السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی جانب سے علماء کرام کے نام کھلا خط

 

پاکستان کے مسلمانوں کے معزز علماء حضرات !

ہم آپ کو سلام  پیش کرتے ہیں، جو جنت کے لوگوں کا سلام بھی ہے،

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

 

پاکستان کی موجودہ امریکی ایجنٹ حکومت یہ دعوت دے رہی ہے کہ آپ فلسطین کی بابرکت سرزمین کے لیے امریکا اور مغربی طاقتوں کی جانب سے پیش کیے گئے "دو ریاستی حل" کے متعلق مثبت موقف اپنائیں، یعنی اس کی حمایت کریں۔ اس حوالے سے حزب التحریر ولایہ پاکستان یہ کھلا خط،ایک نصیحت اور خیر خواہی کے طور پر آپ کی خدمت میں  بھیج رہی ہے۔  مسلم نے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ

"یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً، دین خیر خواہی کا نام ہے

لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! کن کے ساتھ؟ آپﷺ نے فرمایا،


لِلَّهِ وَكِتَابِهِ وَرَسُولِهِ وَأَئِمَّةِ الْمُؤْمِنِينَ وَعَامَّتِهِمْ ، أَوْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ

اللہ ، اس کی کتاب ، اس کے رسول ﷺ، اورمسلمانوں کے آئمہ اور عام لوگوں کے ساتھ۔

 

اے پاکستان کے مسلمانوں کے علمائے کرام!

آپ علماء اجتماعی طور پر انبیاء کے وارث ہیں۔ آپ کو جو عظیم امانت دی گئی ہے آپ اس کے محافظ ہیں،  اور اس امانت کے متعلق قیامت کے دن آپ سے پوچھا جائے گا۔ امانت یہ ہے کہ آپ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کو ہر مسلمان تک انفرادی اور اجتماعی طریقے سے پہنچائیں، اور اس دوران اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف پیش نظر نہ رکھیں ، اور  اس عمل کے بدلے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی اور اجر کے سوا کسی اور چیز کی خواہش نہ کریں۔

 

اے پاکستان کے مسلمانوں کے علمائے کرام!

فلسطین کی بابرکت سرزمین ایک اسلامی زمین ہے اور یہ خراجی زمین ہے۔ لہٰذا یہ قیامت تک کے لیے پوری امت مسلمہ کی ملکیت ہے۔ مسلمانوں کا حق کوئی اقوامِ متحدہ کا دیا ہوا حق نہیں ہے بلکہ یہ رب العالمین  کی جانب سے وحی کے ذریعے دیا گیا حق ہے۔ بابرکت سرزمین کے حوالے سے مسلمانوں کی ذمہ داری ایک دینی ذمہ داری ہے، وہ دین جو کہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔  یہ ذمہ داری کوئی اخلاقی یا انسانی ذمہ داری نہیں اور نہ ہی یہ کوئی قومی یا نسلی مسئلہ ہے  جیسا کہ کچھ لوگ اس معاملے کو اِس تناظر میں پیش کرتے ہیں۔

 

اے پاکستان کے مسلمانوں کے علمائے کرام!

فلسطین کی سرزمین  کو بابرکت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ٹھہرایا ہے، اس سرزمین کے متعلق  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، 

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

"وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے (محمدﷺ)کو مسجدالحرام  سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے گیا، جس کے گِردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اپنے بندے کو اپنی  نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والادیکھنے والا ہے"(الاسراء، 17:1)۔ 

 

اس کے علاوہ یہ کہ مسجد الاقصیٰ تین حرموں میں سے تیسرا حرم ہے، جبکہ پہلا حرم کعبہ اور دوسرا حرم مسجد نبوی  ہے، اور ان کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا،

لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى وَمَسْجِدِي هَذَا

"تین مساجد: مسجد الحرام، مسجد الاقصیٰ اور میری اس مسجد(یعنی مسجد نبوی) کے علاوہ کسی اور مسجد کی جانب(زیارت کی نیت سے)سفر نہ کیا جائے"(بخاری و مسلم)۔

 

لہٰذا جس طرح مسلمان مسجد الحرام  اور مسجدِنبوی  کی زیارت  کرتے ہیں ، اسی طرح مسلمان مسجد الاقصیٰ کی بھی زیارت کرتے ہیں۔ اِن تین مساجد کے علاوہ دنیا کی کسی بھی مسجد   کی طرف زیارت کی نیت سے سفر کرنے کی اجازت نہیں، چاہے وہ اِن تین مساجد سے زیادہ خوبصورت ہی کیوں نہ ہو۔  گویافلسطین کی ارضِ مبارک پر قبضہ ، جس میں مسجد الاقصیٰ بھی شامل ہے، درحقیقت سرزمینِ حرم پر قبضہ ہے۔ یہ کسی بھی دوسری اسلامی سرزمین پر قبضے جیسا نہیں ہے چاہے اُس سے مسلمان  اور اس علاقے کے لوگ کتنی ہی محبت کیوں نہ رکھتے ہوں۔  یہ ایسے ہی ہے جیسے مکّہ میں کعبہ اور مدینہ المنورۃ میں مسجدِ نبوی پر یہود کا قبضہ ہو، وہ یہود جن پر اللہ نے اپنا غضب  کیا ہے۔ لہٰذا فلسطین کی بابرکت سرزمین پر یہود کا قبضہ،  اور ان کی طرف سے مسلسل مسجد الاقصی ٰکی بے حرمتی ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے جو اِس بات کا تقاضا کرتا ہے اسلامی امت اِس معاملے کو اس کی درست حالت پر واپس لانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دے۔

چونکہ فلسطین کی بابرکت سرزمین ایک خراجی زمین ہے اور یہ امت کی ملکیت ہے، لہٰذا کسی کو اس بات کا حق اوراجازت نہیں کہ وہ اِس سرزمین کے نمائندے کے طور پر بات کرے، سوائے اُس کے جس کو امت نے اس معاملے  پر بولنے کا حق دیا ہو۔ اور امت کو بھی یہ حق نہیں  کہ اِ س معاملے کو کسی کے سپرد کرے سوائے اُس کے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جوابدہی سے ڈرتا ہو،اورقرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے والا  ہو۔ پس جو بھی فلسطین کی ارضِ مبارک کے نام پر عرب لیگ کے اٹارنی جنرل کے طور پر یا او آئی سی یا اقوام متحدہ کے نام پر بات کرے گا ، اس کی نمائندگی ناجائز ہے۔ عرب لیگ، او آئی سی اور اقوامِ متحدہ حرم یا بابرکت سرزمین کی مالک نہیں  اور نہ ہی امت کی شرعی نمائندگی کرتی ہیں، اگرچہ انہیں اس طور پر آگے لایا گیا ہے کہ وہ اس زمین کے باشندوں اور اسلامی امت کی جانب سے بات کریں۔ لہٰذا سیکولر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او)، یا کسی جہادی یا سیاسی تحریک کو امت کی شرعی نمائندگی کا حق حاصل نہیں ہے۔

 

اے پاکستان میں موجود علمائے کرام! 

فلسطین کا مسئلہ، ارضِ مبارکہ پر قبضے کا معاملہ ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے اس قسم کے معاملات کا واحد حل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں جہاد ہے، یعنی  اسلامی سرزمین کی آزادی کے لیے لڑا جائے،جس طرح صلاح الدین ایوبیؒ  نے فلسطین کی بابرکت سرزمین اور مسجد الاقصیٰ کو صلیبیوں کے قبضے سے نجات دلانے کے لیے جہاد کیا تھا۔   یہ معاملہ کسی زمین پر دو گروہوں کے درمیان دنیاوی یاسیاسی تنازعہ نہیں ہے، چنانچہ فلسطین کا مسئلہ  مذاکرات یا مصالحت یا اِس قسم کے کسی بھی دوسرے طریقے سے حل نہیں ہوگا۔ پس وہ جو یہود کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور بابرکت سرزمین کے حوالے سے مذاکرات کرتا ہے، وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسولﷺ اور ایمان والوں کا غدار ہے۔ وہ جو بابرکت سرزمین کی مکمل  آزادی کے علاوہ کسی بھی دوسرے حل کو قبول کرتا ہے، وہ اپنے ایمان، دین اور عزت کو پامال کرتا ہے اوران کا سودا کرتا ہے۔ جو امریکی حل کو قبول کرتا ہے، جو کہ اس سرزمین پر دو ریاستوں کا قیام ہے، وہ بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسولﷺ اور ایمان والوں کا غدار ہے کیونکہ اُس نے اِس معاملے کو اِس نظر سے نہیں دیکھا کہ یہ اسلامی سرزمین پر قبضے کا معاملہ ہے جس کو مکمل طور پر آزاد کرانا فرض ہے۔  جہاں تک امریکا کے "دو ریاستی حل "کی بات ہے ، تو اِ س کے تحت بابرکت سرزمین کا 80 فیصد   یہودی وجود کو دیا جائے گا جبکہ سیکولر فلسطینی اتھارٹی کو اِ س زمین کا محض 20 فیصد دیا جائے گا۔

 

اے پاکستان کے مسلمانوں کے علمائے کرام!

فلسطین اور اس کے لوگوں کی ضرورت پیسہ یا خوراک نہیں ہے، جیسا کہ مال و غذا بھیجنے والوں میں سے کچھ لوگ  باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اصل شرعی ذمہ داری سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ اس حال میں کہ جب  اہلِ فلسطین یہودی وجود کے قبضے کو ختم کرنے سے عاجز ہیں،بابرکت سرزمین کی آزادی کے لیے یہود سے لڑائی اور جہاد کی ذمہ داری اس سرزمین کے مالکوں پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہے۔ فلسطین کے لوگ اکیلے اِس زمین کے مالک نہیں ہیں بلکہ پوری امت اس کی مالک ہے۔ اور امت میں سے اُن پر جہاد لازم ہے جو اس کی صلاحیت  رکھتے ہیں اور اِس امت کی افواج میں یہ صلاحیت اور طاقت بدرجہ اُتم موجود ہے۔ یہ افواج امت کے بیٹوں پر مشتمل ہیں جو اِ س امت کی ڈھال اور محافظ ہیں۔  افواج کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے دفاع، اس کی حرمات کی بحالی اور اس کی زمینوں کی آزادی کے لیے جہاد کریں۔ لہٰذا علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق،  یہود سے لڑنے اور انہیں قتل کرنے کے لیے مسلم افواج کو پکاریں،

تُقَاتِلُونَ الْيَهُودَ حَتَّى يَخْتَبِيَ أَحَدُهُمْ وَرَاءَ الْحَجَرِ فَيَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ"

تم یہودیوں سے جنگ کرو گے(اور وہ شکست کھا کر بھاگتے پھریں گے)کوئی یہودی اگر پتھر کے پیچھے چھپ جائے گا تو وہ پتھر بھی بول اٹھے گا کہ اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا بیٹھا ہے اسے قتل کر ڈال"(بخاری، مسلم، ترمذی)۔ 

 

إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغاً لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ

"عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس (قرآن) میں (اللہ کے حکموں کی)تبلیغ ہے"(الانبیاء، 21:106)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

 

ہجری تاریخ :21 من شوال 1442هـ
عیسوی تاریخ : بدھ, 02 جون 2021م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک