المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 5 من جمادى الأولى 1446هـ | شمارہ نمبر: 1446 AH / 045 |
عیسوی تاریخ | جمعرات, 07 نومبر 2024 م |
پریس ریلیز
مغربی ممالک کے انتخابات میں حصہ لینے کی دعوت دراصل کافر مغربی معاشروں میں ضم ہونے
اور اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے سے روکنے کی دعوت ہے
)ترجمہ)
مغرب میں ہونے والے ہر انتخابات میں، چاہے وہ صدارتی انتخابات ہوں یا پارلیمانی، مغرب میں موجود مسلم کمیونٹیز کے بہت سے ارکان ان ممالک میں ہونے والے انتخابات میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی آوازیں بلند کرنے لگتے ہیں۔ یہ ارکان، جن میں "شیوخ" اور اسلامی مراکز کے عہدیدار بھی شامل ہیں، ایک طرح سے وہی کام کرنے لگتے ہیں جو کہ انتخابی مہم سے مماثلت رکھتا ہے یعنی وہ مسلم کمیونٹیز کو کسی خاص پارٹی یا امیدوار کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دینے لگتے ہیں۔ یہ شیوخ ووٹنگ سے گریز کرنے کی بات نہیں کرتے، یہاں تک کہ اگر امیدوار ان "شیوخ" کی پسند کے مطابق نہ بھی ہوں، تب بھی وہ انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ دینے کی ضرورت پر زور دیتے رہتے ہیں، چاہے مسلمان ووٹر بیلٹ باکس میں خالی بیلٹ پیپر ہی ڈالے۔ یہ "شیوخ" دعویٰ کرتے ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینا ایک مذہبی اور "قومی" فریضہ ہے۔
اس عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس دعوت کا اصل مقصد مسلمان اور ان کی کمیونٹی کا اثر اور وزن ہے نہ کہ ان کے ووٹوں کی تعداد۔ وہ اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمان کمیونٹیز، چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو، کبھی کبھی انتخابی نتائج طے کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ جیسا کہ الجزیرہ عربی نے امریکی انتخابات کے موقع پر "سات ریاستوں میں انتخابات کا نتیجہ مسلمانوں کے ہاتھ میں" کے عنوان سے ایک دھوکہ آمیز رپورٹ نشر کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد نسبتاً کم ہے، جو 336 ملین کی کل آبادی میں تقریباً 3.5 سے 4 ملین ہے"، اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ "صدر کے انتخاب میں ان مسلمانوں کا اثر و رسوخ نمایاں ہوگا، خاص طور پر ان فیصلہ کن ریاستوں جیسے پنسلوانیا، مشی گن، ایری زونا، نیواڈا، جارجیا، شمالی کیرولائنا اور وسکونسن میں، جہاں دو بڑی پارٹیوں، ریپبلکن اور ڈیموکریٹک، کے مابین کانٹے کا مقابلہ تھا"۔
اول: پہلے تو مسلمان ان مغربی ممالک میں اس طرح کی پکار دینے پر ہی حیران ہیں، جہاں کی حکومتیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ کے سوا کسی اور قانون کے تحت حکومت کرتی ہیں، اور مقامی اور عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی رکھتی ہیں۔ ہمیں ان فتوؤں کے لیے شریعت میں کوئی دلیل نہیں ملتی، اور حقیقت میں یہ اسلامی فقہ کے بنیادی اصولوں سے ہی ٹکراتے ہیں۔ ان بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انتخابات ایک ذمہ داری سونپنے (وَکَالَہ) کا معاہدہ ہوتا ہے، جو ووٹر اور منتخب ہونے والے کے درمیان ہوتا ہے۔ تو آخر کس طرح یہ "شیوخ" ایک مسلمان کو یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ کسی کافر کو حکمرانی کرنے کا ذمہ دار بنائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے علاوہ کسی اور کے مطابق حکمرانی کرے صرف اس لئے کہ اس میں اس کے اپنے ملک کا مفاد ہے؟ آخر کیسے یہ "شیوخ" اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں جبکہ اس کافر کی حکمرانی اس کے اپنے ملک کے آئین، قوانین اور پالیسیوں کے مطابق ہوتی ہے، جوکہ ہمیشہ امت مسلمہ اور اس کے مفادات کے برعکس ہوتی ہیں، چاہے وہ کہیں بھی ہوں؟! سب سے تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ جب آپ انہیں اس مسلمہ اصول کی یاد دہانی کراتے ہیں تو وہ اسے نظرانداز کر دیتے ہیں اور اپنے دعوے کا جواز یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ "ہم دو برائیوں میں سے کم برائی کو منتخب کر رہے ہیں"، یا جیسا کہ ان "شیوخ" میں سے ایک نے یہ کہا کہ لوگوں کے پاس "ابو جہل اور ابو لہب کی بیوی (حمالۃ الحطب) کے درمیان انتخاب کا اختیار ہے"، جبکہ وہ ایک تیسرے، غیر معروف امیدوار کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس کا انتخابات میں کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ جب یہ "شیوخ" اس فقہی قاعدے، یعنی "دو برائیوں میں سے کمتر برائی کو اختیار کرنا" کو شریعت کے حکم کے طور پر پیش کرتے ہیں، تو وہ یہ نظرانداز کر دیتے ہیں کہ جن بعض علماء نے اس اصول کو اپنایا، انہوں نے اس قاعدے کے لئے یہ شرط رکھی کہ مسلمان کو ان دو برائیوں میں سے ایک کو زبردستی قبول کرنے پر جبراً مجبور کر دیا گیا ہو۔ ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ دو برائیوں میں سے ایک کا انتخاب کرے، جبکہ وہ چین و آرام کی حالت میں ہو، یعنی اس پر کوئی دباؤ یا مجبوری نہ ہو۔ لہٰذا، حتیٰ کہ اگر ان شیوخ کے مطابق اس اصول کو اپنا بھی لیا جائے تو بھی ہمیں مغربی انتخابات میں شرکت کے لیے شریعت میں کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ہم مغرب میں رہنے والے تمام مسلمانوں سے، خاص طور پر "شیوخ" اور اسلامی مراکز کے عہدیداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔ ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو ہرگز اختیار نہ دیں جو ان پر کفر کے ساتھ حکومت کرتے ہیں، اور مغرب کے منصوبوں میں ایجنٹ بن کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور انہیں دنیا بھر میں قتل کرتے ہیں۔ ہم انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ ایسے فتاویٰ پر کان نہ دھریں جو اللہ تعالیٰ کی بھیجی گئی شریعت کے خلاف ہوں۔ ہم انہیں یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ اس فانی دنیا اور زندگی کی عافیت پر انحصار نہ کریں اور کسی فرضی ڈراوے اور لالچ کی پالیسی سے مرعوب نہ ہوں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾
"کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا معاملہ طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس (طاغوت) کا انکار کر دیں، اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر گمراہی میں ڈال دے" (سورۃ النساء؛ 4:60)۔
دوم: مغربی انتخابات میں شرکت کرنا کافر سیکولر نظام کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں پر شریعت کی رُو سے فرض ہے کہ وہ اہل مغرب کو مکمل اسلام کی طرف دعوت دیں، اسے تمام انسانیت کے لیے ایک رحمت کے پیغام کے طور پر پیش کریں، اور پورے اسلام کی دعوت دیں، نہ کہ صرف انفرادی عبادات تک محدود رہیں۔ اسلام کی طرف دعوت لازماً ایک مکمل طرز حیات، طرزِ حکمرانی، معیشت اور زندگی کے تمام پہلوؤں کی طرف دعوت ہونی چاہیے۔ یہ ہے اسلام کی دعوت کا مطلب، خاص طور پر جبکہ مغرب خود ایک تہذیبی زوال کی کیفیت میں ہے۔ مغرب کو تہذیبی متبادل کی اشد ضرورت ہے جو مغربی لوگوں کو اس سیکولر تہذیب کے فساد سے بچائے جو خود ان مغربی اقوام کے لیے بھی بدبختی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ مغربی تہذیب خود مغربی ممالک کے اندر بھی ایک لعنت بن چکی ہے اور دنیا کی دیگر اقوام، بشمول امت مسلمہ، کے لیے بھی وبال ثابت ہو رہی ہے۔ لہذٰا، اسلام کی طرف دعوت ایک عظیم اسلام کی طرف دعوت ہونی چاہیے جو مغربی تہذیب کو ہٹا کر اس کی جگہ لے لے، یعنی مغرب کے اس نظام کی جگہ جو ظالمانہ سیکولرازم پر مبنی ہے۔ اور اس امر کا تقاضا یہ ہے کہ مغرب میں مقیم مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سیکولر نظام سے انکار کا اعلان کریں، اور مغربی معاشرے کے سامنے اسلام کو ایک تہذیبی متبادل کے طور پر پیش کریں، حتیٰ کہ یہ بات سیاسی عہدوں کے امیدواروں کے سامنے بھی رکھیں اور ان میں سے کسی کو ووٹ نہ دیں، چاہے وہ کتنی بھی جھوٹی باتیں اور دھوکہ دے کر لوگوں کو یقین دلائے کہ وہ ان کی خدمت اور ان کے مفادات کی حفاظت کرے گا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
«وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لاَ يَسْمَعُ بِي أحد من هذه الأمة لا يَهُودِيٌّ، وَلاَ نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلاَّ كانَ مِنْ أَصْحَابِ النار»
"قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اس امت میں سے کوئی بھی، چاہے یہودی ہو یا عیسائی، میری دعوت سن لے اور پھر ایمان لائے بغیر مر جائے تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا" [احمد]
سوم: مغرب میں مسلم تارکین وطن کمیونٹیز کا اسلام کی وحدت کے تحت اکٹھا ہونا اور اسلام کو رہنمائی اور رحمت کا پیغام بنا کر آگے بڑھانا ہی انہیں مغربی معاشروں میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ مغرب کے لوگوں کی طرف اسلام کا پیغام ایک الہامی پیغام ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو چند مٹھی بھر سرمایہ داروں کے جبر کا شکار ہیں، وہ سرمایہ دار جو بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کے مالکان کی حیثیت سے اپنے مالی مفاد کی خاطر لوگوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ ان لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا ایک شرعی فریضہ ہے، نہ کہ ان کے اس طرز زندگی میں شرکت کرنا جس نے ان کی اپنی زندگیوں کو بھی اجیرن کر دیا ہے اور ان پر اللہ کا غضب مسلط کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی وحدت انہیں ان لوگوں کی سازشوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے جو ان کے خلاف اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«عليكَ بالجماعةِ فإنَّما يأكلُ الذئبُ منَ الغنمِ القاصيةَ»
یعنی، "جماعت کے ساتھ رہو، کیونکہ بھیڑیا تنہا بھیڑ کو ہی کھاتا ہے" [احمد]۔
مثال کے طور پر، جب امریکہ میں دس ملین مسلمان ہوں اور ان کی نمائندگی کرنے والا کوئی موجود ہو، تو یہ نمائندگی انہیں ایسی قوت بنا دیتی ہے جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ اس صورت میں، ان کے حقوق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب ان کے مطالبات شریعت کے مطابق جائز اور منصفانہ ہوں۔ مثلاً، شہری ہونے کے ناطے اپنے قانونی حقوق کا مطالبہ کرنا، چاہے وہ انتخابات میں حصہ لیں یا نہ لیں۔ اسی طرح، ان کا یہ مطالبہ بھی کہ یہودی وجود کو وہ ہتھیار فراہم نہ کیے جائیں جن سے وہ غزہ میں ہمارے مسلمان بھائیوں کو قتل کر رہے ہیں۔
چہارم: ہم مغرب میں موجود مسلمانوں کو اسلام اور مسلمانوں کے سچے سفیر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ حبشہ ہجرت کرنے والے صحابہ، جن میں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، ان کی سیرت سے نصیحت حاصل کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ مغربی معاشروں میں گھل مل نہ جائیں اور ان میں ضم نہ ہو جائیں، ایسی مغربی سیاسی راہوں پر نہ چلیں جو انہیں اس دعوت حق کو لے کر چلنے کے وصف سے محروم کر دے جو کہ تمام انسایت کے لئے ہے۔ ہم انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان معاشروں میں ممتاز اور مثبت کردار ادا کریں، دعوت و تبلیغ سے لوگوں کو سرمایہ دار حکمرانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل کریں۔ یہ اسلام کی دعوت ایک عقیدے اور زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے ایک مکمل طرز زندگی کے طور پر دی جانی چاہئے۔ اس طرح سے ہی وہ ان ممالک کے لوگوں کے درمیان رہنے کی اپنی ذمہ داری کو پورا کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکیں گے اور روزِ قیامت ان پر پیغام پہنچانے میں ناکامی کا بوجھ نہ ہوگا۔ اس طرح وہ اللہ کے پیغام کو اس انداز میں پہنچا کر اپنے رب کو راضی کریں گے جو اس کی خوشنودی کا باعث ہے۔ اس طرح سے ہی وہ اپنے آپ کو اور آئندہ نسلوں کو کفر کی زندگی اور اس کے طور طریقوں میں ضم ہونے سے محفوظ رکھیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾
"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو، اور ان سے احسن طریقے سے بحث کرو۔ بے شک تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا اور کون ہدایت یافتہ ہے" [النحل-125:16]
حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizb-ut-tahrir.info |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |