بسم الله الرحمن الرحيم
شام میں نظامِ حکمرانی ربِّ العالمین کے حکم اور
سازشی قوتوں کی چالوں کے درمیان معلق ہے
) ترجمہ(
تحریر : الأستاذ ناصر شيخ عبد الحي
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے شام کے عوام کو مجرم اسد کی حکومت کا تختہ الٹ دینے کی توفیق ملنے کے بعد امریکہ کی سربراہی میں دنیا کی بڑی طاقتیں اب تیزی سے ان کے خلاف سازشیں کرنے میں لگی ہوئی ہیں تاکہ شام ان کے کنٹرول سے باہر نہ نکل جائے اور بشار الاسد کی حکومت کا ایک تسلسل ہی برقرار رہے۔
یعنی شام اسی طرح ایک تابع فرمان اور ایجنٹ ریاست بن کر رہے، جو یہودی وجود کی سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہو۔ لہٰذا ان ممالک نے بشار الاسد کےہٹائے جانے کے بعد، شام کے لئے شرائط و ضوابط طے کرنا شروع کر دئیے اور متفقہ طور پر اسلام کے خلاف جنگ کو اپنی اولین ترجیح بنا لیا۔
چنانچہ ان عالمی طاقتوں نے، جن کے وفود مسلسل دمشق کی طرف دوڑے جا رہے ہیں، شام پر سے پابندیاں ہٹانے کے معاملے کو شام کی موجودہ حکومت کے مغربی دباؤ کے آگے جھکنے اور شام میں نظامِ حکمرانی کے حوالے سے مغرب کی خواہشات کے مطابق چلنے سے مشروط کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور اس مہم کو سیکولر میڈیا کی مکمل حمایت حاصل ہے، جو مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ شام کا مستقبل ایک جمہوری، سول اور سیکولر ریاست کے طور پر ہوگا، جہاں اسلام کو حکومت، ریاست اور معاشرے سے خارج کر دیا گیا ہو، اور ایسی حکومت تشکیل دینے کی بات کی جا رہی ہے جو کسی بھی اورفریق کوساتھ لے کر چلے گی، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
مزید برآں، یہ ممالک جھوٹ اور بہتان کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ یہی عوام کے مطالبات ہیں۔ حالانکہ ہمارے یہ بہادر لوگ، جو تیرہ سالوں تک قتل و غارت گری اور تباہی کی مشینری کے سامنے ثابت قدم ڈٹے رہے، جنہوں نے اپنا خون، اپنے اعضاء اور بے شمار قربانیاں پیش کیں، وہ شام کا مستقبل صرف اسلام میں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکمرانی میں دیکھتے ہیں۔ اسی عظیم مقصد کے لئے، ہمارے اہلِ شام نے تقریباً 20 لاکھ شہداء کی قربانی دی، اور وہ صبر و استقامت کے ساتھ اللہ کی رضا کے طلبگار رہے۔
لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ اسلام کے نظامِ حکمرانی کو واضح طور پر بیان کیا جائے، تاکہ یہ معاملہ محض ایک نعرے سے آگے بڑھ کر مسلمانوں کے اذہان میں ایک واضح حقیقت اور ان کے افکار میں ایک منظم تصور بن جائے، جس کے قیام اور نفاذ کے لئے وہ اپنی پوری کوشش صرف کر دیں۔ اسی بنیاد پر، ہم کہتے ہیں:
1- اسلام میں حکمرانی کا نظام خلافت ہے:
شرعی احکام کے مطابق، خلافت، مسلمانوں کی عمومی قیادت ہوتی ہے، جس کا مقصد اللہ کے احکام کو نافذ کرنا اور اسلام کی دعوت کو پوری دنیا تک پہنچانا ہے۔ خلافت کو امامت بھی کہا جاتا ہے، اور یہی وہ نظامِ حکومت ہے جس کے مطابق اسلامی ریاست کی تشکیل کے احکامات آئے ہیں۔ یہ وہی نظام ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں قائم کیا اور جس پر صحابۂ کرامؓ نے آپ ﷺ کے بعد عمل کیا۔ اس نظام کی تائید قرآن و سنت کے دلائل سے ہوتی ہے اور صحابۂ کرامؓ کا اس پر اجماع ہے کہ یہی مسلمانوں کا واحد شرعی نظامِ حکومت ہے۔
2- اسلام میں نظامِ حکمرانی نہ تو جمہوری ہوتا ہے اور نہ ہی ریپبلکن:
ریپبلکن اور جمہوری نظام انسانوں کا بنایا ہوا نظام ہے، جو بنیادی طور پر دین کو زندگی سے الگ کرنے یعنی سیکولرازم پر قائم ہے، اور جس میں حاکمیت عوام کو دی جاتی ہے۔ اس نظام میں عوام کو حکومت اور قانون سازی کا مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے، چاہے ان کے بنائے گئے قوانین واضح طور پر اسلامی احکام اور شریعت کے اصولوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ لوگوں کو حکمران کو مقررکرنے اور اسے ہٹانے کا حق ہوتا ہے، اور خود ہی دستور و قوانین وضع کرنے کا بھی حق لوگوں کے پاس ہوتاہے۔
اس کے برعکس، اسلام کا نظامِ حکمرانی مکمل طور پر اسلامی عقیدہ اور شریعت کے احکام پر مبنی ہوتا ہے، جہاں حاکمیت (Sovereignty) عوام کے بجائے شریعت کو حاصل ہوتی ہے۔ اس میں نہ تو عوام اور نہ ہی خلیفہ کو قانون سازی کا حق حاصل ہوتا ہے، کیونکہ واحد قانون ساز (Legislator) صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے۔ البتہ، اسلام عوام کو حکمرانی کا اختیار دیتا ہے، جس کے تحت وہ اپنی باہمی مرضی اور رضامندی سے ایک حکمران یعنی خلیفہ کا انتخاب کرتے ہیں، تا کہ وہ اسلام کے مطابق ا ن پر حکمرانی کرے اور عوام اسی بنیاد پر خلیفہ کو بیعت دیتے ہیں کہ وہ اسلام کے احکام نافذ کرے گا۔ جب تک خلیفہ شریعت پر قائم رہے اور اسلامی احکام نافذ کرتا رہے، وہ اپنے منصب پر برقرار رہے گا، چاہے اس کی حکومت کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو جائے۔ لیکن اگر وہ اسلامی احکام نافذ کرنے میں ناکام ہو جائے، تو اس کی حکومت ختم ہو جاتی ہے، چاہے وہ صرف ایک دن یا ایک مہینے کے لئے ہی برسرِ اقتدار رہا ہو، اور اسے معزول کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
اور یوں اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں نظاموں کی بنیاد اور تشکیل میں ہی بہت بڑا تضاد پایا جاتا ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا قطعاً درست نہیں کہ اسلامی نظام جمہوری نظام ہی ہوتا ہے یا یہ کہ اسلام جمہوریت کی تائید کرتا ہے۔
3- اسلام میں نظامِ حکمرانی ملوکیت (Monarchy) نہیں ہے:
اسلام ملوکیت کو نہ تو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اس سے مشابہت رکھتا ہے۔ ملوکیت میں حکمرانی موروثی ہوتی ہے، یعنی اقتدار والد سے بیٹے کو وراثت کی طرح منتقل ہوتا ہے۔ ملوکیت کے نظام میں بادشاہ کو خاص مراعات اور حقوق دیے جاتے ہیں، اور اسے کسی بھی قسم کی جوابدہی سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس، اسلامی نظامِ حکومت میں خلیفہ یا امام کو کوئی خصوصی مراعات یا خاص حقوق حاصل نہیں ہوتے، بلکہ اس کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو امت کے کسی عام فرد کے ہوتے ہیں۔ اسلام کے نظامِ حکومت میں وراثت کی کوئی گنجائش نہیں، اور خلیفہ بادشاہ نہیں ہوتا بلکہ وہ امت کا نمائندہ ہوتا ہے، جو حکمرانی اور اختیار کے معاملے میں ان کی نمائندگی کرتا ہے۔ خلیفہ کو عوام اپنی مرضی اور رضامندی سے بیعت دیتے ہیں، تاکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ احکام شریعت کو نافذ کرے۔ خلیفہ اپنے تمام تر حکومتی امور، فیصلوں، اور امت کے امور کی نگرانی میں مکمل طور پر اسلامی شریعت کا پابند ہوتا ہے۔
4- اسلام میں نظامِ حکمرانی نہ تو استعماریت ہوتا ہے اور نہ ہی سامراجی :
سامراجی نظام اسلام سے یکسر مختلف ہے، کیونکہ یہ اپنے زیر تسلط خطوں میں رہنے والی مختلف اقوام کے درمیان حکمرانی میں مساوی سلوک نہیں کرتا۔ بلکہ اس نظام میں سلطنت کے مرکزی علاقے کو حکمرانی، دولت، اور معیشت کے لحاظ سے خصوصی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس، اسلام کا نظامِ حکمرانی ریاست کے تمام شہریوں کے درمیان مکمل مساوات کو یقینی بناتا ہے۔ اسلام نسلی یا قومی تعصبات کو مسترد کرتا ہے۔ اور ریاست کی شہریت رکھنے والے غیر مسلموں کو وہی حقوق اور ذمہ داریاں دیتا ہےجو مسلمانوں کے لئےہوتی ہیں۔ انہیں عدل و انصاف فراہم کیا جاتا ہے اور وہ مسلمانوں کی طرح یکساں قوانین کے تحت جوابدہ ہوتے ہیں۔
اسی مساوات کی بنا پر، اسلامی نظام، سامراجی حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام میں کسی علاقے کو کالونی نہیں بنا لیا جاتا، اور نہ ہی انہیں صرف مرکزی حکومت کے فائدے کے لئے وسائل فراہم کرنے والے ذرائع سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ، تمام علاقے ایک وحدت سمجھے جاتے ہیں، چاہے ان کے درمیان فاصلے کتنے ہی زیادہ ہوں یا ان کے باشندے مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہر خطے کو ریاست کا لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے، اور وہاں کے لوگوں کو وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو دارالحکومت یا کسی اور علاقے کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں۔مزید برآں، اسلام میں حکمرانی، انتظامیہ، اور قوانین کا نظام تمام علاقوں میں یکساں ہوتا ہے۔
5- اسلام کا نظامِ حکومت وفاقی نہیں ہوتا :
اسلامی نظامِ حکومت ایسا نہیں ہے کہ اس کے مختلف خطے خودمختاری کے ساتھ الگ الگ نظم و نسق چلائیں اور مرکزی حکومت سے محض عمومی طور پر جڑے رہیں۔ بلکہ، اسلام کا نظامِ حکمرانی ایک واحد اکائی پر مبنی ہے، جس میں تمام صوبے ریاست کے لازم و ملزوم حصے سمجھے جاتے ہیں۔ تمام علاقوں کی معیشت اور اموال کو ایک ہی نظام کے تحت شمار کیا جاتا ہے جس کا ایک واحد بجٹ ہوتا ہے، اور یہ بجٹ پوری رعایا کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے۔
اسلامی حکومت ایک مکمل وحدت پر قائم ہوتی ہے، جہاں اعلیٰ حکومتی اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہوتا ہے، جو ریاست کے ہر چھوٹے یا بڑے حصے پر مکمل اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ کسی بھی علاقے کو خودمختاری کی اجازت نہیں دی جاتی تاکہ ریاست کے اجزاء ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوں اور ریاستی وحدت برقرار رہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں نظامِ حکومت خلافت کا نظام ہے۔ اس بات پر اجماع پایا جاتا ہے کہ خلافت اور ریاست ایک ہی ہونی چاہیے اور یہ کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی خلیفہ کی بیعت جائز ہے۔ اس پر تمام ائمہ کرام، مجتہدین اور فقہاء کا اتفاق ہے۔
اور ہم سرزمینِ شام کے ثابت قدم لوگوں، جو عظیم معرکوں اور شجاعت مندوں کی سرزمین ہے، سے کہتے ہیں:
آپ کے بہائے گئے خون اور دی گئی قربانیوں کا حقیقی صلہ صرف وہی حکمرانی ہو سکتی ہے جو اسلام کے مطابق ہو، ایسی ریاست کے تحت جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو راضی کرے۔ یہ صرف خلافت کے قیام سے ممکن ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں کی تمام مشکلات اور مصیبتوں کا خاتمہ ہو گا۔
اور بے شک حزب التحریر نے آپ کے سامنے اسلامی نظامِ حکومت کا ایک واضح تصور پیش کیا ہے، وہی نظام جس کے تحت خلفائے راشدین، یعنی ہمارے سردار ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ نے حکمرانی کی تھی۔ یہی آپ کے شایانِ شان ہے کہ آپ اپنے رب کے حکم کو مضبوطی سے تھام لیں، کیونکہ فتح اور عزت صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔ آپ نے اللہ کی مدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، جس نے آپ کو فتح کے ساتھ دمشق تک پہنچا دیا۔
یہ آپ کے شایانِ شان نہیں کہ آپ کسی بھی ایسے سیکولر نظام کو قبول کر لیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ناراض کرے اور اس کے بندوں کے لئے بدبختی کا سبب بنے، چاہے وہ کتنا ہی دلکش نظر آئے، یا سیاسی طور پر متاثرہ میڈیا اسے کتنی ہی شدت سے فروغ دے اور چاہے اس نظام کو جھوٹے طریقوں سے اسلام سے منسوب کیا گیا ہو، لیکن اس کی حقیقت جمہوریت ہے اور وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے خلاف حکمرانی کرنے کی بات کرتاہے اور وہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللهُ إِلَيْكَ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيراً مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ * أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْماً لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ﴾.
”اور یہ کہ(آپ ﷺ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ کریں،اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے گا۔ او ر ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں، پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ صرف یہی چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب انہیں سزا پہنچائے اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ کیا وہ دورِ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں؟ اور اللہ سے بہترین حکم کس کا ہے ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں“ (المائدۃ؛ 5:49–50)۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اہلِ شام اور تمام اسلامی سرزمینوں میں بسنے والے مسلمانوں کو حق پر ثابت قدم رکھے اور انہیں اسلام کی حکمرانی اور خلافت کی ریاست کے ذریعے عزت عطا فرمائے، وہی خلافت جس کی بشارت رسولِ اکرم ﷺ نے دی تھی کہ وہ جابرانہ حکمرانی کے خاتمے کے بعد واپس لوٹے گی، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
«ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ »
”پھر نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی“
صرف اسی کے ذریعے ہی ہم اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کریں گے اور اپنے القدس کو یہودیوں سے آزاد کرائیں گے۔ صرف اسی خلافت کے ذریعے سے ہی ہم تاریخ کو نئے سرے سے رَقم کریں گے اور حقیقت میں وہی بہترین امت بن کر ابھریں گے جسے اللہ نے انسانیت کی رہنمائی کے لئے بھیجا ہے۔ اور یہ اللہ کے لیے ہرگز مشکل نہیں۔
Latest from
- ٹرمپ کے طرف سے لگائے گئے ٹیرف...
- بے بس انسان سے بھی کمزور شخص وہ ہے، جو کسی ایسے فرض سے بھاگنے کے لیے بے بسی کا ڈھونگ رچائے جس سے وہ ڈرتا ہو،...
- غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟
- اداریہ: مصر اور یہودی وجود کے درمیان تعلقات کی حقیقت
- شام میں نئی حکومت کی تشکیل: ...