الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 بلآ خر پردہ ہٹ گیا اور تمہیں دشمنوں کے سامنے پھینک دینے والے ایجنٹ حکمرانوں اور گروہوں کے گناہ بے نقاب ہوگئے

تو سبق حاصل کرو! ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے اُس با شعور سیاسی قیادت کے پیچھے متحد ہوجاؤ جو اللہ کے حکم سے تمہاری عزت و عظمت کو بحال کرے گی

 

یکم جنوری 2017 کی صبح سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی: "روس اور ترکی کی کوششوں سے شام میں ہونے والی جنگ بندی کے فیصلے کی متفقہ منظوری دی گئی۔ سلامتی کونسل کے فیصلے میں تیزی سے ان رہائشیوں کے لیےرسد پہنچانے کا کہا گیا ہے جہاں پر ان کی ضرورت ہے۔۔۔"(یکم جنوری 2017 کی صبح، بی بی سی عربی)۔ " اس قرار داد کا نمبر 2336 ہے اور یہ قرارداد اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سلامتی کونسل نے روس-ترک دستاویز کو نوٹ کیا اگرچہ اِسے اپنایا نہیں ، اور اس جانب اشارہ کیا کہ وہ شام میں تشدد کے خاتمے اور بحران کو حل کرنے کے لیے ماسکو اور انقرہ کے سیاسی عمل کی جانب لوٹنے کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔۔۔"(31 دسمبر 2016، 11 بج کر 24 منٹ مکہ المکرمہ ،الجزیرہ)۔ اس طرح سلامتی کونسل نے شام میں جنگ بندی کے معاہدے کی حمایت کی جس معاہدے کو بنانے میں شام کے بحران میں سرگرم امریکی ایجنٹوں نے کردار ادا کیا یعنی روس، ترکی، ایران اور انقرہ مذاکرات میں شریک ہونے والے جنگجوگروہ ۔ سلامتی کونسل کی جانب سے اس معاہدے کا خیر مقدم اس غدّاری اور دستبرداری کے معاہدے کا نتیجہ ہے جس کے لیے اردوغان حکومت نے حلب میں موجود جنگجو گروہوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا اور حلب کو جابر حکومت کے حوالے کردیا۔ یہ غدّاری اس معاہدے کا نتیجہ ہے جو اردوغان اور پوٹن کے درمیان سینٹ پیٹس برگ میں اگست 2016 کو انجام پایا تھا جس کے بعد آج ہونے والا انتہائی افسوس ناک معاہدہ سامنے آیا ہے جس کے تین حصے ہیں: جنگ بندی، خلاف ورزیوں کی نگرانی، اور جنیوا-1 کی بنیاد پر 23 جنوری 2017کوآ ستانہ (قازقستان) میں مذاکرات ۔ اس معاہدے پر پہنچنے سے پہلے یہ غدّارانہ اعمال تین مراحل سے گزرے ہیں: پہلے مرحلے میں امریکہ نے ایران اور اس کی جماعت اور حامیوں کو کردار ادا کرنے کا موقع دیا لیکن وہ ناکام ہوئے اور جابر حکومت گرنے کے قریب پہنچ گئی ۔ دوسرے مرحلے میں امریکہ نے روس کو مجرمانہ کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جس نے تما م تر وحشیانہ اعمال اختیار کیے لیکن وہ استقامت کے ساتھ کھڑی مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ آخری مرحلے میں ترکی داخل ہوا کیونکہ شمال میں کئی گروہ ترک حکمران کے زیر اثر ہیں۔ اُس نے شیطانی راہ اختیار کرتے ہوئے "فرات کی ڈھال " کے نام سے ایک فوجی مہم شروع کی اور اس کے لیے کئی جنگجو گروہوں کو حلب سے باہر نکالا اور بلآخر حلب سے اپنے زیر اثرباقی ماندہ گروہوں کو بھی ایسے تباہ کن طریقے سے انخلاء کا حکم دیا جو اس سے پہلے کسی مسلم ملک میں نہیں ہوا تھا یعنی لوگوں کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہجرت پر مجبور کیا گیا، اوریہ سب کیا بھی تو کس نے؟ یہ اُس نے کیا جو تسلسل سے حلب اور شام کے لوگوں کو اپنی حمایت اور مدد کی یقین دہانی کراتا رہا لیکن پھر کھلے عام حلب کو بے غیرتی اور بے شرمی سے دشمن کے حوالے کردیا۔ اس عمل کا گناہ اور وبال اردوغان، اس کے ساتھیوں اور ان تمام جنگجوگروہوں پر ہے جنہوں نے اس کے حکم کو تسلیم کیا۔ ان جنگجو گروہوں نے اپنے ملک کے نقصان پر مذاکرات کیے اور دشمنوں کی باتیں تسلیم کیں، اور یہ سب کچھ رات کے اندھیرے میں نہیں کیا بلکہ کھلے عام دن کی روشنی میں کیا گیا، اور وہ اُس خون کو بھول گئے جو بہایا گیا ، اُن حرمتوں کو بھول گئے جن کو پامال کیا گیا، اور اُن گھروں اور اس میں رہنے والے انسانوں، چرند پرند کو بھول گئے جنہیں تباہ کردیا گیا، اور اگر بھولے نہیں تو اِنہیں بھولنے کا ڈھونگ رچایا۔ اور وہ یہ بھی بھول گئے یا بھولنے کا ڈھونگ رچایا کہ انہوں نے لوگوں سے جھوٹا وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں اس جابر حکومت اور اس کے ساتھیوں کے جرائم اور ظلم سے آزادی دلوائیں گے۔

 

إِنَّهَا لَإِحْدَي الْكُبَرِ

"کہ وہ ایک بہت بڑی آفت ہے " (المدثر : 35)

 

یہ انتہائی بڑی آفت ہے جو اردوغان حکومت نے پوٹن کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر برپا کی ہے، ایک ذلت آمیز سودے کا معاہدہ، حلب اور اس کے لوگوں کا سودا، اور وہ اس ذلت آمیز سودے کو کامیابی کے طور پر پیش کررہا ہے اور پوٹن کو مبارک باد دیتا ہے! روس کے جرائم کوئی کم نہ تھے کہ ان میں ایران نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور ان جرائم کی ہلاکت خیزی اور وحشیانہ پن کو دوگنا کردیا اوراس قتل عام میں روس سے مقابلے میں آگیا! حلب کو جابر حکومت کے حوالے کردینا ایک انتہائی گہرا زخم ہے، اور جنیوا کے فیصلوں کے مطابق ،وہ جنگجو گروہ جنہوں نے اپنا دین انتہائی سستا بیچ دیا ہے ، لازمی حکومت کے ساتھیوں کے ساتھ حکومت میں شریک ہوں گے اور اب تک کی تمام جدوجہد کو ضائع کردیں گے جبکہ وہ حکومت کو ختم کرنے کے قریب پہنچ ہی گئے تھے! یہ ایک انتہائی گہرا زخم ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران آستانہ، اور جنیوا میں ہونے والےتباہ کن اور خطرناک مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدوں کا خیر مقدم کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جستجو کررہے ہیں جبکہ انہیں شام کے مسلمانوں کی حمایت کرنی چاہیے، لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے جب یہ تمام حکمران غدّاری کے بندھن میں ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے بندھے ہیں۔۔۔ اللہ انہیں برباد کرے، یہ کس قدر دھوکے کا شکار ہیں!

 

اے شام کے عزیز لوگو!

حلب پر جمی برف پگھل گئی ہے، اور ایجنٹ حکمرانوں اور جنگجوگروہوں کے گناہ بے نقاب ہوگئے ہیں، اوریہ گناہ ہر اس شخص پر واضح ہوچکے ہیں جو بینائی رکھتا ہے،اور  اُن صاحبِ نظر  پر بھی واضح ہوچکے ہیں جو بینائی کھو چکے تھے، آنکھوں کے سامنے اب کوئی دھند نہیں رہی،بلکہ ہر اس شخص کے لیے جو دیکھ سکتا ہےیہ معاملات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔۔۔ حکمرانوں نے تمہیں دھوکہ دیا ہے خصوصاً وہ جو ہمسائے ہیں، خاص طور پر ترکی کےاردوغان نے، اور خصوصاً ان جنگجوگروہوں نے جنہوں نے حلب اور حلب کے علاوہ دیگر علاقوں کو دشمن کے حوالے کردیا ،اُس رقم کے بدلے جو غدار حکمران انہیں فراہم کرتے ہیں۔۔۔اے شام کے لوگو، تم اُس وقت ڈسے گئے جب جنگجو گروہوں نے پہلی دفعہ جنگ بندی پر دستخط کیے اورجب پہلی دفعہ تمہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا،اِس کا گناہ انہی کے سر ہے۔ اور تم اردوغان کے ہاتھوں بھی ڈسے گئے جب اُس نے پہلی دفعہ red line کا وعدہ کیا اورتم ڈسے گئے  جب اس نے یہ وعدہ کیا کہ "حما" کا سانحہ دوبارہ دہرانے نہیں دوں گا، لیکن یہ وعدہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ مؤمن ایک ہی سوراخ سے دوسری بار ڈسا نہیں جاتا، تو پھر یہ کیسے ہورہا ہے کہ تم قریب اور دور کے حکمرانوں کے ہاتھوں مسلسل ڈسے جا رہے ہو اور دھوکہ کھاتے جا رہے ہو؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم ان جنگجو گروہوں سے مسلسل ڈسے جار رہے ہو جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں بجائے اُس سے لڑنے کے جس سے لڑنے کے لیے یہ باہر آئے تھے، اور متحد ہونے کے لیے پکارتے ہیں لیکن متحد نہیں ہوتے، اور نااتفاقی کی مذمت کرتے ہیں لیکن ان میں شدید نااتفاقی ہے، اور لوگوں کے سامنے "گندے پیسے " لینے کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن جویہ مسلم ممالک کے ایجنٹ حکمرانوں سے لیتے ہیں اُسے باعث ثواب سمجھتے ہیں!

 

یہ جنگجو گروہ کسی زمین کی حفاظت نہیں کرسکتے جب تک بیماری کی تشخیص اور اس کا علاج نہ کرلیں، اور یہ علاج اِن کا اتحاد ہے،نہ کہ آپس کی تقسیم یا نااتفاقی ۔ لیکن اتحاد یہ نہیں کہ اس کے متعلق صرف باتیں ہی کی جائیں اور کوئی قدم نہ اٹھایا جائے، اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جنگجو گروہ اسلام کی بنیاد پر امت کی رہنمائی کرنے والی ایک مخلص سیاسی قیادت کے پیچھے یکجا نہ ہوجائیں، اس آیت کی محض تلاوت کافی نہیں:

 

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

"اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو"(آل عمران:103)۔

  

بلکہ اس آیت پر غورو فکر انتہائی ضروری ہے:

 

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآن

"کیا یہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ "(محمد:24)۔

 

جو چیز اتحاد کو یقینی بناتی ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے، لہٰذا جنگجو گروہوں کو ایک دیانت دار سیاسی قیادت کی اشد ضرورت ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑتی ہو، اُن کی سیدھے راستے پر رہنمائی کرتی ہو، عظیم اسلام کے سیدھے راستے پر۔۔۔ اور اس طرح وہ قیادت نااتفاقی ختم کردے اور صفیں سیدھی کر دے ۔ لیکن اگر وہ ایسی سیاسی قیادت کے پیچھے جمع ہوں گے جو اللہ کا خوف نہیں رکھتی، اور ان حکمرانوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے جو اللہ کا خوف نہیں رکھتے، تو مرض باقی رہے گا اور اس میں مزید اضافہ ہوگا، اور نااتفاقی قائم  رہے گی بلکہ مزید وسیع ہوجائے گی، اور پھر کسی جابر کو روکا نہیں جاسکے گا اور ناہی کسی مجرم کو، جیسا کہ ہم نے حلب اور اس کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں دیکھا، اور اس کمزوری کو ایجنٹ حکمران استعمال کرتے ہوئے تباہ کن معاہدوں کے لیے راستہ ہموار کریں گے، اگرچہ وہ دھوکہ دینے کے لئے اتحاد کادکھاوا کریں گے جیسا کہ ہم نے انقرہ معاہدے میں دیکھا، جہاں اتحاد صرف برائے نام تھا جسے "دستخط کرنے کے لیے جنگجووں کا متحدہ محاذ " کہا گیا۔

 

ہمارے آباؤاجداد بھی اس قسم کے کچھ تجربوں سے گزرے ہیں جب انہوں نے حق کا داعی بننے کے بعد حق کو چھوڑ دیا تھا، اور اس کے نتیجے میں انہوں نے نقصان اٹھایا۔۔۔ صلیبیوں کے حملوں کے وقت وہ اس حق سے جدا ہو گئے تھے جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے تھے، وہ رسول اللہ ﷺ کے اسراء اور معراج کی سرزمین القدس گنوا بیٹھے تھے۔۔۔ اورتاتاریوں کے حملے کے وقت میں وہ اس حق سے جدا ہو گئے تھے اور خلافت کے دارالحکومت بغداد کو گنوا بیٹھے تھے۔۔۔ اور وہ پچھلی صدی کے ابتدائی سالوں میں نااتفاقی کا شکار تھے اور خلافت ختم ہو گئی اور ایک بار پھر القدس گنوا بیٹھے۔۔۔ لیکن پہلی اور دوسری بار وہ مرض کو جانتے تھے اور انہوں نے اس کی درست دوا استعمال کی اور ایک عظیم امت بن کر واپس آئے اور قسطنطنیہ فتح کیا اور یہ شہر اسلام کا شہر بن گیا، اور وہ جابر پوٹن کے گھر پہنچے، اور یورپ کے دروازوں پر مشرق و مغرب سے دستک دی، ایک طرف فرانس کے دروازے پر جنگ ِٹورز برپا کی تو دوسری جانب آسڑیا کے شہر ویانا کے دروازے پر پہنچ گئے۔۔۔ اور آج بھی اگر اُسی دوا کا استعمال کیا جائے تو ہم طاقت اور کامیابی حاصل کر لیں گے ، اور شام اور دیگر اسلامی علاقوں سے کافر استعماریوں اور ان کے حامیوں کو نکال دیں گے، اور ہم مقدس سرزمین سے یہودی وجود کا خاتمہ کرتے ہوئے القدس دوبارہ حاصل کر لیں گے، اور نہ صرف اسلامی علاقوں میں بلکہ اس کے آس پاس بھی خیر کا پیغام پھیلائیں گے اور حکمرانی اور طاقت کے اللہ کے وعدے کو حاصل کرلیں گے۔

 

اے مسلمانو، اے شام کے مسلمانو، اے انقلابیو!

ہم آپ کو یہ دوا پیش کرتے ہیں اور آپ سے مخاطب ہیں، اب کوئی جواز اور توجیہ باقی نہیں رہ گئی، ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے ، تو کیا ہمیں اس تجربے سے سبق نہیں لینا چاہیے؟

 

!أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ

"اور کیا ان کو دکھائی نہیں دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنسا دیے جاتے ہیں، پھر بھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں "(التوبۃ:126)

 

ہم آپ میں سے افراد سے اور جماعتوں سے مخاطب ہیں ، اور افواج اور جنگجو گروہوں سے مخاطب ہیں۔۔۔ہم آپ کو پکارتے ہیں کہ آپ ایک مخلص سیاسی قیادت کے پیچھے یکجا ہوجائیں، اس کی حمایت کریں اور اسلام کی حکمرانی، اسلامی ریاست، خلافت راشدہ کو قائم کرکے اس کو مضبوط کریں۔۔۔یہ سچ ہے کہ رہنمائی کرنے والی جماعت اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتی، تو حزب التحریر ، جسے آپ جانتے ہیں، آپ کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے اور آپ میں ہی موجود ہے، آپ دیکھ چکے ہیں کہ یہ آپ کے ساتھ سچی ہے اور آپ کو مشورے دیتی ہے۔۔۔حزب التحریر آپ کو پکارتی ہے، کہ ہم پر آنے والے مصائب شدید ہوگئے ہیں اور دراڑیں مزید وسیع ہو گئی ہیں۔ ہم اس آگ کو ختم کرسکتے ہیں تا کہ معاملات ٹھنڈے ہوجائیں اور ہم امن کی جانب لوٹ جائیں، اور ہمارا تحفظ واپس آجائے۔ ۔۔ تو اپنے ہاتھ ہماری جانب بڑھائیں جیسے ہم نے اپنے ہاتھ آپ کی جانب بڑھائے ہوئے ہیں، ہم ایک دوسرے کو تقویت فراہم کرسکتے ہیں، اور دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ، اور یہی عظیم ترین کامیابی ہے۔۔۔

 

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ

"اس میں ہر صاحب دل کے لیے عبرت ہے اور اس کے لیے جو دل سے متوجہ ہو کر کان لگائے اور وہ حاضر ہو"(ق:37)

ہجری تاریخ :3 من ربيع الثاني 1438هـ
عیسوی تاریخ : اتوار, 01 جنوری 2017م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک