بسم الله الرحمن الرحيم
اداریہ: رمضان اور عظمتوں کا حصول
رمضان کا نام آتے ہی ذہن میں فتوحات کے قصے، عظیم قائدین اور حکمرانوں کے نام خودبخود ابھر آتے ہیں۔ عزت و شان کے اوراق اتنی تیزی سے پلٹتے ہیں کہ ان کی گنتی مشکل ہو جاتی ہے۔ مگر یہ شاندار فتوحات آج ہمیں صرف تاریخ کی کتابوں تک محدود نظر آتی ہیں۔ ہم سے نزدیک ترین زمانے کی فتوحات اور ہمارے درمیان ایک طویل زمانے کا افسوسناک فاصلہ ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ ہم میں کیا کمی ہے؟
آج کے بیشتر علما کے پاس اس سوال کا صرف ایک جواب ہے: ہم اللہ سے دور ہو گئے ہیں۔ ہمارے اندر وہ تقویٰ اور ایمان نہیں جو ہمارے اسلاف میں تھا۔ ہم اب فتح کے مستحق نہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ امت کے افراد میں پھیلے بے شمار گناہوں کی فہرست گننے لگتے ہیں۔
کوئی بھی مسلمان، فوج اور فتح میں، ایمان کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا، مگر کیا کسی اور عنصر کا عمل دخل بھی ہے؟
رمضان کی عظمتیں اپنے عظیم قائدین کے ناموں سے جدا نہیں ہیں، مثلاً آپ معرکۂ زلاقہ کے بارے میں قائد یوسف بن تاشفین کی بہادری کا ذکر کیے بغیر بات نہیں کر سکتے، اور اسی طرح رمضان میں عین جالوت کی فتح کے بارے میں آپ کی گفتگو سلطان قطز کی قربانیوں پر تفصیلی بات کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی... اور اسی طرح اور بھی ۔۔۔
جی ہاں، بے شک رمضان ایمان کو جِلا بخشنے والا اور اللہ کی رحمتوں کا مہینہ ہے۔ مگر جب تک امت کے پاس وہ قیادت نہ ہو جس کے گرد فوجیں جمع ہوں، کوئی خلیفہ نہ ہو جو جہاد کا اعلان کرے اور پوری امت کی صلاحیتوں کو اکٹھا کرے، تب تک ہماری امت منتشر اور بے بس رہے گی، اور اس قیادت کی عدم موجودگی میں یہ امت ضرب کھاتی رہے گی چاہے کتنے ہی بہادر کیوں نہ پیدا ہو جائیں، اور چاہے رمضان، امت کے ایمان کو کتنا ہی تابناک کیوں نہ بنا دے۔
اس پر مستزاد یہ کہ کفر کی عالمی طاقتوں کے آلہ کار، طاغوتی حکمران موجود ہیں جو کسی بھی بیداری، کسی بھی یکجہتی، یا کسی بھی تبدیلی کی کوشش کو کچل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری امت میں صرف انفرادی کوششیں اور بکھری ہوئی مزاحمت نظر آتی ہے جو نہ تو کوئی علاقہ آزاد کروا سکتی ہے اور نہ کسی دشمن کو دور کر سکتی ہے۔
لہٰذا، امت پر یہ الزام لگانا کہ گناہوں کی وجہ سے وہ فتح اور آزادی نہیں چاہتی؛ یہ اس بہترین امت کے ساتھ ناانصافی ہے جو پوری انسانیت کے لیے نکالی گئی ہے۔ حکمران کے بغیر سرحدیں کون کھولے گا؟ صفوں کو کون متحد کرے گا؟ جنگ کا اعلان کون کرے گا؟ فتح کے بعد ملک کی باگ ڈور کون سنبھالے گا؟ حیرت ہے کہ یہ لوگ اس بنیادی سوال کو کیسے نظرانداز کر دیتے ہیں!
حکمران ہی امت کے ساتھ مل کر، امت کو فتح سے ہمکنار کرتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے ذلت آمیز یا دشمن پرستانہ فیصلوں سے شکست کو دعوت دیتے ہیں۔ اور شاید آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ جب بھی ہماری امت کو کوئی قیادت میسر آتی ہے—چاہے وہ راہِ راست سے ہٹی ہوئی ہی کیوں نہ ہو— تو مسلمانوں کی صفیں فوراً اس سے جڑ جاتی ہیں، اور اس کے لیے جواز ڈھونڈتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب یہ قیادت یہودیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرتی ہے تو عارضی فتوحات بھی اس کا ساتھ دیتی نظر آتی ہیں۔
ہماری امت آج ایک ایسے رہنما کے لیے ترس رہی ہے جس کے لیے وہ قیمتی ترین قربانیاں دینے کو تیار ہو۔ مگر جب تک ہمارے ملکوں پر مسلط یہ غدار حکمران ہماری امت کے سینے پر سوار ہیں، اور تبدیلی کی ہر سانس کو روکے ہوئے ہیں، تب تک رمضان کے رمضان گزرتے رہیں گے اور ہر سال ہم صرف قتل عام، جانی نقصانات، اور شہیدوں کی لاشوں کو گنتے رہ جائیں گے۔
ان کے رمضان اور ہمارے رمضان میں فرق:
تصویر کو واضح کرنے کے لیے ہم خلافت اور اسلامی حکمرانوں کے دور میں رمضان کے چند عظیم واقعات پیش کریں گے، اور ان کا موازنہ آج کی جبری حکومتوں کے تحت اسی تاریخ کو پیش آنے والے المیوں سے کریں۔ یوں ہمیں اپنی تاریخ اور موجودہ زوال کے درمیان وسیع فرق اور عظیم مصیبت کا اندازہ ہو گا:
1 رمضان 20 ہجری کو صحابیِ رسول حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مصر کو فتح کرتے ہوئے اسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی ریاست کا صوبہ بنا دیا۔
1 رمضان 1425 ہجری (2004 عیسوی) کو یہودیوں نے غزہ کی پٹی میں "یوم الندم" نامی آپریشن کے دوران 110 شہداء کا قتلِ عام کیا، جن میں سے ایک تہائی معصوم بچے تھے۔
5 رمضان المبارک سنہ 666 ہجری میں الظاہر بیبرس ایک بڑے لشکر کے ساتھ امارت انطاکیہ کی طرف روانہ ہوئے جو پچھتر سال سے صلیبیوں کے زیر تسلط تھی۔ انہوں نے اس کا محاصرہ کیا یہاں تک کہ صلیبیوں نے اسی دن ہتھیار ڈال دیے۔ اور 5 رمضان المبارک سنہ 1367 ہجری بمطابق 11 جولائی 1948 عیسوی کو، موشے دیان کی قیادت میں ایک صہیونی کمانڈو یونٹ نے فلسطین کے شہر "لد" میں قتل عام کیا، جہاں شام کے وقت توپ خانے کی شدید گولہ باری کے دوران شہر پر دھاوا بول دیا گیا۔ لوگوں نے دہمش مسجد میں پناہ لی اور اس حملے میں 426 فلسطینی شہید ہوئے۔
15 رمضان المبارک سنہ 138 ہجری بمطابق 756 عیسوی کو قائد عبد الرحمن الداخل نے سمندر پار کر کے اندلس کا رخ کیا۔ اور 15 رمضان المبارک بروز جمعہ فجر کے وقت سنہ 1414 ہجری بمطابق 25 فروری 1994 عیسوی کو، مسلمانوں نے الخلیل شہر میں مسجد ابراہیمی کے قتل عام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا، جس میں یہودی فوج اور کرییات اربع کے آباد کاروں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا اور اسے افسر باروخ گولڈشتاین نے انجام دیا جس کے نتیجے میں فجر کی نماز ادا کرنے والے 90 شہید اور اس تعداد سے تین گنا زیادہ زخمی ہوئے۔
کیا تصویر واضح ہو گئی ہے؟! کیا مصر فتح ہوسکتا تھا اگر عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور فاتح عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور ایک خلافت کا نفاذ موجود نہ ہوتا؟ کیا مسلمان یکم رمضان کو وہ فتح حاصل کر پاتے؟ یا رمضان ان پر ایسے ہی گزر جاتا جیسے ہم پر گزرتا ہے یا اس کے قریب قریب ہی ہوتا؟
کوئی تعجب نہیں کہ مسلمان نے 5 رمضان کو عبدالرحمن الداخل کے ساتھ انطاکیہ میں صلیبیوں پر فتح حاصل کی، لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ فلسطین میں اسی دن "لد" کے مقام پہ قتلِ عام ہوا تو مسلمانوں کا کوئی حامی یا مددگار کیوں نہیں تھا۔
اسی لیے وہ واجب جو آج مسلمانوں کی گردنوں میں طوق کی طرح ہے، اور وہ فتح جس کے بعد روشن واقعات رونما ہوں گے اور باذن اللہ شرمناک شکستوں کا باب بند ہو جائے گا، یہ ہے کہ امت کے بیٹے سخت اور انتھک محنت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تاکہ اپنے وضو کیے ہوئے ہاتھوں کو ان مخلص داعیوں کے ہاتھوں میں دیں جنہوں نے اپنی جانیں ایک ہی بنیادی مقصد کے لیے وقف کر دی ہیں؛ اور وہ ہے ان غلام حکومتوں کا تختہ الٹنا، اور ایک نئے صلاح الدین، ایک نئے غافقی کی بیعت کرنا، اور بیٹھے رہنے یا انتظارکرنے یا تسلیم خم ہونے یا طاغوتوں اور ان کے آقاؤں کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کی ہر دعوت کو مسترد کر دینا۔
امت کے اہلِ قوت اور اس کے فوجی دستوں کے شیروں کو جان لینا چاہیے کہ اگر وہ اپنی امت کو تنہا چھوڑ دیں گے اور اس نیک منصوبے کی بیعت سے گریز کریں گے — جو اللہ کے حکم سے غلامی اور ذلت کے دور کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے گا — تو ان پر اللہ کا غضب نازل ہوگا۔
اے اللہ! ہمیں تقویٰ اور ہدایت کی بیعت عطا فرما، جس کے ذریعے تو ہماری طرف فتح و کامرانی کے رمضان لوٹا دے، اور ذلت کے تاریک سالوں کا خاتمہ کر دے۔ اے رب! ہمارے نوجوانوں کے دلوں نور سے منور فرما، تاکہ وہ گمراہی اور فریب سے بچیں، اور سیدھے راستے اور ہدایت کے راستے پر چلیں۔ اے اللہ! ہمیں ایسے رمضان کے روزوں سے محروم نہ رکھ جس کے چاند کا اعلان امیر المؤمنین کرے، اور خلافتِ راشدہ کے سائے میں اپنی افواج کو واضح فتح کی طرف لے جائے۔ اے اللہ آمین۔ ساری تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں
تحریر: الاستاد احمد الصوفی (ابو نزار الشامی)