طالبان کو لازمی طور پر ''ذلت آمیز مذاکرات‘‘کو مسترد اور پاکستان اور افغانستان میں خلافتِ راشدہ کے قیام کی حمائت کا اعلان کرنا چاہیے
- Published in سینٹرل میڈیا آفس
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
گذشتہ ہفتے تحریک طالبان نے موجودہ دسمبر کے مہینے میں پیرس میں ہونے والی افغانستان کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کی تاہم اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے یا نہیں۔تحریک طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا''اس کانفرنس میں طالبان عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف پیش کریں گے اورہم اپنے دو نمائندے بھیجیں گے ۔اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس کانفرنس میں کسی سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔یہ ایک تحقیقی کانفرنس ہے ،طالبان کے نمائندے اس کانفرنس میں شرکت صرف دنیاکے سامنے ہمارا نقطہ نظر براہ راست پیش کرنے کی غرض سے کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ تحریک کو لوگوں کی حمایت حاصل ہے اورامریکہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''طالبان کوئی چھوٹی موٹی تحریک نہیں بلکہ اس کی جڑیں عوام میں ہیں۔امریکہ طالبان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر چکا ہے‘‘(The International News 11/12/2012)۔
افغانستان کے حوالے سے یہ بین الاقوامی کانفرنس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے پریشان کن صورت حال میں منعقد ہو رہی ہے،کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے حل ڈھونڈ رہے ہیں۔'' امن کے عمل کا روڈمیپ2015‘‘ کے نام سے اس منصوبے کے پانچ مراحل ہیں،یہ وہی تجاویز ہیں جو پاکستان اور افغانستان نے امریکہ کی سرپرستی میں پیش کیں تھیں۔اس منصوبے کا بنیادی مقصد طالبان اور ان سے منسلک دوسرے مسلح گروہوں کو مزاحمت سے مکمل دستبر دار ہونے کی شرط پر حکومتی ڈھانچے میں شامل ہونے کی طرف مائل کرناہے۔McClatchy News نے اس کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے کہ''امن مذاکرات کے نتیجے میں افغان دستور کی قبولیت کا اعلان لازمی ہے۔۔۔اور مذاکرات کے نتیجے میں طالبان اور دوسرے مسلح گروپوں کو القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں سے مکمل قطع تعلق کرنا پڑے گااورممکن حد تک تشدد سے دستبرداری کا اعلان کرنا پڑے گا۔۔۔ امن کی کوششوں کے لیے علاقائی ممالک اور بین الاقوامی برادری لازمی حمائت کرے گی‘‘(افغانستان میں امن کا عمل اور 2015 کا روڈمیپ McClatchy News Online 13 دسمبر2012)۔
اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ طالبان کی قیادت کوئی ایک گروہ نہیں کررہالہذاکوئی ایک گروہ پوری تحریک کا نمائندہ ہونے کا دعوی بھی نہیں کرسکتا اور یہ بات بھی ہمارے علم میں ہے کہ سب نہیں تو تحریک کے اکثر گروہ استعماری مغربی ریاستوں سے ہر قسم کے مذاکرات کو رد کرچکے ہیں،تاہم یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ وقت،سرمایہ اور لاکھوں لوگوں کا خون دینے یعنی اتنا کچھ قربا ن کردینے کے بعد بھی بعض طالبان اس قسم کے امن مذاکرات کے متعلق سوچنا بھی گوارا کریں گے۔ ہرلحاظ سے اس امن منصوبے کا واحد مقصد خطے میں امریکہ کی لڑکھڑاتی بالادستی اور افغان حکومت میں اس کی کٹھ پتلیوں کی حفاظت کرنا ہے ۔
لہذااس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منصوبہ ان لاتعداد افغان شہریوں کے خون کی توہین ہے جنہوں نے اپنے دین اسلام کی محبت میں اپنی زندگیاں قربان کیں۔یہ ان ہزاروں شہداء اور مجاہدین کی بھی توہین ہے جنہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے وہ آج چہرہ چھپا کر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔اس لیے ان مذاکرات میں شرکت ، بات چیت کرنااوراس منصوبے پر دستخط کرنا جس میں افغان دستور کے احترام کو لازمی قرار دیا گیا ہو اللہ سبحانہ وتعالی،اس کے رسول ﷺ اور امت کے ساتھ خیانت ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے
(فَلَا تَہِنُوا وَتَدْعُوا إِلَی السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّہُ مَعَکُمْ وَلَن یَتِرَکُمْ أَعْمَالَکُم)
''تم ہمت مت ہارواور صلح کی طرف مت بلاو ٗ تم ہی غالب رہو گے اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو ہر گز برباد نہیں کرے گا‘‘(محمد :35)۔
اس قسم کے مذاکرات میں نہ صرف شرکت کرنا حرام ہے بلکہ یہ سیاسی نافہمی کی بھی انتہا ہے کیونکہ ان مذاکرات کے نتیجے میں صرف دشمن طاقتور ہوتا ہے اور کفار کو افغانستان پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں
( وَلَن یَجْعَلَ اللّہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلا)
''اور اللہ کافروں کو ہرگز مسلمانوں پر غلبہ نہیں دے گا‘‘(النساء :141)۔
ہم حزب التحریر کامرکزی میڈیا آفس دین کے نصیحت ہونے کی بنیاد پر طالبان بھائیوں اور ان کے ساتھ جدوجہد کرنے والی دوسری جماعتوں کے سامنے یہ وضاحت کرتے ہیں:
افغانستان کا موجودہ دستور اور حالیہ افغان حکومت اور اس کا سیاسی ڈھانچہ غیر شرعی ہیں ۔ان کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔اس دستور کو استعماری طاقتوں نے اسلام کو نیچا دکھانے ، لوگوں کا استحصال کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نافذ کیا ہے۔
1۔ واحد سیاسی ہدف صرف خلافت راشدہ کا قیام ہونا چا ہیے جس کے تحت خلیفہ کو اس بات پر بیعت دی جائے گی کہ وہ قرآن،سنت ،اجماع الصحابہ اور قیاس کی بنیاد پر حکومت کرے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کا سیاسی حل جو اس مقصد سے عاری ہو وہ غیر شرعی ہے۔
2۔ زندگی کے تمام شعبوں میں یعنی معیشت، سیاست،معاشرت اور خارجہ امور میں،صرف اسلام کا مکمل نفاذ ہونا چاہیے۔ اسلام کا جزوی نفاذ کسی بھی شکل و صورت میں مسترد کردینا چاہیے۔
3۔افغان حکومت کے کسی بھی عہدہ دار سے کسی بھی سمجھوتے کے لیے کسی قسم کے مذاکرات حق کو باطل کے ساتھ خلط ملت کر تا ہے،کیونکہ یہ افغانستان میں امریکہ کی ایجنٹ حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ایسا ہے تویہ حق سے پیچھے ہٹنے اور باطل کی جانب پیروی کا پہلا قدم ہے،خواہ یہ پیرس میں''تحقیقی کانفرنس‘‘ میں شرکت کے پردے میں ہی کیوں نہ ہو جس میں افغان حکام اور طالبان کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔اس قسم کی کانفرنسیں ہی خطرناک سیاسی گڑھے میں گرنے کی جانب پہلا قدم ہو تی ہیں۔۔۔
مذکورہ تجاویز کی پیروی کر کے طالبان بیک وقت دو پیغام دے سکتے ہیں:
پہلا:دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ طالبان حق پر ثابت قدم ہیں،وہ حق کے مقابلے میں کسی چیز پر راضی نہیں ہو ں گے۔دنیا یہ بھی جان لے گی کہ استعماری کفار کے منصوبوں سے طالبان کو دھوکہ دینا ممکن نہیں۔
دوسرا:امت مسلمہ کو یہ پیغام جائے گا کہ طالبان خلافت کے لیے کام کررہے ہیں تا کہ اسلام اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کیا جائے۔
(ہَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنذَرُواْ بِہِ وَلِیَعْلَمُواْ أَنَّمَا ہُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَلِیَذَّکَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَاب)
''یہ لوگوں کے لیے واضح پیغام ہے اس سے ان کو ڈرنا چاہیے اور ان کو جاننا چاہیے کہ وہی اکیلا معبود ہے اور عقل والوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہیے‘‘۔(ابراھیم:52)
عثمان بخاش
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ڈائریکٹر