہیں ہو گی کیونکہ افغانستان میں موجود بحران صرف افغانوں کا اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ علاقائی اور عالمی مسئلہ ہے۔ لہٰذا یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک امریکا اس پورے علاقے سے نکل نہیں جاتا۔ افغانستان کے مسلمان لوگوں اور اسلامی گروہوں کی یہ ایک اہم ذمہ داری ہے کہ وہ خطے سے امریکا اور مغرب کے سیاسی، فوجی، انٹیلی جنس اور معاشی اثرورسوخ کا خاتمہ کریں اور ایک چھتری ، خلافت ،تلے یکجا ہوجائیں تا کہ وہ اپنی سیاسی و فکری اکائی کے ذریعے اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرسکیں۔
ولایہ افغانستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ افغانستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.ht-afghanistan.org |
E-Mail: info@ht-afghanistan.org |