بسم الله الرحمن الرحيم
اسلامی خلافت کے خاتمے کے 102 سال مکمل ہونے کے موقع پر تیونس کانفرنس میں خطاب
خلافت: ایک نگہبان ریاست، جس کا قیام شرعی ذمہ داری ہونے کے علاوہ ایک اہم ضرورت بھی ہے۔
شیخ عصام عمیرہ
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو اللہ کے رسولﷺ پر، ان کی آل پر، صحابہ کرامؓ پر اور ان پر جنہوں نے آپﷺ کی پیروی کی۔
تیونس میں خلافت کانفرنس میں جمع ہونے والے پیارے بھائیو اور بہنو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں آپ کو آپ کی اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی بشارت دیتا ہوں،
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ * وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ
"اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اُن پر احسان کریں اور اُن کو پیشوا بنائیں اور انہیں (ملک کا) وارث کریں۔ اور ملک میں ان کو قدرت دیں اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر کو وہ چیزیں دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے تھے ۔"(القصاص:6-5)
ریاستہائے متحدہ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بین الاقوامی حالات اور بین الاقوامی سیاست پر بالادستی حاصل کر لی ۔ پوری دنیا سیاست اور معیشت کے میدانوں پر اس کے تسلط، عالمی جنگ اور امن پر اس کے کنٹرول، زمین، سمندر، ہوا اور سائبر اسپیس پر اس کا کنٹرول، پر حیرت زدہ ہے، اور اس کا یہ کنٹرول بہت بڑے پیمانے پر، اور عصری تاریخ میں بے مثال ہے۔مقامی، علاقائی یا بین الاقوامی سطح پر کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ہر کوئی اسے ہزار بار سوچتا ہے ہے۔ ہم اسے دنیا کے تمام واقعات میں مداخلت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ بڑی درستگی کے ساتھ دنیا کے معاملات کی پیروی کرتا ہے۔ یہ تمام مسائل پر رائے عامہ کی رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ اچھے ہوں یا برے۔یہ دنیا کے بیشتر حصوں میں دولت کے ذرائع کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کو امداد اور قرضے فراہم کرتا ہے۔ اس کے بیرون ملک، زمین کے مرکز، شمال اور جنوب میں فوجی اڈے ہیں۔ اس کا ڈالر دنیا کی تمام کرنسیوں کو چلاتا ہے۔ بہت زیادہ مقروض ہونے کے باوجود اس کی معیشت سب سے زیادہ مضبوط ہے۔یہ وہ ملک ہے جسے وہ "وسائل سے مالا مال سرزمین" کہتے ہیں، کیونکہ اس میں ہر چیز وافر اور بڑی ہے۔ تاہم، یہ برکت سے خالی ہے! جب روس اور یوکرائن کی جنگ شروع ہوئی تو یوکرین پر روس کے حملے کا مقابلہ کرنے میں مغربی کیمپ کے رہنما کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طاقت واضح ہوگئی۔ یہ ایک واضح عمل تھا، جس کا مقصد روس کو کمزور کرنا تھا، اور اسے اس درجہ سے نیچے لانا تھا جس پر اس نے تقریباً چار دہائیاں قبل سوویت یونین کے انہدام کے بعد قبضہ کیا تھا، اس طرح اسے لگام ڈالی گئی۔
میڈیا کے بلیک آؤٹ، اور تاریخ کو جھٹلانے اور اس کے روشن خدوخال کو چھپانے کی کوششوں کی وجہ سے، بہت کم لوگوں کو یاد ہے کہ اسلامی ریاستِ خلافت نے ایک بار دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اس نے اپنے قیام کے فوراً بعد فارسی اور رومن بازنطینی سلطنتوں کو شکست دی تھی۔یہ کئی صدیوں تک بین الاقوامی منظر نامے اور بین الاقوامی سیاست کا مرکز و محور رہا، اور یہ دور امریکہ کے موجودہ سنہری دور سے کئی گنا زیادہ تھا۔ اس کی فتوحات تیز بجلی کی طرح تھیں، جس کے نتیجے میں بہت سے ممالک کو ، اصرار درخواست کے بعد، یا ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد ،اس کے وجود میں شامل کیا گیا ۔اس کا رقبہ سمندر کو چھوڑ کر زمین پر بیس ملین مربع کلومیٹر سے زیادہ تھا۔ اس نے دنیا کی زیادہ تر اہم سمندری گزرگاہوں کو کنٹرول کیا۔ مفتوحہ ممالک کے باشندے گرو ہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہوئے۔ امت اسلامیہ نے کئی صدیوں تک امن اور ہم آہنگی کی حالت میں زندگی گزاری، جس کی تاریخ اس سے پہلے یا بعد میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔دوسری قومیں اس سے متاثر ہوئیں اور اس کی پناہ طلب کرتیں ۔ آج امریکی سرمایہ دار حیوانی تسلط اور دنیا کے خطوں پر اس کے تسلط کا اسلامی ریاست کے دور، اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کی ریاست کی جانب سے شرعی سرپرستی کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ہے۔ہم یہ کہتے ہوئے مبالغہ آرائی نہیں کرتے کہ امریکہ اور یورپ نے سائنس کے مختلف شعبوں میں جو سائنسی ترقی کی ہے اس کی بنیاد مسلم سائنسی ذہنوں نے ڈالی تھی ۔ یہاں تک کہ وہ اس کریڈٹ کی گواہی دیتے ہیں، جبکہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔
آج جب ہم اس جابرانہ حکمرانی کے بعدد وسری خلافت راشدہ کے طلوع ہونے کا مشاہدہ کر رہے ہیں ، ہمیں بے مثال قوت اور اعتماد کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کرنی چاہیے کہ خلافت کا قیام دنیا کے کھوئے ہوئے حواس کو بحال کردے گا ۔ انصاف کا ترازو پھر کھڑا ہو گا۔ امت اسلامیہ، ایک طویل تقسیم کے بعد، ایک ریاست میں یکجا ہو جائے گی، ایک ریاست کے جھنڈے کے نیچے، ایک واحد خلیفہ کی حکومت ہو گی، جس کے سننے اور ماننے کے لیے بیعت کی گئی ہو گی ، جبکہ وہ شاندار اسلامی شریعت کو نافذ کرے گا۔ خلافت میں ہر چیز عظیم، فراوانی اور بابرکت ہوگی، ان شاء اللہ۔
خلافت مسلم سرزمینوں کو تمام استعماری سیاسی، معاشی، قانون سازی، تہذیبی اور فکری بندھنوں سے آزاد کرائے گی۔ یہ مسلم سرزمینوں کو مغرب کی فکری گندگی کے ساتھ ساتھ اس کے فوجی اڈوں سے پاک کر دے گا۔ ریاست ملک کی دولت کو استعماری کمپنیوں کے استحصال سے نجات دلانے کا کام تیز رفتاری سے کرے گی ، مملکت کے وسائل پر ریاست کی مکمل خودمختاری ہو گی ، اور ان کو عوامی ضروریات پر خرچ کیا جائے گا ۔ خلافت کسی بھی فیصلے میں امت کے مفاد کو سب سے بالاتر رکھے گی، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ پر انحصار کرے گی، اور پھر بیرونی خطرات سے بچنے کے لیے امت کی فوج، سیاست دانوں، اور تاجروں کو حرکت میں لائے گی ۔
اے بھائیو اور بہنو:
آنے والی خلافت کے تحت دنیا جس طرح کی ہوگی وہ بیان سے باہر اور تمام توقعات سے بالاتر ہے۔ تو ایسی ریاست سے آپ کیا امید لگا سکتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی نصر حاصل ہو اور جو اللہ کے وعدے اور اس کے رسول ﷺ کی بشارت کی تکمیل ہو؟ کیا آپ اس سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع رکھتے ہیں کہ یہ نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت ہے؟ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کی تقلید کرنے والے مردوں کی حکومت ہوگی۔ حکمرانوں کے چاروں جانب طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، ابو عبیدہ بن الجراح جیسے لوگوں کی فوج ہو گی ، فوجی کمانڈر خالد بن الولید، الققا بن عمرو، ابی دجانہ، صلاح الدین، قطوز اور ان جیسے دیگر کی تقلید کریں گے۔، اللہ ان سب پر رحم کرے۔یہ وہ ریاست ہو گی جو چاروں راشدین ؓ اور صحابہ کرام ؓ کے راستے پر چلے گی۔ یہ قتادہ، مجاہد، السدی، النخعی، الشعبی، جعفر الصادق، ابو حنیفہ، مالک، الشافعی، ابن حنبل جیسےمتقی علمائے کرام پیدا کرے گی یہ وہ ریاست ہو گی جس میں سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی، غنیمتیں تقسیم ہوں گی، راستے محفوظ ہوں گے اور عزتوں کی حفاظت ہوگی ۔یہ ایک ایسی ریاست ہو گی جس کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کیا جائے گا۔ اس سے امت کے وقار کی حفاظت ہوگی ۔ یہ ایک ایسی ریاست ہو گی جو حقیقی نشاۃ ثانیہ، سائنس، افکار اور اچھےطرز عمل میں ترقی کرے گی ۔ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہمیشہ بلندیوں سے بلندیوں تک جانے کی کوشش کرے گی۔ یہ وہ ریاست ہو گی جو اعلیٰ ترین شرعی اور انجینئرنگ معیارات کے مطابق عمارتیں تعمیر کرے گی۔یہ ہمیشہ آفات اور وبائی امراض کا سامنا کرنےکے لیے تیار ہوگی، یہاں تک کہ دوسری قوموں کی مدد کرے گی جب وہ اس طرح کے خطرات سے دوچار ہوں گے ۔ روایت ہے کہ معاہدہ حدیبیہ کے زمانے میں رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش ایک وباء میں مبتلا ہو گئے ہیں تو آپ ﷺ نے مکہ میں اس وقت کے مشرکین کے سردار ابو سفیان کے پاس پانچ سو سونے کےدینار بھیجے کہ اس سے گندم خرید کر قریش کے غریبوں میں تقسیم کرے۔یہ وہ ریاست ہو گی جو دشمن کو دہشت زدہ کرنے اور دنیا میں اسلام کے پھیلاؤ کی راہ میں حائل مادی رکاوٹوں کو توڑنے کے لیے اپنی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کے مطابق جنگی سازوسامان اور عسکری طاقت کو حاصل کرے گی۔ پس، اس کی افواج کے چلنے سے قبل دشمن خوفزدہ ہوجائیں گے اور کامیابی قدم چومے گی ۔یہ وہ ریاست ہو گی جو لوگوں کو جنت کی طرف لے جائے گی۔ یہ ان کو جہنم سے جتنا ہو سکتا ہے دور لے جائے گی۔ یہ لوگوں کا مال نا حق جمع کرنے والی ریات نہیں ہو گہ بلکہ ان کی نگہبانی کرنے والی ریاست ہو گی ، ایسی ریاست جس میں امیر المومنین اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں ناکامی پر روتا ہے ۔ وہ اپنے اور لوگوں کے درمیان معاہدوں کو لکھے گا ، اور اللہ نے جو ذمہ داری اس پر عائد کی ہے اسے پورا کرے گا ، اور یہ کہے گا کہ ان دستاویزات کو اس کی قبر میں بطور گواہ رکھا جائے۔یہ وہ ریاست ہو گی جس میں جہاد کا امیر ان میدانوں سے مٹی اکٹھا کرے گا جن میں وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے لڑا تھا، اور اسے زمزم کے پانی میں ملا کر ایک چھوٹی اینٹ بنا کر اس کی موت کے بعد اس کی قبر میں اس کے سر کے نیچے رکھنے کی وصیت کرے گا، کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کیے گئےجہاد کی خاک جہنم کے دھوئیں سے نہیں ملتی۔ یہ وہ ریاست ہو گی جس میں ایک مجاہد ت یہ کہے گا کہ اس کی تلوار،جس نے اس نے کفار کو قتل کیا، اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر میں اس کے ساتھ دفن کر دی جائے تاکہ وہ اللہ کی راہ میں اس کے جہاد کی گواہی دے ۔
اے بھائیو اور بہنو: اے مسلمانو:
آخری بات، خلافت آپ کو مسجد الاقصی تک کسی کی اجازت کے بغیر سفر کرنے کے قابل بنائے گی، یہ وہ چیز ہے جو آج آپ کے حکمرانوں میں سے کوئی بھی کرنے کی ہمت نہیں کرتا اور نہ ہی تم سے وعدہ کرتا ہے۔
چنانچہ اس وقت تک کے لیے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جب تک ہم مسجد اقصیٰ کے صحن میں جمع نہ ہوں۔