بسم الله الرحمن الرحيم
انسانوں کا بنایا ہوا موجودہ عدالتی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ
انصاف میں تاخیر ہو اورانصاف طاقتور کے گھر کی لونڈی ہو
اسلام کا عدالتی نظام انسانی تاریخ کا سب سے سے زیادہ تفصیلی اور گہری سوچ پر مبنی نظام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وقت سے اسلام بروقت اور کسی بھی امتیاز سے بالاترہوکر انصاف فراہم کرنےکے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺبذاتِ خود بازاروں کا دورہ کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ نےدھوکہ دہی کے متعلق فیصلے دیے۔ اسلام صرف شک کی بنیاد پر سزا نہیں دیتا بلکہ شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق مضبوط شہادتوں کی بناء سزا دیتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
ادْرَءُوا الحُدُودَ عَنِ المُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ يُخْطِئَ فِي العَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فِي العُقُوبَةِ
"مسلمانوں کو جس قدر ہوسکے سزاؤں سے بچاؤ، اگر ایسی صورتِ حال ہو تو امام کے لیے بہتر ہے کہ وہ غلطی سے معاف کر دے بجائے اس کے کہ کسی کو غلطی سے سزادے دے"(ترمذی)۔
ایک اور مثال قحط سالی کے دَور میں چور کا ہاتھ کاٹنے سے روک دینے کی ہے ، اگر اس کی چوری کا مقصد اپنی بھوک کو مٹانا ہو ،جیسا کہ امام سر خسی نے "المبسوط" میں مکحولؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لَا قَطْعَ فِي مَجَاعَةِ مُضْطَرٍّ " قحط کی صورت میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے" اور اسی لئے عمرؓنے قحط کے دوران ایسا ہی کیا۔ اسی طرح ایک یہودی نے ، خلیفہ وقت حضرت علیؓ کے خلاف زرّہ بکتر کی ملکیت کا مقدمہ اس وجہ سے جیت لیاکہ قاضی نے خلیفۂ وقت حضرت علیؓ کے بیٹوں کی گواہی کو اپنے باپ کے حق میں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔انصاف کی فراہمی کی یہ وہ مثالیں ہیں جو مسلمانوں کے دل و دماغ میں پیوست ہیں۔ بروقت، بلامتیاز اور شفاف انصاف کی فراہمی اسلامی کے عدالتی نظام کی پہچان ہے۔ اس کے علاوہ تیرہ سو سالوں تک شریعت دنیا بھر کی تہذیبوں کے لیے ایک رہنما تھی جس نے مغربی اقوام کو اپنے قانونی اور حکمرانی کے اصول و ضوابط میں تبدیلی لانے پر مجبور کیا، مثلاًفرانس کا نیپولیونک کوڈ Napoleonic Code، برطانیہ کا میگنا کارٹا اور امریکی آئین۔
لیکن خلافت کے خاتمے اور شریعت کے نفاذ کی منسوخی کے بعد سے لوگوں کےدرمیان اختلافات اور جھگڑوں کےتصفیے، حکمرانوں کا احتساب اور لوگوں کے حقوق کی فراہمی کے معاملات انتہائی اَبتر صورتحال اختیار کرچکے ہیں۔ سب سے پہلے شریعت کا خاتمہ اٹھارویں صدی میں شروع ہوا جب مغربی اقوام نے مسلم علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور پھر1342ہجری بمطابق 1924 عیسوی میں خلافت کے خاتمے کے ساتھ اس کا نفاذ مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔ اُس وقت سےانصاف سے متعلق مختلف معاملات جیسے ،کس عمل کو جرم قرار دیا جائے گا، جرم کو کس طرح ثابت کیا جائے گا اور اس کی سزا کیا ہوگی،کے تعین کے لیے انسانی عقل معیار بن چکی ہے۔ اب مسلم دنیا میں چندمخصوص اسلامی قوانین کے علاوہ کفریہ قوانین نافذ کیے جارہے ہیں ۔ اس بات سے قطع نظر کے شہریوں کا تعلق کس مکتبہ فکر، جنس، مذہب یا نسل سے ہے، ان قوانین کی بدولت وہ ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ پاکستان میں برطانوی قوانین ،جن میں کریمنل پروسیجر کوڈ(CrPC)بھی ہے ،جو کہ 1898 میں لکھا گیا تھا، اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کون سا عمل جرم ہے، مقدمہ کیسے چلے گا اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں کیا سزا دی جائے گی۔ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ اثرورسوخ رکھنے والے لوگ سزاؤں سے بچ جاتے ہیں جبکہ معاشرے میں موجود کمزور لوگوں کوجھوٹے مقدمات میں ملوث کردیا جاتا ہے جو طویل ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ بعض صورتوں میں کئی دہائیاں گزر جاتی ہیں ۔ لہذا آج عدالتی نظام اس حوالے سے پہچانا جاتا ہے کہ یہاں زور آور کے لیے کوئی سزا نہیں ، انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوتی ہےیا انصاف سرے سے ملتا ہی نہیں اور لوگ ان عدالتوں میں جانے سے ہر صورت بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عدلیہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے
سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اشرافیہ ، عدلیہ کے ذریعے اپنے اور اپنے استعماری آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ جمہوریت اس اشرافیہ کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ وہ جس چیز کو چاہیں قانون کے مطابق جائز قرار دیں اور جس عمل کو چاہیں جرم قرار دیں اور عدلیہ قانون کو نافذ کرنے والے ادارے کے طور پر صرف اشرافیہ کی ان خواہشات کو نافذ کرتی ہے۔ لیکن اسلام میں جرم وہ ہوتا ہے جس کو اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے جرم قرار دیا ہو۔ لہٰذا جس عمل کو قرآن کی آیت یا نبی کریم ﷺ کی حدیث نے حرام قرار دیا ہو اس کے کرنے کو جرم سمجھا جاتا ہے اور اس پر سزا دی جاتی ہے۔ تو اسلام جنرل سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے نفاذ کو ایک جرم کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ جمہوریت اس قسم کے ٹیکسوں کے ذریعے لوگوں کی نجی دولت یا املاک پر ڈاکہ ڈالتی ہے اور پھر اس دولت کو استعماری طاقتوں اور اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور مالیاتی بدعنوانی کو ذریعے کے طور پراستعمال کیا جاتاہے۔ اسلام میں توانائی کےوسائل عوامی ملکیت ہوتے ہیں اور اس کی نجکاری کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ اس کے نتیجے میں معاشرے کو ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے۔ لیکن جمہوریت میں ان وسائل کی نجکاری قانونی طور پر جائز ہے اورحکمران اشرافیہ اور ان کے آقاؤں کی جانب سے اس کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسلام میں حکمران کا احتساب اور دشمنوں کے ساتھ اُس کی کسی بھی قسم کی ساز باز کو بے نقاب کرنا ایک فرض ہے جبکہ آج پاکستان میں اس عمل کو ملک دشمن سرگرمی ، نقص امن اور دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے۔ لہٰذا جمہوریت میں کفریہ قوانین حکمران اشرافیہ اور ان کے آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں کیونکہ وہ تو خود ہی قوانین بناتے ہیں ، اس بات سے قطع نظر کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے کیا حلال قرار دیا ہے اور کیا حرام قرار دیا ہے۔ مزید یہ کہ اشرافیہ کا یہ گروہ عدالتی استثناء کے ذریعے حکمرانوں کا تحفظ کرتا ہے جیسا کہ این۔آر۔او (N.R.O) کا بدنامِ زمانہ قانون۔ لہٰذا مشرف وعزیز کی حکومت امریکی احکامات کو نافذ کرنے میں مکمل آزاد تھی اور پھرجب کیانی وشریف حکومت بغیر کسی مخالفت اور عدالتی احتساب کے خوف کے پاکستان سے غداری کی اس پالیسی کو جاری رکھے ہوئے تھی تو صرف مشرف ہی کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ۔
اختلافات کا خاتمہ، حقوق کا تحفظ اور حکمرانوں کا احتساب
جمہوریت کے برخلاف اسلام میں یہ اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہے جو جرم، اس کو ثابت کرنے کے لیے درکار ثبوت اور سزا سے متعلق قوانین سے انسانیت کو آگاہ کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ"کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو"(الملک:14)۔ خلافت میں عدلیہ اسلام کی مضبوط بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ جہالت پر مبنی برطانوی قانون، فرانسیسی پِینل کوڈز اور دوسرے تمام کفریہ قوانین کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک جج کے لئے لازمی ہے کہ وہ اسلام کا علم رکھتا ہوچاہے وہ مرد ہو یا عورت، حنفی ہو یا جعفری ، کیونکہ اس نے اسلام کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے۔ اور جوقاضی اسلام سے ہٹ کر فیصلہ دیتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ: وَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَاثْنَانِ فِي النَّارِ، فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّةِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضَى بِهِ، وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُكْمِ، فَهُوَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ قَضَى لِلنَّاسِ عَلَى جَهْلٍ فَهُوَ فِي النَّارِ
"تین قسم کے قاضی ہیں : ایک وہ جو جنت میں جائے گا اور دوسرا وہ جو جہنم میں جائے گا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے جو جنت میں جائے گا یہ وہ شخص ہے جو حقکو جانتا ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، اور وہ جو حق کو جانتا ہےلیکن فیصلہ اس کے مطابق نہیں کرتا وہ جہنم میں جائے گا ۔ اور وہ شخص جو لوگوں کے لیےجہالت پر مبنی فیصلہ جاری کرتا ہے وہ بھی جہنم میں ہوگا"(ابو داؤد)۔
لہٰذا اسلام میں طاقت، رتبے یا کسی بھی اور وجہ کی بنیاد پر کوئی امتیازی قوانین نہیں ہوتے کیونکہ یہ قوانین اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے نازل کیے گئے ہیں۔ کمزور کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ اس کا تعلق کس نسل، رتبے، جنس، مکتبہ فکر یا مذہب سے ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد عوام کو یہ یقین دہانی کرائی کہ " تم میں سے کمزور میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک کہ میں اس کا حق لوٹا نہ دوں اور تم میں سے طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے کمزور کا حق واپس نہ دلا دوں"۔ اسی طرح جب چند لوگوں نے ایک عرب عورت کی چوری کو معاف کرنے کی سفارش اس بنیاد پر کروائی کہ وہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی،تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس موقع پر خبردار کیا:
إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا
" تم سے پہلے لوگ اس لیے تباہ ہوگئے کہ جب ان میں سےکوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے لیکن اگر کوئی کمزورآدمی چوری کرتا تو وہ اس پر سزا کو نافذ کرتے تھے۔ اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا"(بخاری)۔
کسی حکمران کو اسلام کے احکامات سے استثناء حاصل نہیں ہوتا
اسلام میں کسی حکمران کو اسلام کے احکامات سے استثناء حاصل نہیں ہوتا چاہے خواہ وہ خلیفہ ہو یا والی (گورنر)۔ اگر ان میں سے کسی نے بھی آئی ایم ایف، ایساف، اقوام متحدہ یا امریکہ محکمہ خارجہ سے رہنمائی لی تو ان کے خلاف فوراً مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس کے علاوہ خلیفہ کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ کسی ایسے جج کو اُس کے منصب سے الگ کرسکے جو اُس کے خلاف مقدمہ سن رہا ہوجبکہ جمہوریت یا آمریت میں کبھی نواز شریف توکبھی زرداری اورکبھی مشرف عدلیہ سے ٹکراؤ کی حالت میں رہتے ہیں۔
ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ77میںحزب التحریر نے اعلان کیا ہے کہ ''معجم الاوسط میں طبرانی کی روایت میں فضل بن عباس ؓنے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : فمَنْ كنتُ جلدتُ لهُ ظهراً فهذا ظهري فليَسْتَقِدْ منه، ومَنْ كنتُ شتمتُ لهُ عِرضاً فهذا عِرضي فليَسْتَقِدْ منه، ومن كنتُ أخذتُ لهُ مالاً، فهذا مالي فلْيَسْتَقِدْ منه"اگر میں نے کسی کی پیٹھ پہ کوڑے مارے ہوں تو یہ ہے میری پیٹھ اپنا بدلہ لے لے، اگر میں نے کسی کو گالی دے کر بے عزتی کی ہو تو آئے اور اپنا بدلہ لے، اگر میں نے کسی کا مال لیا ہو تو یہ میرا مال ہے اس میں سے اپنا مال لےلے"۔ اس کے علاوہ دفعہ 87 میں کہا گیا ہے کہ "قاضی مظالم وہ قاضی ہے جس کو ریاست کی جانب سے ہر اس شخص کے ساتھ ہونے والے ظلم یا زیادتی کا ازالہ کرنے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے جو ریاست کے زیر سایہ رہتا ہو چاہے وہ شخص ریاست کا شہری ہو یا نہ ہو اور خواہ یہ ظلم خلیفہ کی جانب سے ہو یا اس کے کسی ماتحت حکمران یا ملازم کی طرف سے ہو"۔ اور دفعہ 88 میں کہا گیا ہے کہ"قاضی المظالم کی تقرری خلیفہ یا قاضی القضاء کی طرف سے ہوتی ہے۔۔۔۔ لیکن اُس کواِس حالت میں برطرف نہیں کیا جاسکتا جب وہ خلیفہ یا معاون تفویض یا پھر مذکورہ قاضی القضاء کی طرف سے کی گئی کسی زیادتی کے بارے میں چھان بین کررہا ہو۔ اس حالت میں اس کو برطرف کرنے کا اختیار محکمۂ المظالم کے پاس ہوگا"۔
اسلام بروقت انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بناتا ہے
اسلام نہ صرف طاقتور کو ظلم سے روکتا ہے، کیونکہ طاقتور صرف وہی ہے جو حق پر ہے، بلکہ بروقت انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ اسلام کا عدالتی نظام ایک منفرد نظام ہے جس میں اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی مختلف درجوں کی عدالتیں ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے آج لوگ ایک گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ جب ایک بار ایک مقدمے میں اللہ کا حکم ثابت ہوجاتا ہے تو مقدمہ ختم ہوجاتا ہے۔ صرف اُس صورت میں مقدمہ دوبارہ کھولا جاسکتا ہے جب فیصلہ اللہ کے حکم کے خلاف ہو یا مقدمے میں قطعی حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا ہو۔ ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ83میں حزب التحریر نے اعلان کیا ہے کہ"اپیل کورٹس اور سسیشن (cessation)کورٹس کا کوئی وجود نہیں۔ مقدمے کے فیصلے کا ایک ہی درجہ ہے۔ قاضی جس وقت فیصلہ سنا دے تو اس کا فیصلہ اسی وقت نافذ ہوتا ہے۔ کسی اور قاضی کا فیصلہ کسی بھی حالت میں اُس کے فیصلے کو کالعدم نہیں کرسکتا سوائے اس صورت کے کہ اس نے غیر اسلامی فیصلہ دیا ہو ۔۔۔۔۔یا یہ معلوم ہوجائے کہ اس نے حقائق کے برخلاف فیصلہ دیا ہے"۔
اسلام میں قاضی مظالم اور عام قاضیوں کے علاوہ قاضی محتسب (حسبہ) بھی ہوتا ہے۔ یہ وہ قاضی ہوتا ہے جو معاشرے کے عمومی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے چاہے کوئی مدعی موجود نہ بھی ہو جس نے کسی ایسے حق کی خلاف ورزی ہوتے دیکھی ہو جو اسلام نے فراہم کیا ہو۔ ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ84میں حزب التحریر نے اعلان کیا ہے کہ" محتسب وہ قاضی ہوتا ہے جو ان تمام مسائل پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق عام حقوق سے ہو اور اس میں کوئی مدعی نہیں ہوتا بشرطیکہ یہ حدود اور جنایات میں داخل نہ ہوں"۔ دفعہ 85 میں مزید کہا گیا ہے کہ "محتسب کسی بھی خلاف ورزی کے بارے میں معلوم ہونے پر فوراً کسی بھی جگہ فیصلہ دینے کا اختیار رکھتا ہے،اس کے لیے عدالتی نشست کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اپنے احکامات کو نافذ کرنے کے لیے وہ پولیس کو بھی ساتھ رکھے گا۔ اس کا فیصلہ فوراً نافذالعمل ہوتا ہے"۔
اسلام بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے جرم کو ثابت کرنے کے حوالے سے مضبوط طریقہ کار بھی فراہم کرتا ہے
اسلام نہ صرف بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے بلکہ وہ اس سلسلے میں جرم کو ثابت کرنے کے حوالے سے مضبوط طریقہ کار بھی فراہم کرتا ہے۔جہاں تک شہادتی ثبوتوں(Testimonial evidence) کا تعلق ہے اسلام لازمی قرار دیتا ہے کہ وہ یقینی ہوں یا جن میں شک کی گنجائش کم سے کم ہو جبکہ مغربی پیمانہ یہ ہے کہ وہ قرائنی ثبوتوں(Circumstantial evidence)کو بنیاد بنا کر جرم ثابت کرتے ہیں اگرچہ وہ جرم کا براہِ راست ثبوت نہیں ہوتے۔ لہٰذا اسلام اور کفر کے ملغوبے کی وجہ سے پاکستان میں اب تک ہزاروں لاکھوں مقدمات میں غلط طریقے سے جرم کو ثابت کیا گیا ہےاور یہی صورتحال پوری دنیا کی ہے جہاں ان کفریہ قوانین کی بنیاد پر غلط طریقے سے جرم کو ثابت کیا جاتا ہے۔سزاؤں کے لیے اسلام شرعی شہادتوں کا تعین کرتا ہے جو یہ ہیں: شہادت(آنکھوں سے دیکھنے)، یمین(حلف)،اقرار(اقرار جرم)، مستنداتِ قطعیہ (دستاویزی ثبوت ) جیسے سرکاری دستاویزات یا دستخط شدہ دستاویزات، اور ان تمام کے شرعی شہادتیں ہونے کےشرعی دلائل موجود ہیں۔ واقعاتی شہادتیں، جو مغربی قوانین میں استعمال کی جاتی ہیں، اسلام میں صرف اس مقدمے کو سمجھنے کے حوالے سے استعمال کی جاسکتی ہیں لیکن شرعی شہادتوں کی جگہ جرم ثابت کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتیں۔ لہذا جب رسول اللہ ﷺ نے ایک دم توڑتی ہوئی لونڈی سے پوچھا کہ کس نے تمھیں قتل کرنے کی کوشش کی ہے تو اس نے ایک یہودی کی جانب اشارہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بیان کو ایک شہادتی ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا ۔ رسول اللہ نے اس بیان کومعاملے کو سمجھنے کے لیے استعمال کیا نہ کہ جرم کا ثابت کرنے کے لیے اور اس یہودی کو اسی وقت قتل کیا گیا جب اُس نے جرم کا اقرار کرلیا۔ اسلام جو کہ دین رحمت ہے ، شک کی صورت میں سزا نہ دینے کا حکم دیتا ہے کیونکہ شرعی شہادتوں کی غیر موجودگی میں کوئی سزا نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ادْرَءُوا الحُدُودَ عَنِ المُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ يُخْطِئَ فِي العَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فِي العُقُوبَةِ " مسلمانوں کو جس قدر ہوسکے سزاؤں سے بچاؤ، اگر ایسی کوئی صورت موجود ہے تو امام کے لیے بہتر ہے کہ وہ غلطی سے معاف کر دے بجائے اس کے کہ کسی کو غلطی سے سزادے دے"(ترمذی)۔ جہاں تک تعزیر کا تعلق ہے تو فورنزِک ثبوت جرم کو ثابت کرنے کے لیے قبول کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر زنا بالجبر کی صورت میں ڈاکٹر یا مڈ وائف (mid-wife)کی رپورٹ زانی کو پندرہ سال تک کی قید،عوامی اجتماع میں کوڑے مارنے یا جلاوطنی کی سزا دینے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے اگر حد جاری کرنے کے لیے شرعی شہادتیں موجود نہ ہوں۔
اسلام نے ایسی سزائیں تجویز کی ہیں جو مجرموں کو جرم کرنے سے باز رکھتی ہیں
جہاں تک سزاؤں کا تعلق ہے تو اس بات کو اچھی طرح سے ثابت کرنے کے بعد کہ جرم سرزد ہوا ہے ،اسلام نے ایسی سزائیں تجویز کی ہیں جو مجرموں کو جرم کرنے سے باز رکھتی ہیں جبکہ مغربی سزائیں جرائم میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی ہیں جس کے نتیجے میں جیلوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس کفریہ نظام کے تلے پاکستان کی جیلیں مجرموں کے لیے ایسی درسگاہوں کی صورت اختیار کرچکی ہیں جہاں پہنچ کر وہ یہ سیکھتے ہیں کہ مستقبل میں گرفتاری سے کیسے بچنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سزا ایسی ہوتی ہے جس سے معاشرہ بے خبر ہوتا ہے کیونکہ یہ سزا جیل کی دیواروں کی پیچھے ہوتی ہے اور اسی لیے جرائم پسند افرادکے لیے کسی خوف کا باعث نہیں ہوتیں لہٰذا موجودہ سزائیں جرائم میں اضافے کو یقینی بناتی ہیں ۔ یہ نظام اس نظام سے کوسوں دور ہے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ اسلام میں سزا اسی صورت دی جاتی ہے جب شرعی شہادتوں سے جرم ثابت ہوجائے اور جب ایک بار جرم ثابت ہوجاتا ہے تو سزا پر عمل در آمد عوام الناس کے سامنے کیا جاتا ہے تا کہ دوسرے اس سزا کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور اس جرم سے دور رہیں۔ مثال کے طور پر چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا عوام کے سامنے دی جاتی ہے تا کہ پورا معاشرہ اس سزا کو دیکھے۔لہذا خلافت کے زیر سایہ ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک شریعت کے نفاذ کے دوران صرف چند ہاتھ ہی کاٹے گئے جبکہ موجودہ قوانین کے تحت چوری کا جرم ایک دن میں کئی بار کیا جا رہا ہے۔ لہذا خلافت میں جرم کی شرح اس قدر کم ہوتی ہے کہ لوگ امن اور سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں ۔
اسلام کی یہ سزائیں نہ صرف لوگوں کو جرم سے باز رکھنے میں معاون ثابت ہوتی تھیں بلکہ یہ ان کو آخرت میں بچاؤ بھی فراہم کرتی تھیں جن سے جرم سرزد ہوتا تھا، کیونکہ یہ سزا مجرم کو آخرت میں اللہ کی سزا سے بچانے کا باعث بنتی ہے جو کہ سخت ترین سزا ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : بَايَعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ بِهِ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ إِلَى اللَّهِ: إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ " مجھے اس شرط پر بیعت دو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، تم چوری نہیں کرو گے اور بدکاری نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، جھوٹی بہتان تراشی نہیں کرو گے،معروف معاملات سے سرکشی نہیں کرو گے،تو تم میں سے جس کسی نے اپنی بیعت کو پورا کیا اس کا اجر اللہ کے پاس ہے، اور جس کسی نے ان میں سے کوئی عمل کیا اوراُسے اس کی سزا مل گئی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوگی۔ اور جس کسی نے ان میں سے کوئی عمل کیا اور اللہ نے اس پر پردہ ڈالے رکھا تو پھر اللہ چاہے گا تو(آخرت میں) اس کو معاف کردے یا اسے سزا دے "(بخاری)۔
ہجری تاریخ :29 من رمــضان المبارك 1443هـ
عیسوی تاریخ : ہفتہ, 30 اپریل 2022م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان